ڈرامہ اور پاکستانی ووٹرز

ہماری ناقص سمجھ کے مطابق کسی خاص مقصد کواداکاری یا صداکاری کے ذریعہ لوگوں تک پہنچانے یا سمجھانے کو ڈرامہ کہتے ہیں، عام فہم میں اکثر سنا گیا ہے کہ یہ کیا ڈرامے بازی لگا رکھی ہے۔ بہت ساری معاشرتی اصلاحات کی طرح ڈرامہ بھی یونانیوں نے ہی شروع کیا ہے۔ کچھ عمومی تبدیلیوں سے ڈرامہ ہی ناٹک یا تھیٹر بن جاتا ہے، یہ تینوں ہی براہ راست ہوا کرتے تھے مگر اب سب کچھ کیمرے کی آنکھ محفوظ کرتی ہے اور پھر ناظرین کی نذر کیا جاتا ہے جس کی وجہ بہتر سے بہتر پیش کرنا ہے۔ یونانی اپنے خداؤں کے پیغامات کو عوام کے ذہن و دل میں منتقل کرنے کیلئے ڈرامے کا سہارا لیا کرتے تھے اور یہی ڈرامے کی ابتدائی شکل تھی۔ ڈرامہ دراصل مختلف ذہنوں کے تخیلات کا مجموعہ ہوتا ہے ، کوئی بھی ڈرامہ کسی ایک فرد کی کوشش اور محنت سے اس انجام تک نہیں پہنچ سکتا جس کا وہ مستحق ہوتا ہے یہ بھی ممکن ہے کہ تمام کام ایک فرد کے ذہن میں نمو پائیں اور وہ انہیں تنہا ہی پیش کرنے کھڑا ہوجائے لیکن پھر بھی اکیلا وہ ڈرامہ کر کے عوام کی توجہ اپنی جانب مبذول نہیں کرواسکتا۔ کسی بھی قسم کی میڈیا کی عدم دستیابی کے باعث معاشرے کو درپیش ظاہری اور پوشیدہ مسائل کا چرچا براہ راست کیا جاتا تھا اورباقاعدہ ڈرامے میں مباحثہ بھی ہوتا تھا ، یقیناًاس سے بہتر اس وقت کوئی اور طریقہ نہیں ہوسکتا تھا ۔ ڈرامہ دراصل معاشرے کو ان عوامل سے اجتماعی سطح پر آگاہی فراہم کرتاہے جو یاتو معاشرے میں سرائیت کر چکے ہوتے ہیں یا پھر کرنے والے ہوتے ہیں۔ معاشرے تہذیب و تمدن کے لحاظ سے پرورش پاتے ہیں اور ترقی اور تنزلی معاشرے پر بہت حد تک اثر انداز ہوتی رہی ہے ۔
تفریح کے محدود ذرائع کے باعث وقت کے ساتھ ساتھ ڈرامہ عوامی سطح پر خوب پھلتا اور پھولتا چلا گیا۔ لکھنے والے اپنی سوچ اور سمجھ دوسروں میں منتقل کرنے لگے ، اداکاری کا شوق رکھنے والے اپنا شوق پورا کرتے چلے گئے ، اس طرح سے اور بہت سارے لوگ کسی ڈرامے کاایک حصہ ہونے کے باعث اپنی اپنی روحانی تشفی کرتے چلے گئے، تاریخ کے اوراق میں جھانکتے ہیں تو جس طرح کی تصاویر دیکھائی دیتی ہیں انہیں محسوس کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ لوگ کتنے منظم طریقے سے بیٹھتے تھے اور ان اداکاروں کا کتنا احترام کرتے تھے جو ڈرامہ ان کے روبرو پیش کر رہے ہوتے تھے اور ان اداکاروں کی بھرپور حوصلہ افزائی بھی کیا کرتے تھے۔ لوگوں تک بہت بہترین طریقے سے پیغام پہنچادیا جاتا تھا اور لوگ اس پیغام کو لے کر اپنی اپنی راہ لیتے تھے۔ ان ڈراموں کی افادیت اور شہرت کو مد نظر رکھا جاتا تھا اور ان ڈراموں کو پیش کرنے کیلئے باقاعدہ خوبصورت تھیٹر بنائے گئے ، اشاروں سے ابتداء پانے والے یہ ڈرامے ، اپنی ارتقاء کے عمل سے گزرتے ہوئے کہاں سے کہاں پہنچ چکے ہیں۔
وقت بدلتا چلا گیا معاشرے تقسیم در تقسیم ہوتے چلے گئے ترقی کو پر لگ گئے اور پذیرائی کے عمل کہ بغیر ہی ڈرامے چلتے چلے جا رہے ہیں لیکن اس بات سے قطعی اختلاف نہیں کیا جاسکتا کہ یہ معاشرے کی اچھائیوں اور برائیوں کو بھرپور طریقوں سے آشکارا کر رہے ہیں جن پر عام طور پر بات کرنا ناممکن سمجھا جاتا ہے۔
