ماہ صیام میں دوسروں کے لیے آسانیاں پیدا کریں

پچھلے ہفتے ملتان ایئرپورٹ جانے کا اتفاق ہوا، ایک نیا ماحول ایک الگ دنیا کی طرح محسوس ہوا۔ لیکن جہاں جہاں دل کو خوشی ہوئی وہاں پر موجود کچھ لوگوں کو دوسروں کی مجبوریوں کا فائدہ اٹھاتے دیکھ کر افسوس بھی ہوا۔ ہوا یہ کہ اتنے لمبے سفر کی وجہ سے تھکاوٹ کے ساتھ ساتھ سب کو پیاس بھی لگی ہوئی تھی۔ جس کی وجہ سے سب نے پانی کی بوتلیں اور جوس لینے کے لیے دکانوں کا رخ کیا۔ وہاں پر جا کے پتا چلا کہ یہاں پر موجود دوکاندار اشیاء کی قیمتوں میں ڈبل اضافہ کر کے بیچ رہے ہیں۔ 20 روپے والی چیز 40 میں اور 40 والی چیز 80 روپے میں بیچی جا رہی ہے اور لوگ ان چیزوں کو مجبوراً خرید رہے ہیں۔ پانی کی بوتلوں سے لے کر چپس اور باقی کھانے پینے کی اشیاء سب ہی مہنگے داموں میں مل رہی تھیں۔
یہ صورتحال دیکھ کر سب نے ایک ایک پانی کی بوتل اور جوس پر گزارا کیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ گرمی کی شدت کی وجہ سے جب دوبارہ پیاس لگی تو بڑے کزن نے دیکھا کہ دوکان کے اندر ٹھنڈے پانی کا کولر رکھا ہے۔ وہ گئے اور نہایت احترام سے پوچھا کہ کیا میں ایک گلاس پانی لے سکتا ہوں جس کے جواب میں دوکاندار نے نہایت درشتگی سے پانی لینے سے منع کر دیا جس پر کزن کو غصہ اور حیرت ہوئی۔ انہوں نے دوکاندار سے پوچھاکیا آپ مسلمان ہو جس پر دوکاندار نے چپ سادھ لی اور کزن وہاں سے چل پڑے۔
یہاں اس بات کا ذکر اس لیے کیا جا رہا ہے کیونکہ رمضان المبارک کا بابرکت مہینہ شروع ہو چکا ہے۔ ہر سال کی طرح اس سال بھی مہنگائی اپنے عروج پر ہے اور رمضان المبارک کے بابرکت مہینے میں بھی تاجر حضرات قیمتوں میں کمی کرنے کی بجائے قیمتوں میں مزید اضافہ کر دیتے ہیں۔ جس کی وجہ سے غریب طبقہ کئی چیزیں خرید ہی نہیں پاتا۔غریب طبقہ اشیاء خریدنے کی استطاعت سے محروم ہو جاتا ہے۔ دیکھا جائے تو یورپ اور دیگر ممالک میں رمضان المبارک کے مہینے میں اشیاء کی قیمتوں میں نہ صرف کمی کی جاتی ہے بلکہ مختلف قسم کے پیکجز بھی متعارف کروائے جاتے ہیں۔ جس سے وہاں پر موجود تمام لوگ استفادہ کرتے ہیں اور ہمارا ملک جو کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے نام سے پہچانا جاتا ہے اس بابرکت مہینے میں تاجر حضرات عوام کا جینا حرام کر دیتے ہیں۔
روزہ صرف بھوکے پیاسے رہنے کا نام ہی نہیں بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ ایک دوسرے کے لیے احساس پیدا کیا جائے اپنی خوشیوں میں اردگرد کے لوگوں کو بھی شامل کیا جائے لیکن بدقسمتی سے اس مہینے میں قیمتوں میں ہوشربا اضافے کی وجہ سے لوگوں کی زندگیوں میں مشکلات کا اضافہ کر دیا جاتا ہے جبکہ ہمیں چاہیے کہ سارا سال نا سہی لیکن اس بابرکت مہینے میں لوگوں کی زندگیوں میں آسانیاں پیدا کرنے کا سبب بنیں کیونکہ جو دوسروں کے لیے آسانیاں پیدا کرتا ہے اﷲ پاک اس کے لیے آسانیاں پیدا کرتے ہیں اور جہاں تک ہو سکے اپنے اردگرد کے لوگوں کو بھی اپنی خوشیوں میں شریک کریں۔
اپنے اردگرد نظر ڈالیں کہیں ایسا تو نہیں کہ آپ کے رشتے دار اور ہمسائے اپنی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے مشکلات کا شکار ہوں۔ اگر ایسا ہے تو جہاں تک ممکن ہو ان کی مالی امداد کریں۔ عید کی خریداری کے وقت زیادہ نہیں بس تھوڑی سی خریداری اپنے غریب رشتے دار یا پھر ہمسائے کے لیے بھی کر لیں۔ کیونکہ آپ کی طرف سے کی گئی چھوٹی سی کوشش آپ کے لیے دنیا اور آخرت میں نجات کا ذریعہ بن سکتی ہے۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں