ثنا خوانِ تقدیسِ مغرب کہاں ہیں؟

میں بحیثیت مسلمان اپنے کشمیری ،فلسطینی بھائیوں سے یک جہتی کر سکتا ہوں مگر بحیثیت ملت اگر بات کی جائے تو شاید میں اپنی امت کے لوگوں کا گنہگار ہوں ۔آج کا بھی دن گزر گیا مگر اہل شام کے بعد انبیاء کی سرزمین خون میں لت پت نظر آئی مگر ہم نے کیا کچھ نہیں۔ایک لفظ استعمال نہ کرسکے ہم۔اس مغربی ایجنڈے پر نوازشریف کا ایسے وقت پر ممبئی حملوں کا بیان یقیناً تحفظات کو جنم دیتا ہے مگر کیا یہ مسئلہ انبیاء کی سرزمین سے زیادہ مقدس تھا یا وہ جو امریکہ نے مسلمانوں کے قلب پر چھری چلاتے ہوئے کیا ۔امریکا بہادر نے فلسطین میں اپنے سفارت خانے کا افتتاح کردیا اور امت کے لاچار ،بے حس حکمرانوں نے صرف مذمتی بیان سے جان چھڑالی۔اس وقت غزہ میں شدید جھڑپوں میں ۷۸ سے زائد فلسطینی شہید ہوگئے جبکہ ۲۰۰۰ سے زائد زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں ۔
امریکا کا سفارت خانہ یروشلم منتقل کرنا ایسا ہے جیسے ہم بھارت کو کشمیر پلیٹ میں رکھ دے دیں ایک ممبئی حملہ،نائن الیون تو اقوام متحدہ کی آنکھوں میں آتا ہے مگر نظر جب نہیں آتا جب مسلمان کشمیر ،شام ،عراق ،یمن اور فلسطین میں ظلم کا نشانا بن رہے ہوتے ہیں۔ یہ نام نہاد سیکولر ،لبرل ازم اور فیمنسٹ کہاں ہیں جن کہ پاس روز ایک گھنٹہ اپنی حکومتوں پر تو تنقید کرنے کا ہوتا ہے مگر کشمیر سے شام اور فلسطین کے معاملے پر ان کی زبانیں ان کے الفاظ ختم ہوجاتے ہیں کیوں کہ یہاں مسلمان رہتے ہیں ان کی اکثریت ہے ۔آج کے قتل عام سے قبل اگر کسی کو اس کا اندازہ تھا تو واحد مسلم حکمران طیب اردگان تھا جس نے نہ صرف امریکا کومتنبہ کیا بلکہ فلسطینیوں کے ساتھ کھڑے ہونے کا بھی اعلان کیا ،جس ملک کو پکارتی ہے یہ امت وہ سوئے ہوئے نظر آئے ۔
فلسطین کے معصوم اور مظلوم عوام آج یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ ۵۲ ملکی فوجی اتحاد کیا ہم نے خود آپس میں لڑنے کیلئے بنائی ہے ؟یا صرف شیعہ سنی فسادات کو بھڑکانے کیلئے؟ ۔۔مگر اس بات کو میں کچھ یوں کہوں کہ اپنے تخت و تاج کو بچانے کیلئے ہے تو شاید غلط نہ ہوگا۔اسلامی دنیا کا سب سے بڑا ، اثر و رسوخ رکھنے والا اور امریکا کا صف اول کا اتحادی سعودی عرب سمیت او آئی سی کے کسی ایک فرد کا بیان ایسا نہیں جس نے امریکا کے اس اقدام کی اور اسرائیل بھرپور مذمت اور دندان شکن جواب دیا ہو۔بحیثیتِ قوم ہم کو اب اٹھ کھڑا ہونا ہوگا ورنہ آنے والے دور میں ہماری نسلیں ہم کو بزدل قوموں میں شمار کریں گی ۔
موجودہ دور میں وہی قومیں زندہ رہتی ہیں جو لڑنا بھی جانتی ہیں اور حق کو لینا بھی ۔۔اس بات کو تسلیم کرنے میں کوئی آر نہیں ہے کہ اس وقت مقابلہ ریاستوں کا نہیں ،قوموں کا نہیں بلکہ کافر بمقابلہ مسلمان ہے، جس میں ہم بری طرح ناکام ہورہے ہیں ایک دوسرے پر بھروسہ کرنے کے بجائے کفر کے ساتھ کھڑے ہونے کو ترجیح دے رہے ہیں، یہی ہماری کمزوری ہے جس کا دنیا فائدہ اور ہم نقصان اٹھا رہے ہیں ۔مغرب نے باریاں مختص کی ہوئی ہیں پہلے عراق ،پھر شام ،لبنان ،یمن اور اب فلسطین ۔
ٓہم اپنی تاریخ بھول رہے ہیں ہم اس قوم کے سپوت ہیں جنھوں نے سلطان صلاح الدین ایوبی،محمود غزنوی اور ٹیپو سلطان جیسے لوگ پیدا کیے ۔۱۸۹۷ء میں یہودیوں نے پروٹوکولزمرتب کئے تھے۔ان کا موقف یہ تھا کہ اب تک ہمیں ساری دنیا میں مار پڑتی رہی ہے۔ وہ ہیں تواقلیت میں لیکن پوری نوع انسانی کو غلام بنانا چاہتے ہیں۔ویسے توان کی سب سے زیادہ دشمنی اسلام اورمسلمانوں سے ہے لیکن وہ پوری نوع انسانی سے انتقام لینا چاہتے ہیں۔ رومن جنرل ٹایٹس نے سترھویں صدی عیسوی میں یروشلم پر حملہ کیا تھا اور بیت المقدس کو مسمار کیا اور ان کو دیس نکالا دے دیا تھا۔
ساری دنیا میں وہ اپنی پناہ گاہ تلاش کرتے رہے ہیں اور جہاں گئے ہیں ، انہیں مارپڑتی رہی ہے لیکن بالآخر انہوں نے مل بیٹھ کر یہ سوچا کہ کس طرح پوری نوع انسانی کو حیوان بناکر اور انہیں نکیل ڈال کر اپنا تابع کیا جائے۔اس کے لئے انہوں نے پروٹوکولز طے کئے کہ اب انہوں نے اس انداز سے کام کرنا ہے اور بالآخر پوری دنیا پر اپنی حکومت قائم کرنی ہے۔اسی طرح ان کی دنیا سے انتقام کی آگ سرد ہونی ہے۔
شیطانی کلچر کو پروان چڑھانے کیلئے بے حیائی اور فحاشی کو اس قدر عام کیا جائے کہ انسان انسانیت کی سطح سے گر کر حیوان بن جائے، یہ ان کے پروگراموں میں سر فہرست ہے۔وہ شیطانی منصوبہ جو آج سے 120برس قبل بنا تھا اس میں بالخصوص مسلمانوں کو دین و مذہب سے دور کرکے انہیں کمزور کرنا اور انہیں پوری دنیا میں ذلیل و خوار کرنا ان کا اہم ہدف تھا۔حیرت کی بات یہ ہے کہ عین شیڈول کے مطابق وہ اپنے ہدف یعنی گریٹر اسرائیل کی طرف بڑھ رہے ہیں۔جو منصوبہ انہوں نے بنایا تھا اس پر انہوں نے عمل بھی کیا اور اس میں کامیابیاں بھی حاصل کررہے ہیں۔اس وقت پوری دنیا ان کے شکنجے میں ہے جبکہ عرب مسلسل پسپا ہورہے ہیں۔وہ اسرائیل جسے پورے عالم اسلام بالخصوص عرب دنیا میں ایک ناسور کہا جاتا تھا ، کچھ عرب ممالک باقاعدہ اسے تسلیم بھی کرچکے ہیں۔

حصہ
mm
موسیٰ غنی ایک مقامی روزنامہ کی ویب سائٹ پر سب ایڈیٹر کی حیثیت سے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔اس کے علاوہ مختلف اخبارات میں بھی کالمز لکھتے ہیں۔مطالعے سے خاص دلچسپی اور بلاگ لکھنے کا شوق رکھتے ہیں ۔

جواب چھوڑ دیں