ڈرامہ تحریر ہونے کے بعد کرداروں کا محتاج ہوتا ہے ، کرداروں کے مل جانے پر ڈرامہ کرداروں پر سوار کرنا پڑتا ہے لادا نہیں جاسکتا ورنہ دیکھنے والے کسی اثر اور تاثر لئے بغیر ہی لوٹ جائینگے ۔ معاشروں نے اپنے اپنے مزاج کی عکاسی اور ترویج کیلئے اسٹیج، تھیٹر، ڈراموں اور پھر فلموں کو بطور موثر ہتھیار استعمال کیا اور کرتے چلے آرہے ہیں۔ اس طرح سے دنیا کی مختلف تہذیبوں نے ایک دوسرے کو سمجھا ۔انگریزی زبان کے مشہور ڈرامہ نویس شیکسپئر کے نام سے انگریزی زبان جاننے والوں کے علاوہ دیگر زبانیں جاننے والے بھی شیکسپئر کے ڈراموں کے دلدادہ ہیں۔ یقیناًہر زبان میں ہی آغا حشر اور شیکسپئر رہے ہونگے اور آج بھی ہونگے۔
پاکستان کے وجود میں آنے کہ بعد ہماری خوبصورت اور سحر انگیز چیزوں کی فہرست میں ڈرامے تقریباً سرفہرست تھے جس کے دلدادہ ہمارے پڑوسی ملک والے ابھی تک ہیں اور آج بھی اس کی تعریف کرتے نہیں چوکتے۔ یہ ڈرامے کہانی نویس سے لیکر کرداروں تک ہر ایک کی بہترین کاوشوں اور محنت کا نتیجہ ہوا کرتے تھے۔ڈرامے لکھنے والے کیا خوب لکھا کرتے تھے ، ان لکھے ہوئے کرداروں کو فنکار جیسے اوڑھا نہیں بلکہ ڈرامے کی تکمیل تک کیلئے اپنی روح کی جگہ اس لکھے گئے کردار کو اپنے جسم میں اتارلیتے تھے، آج بھی ان ڈراموں کو دیکھوتو آنکھیں نم ہوجاتی ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ جیسے سب کچھ ہمارے اپنے گھر میں ہی یہ سب ہورہا ہے ۔ایسا لگتا ہے کہ جیسے ڈراموں کے بغیر ہمارے معاشرے آگے نہیں بڑھ سکتے اور نا ہی ہمارے معاشرے اپنی ترتیب طے کر سکتے ہیں۔
پاکستان میں آج بھی کسی حد تک اقدار کی پاسداری کرتے ڈرامے نشر کئے جا رہے ہیں جہاں ادب ، لحاظ اور شرم ابھی باقی ہے ، لیکن کیا کیجئے کہ نسل نو مغرب سے اتنی مانوس ہوتی چلی جا رہی ہے کہ ان کی بے حیائی اور بے نوائی کو اپنے سر پر سوار کر لیا ہے ، اب ان معاملات کا تذکرہ بھی ڈراموں کے ذریعہ کر کے نسلوں کے درمیان ہمیشہ رہنے والے فاصلے کو پاٹنے کی کوشش کی جارہی ہے جو کہ کسی حد تک تو ناقابل برداشت ہے ۔ ڈراموں کی نوعیت دیکھ کر میڈیا ہاؤسسز کو چاہئے کہ وہ ڈرامہ پیش کرنے سے پیشتر عمر کا تعین کر لیں، تاکہ والدین اور گھر کے دیگر بڑوں کو اس بات کا اندازہ ہوجائے گے ان کو کیا کچھ دیکھنے کو مل سکتا ہے ۔ ان عوامل کا سد باب بھی ہمیں ہی کرنا ہے جو ہمارے معاشرے میں بے راہ روی کی ترویج پر گامزن ہے ۔ ادب بھی اب کمرشلائز ہوتا جا رہا ہے ، لکھنے والے اپنے خاندان کی افزائش اور نمود و نمائش کی خاطر اپنے احساسات و جذبات میں ترمیم کرلیتے ہیں۔ اگر آج منٹو اور عصمت چغتائی زندہ ہوتے تو انہیں قطعی اس بات کا طعنہ سننے کو نہیں ملتا کہ لحاف اور کالی شلوار جیسی تحریریں کیوں لکھی ہیں۔ اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ ایک دوسرے پر سبقت لیجانے کی کوشش میں ہم کہیں وہ چیزیں معاشرے کے حوالے نہ کردیں جس کا یہ معاشرہ محتمل نہیں ہوسکتایا ہم اپنے گھر میں ان چیزوں کو برداشت نہیں کرسکتے۔
آج کل پاکستانی میڈیا ہاؤسز ایک سے بڑھ کر ایک ڈرامے پیش کر رہے ہیں جو مکمل طور پر معاشرے کی عکاسی کررہے ہیں اور معاشرے کی رہنمائی کر رہے ہیں۔ قابل ذکر میڈیا ہاؤسز میں اے آر وائی نیٹ ورک، ہم نیٹ ورک، جیونیٹ ورک، ٹی وی ون اور دیگر نمایاں کردار ادا کرر ہے ہیں۔ اس بات کا تذکرہ کئے بغیر اس مضمون کو مکمل نہیں کیا جاسکتا کہ آج ڈرامے کا صحیح حق ہم نیٹ ورک والے ادا کررہے ہیں۔ ان کے پاس کہانی لکھنے والے اور ان کی لکھی ہوئی کہانی کو اسی طرح سے سمجھ کر عوام تک پہنچانے والے بہترین لوگوں کی ٹیم ہے جن کا ہر ایک ڈرامہ کہانی سے لیکر لوکیشن تک کا بھرپور خیال رکھا جاتا ہے اور جسے کہتے ہیں کہ کہانی کی روح کو بھانپ لینے کی صلاحیتوں سے بھرپور ہیں ، یہاں بے نام کرداروں کو نام مل رہے ہیں اور لوگ آگے بڑھ رہے ہیں، ہم نیٹ ورک نے ہم لفظ کی بلکل صحیح ترجمانی کی ہے ۔ ہم بطور ادب سے تعلق رکھنے والے ہم نیٹ ورک کے شکر گزار ہیں کہ وہ اس بات خاطر میں رکھے بغیر کہ ان کی پیشکش ان کے لئے کیا لیکر آئے گی وہ پیش کرتے چلے جا رہے ہیں ایک سے بڑھ کر ایک ڈرامہ ہم نیٹ ورک پر دستیاب ہوتا ہی چلا جا رہا ہے۔ یوں تو ہمارے پڑوسی بھی ڈرامہ سازی کے ماہر ہیں مگر ان کے ڈرامے تو کسی اور دنیا کے ڈرامے لگتے ہیں، گوکہ ہمارے معاشرے کی اکثریت انہیں کے ڈراموں سے فیضیاب ہوکر اپنے گھروں کو برباد کرنے کے ہنر سیکھ رہے ہیں۔
قارئین کو یہ سوچ آنی چاہئے کہ عنوان کا اس مضمون سے کیا تعلق ہے جنہوں نے مطابقت پیدا کرلی وہ آگے نا پڑھیں لیکن وہ ضرور پڑھیں جو موضوع اور مضمون میں باہمی ربط پیدا نہیں کرسکے ہیں۔ ہم پاکستانی ڈراموں کو بہت شوق سے دیکھتے ہیں اور اپنی عملی زندگیوں میں ان ڈراموں کو محسوس بھی کرتے ہیں اور ان کی مدد سے جو کچھ سیکھتے ہیں ان پر عمل درآمد کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ اسٹیج سجنے کا دور شروع ہونے والا ہے یعنی انتخابات ہونے والے ہیں اب ہر روز کئی کئی اسٹیج لگیں گے اور ہمارے سیاسی اداکار (بقول شیکسپئر کے دنیا ایک اسٹیج ہے اور ہم سب اداکار ہیں) اپنے اپنے فن کے جوہر دیکھائینگے اور ایسے ایسے سہانے خواب دیکھائینگے ایسے ایسے وعدے لینگے اور کرینگے کہ کیا کہا جائے۔ عوام ان اسٹیجوں پر کھڑے لوگوں کو سنے گی تالیاں بجائے گی اور اپنے گھر جا کر بغیر کسی سے کچھ کہے سو جائے گی۔ اس قوم پر براہ راست ہونے والے ڈرامے اپنا تاثر نہیں چھوڑتے یہ خاموشی سے بندکمروں میں بیٹھ کر دیکھے جانے والوں ڈراموں کو کہیں زیادہ سمجھتے ہیں اور ان سے سیکھتے بھی ہیں اور مزے کی بات یہ ہے کہ ان پر ہر قسط کے خاتمے کہ بعد بھرپور تبصرہ بھی کرتے ہیں۔ دیکھئے اب کی دفعہ ہمارا ووٹر کس ڈرامے کی تربیت کا اثر لیتا ہے اور کسے بہترین ایوارڈ دلوانے میں اپنا حقیقی اور سچا حق ادا کرتا ہے۔ یاد رہے یہ ڈرامے ہی ہمارے معاشرے پر اثر انداز ہوتے ہیں۔

حصہ
mm
شیخ خالد زاہد، ملک کے مختلف اخبارات اور ویب سائٹس پر سیاسی اور معاشرتی معاملات پر قلم سے قلب تک کے عنوان سے مضامین لکھتے ہیں۔ ان کا سمجھنا ہے کہ انکا قلم معاشرے میں تحمل اور برداشت کی فضاء قائم کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے اور دوسرے لکھنے والوں سے بھی اسی بات کی توقع رکھتے ہیں کہ قلم کو نفرت مٹانے کیلئے استعمال کریں۔

جواب چھوڑ دیں