ایمان مغازی الشرقاوی
ترجمہ: ڈاکٹرمیمونہ حمزہ
(۵)
کیا آپ نے تجربہ کیا کہ آپ ساری رات جاگ کر گزارتے ہیں، اور سارا دن مشقت اٹھاتے ہیں، مگر کیوں؟ تاکہ ہر دن اور رات کے بدلے آپ کو چند روپے مل جائیں، جن سے آپ اپنی کمر سیدھی کر سکیں، اپنے نفس کا بچاؤ کر سکیں، اور اپنے بال بچوں کی ضروریات پوری کر سکیں؟ آپ نے اتنی محنت اور مشقت کے بعد کامیابی کی مٹھاس کو بھی چکھا ہو گا، اور اتنا امتیاز اور تفوق حاصل کرنے کے بعد، عزت افزائی اور تکریم کی لذت کو بھی محسوس کیا ہو گا، اور اہلِ خانہ اور دوستوں نے بڑا پر تپاک استقبال کیا ہو گا؟ آپ نے محسوس کیا کہ مشقت کے بعد راحت میں مزا ہے، اور محنت کا ثمر کام ختم ہونے کے بعد ملتا ہے؟ کیا آپ نے کبھی کسان کو نہیں دیکھا، کہ وہ بیج بوتا ہے، اور اس سے کونپل نکلتی ہے، اور وہ پورا سال اسکی دیکھ بھال کرتا رہتا ہے، وہ اسے آفات اور کیڑوں مکوڑوں سے بچاتا ہے، اور ہر وقت اسی کے لئے محنت اور مشقت میں لگا رہتا ہے، حتی کہ اسکا باغ سرسبز و شاداب اور تروتازہ ہو جاتا ہے، اور وہ اسے مختلف پھل پیش کرتا ہے؟ کیا آپ نے کبھی شہد کی مکھی کو غور سے دیکھا ہے، اور اس سے سبق حاصل کیا ہے؟ وہ کس طرح ایک شاخ سے دوسری، اور ایک پھول سے دوسرے پھول کی طرف سفر کرتی ہے، وہ اسکی خوشبو سونگھتی ہے اور اچھے پھولوں ہی پر بیٹھتی ہے، اور اﷲ کی سکھائی ہوئی راہوں پر چلتی رہتی ہے، اور اپنے سفر کے اختتام پر صاف ستھرے مشروب ’’شہد‘‘ کا تحفہ دیتی ہے، جسکی لذت مختلف ہوتی ہے ، اور اس میں شفاء ہے۔ آپ نے کبھی چیونٹی کو دیکھا ہے، اور غذا کے بوجھل حصّے اٹھا کر گرم دوپہر میں چلتی ہے، لیکن یہ بوجھ اسکی مشقت کم کر دیتا ہے، اور اسکا اثر زائل ہو جاتا ہے، اور اسکی پریشانی ہلکی ہو جاتی ہے، جب وہ اسکا پھل پاتی ہے، اور وہ سردی کے موسم میں اپنے خزانے کو مزے لے لیکر کھاتی ہے؟
۔ یہ سب صورتیں بہت مختلف ہیں، انکا باہم مقابلہ بھی مشکل ہے، لیکن یہ تمام مثالیں بڑی عاجزی سے ہمیں رمضان کے مہینے میں روزے داروں کے میدان میں لے جاتی ہیں، جہاں وہ اپنے روزے مکمل کر چکے ہیں، اور یہ مہینہ کوچ کر رہا ہے، وہ اس مہینے میں اپنے دشمنوں پر غالب آچکے ہیں، اور نماز، روزے، قرأت، قیام، نیکی اور احسان، سے اﷲ کے طریقے کو پا گئے ہیں، انہیں قرآن کا ادب کرنا بھی آگیا ہے، اور اس سے اپنی محفلوں کو زینت دینا بھی، پس انکے آنسو بہتے ہیں، انکی آہیں بلند ہوتی ہیں، انکے ہاتھ اﷲ رب العزت کے سامنے پھیلتے ہیں، خوف اور رغبت کے ساتھ، وہ اسکی رحمت کے امیدوار ہیں، اور اسکے عذاب سے ڈرتے ہیں، اﷲ انکی سعی و کوشش ہرگز رائیگاں نہ جانے دے گا، اور نہ انکے اعمال ضائع کرے گا، بلکہ وہ انہیں انکی کارگزاری کا بہترین اجر عطا فرمائے گا، اور اس مہربان مہینے کے اختتام پر انہیں خدمت کا بہترین بدلہ دے گا، اور انہیں درجہ ممتاز بلکہ اے پلس سے نوازے گا، وہ کتنے طویل دنوں میں اسکے آگے سرجھکائے تمام دن کھڑے رہے، اور رات کی تاریکی میں اسکے آگے سجدہ ریز رہے، (تتجافی جنوبھم ھن المضاجع یدعون ربھم خوفاً وطمعاً ومما رزقناھم ینفقون ۰ فلا تعلم نفس ما أخفی لھم من قرۃ أعین جزاء بما کانوا یعملون۰) (السجدۃ، ۱۶۔۱۷) (انکی پیٹھیں بستروں سے الگ رہتی ہیں، وہ اپنے رب کو خوف اور طمع کے ساتھ پکارتے ہیں، اور جو رزق ہم نے انکو دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ پھر جیسا کچھ آنکھوں کی ٹھنڈک کا سامان انکے اعمال کی جزا میں انکے لئے چھپا کر رکھا گیا ہے اسکی کسی متنفس کو خبر نہیں ہے۔)
مغفرت کا تحفہ:
واہ، اس تحفے کا کیا کہنا، جو کامیاب و کامران ہونے والوں کو انکے رب کی جانب سے بھیجا گیا ہے، جنہوں نے اس عظیم مہینے میں اپنی ھوی اور شہوات پر غلبہ حاصل کیا، اﷲ تعالی نے اسکے حاصل کرنے کی شرائط وضاحت سے بیان فرمائی ہیں، اور اسکے حق داروں کے بارے میں تفصیل سے بتایا ہے، تاکہ بندہ اسے پانے کے لئے تیاری کرے، اور اپنے آپ کو اسکا مصداق بنانے کے لئے چوکس رہے، تاکہ وہ ان لوگوں میں شامل ہو جائے، (وما یلقا ھا الا الذین صبروا و ما یلقاھا الا ذو حظ عظیم) (حم السجدۃ، فصلت، ۳۵) (یہ صفت نصیب نہیں ہوتی مگر ان لوگوں کو جو صبر کرتے ہیں، اور یہ مقام حاصل نہیں ہوتا مگر ان لوگوں کو جو بڑے نصیبے والے ہیں۔)
رمضان کے امتحان کے مکمل ہونے کے بعد، اور جدو جہد کے معرکے میں کامیابی کے بعد، ایک اور معرکہ درپیش رہے گا، اور وہ ہے انسان کے ہمیشہ سے منتظر دشمن ۔۔ ابلیس اور اسکی ذریت ۔۔ جاذب نظر دنیا ۔۔ اور برائی پر اکسانے والے نفسِ امارہ ۔۔ اور اﷲ اور اسکے رسول ﷺ کی اطاعت سے روکنے والی ھوی (خواہشِ نفس)اور انکے علاوہ کئی راہزن جو اس دنیا کے طول پر پھیلے، انسان کا شکار کرنے کے منتظر ہیں۔
یہ رمضان کی راتوں کی آخری رات ہے، نبی اکرم ﷺ نے تاکیداً فرمایا: اور وہ انہیں آخری رات میں معاف فرما دیتا ہے‘‘۔ پوچھا گیا: یا رسول اﷲ ﷺ، کیا یہ لیلۃ القدر ہے؟ فرمایا: ’’نہیں، بلکہ اس میں کام کرنے والے کو مزدوری دی جاتی ہے، جب وہ کام مکمل کر لیتا ہے‘‘ (اسے احمد نے روایت کیا)۔
اور یہ اجر کتنا بڑا ہے، اور اس انعام کا کیا کہنا!! یہ انعام ہر اس روزہ دار کے لئے ہے، جس نے روزے کی حکمت جان کر اسے اپنے اوپر لازم کر لیا، اور اسکے دل نے اس کے پیٹ سے بھی پہلے روزہ رکھا، اور اسکی زبان نے اسکے دانتوں سے پہلے، اور اسکے اعضاء میں سے آنکھیں، ہاتھ اور پاؤں، کان، عقل اور دل ، سب روزے میں شریک رہے، اور آخرت کے لئے زادِ راہ اکٹھا کیا، اور وہ رمضان سے اپنی روح پاک کر کے نکلا، ایک نئے پاک اور نادر نفس کے ساتھ، اور قوی اور شدید عزم کے ساتھ، گویا اسکا روزہ اسکا قلعہ اور اسکے لئے بچاؤ بن گیا، اور ھدایت کی راہوں کا مدد گار، اور کامیابی پانے کا راستہ۔ جیسا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ہے: ’’روزہ ڈھال ہے، اور وہ مومن کے قلعوں میں سے ایک قلعہ ہے‘‘ (اسے طبرانی نے بیان کیا، اور سیوطی نے اسے صحیخ قرار دیا)۔
غفور ۔۔وشکور
اﷲسبحانہ وتعالی بہت سی برائیوں کو بخش دیتا ہے، اور آسان نیکیوں کی بھی بہت قدر دانی فرماتا ہے، اور یہ نعمت بھی ہم سے بہت شکر گزاری اور طویل سجدوں کا مطالبہ کرتی ہے، اسکے سوا کون ذات ہے جو گناہگاروں کو معاف کر سکتی ہو، اور توبہ کرنے والے قصور واروں کی عزت افزائی کرتی ہو، اور اپنا پردہ عطا کر کے انکی سترپوشی کرتی ہو؟ وہ اﷲ ہی ہے الغفار، الغفور والشکور، جو تھوڑے سے عمل پر ڈھیروں اجر عطا فرماتا ہے، جو اپنے اطاعت گزار بندوں کی خود تعریف کرتا ہے، اور وہ سبحانہ وتعالی ہم سے فرماتا ہے: اے بندو، تم دن رات خطائیں کرتے ہو، اور میں تمام گناہ معاف فرما دیتا ہوں، پس مجھ سے مغفرت مانگو، میں تمہیں معاف کر دوں گا ۔۔ اے میرے بندوں، تم میرے نقصان پر قادر نہیں ہو کہ مجھے کوئی نقصان پہنچا سکو، اور نہ میرے نفعے پر کہ مجھے کچھ نفع پہنچا سکو ۔۔ اے میرے بندو، اگر تمہاے پہلے اور پچھلے اور تمہارے انس اور جن سب سے متقی دل والے بن جائیں، تو یہ میری بادشاہت میں کچھ بھی اضافہ نہ کرے گی ۔۔ اے میرے بندو، اگر تمہارے تمام پہلے اور پچھلے، اور تمہارے انسان اور جن سب سے فاجر دل والے شخص جیسے ہو جائیں، تو یہ میری بادشاہت میں کچھ بھی کمی نہ کرے گی‘‘ (مسلم نے روایت کیا)، اور اسکے ساتھ وہ سبحانہ وتعالی ہمیں یہ مغفرت حاصل کرنے کی جانب بلاتا ہے، اور اپنے قرب کی لذت سے آشنا کرتا ہے ۔۔ نبی اکرم ﷺ فرماتے ہیں: جب رات کا تین چوتھائی حصّہ باقی رہ جاتا ہے، ہمارا رب ہر رات آسمانِ دنیا پر آتا ہے، اور پکارتا ہے، کون ہے جومجھ سے دعا مانگے اور میں اسے قبول کروں، کون ہے جو مجھے پکارے اور میں اسکو عطا کروں، کون ہے جو مجھ سے بخشش چاہے اور میں اسے بخش دوں (اسے ابو داود نے روایت کیا)۔
رمضان قرب کا مہینہ اور مغفرت کا مہینہ ہے، جس میں عمل کرنے والے مجاہدہ کرتے ہیں، اور مخلصین اسکے لئے کوشاں رہتے ہیں، اور اس بے پرواہ بادشاہ سے درجہ قرب حاصل کرنے کے لئے وہ ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی کوشش کرتے ہیں، پس وہ قیامت کے روز وہ اپنی عظیم تمنا کو مجسم دیکھیں گے، اور وہ انہیں ڈھانپے ہوئے ہو گی، اور یہ مغفرت کی آرزو ہے، جب وہ قدر دان آقا انکو بخش دے گا، اور وہ سبحانہ وتعالی صرف بخش ہی نہ دے گا بلکہ وہ انہیں اپنی وہ نعمت عطا فرمائے گا، جس کو بیان بھی نہیں کیاجا سکتا، جو نہ عمل سے حاصل کی جا سکتی ہے نہ شکر سے، اسی لئے وہ پکار اٹھیں گے: (وقالوا الحمد ﷲ الذی أذھب عنا الحزن ان ربنا لغفور شکور۰ الذی احل لنا دار المقامۃ من فضلہ لا یمسنا فیھانصب ولا یمسنا فیھا لغوب) (فاطر، ۲۴۔۲۵) (اور وہ کہیں گے کہ ’’شکر ہے اس خدا کا جس نے ہم سے غم دور کر دیا، یقیناً ہمارا رب معاف کرنے والا اور قدر فرمانے والا ہے، جس نے ہمیں اپنے فضل سے ابدی قیام کی جگہ ٹھیرا دیا، اب یہاں نہ ہمیں کوئی مشقت پیش آتی ہے اور نہ تکان لاحق ہوتی ہے‘‘۔)
دو فرحتیں:
یہ اطاعت کی فرحت ہے، اوراﷲ سے امید کی فرحت، جیسا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’روزے دار کے لئے دو فرحتیں ہیں، جو اسے خوش رکھتی ہیں، جب روزہ کھولتا ہے تو افطار کی فرحت ہوتی ہے، اور جب اپنے رب سے ملے گا، اپنے روزے پر خوش ہوگا‘‘ (نسائی نے اسے اسے روایت کیا، اور البانی نے صحیح قرار دیا)۔
رمضان مبارک کا مہینہ ہمارے لئے بہترین تحفے اور عظیم انعام چھوڑ کر رخصت ہوتا ہے، کیونکہ اﷲ تعالی مخلص روزہ داروں کو بخش دیتا ہے، اور روزہ دار کے بارے میں فرماتا ہے: ’’اس نے اپنا کھانا پینا اور شہوت کو میرے لئے چھوڑ دیا‘‘ (اسے بخاری اور احمد نے روایت کیا ہے)، گویا کہ مغفرت اس ثواب کا جزء ہے، جسے اﷲ نے اسکے لئے مخصوص کیا ہے، جب وہ فرماتا ہے: ’’روزہ میرے لئے ہے، اور میں اسکی جزا دوں گا‘‘ (اسے احمد نے روایت کیا ہے)، کیونکہ یہ عبادات کا مجموعہ ہے جو صبر اور شکر کے گرد گھومتا ہے، اور یہی دو اسکے حاصل ہیں۔
اور ہاں یہ مسلمان ہی ہیں، انکی اکثریت روزہ رکھتی ہے، اور انکے روزے میں اﷲ سبحانہ وتعالی کے احکامات کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے، انکی سیری کی نعمت کو یاد کیجئے، اور وہ کس طرح ھوائے نفس کی پیروی کے لئے تیار رہتے تھے، اور حق کی موفقت اسکی مخالفت کر کے کرتے تھے، اور اسکی محبوب چیزوں کو ترک کرتے تھے، اور اس نفس کی ریاضت مالوف و پسندیدہ چیزوں کو ترک کرنے میں ہے، اور شہوات کو چھوڑنے میں، اور اعضاء کی حفاظت کرنے میں، اور جب افطار کا وقت آتا ہے تو’’ انکے لئے دو فرحتیں ہیں، ایک فرحت افطار کے وقت کی، اور ایک رب سے ملاقات کے وقت کی‘‘ (ترمذی کی روایت، البانی نے اسے صحیح قرار دیا)، قرطبی نے فرمایا: اسکے معنی ہیں، جب اس کے لئے افطار جائز ہو گیا، اور اسکی بھوک اور پیاس زائل ہو گئی، تو اسے فرحت ملی، اور یہ فطری خوشی ہے، اور پہلے مفہوم کے مطابق ہے، اور کہا جاتا ہے: یہ اسکے افطار کی فرحت ہے، کیونکہ اس نے روزہ مکمل کیا، اور اپنی عبادت کا اختتام کیا، یہ رب کی جانب سے تخفیف اور اسکے آئندہ روزے کے لئے مدد ہے۔
علماء کہتے ہیں: رب سے ملاقات کے وقت کی فرحت کا سبب وہ جزا بھی ہے جو وہ دیکھتا ہے، اور رب کی اس نعمت کو یاد کرتا ہے کہ اس نے اسے توفیق عطا کی، اور روزے کے اختتام پر عبادت کے پورا ہونے اور اسکے مفسدات سے محفوظ رہنے کی خوشی ہے، اور اس ثواب کی جسکا وہ امیدوار ہے ۔۔ پس جس نے خلوص سے عبادات اور دوسرے اعمال بجا لائے، اور وہ ریا یا شہرت کے لئے نہیں بلکہ اﷲ کی رضامندی کے لئے سب اعمال بجا لا رہا تھا؛ اسے اﷲ دنیا اور آخرت میں پورا بدلہ عطا کرے گا۔
آؤ مغفرت کی طرف
اﷲ اپنے سب بندوں کو مغفرت کے لئے پکارتا ہے، وہ فرماتا ہے: (وسارعوا الی مغفرۃ من ربکم وجنۃ عرضھا السماوات والارض اعدت للمتقین ) (آل عمران، ۱۳۳) (دوڑ کر چلو اس راہ پر جو تمہارے رب کی بخشش اور اس جنت کی طرف جاتی ہے جس کی وسعت زمین اور آسمان جیسی ہے، اور وہ خدا ترس انسانوں کے لئے مہیا کی گئی ہے)، (سابقوا الی مغفرۃ من ربکم وجنۃ عرضھا کعرض السماء والارض)(الحدید، ۲۱)(دوڑو اور ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو اپنے رب کی مغفرت اور اس جنت کی طرف جس کی وسعت آسمان و زمین جیسی ہے۔)، پس مغفرت جنت کی طرف جانے کا راستہ ہے، تو کیا ہم میں سے ہر ایک اس مغفرت کی طرف جانے کا راستہ تلاش کر رہے ہیں؟ رمضان اسکا سبب بھی ہے اور اسکی طرف جانے کا طریقہ بھی، پس رمضان کا درمیانی حصّہ مغفرت ہے، اور اسکی آخری راتوں میں مغفرت ہے، وہ پورا ماہ دن بھی اور رات بھی اپنا توشہ تیار کرتا رہتا ہے، تو رمضان کے بعد ہم اﷲ سے مغفرت کیسے مانگیں گے؟
اﷲ تعالی اپنی کتابِ کریم میں فرماتا ہے، اور وہ جانتا ہے کہ ہم خطاکار بندے ہیں، اور پھسل جاتے ہیں، خواہ ہم ایمان کے کسی درجے پر پہنچ جائیں، اور اسکی حرارت ہمارے دلوں کو کتنا بھی گرما دے، ہم کبھی درست کرتے ہیں اور کبھی خطا، اسی لئے اﷲ اس جانب ہماری رہنمائی فرماتا ہے، اور وہ اس جانب خوشخبری دیتے ہوئے فرماتا ہے: (وانی لغفار لمن تاب وآمن وعمل صالحاً ثم اھتدی) (طہ، ۸۲) (البتہ جو توبہ کر لے اور ایمان لائے اور نیک عمل کرے، پھر سیدھا چلتا رہے اسکے لئے میں بہت درگزر کرنے والا ہوں۔)
پس مغفرت توبہ کرنے والوں کو نصیب ہوتی ہے، جس نے توبہ کی اور جس کفر یا شرک یا معصیت یا نفاق میں وہ تھا اس سے لوٹ آیا، ،واہ اسکے گناہ کتنے بھی زیادہ ہو جائیں اور بڑھ جائیں، وہ دل سے ایمان لے آئے، نیک عمل کرے، اور رب کے فرائض ادا کرے، جو اس پر لازم کئے گئے ہیں، اور معصیت سے اجتناب کرے، ’’پھر ھدایت کو اختیار کرلے‘‘، یعنی اسکو خود پر لازم کر لے، اور ان میں سے کسی عمل کو ضائع نہ کرے، اور سنت اور جماعت کے ساتھ رہے، اور اسلام پر مرتے دم تک قائم رہے، اور جان لے کہ یہی ثواب اور نیک عمل ہے؛ مغفرت اسکا انعام ہے، اور جنت اسکا ٹھکانا ہے، اور وہ بہترین لوگوں میں سے ہے، جیسا کہ رسولِ اکرم ﷺ نے فرمایا: میری امت کے بہترین لوگ وہ ہیں جنہوں نے خطاؤں کے بعد استغفار کر لیا، اور جب انہوں نے نیکیاں کیں ، انہیں خوشخبری ملی‘‘ (اسے طبرانی نے روایت کیا، اور سیوطی نے اسے حسن قرار دیا)۔
ظاہری سبق:
آپ نبی کریم ﷺ کی مغفرت کی رات والی حدیث میں دیکھیں گے: اور وہ انہیں آخری رات بخش دیتا ہے‘‘، پوچھا گیا: کیا یہ لیلۃ القدر ہے؟ فرمایا: ’’نہیں، وہ مزدور کو کام مکمل ہونے پر پورا اجر عطا فرماتا ہے‘‘ (احمد)، ان تھوڑے سے الفاظ سے بھی آپ وہ سبق نکال سکتے ہیں، جو آپ کی باقی زندگی کے لئے ایک طریقہ وضع کر دیتا ہے۔
اور اسکے کئی فوائد ہیں: عمل کی اہمیت سے آگاہی، عمل کرنے والے (مزدور) کی فضیلت، اور اسکے اجر کا بیان، ااور اس میں پختگی اور زیادتی کے اثرات، اور اس میں مجرد مزدور کی مزدوری ہی اسکے عمل میں انتہائی افزائش کر دیتی ہے، خواہ وہ خادم ہو یا معلم یا مزدور، جب تک اس قبلے کے لئے وہ عمل کرتا رہے گا، اور اور معاہدے کے مطابق دیے گئے کام پر کاربند رہے گا، خواہ وہ افراد کی سطح پر یہ کام کرے یا جماعت کی؛ جیسے کمپنی، اسوسی ایشن، کمیٹی یا حکومت کی سطح پر، نبی اکرم ﷺ کا فرمان سب کے لئے رہنما ہے: ’’مزدور کو اسکی مزدوری اسکا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کرو‘‘ (البانی، صحیح ابنِ ماجہ)، تو کیا ہم بھی سوچتے ہیں کہ کہ وہ اپنے خادم اور اجیر کو پوری اجرت دیں، اس میں ذرہ برابر بھی کمی نہ کریں، نہ اسے ٹالیں نہ لمبی تاریخیں دیں؟ اور کبھی ہم نے کوشش کی کہ ہم اس اجر کو سخاوت اور کرم سے بڑھا دیں؟ اور کیا ہم میں بھی کبھی خواہش پیدا ہوئی کہ ہم اسکی اجرت بغیر احسان چڑھائے اور اذیت دیے اسے اسوقت ادا کر دیں جب اسکی پیشانی پر پسینہ خشک نہ ہوا ہو؟
اور ایک اہم سبق، ان لوگوں سے درگزر کرنے کے معاملے میں جو آپ کے حق میں برائی کرے، اور اسے اﷲ کی خاطر معاف کر دینا، اسکی پردہ پوشی بھی کرنا، اور انکو ڈھانپ دینا، آپ اسے معاف کرتے رہیں حتی کہ آپ کو اﷲ معاف فرما دے، اور آپ کو اس جنس کا بدلہ بھی دیا جائے ۔۔ اﷲ تعالی فرماتا ہے: (ولیصفحوا الا تحبون ان یغفرلکم واﷲ غفور رحیم) (النور، ۲۲)، پس اگر تو اسے معاف کر دیتا ہے جو تیرے ساتھ زیادتی کرے، تو اﷲ تجھے معاف کرے گا، اور جب تو درگزر کرے گا تو تجھ سے درگزر کیا جائے گا، اور جس طرح تو پسند کرتا ہے کہ اﷲ تیرے گناہوں سے درگزر کرے، اسی طرح تو بھی دوسروں کو معاف کر دے۔
اور اسی طرح تیرے لئے درست نہیں کہ تو اپنے بھائی کو چھوڑ دے، یا تو اسکے لئے اپنے دل میں بغض اور کینہ رکھے، کیونکہ یہ تجھ سے عفو کو ختم کردے گا، اگرچہ تو گمان کرے اور اسکی موجودگی کا دعوی کرے، نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے: ’’مسلمان کے لئے حلال نہیں کہ وہ اپنے بھائی کو تین راتوں سے زائد کے لئے چھوڑ دے، وہ دونوں ملتے ہیں تو ایک اس جانب مڑ جاتا ہے اور دوسرا اس جانب، ان دونوں میں بہتر وہ ہے جو سلام کی ابتدا کرے‘‘ (مسلم) رمضان ناراض دلوں کے لئے اصلاح کا موقع ہے، اور لوگوں کی دشمنیوں کی برف پگھلانے کا وقت ہے۔
اور جس طرح اجر اور ثواب حاصل کرنے کے لئے رمضان کے مکمل روزے رکھنا ضروری ہے، اسی طرح اعمال کی بہتری اور پختگی کا موقع بھی ہے، تاکہ آپ اس اجر کے اہل اور مستحق بن جائیں، ورنہ آپ اپنے مالک کو مزدوری کا محض دھوکہ دے رہے ہیں، اور اپنی امانتوں میں خیانت کے مرتکب ہو رہے ہیں، پھر ہر عمل کے مکمل ہونے پراﷲ عزوجل کے سامنے استغفار بھی کریں، اور اپنے قصوروں کی خواہ وہ عمداً سرزد ہوئے ہوں یاسہواً معافی مانگ لیں (واستغفروا اﷲ ان اﷲ غفور رحیم) (المزمل، ۲۰) (اﷲ سے مغفرت مانگتے رہو، بے شک اﷲ بڑا غفور رحیم ہے۔)
اﷲ کے غضب سے ڈریے:
اور آخری بات ۔۔ رمضان کے بعد فخر کے دھوکے سے ڈریے، آپ یہ نہ کہیں: اﷲ نے مجھے معاف کر دیا ہے، اور اس کے بعد جو چاہیں کرنا شروع کر دیں، یا تو آپ اعمال میں کمی کا مظاہرہ شروع کر دیں، یا رب کی نافرمانی کرنے لگیں، یا عبادت کو بوجھ سمجھنے لگ جائیں، یا اپنی ذمہ داریوں سے فرار حاصل کرنا شروع کر دیں، بلکہ آپ کوشش کریں کہ اب سے دائما آپ رب کی مغفرت میں رہیں، اور اﷲ کے غضب اور اسکی ناراضی سے ڈرتے رہیں، اﷲ سبحانہ وتعالی ہم سے فرماتا ہے: (اعلموا ان اﷲ شدید العقاب وان اﷲ غفور رحیم) (المائدہ، ۹۸)(رسول پر تو صرف پیغام پہنچا دینے کی ذمہ داری ہے، آگے تمہارے کھلے اور چھپے سب حالات کا جاننے والا اﷲ ہے۔)
اور یہ بھی : (غافر الذنب وقابل التوب شدید العقاب ذی الطول) (غافر، ۳) (گناہ معاف کرنے والا اور توبہ قبول کرنے والا ہے، سخت سزا دینے والا اور بڑا صاحبِ فضل ہے۔) اور اس نے اپنے نبی ﷺ سے فرمایا: (نبیء عبادی انی انا الغفور الرحیم۰ وان عذابی ھو العذاب الالیم) (الحجر، ۴۹ ۔ ۵۰) (اے نبیؐ، میرے بندوں کو خبر دے دو کہ میں بہت درگزر کرنے والا اور رحیم ہوں، مگر اس کے ساتھ میرا عذاب بھی نہایت دردناک عذاب ہے۔)
اہم بلاگز
چراغ تو روشن ہیں
پی ٹی اے کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سوشل میڈیا صارفین کی تعداد 16 کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ اس رپورٹ میں مکمل سچائی ہو پھر بھی ٹی وی بہرحال ایک مقبول ذریعہء مواصلات ہے۔ شام کے وقت یا رات نو بجے ٹی وی پر ٹاک شوز یا head lines ملاحظہ کرنے والے افراد کا تناسب کم نہیں ہوا۔ آج جب شام آٹھ بجے ٹی وی آن کیا تو اتفاق سے ٹاک شو کا موضوع تھا انٹرا پارٹی انتخابات اور پارٹی کی قیادتیں۔ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ، پی ٹی آئی سبھی کے انٹرا پارٹی الیکشن کے احوال چل رہے تھے۔ پھر نمایاں قائدین کے نام لیے گئے
پیپلز پارٹی:- ذوالفقار علی بھٹو، بےنظیر بھٹو، زرداری، بلاول بھٹو، آصفہ بھٹو، پارٹی قیادت کے نمایاں افراد ۔
مسلم لیگ نون:- نواز شریف، شہباز شریف، حمزہ شہباز، مریم نواز ۔
پی ٹی آئی:- عمران خان ہی موءسس اوروہی قائد انہی کے دم خم سے پارٹی ہے۔ غیر مشروط، عقیدت اور اتباع کا محور بس عمران خان کی شخصیت ہے، اختلاف ہے تو عمران خان سے، اتفاق ہے تو عمران خان سے۔
مردِ واحد یا پھرایک خاندان۔ بس ہر پارٹی میں اسی کا اجارہ ہے۔ کس منہ سے یہ لوگ جمہوریت کا نام لیتے ہیں۔ کبھی سوچا آپ نے؟؟ ووٹ دینے سے پہلے سوال کیا کبھی آپ نے ان، مقبول لیڈرز، سے؟ اکتائے دماغ کے ساتھ چینل بدلا تو حافظ نعیم الرحمن کے حلف کی خبر چل رہی تھی۔ سارامنظر ہی دلکش لگا۔ بھیگی آنکھیں، کپکپاتے الفاظ دعاؤں کی التجا. یہ ہے حافظ نعیم الرحمن کا حلف ۔ دماغ میں سوال اٹھا "کیا یہ شخص سالہا سال سے نسل در نسل اس جماعت کا گدی نشین ہے؟"
نہیں جی اس سے پہلے ایک درویش صفت، روشن کردار والا، ہمت و جہد کا استعارہ۔۔۔ سراج الحق تھا اسی ذمہ داری پہ ۔۔۔ تو کیا سراج الحق کو عوامی مقبولیت، یہ عہدہ، کروڑوں لوگوں کی دعائیں ان کے باپ دادا نے دلوائیں؟ نہیں جی، وہ تو حلف اٹھانے سے چند دن پہلے تک انہیں خبر تھی نہ خواہش اور ان سے پہلے جو اس منصب پر تھے وہ تھے سید منور حسن، وہ سید، یہ پٹھان، وہ کراچی سے، یہ کے پی سے، کیا سید منور حسن اپنے سے گزشتہ امیر جماعت کے رشتے دار تھے؟
نہیں، وہ بھی اول الذکر سبھی کی طرح ایک عام کارکن تھے۔
نعیم صدیقی (رحمہ اللہ علیہ) اپنی تصنیف "المودودی" میں لکھتے ہیں
"۔۔۔ کتنا سخت لمحہ ہے کہ اس شخص کے جسد کی امانت کو مٹی کے حوالے کرنے کے بعد میں اسی کی جدائی کاذکر چھیڑ رہا ہوں۔ ترجمان القرآن کی ادارت کرنے اوراس کے ذریعے دور دراز تک ایمان وحکمت کا نور پھیلانے والی ہستی نگاہوں سے اوجھل ہوچکی ہے۔ اس کی کرسی خالی ہے وہ اپنے تاریخی کمرے میں بھی موجود نہیں اور اہلخانہ کی مجلس میں بھی شریک نہیں۔اس کی کتابیں جیسے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اسے ڈھونڈ رہی ہیں۔۔۔"
قارئین! نعیم صدیقی کا کرب جب ان الفاظ میں ڈھل رہاتھا تو شائد انھیں بھی اندازہ نہیں تھا کہ یہ تحریک پھل پھول لائے گی ، وسعت اختیار کرے گی۔ بلاشبہ...
تاریکی میں ڈوبتی دنیا
معاشرہ افراد کی مرہونِ منت ترتیب پاتا ہے، افراد اپنی تربیت بہترین اطوار پر کرنے کی کوشش میں سرگرداں رہتے ہیں اور بہتر سے بہتر کی تلاش جاری ہے۔ تہذیبوں کا مطالعہ کیا جاتا ہے اور ان دفن شدہ تہذیبوں میں سے ان کے رہن سہن اور دیگر طور طریقوں پر تحقیق کی جاتی ہے اور باقاعدہ یہ ثابت بھی کیا جاتا ہے کہ ان تہذیبوں میں ایسا ہی ہوتا ہوگا۔ وقت کا تو نہیں، انسان کے طور طریقے ہر دور میں بدلتے رہتے ہیں۔ دنیا کی تاریخ انسانیت کی تذلیل جیسے واقعات سے بھری پڑی ہے، یہ جان کر دکھ ہوتا ہے کہ ایک انسان دوسرے انسان کو تکلیف دینے سے کسی قسم کی عبرت حاصل نہیں کرتا یا پھر ہر انسان اس سوچ کا حامل ہے کہ جو وہ کر رہا ہے وہ صحیح ہے اسے ویسا ہی کرنا تھا جیسا وہ کر رہا ہے لیکن وقت سوچ میں تبدیلی لے آتا ہے پھر پچھتاوالادے لادے زندگی گزر جاتی ہے۔
ہمارے پیارے بنی ﷺ کے چچا کہا کرتے تھے کہ ہمارا بھتیجا جو کہہ رہا ہے وہ بلکل صحیح ہے لیکن ہم اپنے آباؤ اجداد کو کیسے ترک کردیں۔ آج احساس کو بھی شرمندگی کا سامنا ہوگاکیونکہ وہ اپنی شدت کھوچکا ہے اور کسی اندھیری کال کوٹھری میں سسکیاں لے رہا ہوگا۔ ہم مادہ پرست لوگ ہیں جہاں احساسات کا تعلق کیمرے کی آنکھ کو دیکھانے کیلئے تو امڈ آتے ہیں لیکن حقیقی دکھ اور تکلیف سے باز رہنے کا ہنر خوب جانتے ہیں۔ دنیا اتنی رنگ برنگی ہوگئی ہے کہ پلک جھپکتے میں منظر بدل جاتا ہے اور وہ سب سامنے آموجود ہوتا ہے جو ہم دیکھنا چاہتے ہیں، منظر بدل لیتے ہیں۔
اب کسی کے لئے بھی ساری دنیا میں یہ کہنا ناممکن ہے کہ دنیا ایک خوبصورت جگہ ہے اور یہاں رہنے کیلئے کسی خوبصورت کونے کا انتخاب کر کے وہاں رہ لیا جائے، انسان نے اپنی تباہی کیلئے ایسا ایسا سامنا تیار کر رکھا ہے کہ جب اسے استعمال کیا گیا تو وہ وہاں بھی پہنچ جائے گا جہاں اس کی ضرورت نہیں ہوگی، یعنی جب تباہی کا عمل شروع ہوگا تو کوئی بھی اس تباہی سے کیسے محفوظ رہ سکے گا۔ دنیا نے ایک نا ایک دن ختم ہونا ہے اور مسلمانوں کے عقیدے کیمطابق اب قیامت کے قریب کی نشانیاں ظاہر ہونا شروع ہوگئی ہیں، اب یقینا قیامت آئی کھڑی ہے۔ فلسطین میں ہونے والا ظلم کسی ایسی ہی منزل کی جانب حتمی پیش قدمی کہا جاسکتا ہے۔ کوئی بولنے سے ڈر رہا ہے اور کوئی ایسے ڈھڑلے سے بول رہا ہے کہ اسے گولی سے مارا جا رہا ہے، ظالم اپنے قبیلے کے پر امن لوگوں کو مارنے سے بھی نہیں چوک رہا۔ پچھلے زمانوں میں یہ کام مخصوص لوگوں کے ذمے ہوا کرتا تھا لیکن آج تو سب، سب کچھ کرنے کیلئے پرتول رہے ہیں۔
پاکستان تو وہ ملک ہے جہاں بجلی کی تخفیف قوت (لوڈشیڈنگ)اس قدر ہوتی ہے کہ ملک کا اکثر حصہ تاریکی میں ڈوبا رہتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ بہت سارے ایسے امور ہیں جو ہمیں تاریکی...
۔23 مارچ کا یادگار دن
قوموں کی زندگی میں بعض لمحات بڑے فیصلہ کن ہوتے ہیں جو اپنے نتائج اور اثرات کے اعتبار سے خاصے دور رس اور تاریخ کا دھارا موڑنے کی اہلیت رکھتے ہیں، 23 مارچ کا یادگار دن ہماری قوم کیلئے بڑی اہمیت کا حامل ہے اسکی ایک تاریخی حیثیت ہے کہ سنہ 1940ء میں لاہور کے تاریخی شہر میں برصغیر کے تمام مسلمانوں کے نمائندوں نے قائد اعظم کی زیر صدارت ایک تاریخی اجتماع میں حصول پاکستان کی قرار داد منظور کی تھی۔ تا کہ برصغیر کے مسلمانوں کیلئے مسلم قومیت کی بنیاد پر ایک آزاد ملک حاصل کیا جا سکے۔ جس پر نہ غیر ملکی استعمار کے تاریک سائے پڑیں اور نہ ہی ہندو اکثریت اور چیرہ دستیاں مسلمانوں کے ارفع مقاصد کی راہ میں حائل ہونے پائیں۔ مسلمانان برصغیر اپنے لئے ایک الگ وطن اسی لئے چاہتے تھے جہاں قرآن و سنت کی تعلیمات کی روشنی میں وہ ایک مثال اسلامی معاشرہ تشکیل دیں جہاں اسلامی عدل و انصاف کا دور دورہ ہوا اور جو عصر حاضر میں سرمایہ داری نظام اور اشتراکیت کی قوتوں سے پسی ہوئی انسانیت کیلئے مشعل راہ ثابت ہو۔ اس عظیم مقصد کے لئے 23مارچ 1940ء کولاہور میں بادشاہی مسجد کے قریب ایک وسیع و عریض میدان میں لاکھوں مسلمان اکٹھے ہوئے اور بنگال کے وزیر اعلیٰ مولوی فضل حق نے ایک قرار داد پیش کی جس کی تائید تمام مسلمانوں نے دل و جان سے کر دی جس سے ان کی قسمت کا پانسہ پلٹ گیا۔ اس دن لاہور میں مسلمانان ہند نے اپنی منزل کا اعلان کیا تھا اور دو ٹوک الفاظ میں کہا تھا کہ ہم ہندوستان میں مسلمانوں کیلئے آزاد خطوں کی جدوجہد کا اعلان کرتے ہیں۔
23 مارچ کو قرار داد کی منظوری کے بعد قیام پاکستان کی جدوجہد فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکی تھی۔ قوم کو ایک واضح نصب العین مل چکا تھا اور خوش قسمتی سے قائد اعظمؒ جیسے مدبر قائد میسر تھے جن کی قیادت سحر انگیز اور ولولہ انگیز ہونے کے علاوہ سیاست میں صداقت اور دیانتداری کی علمبردار تھی۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے تک مسلمانان ہند مسلم لیگ کے پرچم تلے متحد ہو چکے تھے۔ 1945ء میں وائسرائے ہند لارڈ ویول نے مسلم لیگ اور مطالبہ پاکستان کی مقبولیت اور دوسری جماعتوں کی طاقت کا اندازہ کرنے کیلئے انتخابات کروائے۔ کانگرس کے ایماء پر بننے والے مسلمانوں کے نام نہاد متحدہ محاذ کی مخالفت کے باوجود مسلم لیگ کو تاریخی فتح حاصل ہوئی اور مسلم لیگ مسلمانان ہند کی نمائندہ جماعت بن کر سامنے آئی اور اس طرح حصول پاکستان کی منزل قریب سے قریب تر ہو گئی۔ اکتوبر 1946 ء میں ایک عبوری حکومت قائم کی گئی جس میں مسلم نمائندگان کی قیادت خان لیاقت علی خان نے کی ادھر حکومتی ایوانوں میں قائد اعظم ؒمسلمانوں کے سیاسی حقوق کے تحفظ اور قیام پاکستان کیلئے سیاسی جنگ لڑ رہے تھے تو دوسری طرف ہندو مسلم فسادات نے پورے ملک کو بری طرح اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ ان فسادات میں لاکھوں مسلمان شہید ہوئے۔3 جون کو تقسیم ہند کے...
وہ دانائے سبل ختم الرسل
قارئین کرام یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ختم نبوت مسلمانوں کا قطعی اجماعی عقیدہ ہے، اس پر بیسیوں آیاتِ قرآنیہ اور سیکڑوں احادیث صحیحہ میں دلائل موجود ہیں۔ قرآن مجید میں وارد لفظِ خاتم النبیین میں کسی قسم کی تاویل اور تخصیص کی گنجائش نہیں ہے۔ اس میں تاویل و تخصیص کرنے والا دراصل قرآن و حدیث کی تکذیب کرتا ہے۔
چودہ سو سال سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے باوجود امتِ محمدیہ کا آج بھی اس پر اجماع ہے کہ مدعی نبوت اوراس کے پیروکارخارج از اسلام اور مرتد ہیں۔ تاریخ گواہ ہے جب بھی کسی باغی، طالع آزما یا فتنہ پرداز نے اپنے آپ کونبی کہنے کی جرأت کی، مسلمانوں نے اس کے خلاف بھرپورجہاد کیا۔ ہر مسلمان کا غیر متزلزل عقیدہ اور ایمان یہ ہے کہ حضور سرورِ عالم سیدنا محمدﷺ آخری نبی ہیں۔ حضورﷺ کی تشریف آوری کے بعد نبوت کا سلسلہ ختم ہو گیا۔ حضور اکرمﷺ کے بعد کوئی نیا نبی نہیں آسکتا اور جو شخص اپنے نبی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور جو بدبخت اس کے اس دعویٰ کو سچا تسلیم کرتا ہے وہ دائرہ اسلام سے خارج اور مرتد ہے اور اسی سزا کا مستحق ہے جو اللہ تبارک تعالیٰ نے مرتدکے لیے مقررکی ہے۔
بحیثیت مسلمان ازروئے قرآن و حدیث ہمارا اس بات پر پختہ یقین ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے آخری نبی اور رسول ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی آخری کتاب قرآن مجید ان پر نازل فرماکر دین کی تکمیل کردی اور قرآن کو تا قیامت محفوظ بھی کردیا۔ سلسلہ نبوت پر ختم کی مہر بھی لگادی آپ صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی و رسول ہیں آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی امت آخری امت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نہ کوئی نبی ہے نہ رسول ہے نہ تھا نہ تا قیامت ہوگا۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت آخری امت ہےاور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں۔ قرآن مجید میں اس بات کی صراحت مختلف آیات میں ملتی ہے۔ جیسا کہ سورہ احزاب کی چالیسویں آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہارے مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور سب انبیا کے آخر میں (سلسلۂِ نبوت ختم کرنے والے) ہیں اور اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھنے والا ہے۔
بہت سی احادیث میں بھی ختم نبوت کی تصدیق موجود ہے۔ حدیث مبارکہ ہے۔ میری اور مجھ سے پہلے انبیاء کی مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص نے ایک گھر بنایا، اس کو بہت عمدہ اور آراستہ پیراستہ بنایا مگر ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑدی، پس لوگ جوق درجوق آتے ہیں اور تعجب کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں یہ اینٹ کیوں نہیں لگادی گئی۔ آپ نے فرمایا: وہ اینٹ میں ہوں اور میں انبیاء کرام کا خاتم ہوں۔ اسی مفہوم کی ایک اور حدیث مبارکہ حضرت جابر بن عبداللہ رضى الله تعالى عنه نے بھی روایت کی ہے۔(صحیح البخاری، کتاب المناقب، باب خاتم النّبیین...
الوداع نہیں کہتے
بی بی سی جماعت اسلامی کی خبریں عموما نہیں لگاتا۔ لیکن اس نے یہ خبر بہت کم وقت میں دے دی کہ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق صاحب اپنے امارات عہدے سے مستعفی ہوگئے ہیں۔ہم جانتے ہیں بی بی سی کس کا چینل ہے۔ان کی نیتیں بھی یہ تھیں کہ اس خبر سے جماعت کو کمزور شکست خوردہ سمجھا جائے گا۔یہ خبر بھی سنی کہ حافظ نعیم صاحب نے دھاندلی والی نشست لینے سے انکار کردیا۔جو کہتے تھے کہ سیاستدانوں کا کوئی اخلاق نہیں ہوتا۔ان دیانتدار اور اعلی کردار کے حامل سیاست دانوں کو دیکھیں۔ایک نے ہاتھ آئی سیٹ ٹھکرا دی۔ دوسرے نے پارٹی کی سربراہی چھوڑ کر ثابت کر دیا کہ جماعت اسلامی میں عہدوں کی نہیں بلکہ ویلیوز کی اہمیت ہوتی ہے۔اور بےشک یہ احساسِ ذمہ داری فقط جماعت اسلامی میں پایا جاتا ہے۔
ان دونوں واقعات سے ہوا یہ کہ جماعت اسلامی کی جمہوریت شورائیت اور واضح ہوگئی۔ عوام جماعت اسلامی سے مذید متاثر ہوگئی۔ جی ہاں جماعت اسلامی عوامی مقبولیت حاصل کر چکی ہے۔ہر شعبہ ہائے زندگی کے لوگ اس کی دیانت خدمت کے قائل ہوچکے ہیں۔اس الیکشن کے بعد یہ مغالطہ ختم ہوچکا ہے کہ جماعت کا ووٹ بینک نہیں بنتا جماعت اسلامی کا کم ازکم یہ نتیجہ اس الیکشن میں تھا کہ اسے بلوچستان میں دو سیٹیں کے پی کے میں تین اور سندھ میں پندرہ سے زیادہ ہوتیں اگر زبردستی انتقال ہوئی پارٹی کے نئے جیون کی تیاری نہ ہوتی۔ ووٹ جماعت کو ملا ہے کراچی عوام نے اسے منتخب کیا ہے یہ ہاری نہیں اسے ہروایا ہے۔
یہ استعفی دراصل ہمارے قائد کی اعلی ظرفی ہے۔ انہوں اخلاقی طور سے اچھا کیا۔یہ استعفی ہر اس کارکن پر طمانچہ ہے۔جو سمجھتے ہیں کہ اس میں جماعت کا اس کی قیادت کا کوئی قصور ہے۔ ان سب حالات میں کسی کا کوئی قصور نہیں نہ کارکن کا قصوروار ہے نہ ہی امیر کا قصور ہے۔سمجھنے کی بات ہے کہ جماعت کا مقابلہ وقت کے اصل فرعون سے ہے۔ سیکولر لبرلز ساری طاقتیں مل کر اس کے خلاف ہیں اسلام کے دشمن فرعون نمرود ابو جہل دجالی فتنے آسان ٹاسک کسی بھی دور میں نہیں تھے۔ہمارے دور کے فرعون طاقت میں قدیم فرعون سے کہیں آگے ہیں۔الیکٹرانک میڈیا جماعت کو نہیں دکھاتا۔پرنٹ میڈیا جماعت پسند اسلام پسند تحریر نہیں چھاپتا۔عوام اگر قبولتی ہے اصل نتائج نہیں دیے جاتے۔قیادت کا کیا قصور وہ کیا اپنی جان مار دیں۔اس الیکشن کو آپ صلح حدیبیہ سے جوڑ لیں یقین کریں جماعت کی مقبولیت میں اضافہ ہی ہوا ہے۔جس عوام نے جماعت کو ووٹ دیا وہ اس کی شکست پر حیران ہے۔ جان چکی ہے کہ دینی جماعتوں میں خطرہ صرف جماعت اسلامی ہے۔عوام نے کبھی کسی موروثی مذہبی لیڈر یا پیر کو یوں اپنے عہدوں سے مستعفی ہوتے نہیں دیکھا۔جماعت اسلامی عوام کے لیے حل ہے تو باطل نظام کے لیے روک ہی روک ہے۔
یہ جماعت اسلامی کے لیڈر کی اعلی قیادت ہے۔جس میں حافظ نعیم الرحمن، مشتاق احمد صاحب، اکبر چترالی اور مولانا ہدایت الرحمن جیسے ہیرے پیدا کیے اور چمکنے کے خوب مواقع دیے۔سراج صاحب آپ...
طنز و مزاح
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔
زندگی بدل گئی !
شوہر اچھا ہو بیوی بچوں کا خیال رکھتا ہو تو زندگی پرسکون ہوجاتی ہے مگر یہاں تو زبردستی نوکری پر بھیجو پھر خود بازار جاٶ ضرورت کا سارا سامان خود اٹھاٶ پھر گھر کی صفائی، کھانا بنانا، بچوں کو اسکول چھوڑنا اور لانا سارا دن اسی میں گزر جاتا ہے یہاں تک کے امّی سے بات تک کرنے کا ٹائم نہیں ملتا مہینوں گزر جاتے ہیں امّی سے ملاقات ہوئے۔
فائزہ نے دکھوں کا قصہ سنا کر سکون کا سانس لیا تو میں نے بھی تسلی دی اللہ آسانی کرے تمھارے لیئے۔آج پھر کئی مہینوں بعد فائزہ سے ملاقات ہوئی تو پتہ چلا وہ گھر خالی کر کے دوسرے محلے میں چلی گئی ہے کرائے داروں کے لیۓ یہی پریشانی ہے اللہ سب کو اپنا گھر نصیب کرے۔ فائزہ بڑی خوش اورپہلے سے بہت اچھی لگ رہی تھی خوش ہوکر بتانے لگی۔ میرے شوہر تو جی ایسے فرمابردار ہوئے ہیں کے بس پوچھو مت۔ ویسے میں نے پوچھا نہیں تھا پر فائزہ بتاۓ بغیر کہاں رہتی۔
خوشی خوشی بتانے لگی صبح وقت سے پہلے نوکری پر چلے جاتے ہیں ساتھ بچوں کو بھی اسکول چھوڑ دیتے ہیں گھر کی ساری ذمہ داری خود لے لی ہے میں تو بس اب گھر میں رہتی ہوں اور اتنے محنتی ہوگۓ ہیں کے رات رات بھر گھر نہیں آتے یہاں تک کے کئی کئی دن کام کے سلسلے میں شہر سے باہر رہتے ہیں اور میں اپنی امّی کے گھر آرام کرنے چلی جاتی ہوں رزق میں ایسی برکت ہے کہ کبھی کبھی ہر چیز ڈبل آجاتی ہے پچھلے ہفتے دو سینڈل بلکل ایک جیسی لے آۓ بس ایک نمبر چھوٹی تھی پھر وہ تبدیل کرنی پڑی۔ کبھی راشن میں بھی چیزیں ڈبل ہوجاتی ہیں بس اللہ کا کرم ہے۔ میں تو کونے والی نورن دادی کو دعائيں دیتی ہوں۔ یہ سب ان ہی کی وجہ سے ہوا ہے۔ انھوں نے مسجد کے مولوی صاحب کا پتہ دیا تھا۔ مولوی صاحب نے ایک وظیفہ بتایا تھا پڑھنے کو وہ بھی تہجد میں بس پھر کیا تھا میری تو قسمت ہی پلٹ گئی۔ زندگی آسان ہوگئی ہے۔
مجھے بڑی حیرانی ہوئی کہ ایک وظیفے سے قسمت بدل گئی بھئی یہ کونسا وظیفہ ہے چلو چھوڑو۔مگر فائزہ کہا مانتی بتائے بغیر۔ عربی کے چند الفاظ بڑے ادب سے سنائے اور چہرے پر ہاتھ پھیر کر تین بار آمین آمین آمین کہا۔ بس یہ وظیفہ پڑھ لو شوہر آپ کے قدموں میں اور ہاں کسی اور کو بھی بتا دیں اگر کوئی پریشان ہو تو کسی کا بھلا ہو جائے اچھی بات ہے۔ میرا نمبر بھی لے لیا اور پھر فائزہ مسکراتی ہوئی گھر روانہ ہو گئی۔
ہفتے بعد ہی ایک انجان نمبر سے فون آیا۔ ریسو کرنے پر فائزہ نے سلام دعا کی اور زور زور سے روتے ہوئے کہنے لگی میں تو لوٹ گئی بر باد ہوگئی بس بہن میرا شوہر تو ہاتھ سے نکل گیا پتہ نہیں کیا کمی تھی مجھ میں جو دوسری شادی کر لی اللہ ہی سمجھے گا ایسی عورتوں کو جو شادی شدہ بچوں والے مردوں سے شادی کر لیتی ہیں۔ میں...
بن بُلائے مہمان ! بَلائے جان
بن بلائے مہمان وہ بھی چپک جانے والے ایک دو دن سے زیادہ برداشت نہیں ہوتے اور اگر زیادہ ہی رک جائیں تو سارے گھر کو ہی تکلیف اور نقصان پہنچاتے ہیں اور سارے ہی لوگ ان سے کنّی کترا کر گزرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ ہمارے ساتھ ہی نہ چپک جائیں۔
ایسا ہی معاملہ ہم لوگوں کے ساتھ ہوا ہے پہلے تو اس خطرناک اماں نے اپنی اولاد کو بھیج دیا وہ ملک ملک گھوما اور یہیں ڈیرا ڈال لیا۔نہ جانے کیا کیا تباہ و برباد کیا اور یہ حضرت انسان بے بس اور بے کس منہ چھپائے گھومتا رہا حتی کہ اپنے بیماروں مجبور پیاروں سے ملنے اور ان کی تیمارداری سے بھی محروم رہا کچھ وقت گزرنے کے بعد جب اس نے دیکھا کہ ماحول ٹھنڈا ہوگیا ہے لوگ سکون میں ہیں تقریبات عروج پر ہیں اسکول، مساجد اور پارک بھرے ہوئے ہیں تو اس نے ناک بھوں چڑھایا اور سوچا ! یہ میری اولاد تو ٹھنڈی ہوتی جا رہی ہے برسوں محنت کی ہے میں نے اس پر اسے اتنی جلدی ہار نہیں ماننا چاہیے۔ اب مجھے ہی کچھ کرنا ہوگا تو لیجئے جناب پورے جوش اور بھرپور شیطانیت کے ساتھ کرونا کی امی جان اُُمِ کرونا (امیکرون) تباہ حال لوگوں کو اور تباہ کرنے دنیا میں انسانوں پر آدھمکی۔
کتنے دور اندیش تھے وہ لوگ جنہوں نے چاند پر پلاٹ بک کروائے تھے گوگل سرچ کرکے دیکھتے ہیں، تب پتہ چلے گا کہ وہ لوگ کرونا سے بچنے کے لیے چاند پر پہنچ گئے یا اس سے بھی کہیں آگے عالم برزخ پہنچ گئے۔
ہمارے گھر میں تین افراد پر اٌمِ کرونا فدا ہوگئی ہیں ہماری امی جان، بھیا اور آپی پر۔ان تینوں نے قرنطینہ کے نام پر ایک ایک کمرے پر قبضہ جما لیا ہے ابّا جان تو امی کے کمرے کے دروازے کے قدموں میں ہی پلنگ ڈالے پڑے ہیں اور ہم نے لاؤنج میں صوفے پر ڈیرہ جما لیا ہے البتہ ماسی خوش نظر ارہی ہے کہ تینوں کمروں کی صفائی سے جان بخشی ہوئی ہے۔
ویڈیو کال اور فون کال پر ہی سب رشتے داروں نے مزاج پرسی اور تیمارداری کرکے اپنا فرض نبھایا کیونکہ ہم سب مجبور ہیں ایک ان دیکھے وائرس سے۔سلائی والی آنٹی نے جب نئے سلے ہوئے سوٹ ہمیں بھجوائے تو اس کے ساتھ سوٹ کے کپڑے کے ماسک بھی بنے ہوئے رکھے تھے۔ سلائی والی آنٹی کو فون کرنے پر پتہ چلا کہ یہی فیشن چل رہا ہے، انہوں نے ایک آفر بھی دی کے ہم فینسی ماسک بھی بناتے ہیں ستارے موتیوں اور کڑھائی والے ان کا بھی پیکج ہے جو پیکج آپ لینا پسند کریں۔
نہ جانے کتنے ابہام ذہن میں گردش کر رہے ہیں۔ابھی تو ہم ڈر کے مارے اس قابل بھی نہیں ہوئے کی واٹس ایپ یا فیس بک پر اپنا اسٹیٹس لگائیں۔
I am vaccinated
کیوں کہ ابھی تو ہم اکّڑ بکّڑ ہی کر رہے تھے کہ چائنا کی ویکسین لگوائیں، کینیڈا کی یا پاکستانی کے اچانک، اْمِ کرونا سے پہلے بوسٹر بھی آٹپکا۔سوچ رہے ہیں ڈائریکٹ بوسٹر ہی لگوا لیں۔
یہ بلائے ناگہانی ہے بس...
ٹک ٹاک ایک نشہ
ٹک ٹاک مختصر ویڈیو کی ایسی ایپ ہے جس میں وہی ویڈیو چلتی ہے جو ’’مختصر‘‘ ہو۔بس ایک ویڈیو وائرل ہونے کی دیر ہے پھر آپ ایک ہی رات میں ہیرو بن گئے۔گویاٹک ٹاک سوشل میڈیا کا ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جس میں وہی ویڈیو وائرل ہوتی ہے جس میں سب کچھ’’ پلیٹ‘‘میں رکھ کر پیش کیا جائے۔بلکہ نوجوان نسل تو وائرل ہونے کے لئے ایسی اشیاء بھی ’’پیش‘‘ کر دیتی ہیں جن کا پیش نہیں ’’زیر‘‘میں ہونا ہی معیاری،مناسب اور اخلاقی ہوتا ہے۔مگرچائنہ والوں کو کون سمجھائے کہ جس لباس کو ہم پاکستانی اعلیٰ اخلاقی اقدار سے گرا ہوا سمجھتے ہیں ان کے ہاں وہ لباس اعلی اقدار کا حامل سمجھا جاتا ہے۔بلکہ یوں کہنا مناسب ہوگا کہ لباس کا صرف سرا ہی نظر آتا ہو تو اسے اخلاقی لباس سمجھا جاتا ہے۔چائنہ اور یورپ میں تو اسی کی زیبائش مناسب ہوتی ہے جس کی ’’نمائش ‘‘زیادہ ہو۔ ان کے سامنے تو بھاری بھر کم فراک،غرارہ و شرارہ زیب تن کر کے جائیں تو وہ حیران ششدر رہ جاتے ہیں کہ ان کا ناتواں جسم ایسا لباس ’’کیری‘‘ کرتاکیسے ہے۔شائد اسی وجہ سی چینی اور یورپی خواتین وہی لباس زیب تن کرتی ہیں جو ہمیں زیب نہ دیتا ہو۔
میں نے اپنے انتہائی معصوم و سادہ دوست شاہ جی سے ایک معصومانہ سوال کیا کہ مرشد ٹک ٹاک پر کیسے وائرل ہوا جاتا ہے۔شاہ جی نے شانِ بے نیازی (بے نیازی کو کسی نیازی سے نہ ملایا جائے )اور لاپروائی سے جواب دیا کہ فی زمانہ ٹک ٹاک ہی نہیں ہر جگہ وائرل ہونے کا ایک فارمولہ ہے۔میں نے متجسسانہ انداز میں پوچھا کہ مرشد وہ کیا۔فرمانے لگے۔’’جو دکھتی ہے وہ بکتی ہے‘‘یعنی جو دکھتا ہے وہی بکتا ہے۔شاہ جی کے جواب پر سوال در سوال ذہن میں کود آیا کہ کیا اس فارمولہ کا اطلاق صنف نازک(جسے میں ہمیشہ صنف آہن کہتا ہوں)پر ہی ہوتا ہے یا صنف معکوس بھی اس زد میں آتے ہیں۔کہنے لگے فارمولہ تو وہی ہے بس الفاظ کے چنائو کو بدلنا ہوگا،یعنی۔۔۔۔۔یعنی مرد حضرات کے لئے الفاظ بدل کر ایسے ہو جائیں گے کہ ’’جو بَکتا ہے وہ بِکتا ہے‘‘
چین نے جب ٹک ٹاک ایپ متعارف کروائی تو اس کا مقصد سیلیکون شہر میں بیٹھ کر ایسی مختصر مدتی ،مختصر ویڈیو،مختصر لباس میں بنا کر پیش کرنا تھاکہ جو اپلوڈ ہوتے ہی وائرل ہو جائے،اور ایسا ہی ہوتا تھا۔اس لئے ہماری نوجوان نسل بھی چین کے نقش پا پر اپنے قدم جمائے ویسی ہی مختصر ویڈیو بناتے ہیں جو وائرل ہو جائے۔مجھے حیرت یہ نہیں کہ آج کی نسل سستی شہرت کے لئے ایسا کیوں کرتی ہے۔پریشانی یہ ہے کہ انہیں شہرت مل بھی جاتی ہے۔اب تو ٹک ٹاک بھی ایک حمام سا ہی دکھائی دیتا ہے ،وہ جس کے بارے میں اکثر سیاستدان بیان بازی کیا کرتے ہیں کہ اس حمام میں سبھی ننگے ہیں۔اب تو ٹک ٹاک دیکھ کر بھی لگتا ہے کہ اس حمام میں بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ویڈیو وائرل ہونے کے بارے میں ایک دوست کی بات یاد آگئی ،اس نے ایک دن مجھ سے پوچھا کہ یار ابھی تک...