میڈیا یا جرائم کی ورکشاپس؟

پاکستان کے چھوٹے بڑے شہروں میں سوشل کرائم میں روز بروز اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے جن میں خود کشی ،قتل، بچوں سے زیادتی کے واقعات پیش پیش ہیں اور اس کی کئی ایک وجوہات میں سے ایک وجہ وہ چھوٹی سی اسکرین ہے جس میں سارے جہاں کا گند بھرا ہے جو ڈیڑھ سال کے بچے سے لے کر اسّی سال کے بوڑھے کی دسترس میں ہے۔خصوصا ٹین ایجرز پر کنٹرول رکھنا والدین کی دسترس سے باہر ہے۔ حکمرانوں کی کرپشن نے جہاں اداروں کو نقصان پہنچایا وہیں نوجوان نسل کی بربادی کی ذمہ داری بھی انہی پر آتی ہے۔پاکستان کی آدھی آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے لیکن حکومتی نااہلی کے سبب نہ ان کے پاس کھیل کے مواقع ہیں نہ تعلیم و روزگار کے۔
آج پاکستانی نوجوان کے پاس سستی تفریح جو ان کی دسترس میں ہے وہ ہے نیٹ، موبائل، سوشل میڈیا(ٹیوٹر، فیس بک، انسٹاگرام، واٹس اپ)۔ ہیلتھی ایکٹیویٹی کے نام پر کوئی ایک ادارہ جو حکومتی سطح پر قائم کیا گیا ہو جہاں سے عوام فائدہ اٹھا رہے ہوں موجود نہیں۔ ہاں موجود ہیں شہر کی ہر شاہراہ پر پڑھائی کے نام پر مہنگے ترین تعلیمی ادارے جو بہترین مستقبل کا لالچ دے کر متوسط طبقے کے جیب سے روپیہ نکال عوام کی مشکلات میں مزید اضافہ کرتے ہیں۔ اور یہ مہنگے ترین ادارے علم فراہم نہیں کرتے بلکہ پروفیشنل پڑھائی کے نام پر نوجوانوں کو کارپوریٹ کلچر کا حصہ بناتے ہیں اور ان اداروں سے ہر سال سینکڑوں کی تعداد میں bachelor or masters پاس آؤٹ ہوتے ہیں جن کے پاس علم کے نام پر ایک عدد کاغذ کا ٹکڑا ڈگری کی شکل میں موجود ہوتا ہے اور جن کے مقدر میں سڑکوں کے دھکے یا پھر بیرون ملک ملازمت کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا۔
یہ بات تھی مڈل کلاس کی،لیکن ہمارے ملک میں ایک طبقہ مڈل کلاس سے بھی نیچے ہے جن کے مسائل تعلیم و تفریح نہیں ہیں بلکہ زندگی کی بنیادی ضروریات ہیں جو ان کی دسترس سے باہر ہیں یہاں بھی حکومتی کارکردگی صفر ہے اور ان کی زندگی میں مزید مشکلات پیدا کرتاہے میڈیا۔ ہمارا نام نہاد روشن خیال ہر قید سے آزاد الیکٹرانک میڈیا۔جس کے ناظرین ہر طرح کی فحاشی عریانی غیر اخلاقی سستی تفریح کا یہ ذریعہ اپنانے پر مجبور ہیں یہ میڈیا ہر قسم کی پروڈکٹ عورتوں کے ذریعے بیچ کر اپنے ناظرین کو باور کرواتا ہے کہ عورت کی حیثیت ایک ٹکٹ یا ٹیگ سے زیادہ نہیں۔ اخلاقیات سے گرے ڈرامے ٹیلی فلم اشتہارات جرم کی داستان دکھا کر اپنے ناظرین کی برین واشنگ کرتاہے۔انہیں جرائم پر اکساتا ہے اسے کر گزرنے کے طریقے سکھاتا ہے وہ بنیادی ضروریات جن سے یہ محروم ہیں انھیں حاصل کرنے کے طریقے دکھاتا ہے۔مختصر یہ کہ ملکی سطح پر مجرم تیار کرنے کی ورکشاپ الیکٹرانک میڈیا کی صورت ملک کے ہر گھر میں موجود ہے اور میڈیا مالکان اپنے کام میں آزاد ہیں جیسے چاہیں مجرم تیار کریں ملک کو جرائم کا گھر بنائیں اور خود نامعلوم افراد کی طرح آزاد گھومتے رہیں۔
یہ انہونی کہیں اور نہیں میرے اور آپ کے ملک پاکستان میں ہو رہی ہے جہاں دہشت گردی سے نجات کے لیے کئی فوجی آپریشن کئے گئے لیکن میڈیا کی دہشت ہر جگہ ایسے بیٹھی ہے کہ سب خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں کیا حکومت ،کیا پیمرا ،کیا عدالتیں سب نے چپ کا روزہ رکھا ہوا ہے۔
روزہ سے یاد آیا اب رمضان المبارک میں میڈیا مزید دہشت گردی پر اتر آئے گا۔دین کے ٹھیکیدار کا کردار ادا کرنے کیلئے نت نئے حربے آزمائے گا ماڈلز اور ایکٹریس اب دین سکھانے کا فریضہ سرانجام دیں گی دین کو توڑ مروڑ کر پیش کیا جائے گا اور لوگوں کے ذہنوں میں دین کے بنیادی عقائد کے حوالے سے شکوک وشبہات پیدا کئے جائیں گے۔میڈیا کے لئے نہ سارا سال کوئی حدود و قیود تھیں اورنہ رمضان المبارک میں ہونگی۔مادرپدر آزاد میڈیا کی دہشت گردی حدود پھلانگ چکی ہے مگر اسے روکنے والا کوئی نہیں۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں