رول ماڈل بنیں

’’  رول ماڈل بنیں‘‘محمد عنصر عثمانی،کراچی مدارس اسلام کے قلعے ہیں اور ان مدارس سے علم حاصل کرنے والے دین کے سپاہی کہلاتے ہیں۔الحمد اللہ امسال بھی تین لاکھ چھپن ہزار چھ سواڑسٹھ طلباء و طالبات نے سند فراغت حاصل کی اور دین حق کے قافلہ میں شامل ہوئے۔یہ وہ مبارک لوگ ہیں کہ جن کو اللہ رب العالمین نے ’’لیتفقہو فی الدین‘‘کی نعمت سے سرفراز فرمایا۔ یہ اس نعمت کا جتنا شکربجا لائیں کم ہے ،کہ اس نعمت کا انتخاب بھی باری تعالیٰ کی ذات سے ہی ہوتا ہے۔اُس کی منشا و مرضی سے کوئی کام ،کوئی چیز مخفی نہیں۔بالکل ایسے ہی جیسے اللہ پاک کسی کو بینائی کی نعمت عطا کریں،وہ کھلی آنکھوں سے دنیا کے نشیب و فرازکو دیکھتا ہے ،دایاں ، بایاں ، کھڈا ، کھالا،الٹا ، سیدھا ،پگڈندی ، راستہ غرض کہ اسے سب کچھ نظر آتا ہے۔اسی طرح جس کو اللہ نے دین کی بصیرت دی ہو،وہ زندگی کے ہر شعبے میں صحیح ،غلط،اچھا ،برُا دیکھ لیتا ہے۔پھرسب سے ارفع وہ لوگ جنہوں نے ’’کتاب الحیات‘‘بخاری شریف کو پڑھا ،وہ کیسے زندگی کے مختلف شعبوں میں جانے کے بعد پریشانیوں کا شکار ہو سکتے ہیں۔؟ ایک عالم دین جب ’’ العلماء ورثۃ الانبیاء‘‘ کا تاج سجا کر معاشرے میں آکر عملی زندگی میں قدم رکھتا ہے۔اس پر اس وراثت کی کچھ ذمہ داریاں عائد ہوجاتی ہیں۔اس لیے کہ اب مدرسہ کی چاردیواری کو پھلانگ کروہ طالب علم سے ’’مولانا ‘‘ یا ’’مولوی ‘‘ بن گیا ہے۔اب سے اُسے ہر قدم پھونک پھونک کر رکھنا ہوگا۔اس کی ذمہ داری ہے کہ جو علم دین و علم شریعہ اس نے پڑھا،قرآن و سنت کے آثار ورموز میں غوروغوض کیا، ان کو ہوبہو اپنے پاس محفوظ رکھے،اور اس علم میں تغیرو تبدل کیے بغیر بعینہ اسی طرح آگے والی نسلوں کو منتقل کرے۔اس انتقال دین کا بہترین راستہ جماعت صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی پاکیزہ ذات گرامی سے ملتا ہے۔انہوں نے جس طرح سے دین کو لیا ،پہلے اپنے اعمال سے،اقوا ل سے ، اور اخلاق سے خود پر کو لاگو کیا ۔پھر تابعین کو سیکھایا ۔اور رہتی دنیا تک پوری انسانیت کے لیے رول ماڈل بن گیے۔ آج تیرھویں صدی ہجری میں دین ہمارے پاس اگر اپنی اصلی حالت میں موجود ہے ،تو وہ جماعت صحابہ کرام کی محنت شاقہ ،شبینہ روز خدمت دین ،اور ان کی انتھک ذمہ داری کی وجہ سے ہے۔انہوں نے اپنے اس فریضے میں کسی قسم کی کوتاہی نہیں برتی۔یہی فریضہ نیے فضلاء کرام کوانجام دینا ہے۔زندگی کے کسی بھی شعبے میں اگر کام کا موقع ملے ،تدریس ہو ،خطابت ہو ،امامت ہو،یا تصنیف و تالیف ہو، ہر میدان ، ہر شعبہ میںدین کو صحیح طور پر اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے امت تک پہنچائیں۔ایک علم دین پھول کی طرح ہوتا ہے۔پھول پودے پے لگا ہو ، توڑ کر جیب میں یا کتاب میں رکھ دیا جایے،یا کہیں چھپا دیا جایے اس کی خوش بو ہر جگہ پھیلی ہوتی ہے ۔اسی طرح عالم بننے کے بعدکسی بھی شعبے میں کام کریں علم و عمل کی خوش بو ہر سو پھوٹتی رہنی چاہئے۔ فی زمانہ معاشرے میں علماء کا جو نقشہ لوگوں کے ذہنوں میں چل رہا ہے، اس کے سد باب کے لیے ابتدا ہی سے کچھ لائحہ عمل طے کرنے ہیں۔دینی تعلیم میں مہارت حاصل کرنے کے بعد ،اب آگے کے مرحلے میں فوکس عصری تعلیم ہونی چایئے۔اس کے لیے خود کو مشکلات کے لیے تیار رکھنا ہے، اور چیلنجز کا سامنا کرتے ہوئے اپنے اساتذہ سے تعلق قائم رکھنا ہے۔دین جو آپ نے اپنے اساتذہ سے سیکھا ،پڑھا اسے اپنی زندگی کا نصب العین و مقصد بنانا ہے۔اور معاشرے میں اپنی قدر ومنزلت کا سکہ رائج کرنا ہے۔اوریہ سب اساتذہ کی مشفقانہ رہنمائی کے بغیر ممکن نہیں ۔ اللہ نے آپ کو دین کا سپاہی بنایا ہے،اور سپاہی کا کام ہوتا ہے کہ وہ ہر موقع کے لیے اپنے آپ کو تیار رکھتا ہے۔اس لیے آپ نے معاشرے میں کسی کے پیچھے ڈنڈا اٹھا کر نہیں پڑ جانا ،بل کہ فرق باطلہ کا جو علم آپ نے حاصل کیا، اس کے ذریعے سے اپنے اندر دین کی فکر کے ساتھ ساتھ گمراہ لوگوں کے سامنے حق وسچ کو واضح کرنا ہے۔انہیں حق و باطل طبقوں کے عقائد بتانے ہیں۔یہ بات ذہن نشین رکھنی بے حد ضروری ہے کہ جس طرح خالی گھر میں اندھیرا ہونے کی وجہ سے سانپ ،بچھو ،اور موزی کیڑے پید اہوجاتے ہیں،اسی طرح لوگوں کے قلوب بھی د ین کی روشنی سے بے بہرہ ہو گئے ہیں۔وہا ں پرآپ نے مثبت انداز سے دین کادیا جلا دینا ہے ،دین کی روشنی پیداہوگی توبے دینی کے موذی جانور خود ہی بھاگ جائیں گے۔ بہت فضلاء کرام زندگی کا ایک طویل سفر مدارس میں حصول دین کی غرض سے گزارنے کے بعد جب عملی میدان میں قدم رکھتے ہیں تو ڈگمگا جاتے ہیں۔حالات کی تند وتیز ہوائیںپڑھے علم سے وفا نہیں کرنے دیتیں ،اوروہ معاشی فکرمیں دنیا کمانے اور دنیا کے دھندوں میںمشغول ہوکر یہ سمجھ لیتے ہیں کہ اب سیکھنے سیکھانے کا سلسلہ ختم ہوگیا ۔نہیں ! آدمی موت تک طالب علم رہتا ہے ۔اس لیے فراغت کے بعد اللہ والوں کی صحبت ،بزرگوں کی خدمت، پڑھے ہوئے علم میں قوت بخش دے گی ۔اور اس میںجو کمی کوتاہی باقی رہ گئی تھی وہ اس سے ختم ہو جائے گی ۔ایک بہت اہم رہنما اصول کہ جس سے عالم دین قرآن و سنت کے احکامات کی عملی شکل بن جائیں گے ،یہ ہے کہ اپنے اندر اچھے اخلاق پید اکریں۔اب آپ زندگی میں مختلف ذہنوں والے ،الگ الگ نظریات کے حامل لوگوں کے بیچ رہیں گے۔آپ  ﷺ کے اخلاق کی پیروی کرتے ہوئے اپنے ذہن میں یہ تصور موجزن رکھیں ،کہ اللہ تعالیٰ نے آپ  ﷺ  کی شان یوں بیان فرمائی :’’اور آپ پیدا کیے گیے ہیں بڑے خلق پر‘‘۔  اپنے گھر والوں سے اچھے برتاؤ اوربہترین رویے سے پیش آئیں ۔صبرو تحمل ،برداشت کے جوہر کو اپنے اندر داخل کریں ۔اور اپنے آپ کو ایک اچھا عالم دین ہونے کاعملی نمونہ بنا کر دنیا کو دیکھائیں ۔اور خود کو معاشرے کے لیے رول ماڈل بنائیں ۔تاکہ لوگوں کو معلوم ہو کہ با اخلاق اور اچھی صفات والے عالم ایسے ہوتے ہیں۔

حصہ
mm
محمد عنصر عثمانی نے کراچی یونیورسٹی سے ایم اے اسلامیات و عربی کیا ہے،وہ مختلف ویب پورٹل کے لیے لکھتے رہتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں