امیدوں کاتسلسل

زرخیززمینوں ،لہلہاتی وادیوں ،آب شارندیوں،شاداب درختوں سے اٹے ہوئے پہاڑوں ،ہمالیہ کے برف پوش گلیشروں ،معتدل آب وہوا،پانچ دریاؤں (سندھ ،جہلم،چناب ،راوی ،ستلج)اورآٹھ لاکھ تین ہزارنوسوچالیس مربع کلومیٹرپرمشتمل رقبہ کے لحاظ سے دنیاکا35واں بڑا ملک وطن عزیزپاکستان ہے۔وہ ملک کہ جس کے باسی پنجابی ، پوٹھوہاری، سرائیکی ، سندھی، پشتو، ہندکو، بلوچی، براہوی، بروشسکی، بلتی، شینا، کشمیری، اردواورگوجری جیسی زبانوں کے حسین امتزاج کے حامل ہیں، ایسا ملک کہ جس کے اضلاع اورقبائلی علاقوں کی تعداد147سے تجاوزکرتی ہے،یہ وطن اسلامی ممالک کامحورومرکزاس لئے ہے کہ یہ پہلاایٹمی اسلامی ملک بنا، ایسی قیمتی زمین کہ جس کے قیمتی پتھروں کے متعلق وفاقی وزارت تجارت کے ادارے یہ اعتراف کریں کہ پاکستان میں جم سٹون کے اربوں ٹن کے ذخائرموجودہیں ، جن میں زمرد، روبی، ٹوپاز، جیڈ اور عقیق وغیرہ شامل ہیں ، ایسے ایسے قیمتی پتھرکہ جن کے لئے امریکا، آسڑیلیا، دبئی، جرمنی، چین، اٹلی، فرانس برطانیہ ، سوئٹزرلینڈاوردوسرے یورپی ممالک ترستے ہیں۔ سرزمین پاکستان کی دبیزتہیں اپنے سینے میں قیمتی وغیرقیمتی دھاتوں کی کثیرتعداد سموئے ہوئے ہیں ۔وہ عزیزملک پاکستان کہ جس کے چٹانی علاقوں میں 10 ہزار 159ٹریلین کیوبک فٹ قدرتی گیس اوردواعشاریہ 3ٹریلین بیرلزتیل کاانکشاف ہوچکاہے ۔اس عظیم ملک کامجموعی رقبہ 12کروڑ85لاکھ 78ہزار3سو8بیکٹرہے ، جس کا7کروڑ96لاکھ 10ہزاربیکٹررقبہ زرعی اراضی اورجنگلات پرمشتمل ہے ، 5کروڑ49لاکھ 60ہزاربیکٹرزرعی اراضی کے لئے موزوں ہے ۔اس دھرتی پرصنعتوں کی ہرکھیپ موجودہے ، کوئی شعبہ ایسانہیں کہ جس میں یہ ملک دیگرممالک سے پیچھے ہو،الغرض اپنے باسیوں کواس ملک نے کیاکچھ نہیں دیا ۔اس کے برعکس اگرہم اپنی جانب نظردوڑائیں توپتاچلتاہے کہ ہم نے اپنے وطن کے ساتھ رتی برابربھی انصاف نہیں کیا،اس ملک کوہم نے اپنے ذاتی مفادات کی بھینٹ چڑھادیا۔
یہ بات حقیقت پرمبنی ہے کہ ’’امیدپہ دنیاقائم ہے ‘‘لیکن امیدیں بھی تووہاں لگائی جاتی ہیں جہاں امیدوں کے برآنے کی کچھ امیدہو۔ہم نے آزادی کے وقت سے ہی بے شمارامیدیں اپنے حکمرنواں سے وابستہ کررکھی ہیں مگریہ امیدیں ہیں کہ بس امیدہی کی جاسکتی ہے ان کے پوراہونے کی ۔اگرہم امیدوں کے اس تسلسل کودیکھیں توتاریخ میں یہ حقیقت منکشف دکھائی دیتی ہے کہ ابتدامیں اس نوزائیدہ مملکت پاکستان کوایک مستحکم حکومت کی ضرورت تھی،اسی لئے قائداعظم محمدعلی جناح سے امیدیں لگائی گئیں ،مگر11ستمبر1948ء کوبانی پاکستان محمدعلی جناح کے انتقال کے بعددھڑادھڑحکومتیں تبدیل ہوناشروع ہوگئیں ۔ 1947ء سے 1958ء تک ملک پاکستان کے سات وزیراعظم آئے اورگئے ،مگرہماری امیدیں دھری کی دھری رہ گئیں ۔
ایسااس لئے ہوتارہاکہ ہماری امیدیں موجودہ وزیراعظم سے پوری نہ ہوتیں اوراس امیدپردوسراوزیراعظم برسراقتدارآجاتاکہ شایدیہ ہماری امیدوں پر پورا اترے مگرہربارہمیں مایوسی کے چہرے کے سوائے کچھ دکھائی نہ دیا۔ایساکوئی بھی حکمران ،شعبہ یاپھرطبقہ نہیں ہے کہ جس سے ہم نے جھوٹی امیدیں نہ باندھ رکھی ہوں ۔کسی حکمران کوووٹ دیتے ہیں تواس امیدپرکہ اب ملک کے حالات بدل جائیں گے ،پاک چین دوستی سے ترقی کے باب کھلیں گے ۔نوازشریف برسرقتدارآئے توملک سے لوڈشیڈنگ ختم کرنے کی امیددلائی گئی ،ملک میں امن وامان قائم کرنے کے سبزباغ دکھائے گئے،میٹروبسیں چلاکرقوم کوملک کے ترقی کرنے کاجھوٹادلاسادیاگیا،جب طاہرالقادری اورعمران خان نے دھرنے دئیے توسب کی امیدوں کامحورومرکزیہی دولوگ تھے مگرامیدیں پھرامیدیں ہی رہیں۔ضرب عضب شروع کیاگیاتوامیدظاہرکی گئی کہ اب ملک میں امن ومان قائم ہوگااورہرکوئی دہشت کی فضاسے آزادہوگامگریہ امیداس وقت ٹوٹی جب اس کاردعمل خودکش دھماکوں کی صورت میں سامنے آیا۔کراچی میں رینجرزآپریشن شروع کیاگیاتوامیدبندھی کہ اب روشنیوں کے شہرمیں امن کی فاختہ کابسیراہوگا اورMQMکی غلط پالیسیوں اوران کے سرغنوں کاخاتمہ ہوگامگریہ امیداس وقت ہواہوگئی جب بڑی بڑی شخصیات کوٹارگٹ کلنگ کانشانہ بنایاگیا۔فوجی عدالتیں قائم ہوئیں تودل میں یہ امیدجاگزیں ہوئی کہ اب ملک سے دہشت گردی کاخاتمہ ہوگامگردہشت گردی نے زندہ دلان لاہورکواپنی لپیٹ میں لیتے ہوئے پورے ملک میں مقدس ہستیوں کی درگاہوں پر نہتے لوگوں کولقمہ اجل بناڈالا۔پانامہ لیکس کیس سامنے آیاتوقوم کوامیدنے تھپکی دی کہ اب ملک سے کرپشن کاخاتمہ ہوگامگرمعاملہ جوں کاتوں رہا۔ سی پیک منصوبے کی نویدنے پھرسے امیدکے پنچھی کوہمارے ملک میں منڈلانے کی اجازت مرحمت فرمائی لیکن ہمارے کچھ کرم فرمااپنوں اوربیگانوں نے اس راہ میں روڑے اٹکانے شروع کردیے ۔ملک میں ہونے والے جابجاخودکش دھماکوں کے ردعمل میں آپریشن ردالفسادشروع کیاگیااورافغانیوں پرتابڑتوڑحملوں نے اس امیدسے بھی قوم کوسرشارکیاکہ اب کوئی بھی ملک میں بدامنی نہیں پھیلاسکے گامگراس کے ردعمل میں کئی فوجی جوان شہیدہوئے اورامیدیں دم توڑنے لگیں۔PSLکی صورت میں امیدنے ناامیدوطن کوپھرسے سہارادیامگربے تحاشا سکینڈلوں نے اس امیدکاچہرہ بھی گہنادیا۔زینب سانحہ کے نتیجے میں مجرم کاپھانسی کی سزاہوئی توامیدہوئی کہ اب ملک میں عزتوں کاتحفظ حاصل ہے مگرعزتوں کی پامالیوں کایہ تسلسل ہنوزجاری ہے۔
نیب نے حدیبیہ کیس پھرسے کھولنے کی درخواست دائرکی توامیدکی کرن دکھائی دی مگرنتیجہ صفر کاصفرہی رہا، ماڈل ٹاؤن سانحہ کے مجرموں کوکیفرکردارتک پہنچانے کے لئے پھرسے کوشش ہوئی توامیدپھرسے بندھی کہ پاکستان کے عوام اپنے خون کاحساب لے سکیں گے۔نوازشریف کونااہل کیاگیاتوامیدوں نے پھرسے ابھرناشروع کیاکہ اب کوئی بھی حکمران کرپشن نہیں کرسکتا،سب کابے باک احتساب ہوگامگرصرف ایک ہی پارٹی کوزدوکوب کیاگیا، باقی سب بری الذمہ قرارپائے، چیف جسٹس صاحب کی موجودہ کوششوں نے پھرسے امیدکوزندہ کیاہے کہ یہ ملک لاوارث نہیں ، دیکھیے یہ امیدبھی قائم رہتی ہے یاپھرامیدوں کاسورج ڈوبنے کوہے ، الیکشن بھی قریب ہے اورامیدظاہرکی جاتی ہے کہ اب ملک کے حالات صحیح رخ اختیارکریں گے ،چلیں دوسروں کی طرح ہم بھی کہہ دیتے ہیں کہ ہم سب امیدسے ہیں ۔یہ سب کچھ ہم صرف امیدوں کے سہارے کرتے چلے آرہے ہیں ،ہم امیدکادامن اس لئے تھامتے ہیں کہ شایدکوئی غیبی معجزہ ظاہرہوجائے اوراس ملک کی قسمت سنورجائے ۔ہم بھی یہی امیدکرسکتے ہیں کہ یہ وطن تاقیامت یونہی امیدوں کے چراغوں سے روشن رہے گاکیونکہ امیدپہ دنیاقائم ہے ۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں