عوام بھی زندہ ہے ؟

ذوالفقار علی بھٹو صاحب کی صدر ایوب خان سے ناراضگی کے بعد انھوں نے 30 نومبر 1967 کو پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھ دی ۔ یہ اس زمانے کی با ت ہے جب بھٹو صاحب واقعی زندہ ہوا کرتے تھے ۔ 7 دسمبر ، 1970 کو ملکی تاریخ کے صاف اور  شفاف انتخابات ہوئے ۔ بھٹو صاحب شیخ مجیب کے مقابلے میں آدھی سے بھی کم سیٹیں جیت سکے ۔ پیپلز پارٹی کل ملا کر 81 سیٹیں حاصل کرسکی  اور یہ تمام کی تمام مغربی پاکستان سے تھیں ۔ وزیر اعظم بننے کی تڑپ اور خواہش نے جبکہ اسٹیبلشمنٹ کی” آشیرباد ” نے ملک کو دو ٹکڑے کروادیا ۔ “ادھر تم ادھر ہم ”  کا نعرہ اور ” جو بھی مشرقی پاکستان گیا اس کی ٹانگیں توڑ دونگا ” جیسی زبان استعمال کر کے حساب بے باق کردیا گیا ۔ بہرحال 70 کے انتخابات میں پیپلز پارٹی نے سندھ سے قومی کی 27 جبکہ صوبائی کی 17 نشستیں حاصل کیں  اور صوبے میں بھی اپنی حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئی ۔ دو سال ملک میں مارشل لاء لگا رہا لیکن اس دوران حکمران بھٹو صاحب ہی تھے ۔1972 میں ممتاز علی بھٹو سندھ کے پہلے وزیر اعلی بن گئے جنکا تعلق پیپلز پارٹی سے تھا ۔ 20 دسمبر 1973 کو بھٹو صاحب نے ممتاز علی بھٹو کو وزارت اعلی سے ہٹا دیا  اور 25 دسمبر کو غلام مصطفی جتوئی  وزیر اعلی سندھ بنادئیے گئے ۔ 1977 تک وزارت اعلی کے فرائض انجام دینے کے بعد بالآخر ملک میں دھاندلی سے بھرپور انتخابات ” کروائے ” گئے ۔ بھٹو صاحب سول کے روپ میں پہلے ” ڈکٹیٹر ” بن کر آئے ۔ 1970 سے 77 تک پیپلز پارٹی صوبے اور وفاق میں بلا شرکت غیرے سیاہ و سفید کی مالک رہی ۔ ضیاء الحق کے جانے کے بعد 1988 میں دوبارہ انتخابات کروائے گئے پیپلز پارٹی نے 207 میں سے 94 سیٹیں حاصل کیں جبکہ صوبے میں بھی اکثریت لانے میں کامیاب ہوگئی  اور  اسطرح 2 دسمبر 1988 کو  قائم علی شاہ صاحب نے پہلی دفعہ وزیر اعلی کا حلف اٹھالیا ۔ 1990 میں دو سال کے وقفے کے بعد دوبارہ انتخابات ہوئے ۔ اس دفعہ وفاق میں پیپلز پارٹی 44 سیٹیں حاصل کرسکی لیکن ایک دفعہ پھر صوبے میں حکومت  بنانے میں کامیاب ہوگئی ۔ 25 فروری 1990 کو آفتاب شعبان میرانی وزیر اعلی بن گئے لیکن یہ مدت 6 اگست کو ہی اختتام پزیر ہوگئی ۔ 1993 کے انتخابات میں پیپلز پارٹی وفاق اور صوبے دونوں میں ایک دفعہ پھر حکومت لانے میں کامیاب ہوگئی ۔ 21 اکتوبر 1993 کو مراد علی شاہ کے والد سید عبداللہ شاہ وزیر اعلی سندھ منتخب ہوگئے ۔ 1996 ، 3 سال تک پیپلز پارٹی صوبے میں حکمران رہی ۔ 8 اکتوبر 1999 کو مشرف نے آئین توڑ کر ملک پر قبضہ کرلیا لیکن 6 اپریل 2008 کو قائم علی شاہ نے دوسری دفعہ وزیر اعلی کا حلف اٹھا لیا ۔ ان کی مدت 5 سال پر مشتمل تھی ۔ ملک کی صدارت اور وزارت اعظمی بھی زرداری صاحب کی ناک کے نیچے تھی ۔پیپلز پارٹی پورے ملک اور صوبے میں بغیر کسی دباؤ اور پریشانی کے حکومت میں رہی ۔ 2013 کے انتخابات کے نتیجے میں قائم علی شاہ سہ بارہ بزرگ ترین وزیر اعلی کی صورت میں سامنے آئے ۔ حتی کے 29 جولائی 2016 کو مراد علی شاہ نے وزیر اعلی کا حلف اٹھا کر سندھ کی عوام کو نئے چہرے کا  ” تحفہ ” دیا ۔ اسوقت  صوبے میں پیپلز پارٹی کے صوبائی اسمبلی کے ارکان کی تعداد 168 میں سے 104 ، وفاق میں 342 میں سے 46 جبکہ سینٹ میں آپ دلچسپ امر ملاحظہ کریں کہ چئیرمین سینٹ  اور  ڈپٹی چئیرمین سینٹ سمیت  اپوزیشن لیڈر تک کا تعلق بھی زرداری صاحب کے قبیل سے ہے ۔ اور ان تمام کی اکثریت کا تعلق بھی سندھ سے ہے ۔ عوام کی مٹی پلید ہونے اور ذلت آمیز سلوک کے باوجود مجھے عوام کی بے حسی پر پورا یقین ہے کہ ایک دفعہ پھر پیپلز پارٹی بہت آسانی کے ساتھ اپنا وزیر اعلی لے آئے گی ۔ پیپلز پارٹی 21 سال تک بلاواسطہ ور 27 سال تک  بالواسطہ سندھ کی بے تاج بادشاہ رہی ہے ۔

لیکن آپ کمال ملاحظہ کریں ۔ ہمارا ملک دنیا کا وہ دلچسپ ترین ملک ہے کہ  جہاں کے وزیر اعظم سے لے کر  مئیر تک سب کے سب بے اختیار ہیں ۔ جہاں 45 سال تک حکومتوں کے مزے لوٹنے کے باوجود بے اختیار ہیں ۔ جہاں لوگ پانچ پانچ الیکشن جیتنے کے باوجود بے اختیار ہیں ۔ اور جہاں سات دفعہ وزیر اعلی ہونے کے باجود حکمران بے اختیار ہیں ۔

آپ کراچی سے شروع کریں اور کشمور تک چلے جائیں ۔ آپ رحیم یار خان سے پہلے تک اسلامی جمہوریہ پاکستان کی حالت زار کو دیکھیں ۔ آپ کو اندازہ ہوجائیگا کہ اتنا سا صوبہ بھی ہمارے 17 وزراء پر مشتمل فوج ظفر موج سے نہیں سنبھالا جاتا ہے ۔ لاڑکانہ کی تعمیر و ترقی کے لئیے 90 ارب روپے سندھ حکومت کے حوالے کئیے گئے ۔ اگر آپ کو 90 روپے کا کام بھی لاڑکانہ میں نظر آجائے تو آپ وہ 90 روپے مجھ سے آکر لے لیں ۔آپ  ذرا ہماری حکومتوں کی ترجیحات کا اندازہ کریں ۔  تھر میں 200 سے 250 بچے ہر سال پانی ، قحط ، دواؤں اور ضروریات زندگی کی عدم موجودگی کی وجہ سے مرجاتے ہیں  اور وزیر اعلی میڈیا پر آکر فرماتے ہیں ” یہ معمول کی بات ہے ۔ یہ ہر سال وہاں ہوتا ہے ۔اس دفعہ آپ نے اس کو زیادہ ہی اچھال دیا ہے “۔ واہ شاہ صاحب واہ۔

تھر میں ائیرپورٹ کا سنگ بنیاد رکھا جارہا ہے  لیکن عوام کا قبرستان پہلے سے ہی تیار ہے اور میں اس عظیم الشان قبرستان پر حکومت کو مبارکباد پیش کرتا ہوں ۔ آپ روہڑی اسٹیشن پر رکیں ۔ وہاں  پینے کے لئیے موجود پانی کے نلکے سے پانی بھریں آپ کو  دیکھ کر متلی شروع ہوجائیگی ۔کراچی سمیت اندرون سند ھ کی عوام جو بچا کچا پانی پینے پر مجبور ہے ۔وہ جانوروں تک کے لئیے موت کا پیغام ہے ۔ڈھائی کروڑ آبادی والے شہر میں دو سے تین قابل ذکر اسپتال موجود ہیں ۔کبھی ان کی حالتیں جا کر دیکھیں اور وہاں موجود کتے بلیوں کی طرح تڑپتے انسانوں کا حال بھی ساتھ ہی دیکھ لیں ۔ان 45 سالوں میں پینے کا صاف پانی ، تعلیم کے لئیے کوئی ایک قابل ذکر اسکول ، کالج یا یونیورسٹی  اور علاج کے لئیے کوئی ایک ڈھنگ کا اسپتال سندھ حکومت نہیں بنا سکی ہے ۔

آپ اس کو بھی رہنے دیں ۔ دنیا کے ساتویں اور عالم اسلام کے سب سے بڑے شہر سے کچرا تک اٹھانے کے لئیے حکومت کے پاس اتنے خاکروب بھی موجود نہیں ہیں جتنے ہر گلی ، چوک ، چوراہے اور نکڑ پر کتے موجود ہیں ۔ آپ اندرون سندھ کی سیر کر کے آئیں ۔آپ کو آج سے 4500 سال قبل کی موئن جو دڑو کی آبادی پر رشک آنا شروع ہوجائیگا ۔ کراچی کی سڑکوں اور پلوں کے دونوں اطراف ریت اور مٹی کے ڈھیر کے ڈھیر جمع ہوچکے ہیں ۔ اگر آپ کی موٹر سائیکل سڑک یا پل کے کنارے پر آجائے تو مٹی کے ڈھیر کی وجہ سے بائیک کا بیلنس تک برقرا رکھنا مشکل ہوجاتا ہے ۔ لیکن وفاق ، صوبہ اور شہر کا مئیر  آج 72 سال بعد بھی یہ طے نہیں کرسکے ہیں کہ یہ مٹی اٹھوانا تینوں میں سے کس کا کام ہے ؟

کبھی آپ گاڑیوں اور کرائے کے ٹرکوں میں کچرا جاتا ہی دیکھ لیں ۔اگر آپ نے ہیلمٹ نہیں پہنا ہوا اور آپ اس ٹرک کے پیچھے ہیں تو پھر کسی تھیلی کا آکر آپ کے منہ پر  چپکنا ضرور بنتا ہے ۔ اس کچرے کو ڈھکنا کس کی ذمہ داری ہے یہ اٹھارویں ترمیم میں بھی واضح نہیں ہے ۔ سندھ کی تمام یونیورسٹیز کے چانسلر اب وزیر اعلی ہونگے لیکن 25 ہزار طلبہ و طالبات پر مشتمل کراچی یونیورسٹی کے لئیے محض 25 پوائنٹس وہ بھی قائداعظم کے زمانے کے جو انشاء اللہ قیامت تک اسی طرح چلتے رہینگے ۔ ان میں اضافہ کرنا  اور ان کو بہتر کرنا اس کی ذمہ داری ہرگز وزیر اعلی کی نہیں ہے ۔کراچی اور صوبے کی عوام کے لئیے کوئی نئی ٹرانسپورٹ سروس تو کیا چلتی بے چارہ انگریز جو ٹرام اور سرکلر ریلوے بنا کر گیا تھا اس کو بھی بند کردیا گیا ۔

پانی آئے ، نہ آئے ، صاف آئے ، گندا آئے یا عوام پانی میں ڈوب کر مرجائے ۔ اس سے کسی متخب نمائندے کا کوئی تعلق نہیں ہے ۔آپ کسی ایک ادارے یا کسی ایک عمارت  کے بارے میں ثابت کردیں کہ یہ سندھ حکومت کی کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ میں بھٹو صاحب کے زندہ ہونے کا قائل ہوجاونگا ۔ لیکن میرے قائل ہونے یا نہ ہونے سے بھلا کیا فرق پڑنا ہے ۔ جب تک عوام زندہ نہیں ہوتی ہے اسوقت تک زندہ رہنا صرف “بھٹو  “کا ہی حق ہے ۔

حصہ
mm
جہانزیب راضی تعلیم کے شعبے سے وابستہ ہیں،تعلیمی نظام کے نقائص پران کی گہری نظر ہے۔لکھنے کے فن سے خوب واقف ہیں۔مختلف اخبارات و جرائد اور ویب پورٹل کے لیے لکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں