ایمان مغازی الشرقاوی
ترجمہ: ڈاکٹر میمونہ حمزہ
(۲)
یہ اس دنیا کی زندگی کا سب سے بڑا راہزن ہے؛ بلکہ وہ اس طویل راستے پر راہزنوں کا لیڈر اور انکا رہنما ہے،اس نے اس پر قسم کھائی ہے، اور بار بار کوشش کی ہے، بلکہ وہ اب تک ہر بنی آدم کے لئے اس کی کوشش کر رہا ہے، خواہ انکا کوئی بھی رنگ، شکل، زبان اور طبقہ ہو؛ تاکہ وہ انکے دلوں میں محفوظ ایمان چرا لے، وہ انکی پہلی پیدائش کے دن سے انکی پہلی فطرت چرانے کے لئے کوشاں ہے ۔۔ وہ چاہتا ہے کہ انکی اس فطرت کو مسخ کر ڈالے، تاکہ اسکا وجود تک باقی نہ رہے، یا وہ اسکی جگہ کچھ اور طریقہ اپنا لیں، یاوہ اسے بدل ڈالے، تاکہ وہ اور بنی آدم ایک ساتھ برابر ہو جائیں، وہ انکے بھلائی کے راستے کو کاٹتا ہے، جو سیدھا مالک الملک تک پہنچتا ہے، اس کی کوشش کچھ لوگوں کے ساتھ کامیاب ہو جاتی ہے اور کچھ کے مقابلے میں ناکام، لیکن وہ خود اس سفر کے اختتام پر پریشان حال اور مغلوب ہو گا، اس پر لعنت چسپاں ہو گی، اور وہ کھلے نقصان میں گھرا ہوا ہو گا، کیونکہ اسکے اندر تکبر تھا، اور ٹیڑھ اور گمراہی تھی اور وہ دھوکے باز تھا۔
تو کیا ہم پسند کریں گے کہ یہ ملعون ہمارا راستہ کاٹے، جبکہ ہم دنیا کی اس زندگی میں اﷲ عزوجل کی جانب چل رہے ہوں؟ اور کیا ہم اس راستے پر بلا کسی حفاظت اور بلا اسلحہ نکل کھڑے ہوں گے؟!
وہ جن لوگوں کا اغواء کرتا ہے، اسکی ذمہ داری بھی قبول نہیں کرتا، اور جوابدہی کے احساس سے نکلنا چاہتا ہے، اسکی اس گفتگو کو قرآن نے بھی بیان کیا ہے: (وقال الشیطن لما قضی الامر ان اﷲ وعدکم وعد الحق ووعدتکم فاخلفتکم وما کان الا ان دعوتکم فاستجبکم لی فلا تلومونی ولوموا انفسکم ما انا بمصرخکم وما انتم بمصرخی انی کفرت بما اشرکتمونی من قبل ان الظالمین لھم عذاب الیم) (ابراہیم، ۲۲) (اور جب فیصلہ چکا دیا جائے گا تو شیطان کہے گا ’’حقیقت یہ ہے کہ اﷲ نے جو وعدے تم سے کئے تھے وہ سب سچے تھے اور میں نے جتنے وعدے کئے ان میں سے کوئی بھی پورا نہ کیا۔ میرا تم پر کوئی زور تو تھا نہیں، میں نے اس کے سوا کچھ نہیں کیا کہ اپنے راستے کی طرف تم کو دعوت دی اور تم نے میری دعوت پر لبیک کہا۔ اب مجھے ملامت نہ کرو اپنے آپ ہی کو ملامت کرو۔ یہاں میں نہ تمہاری فریاد رسی کر سکتا ہوں اور نہ تم میری۔ اس سے پہلے جو تم نے مجھے خدائی میں شریک بنا رکھا تھامیں اس سے بری الذمہ ہوں، ایسے ظالموں کے لئے تو دردناک سزا یقینی ہے۔‘‘ )
اور تمہارا کیا حال ہو گا اے انسان جب تمہارے گھر کے راستے میں تمہیں ایک مکاردشمن مل جائے، اور تمہارے گھر جانے کا ہر راستہ بند کر دے، اور تمہارے لئے انتہائی سرکش اور عنادی اور لڑاکا دشمن بن جائے، اسکی ظاہری اور خفیہ فوج کا اتنا بڑا لشکر ہو کہ شمار بھی نہ ہو سکے، اسکے پاس دل کی تباہی کا ہر نوع اور ہر شکل کا اسلحہ ہو، اسکا لشکر طویل جنگ سے اکتاتا اور گھبراتا بھی نہ ہو، اور مسلسل استعمال کے باوجود اسکا اسلحہ کند نہ ہوتا ہو، اسے آپ سے پہلے موت بھی نہ آئے گی، کہ آپ کو اس سے سکون مل جائے ۔۔ اسکے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ نصیحت اس پر اثر نہیں کرتی، اور نہ ہی وہ تعریف سے متاثر ہوتا ہے، نہ آپ کرم سے اسے مسحور کر سکتے ہیں، نہ باتوں سے نرم کر سکتے ہیں، نہ ملامت سے اسے جھکا سکتے ہیں، نہ صلح پر مجبور کر سکتے ہیں ۔۔ کیا آپ کسی کشمکش کے بغیر ہی اس کے سامنے ہتھیار ڈال دیں گے، یا بڑے چوکنا ہو کر اسکی بات سنیں گے؟؟
اور کیا ہو گا اگر اس نے آپ کو آپکے گھر ہی میں داخل ہونے سے روک دیا، اور آپ کو اس سے روکنے کے لئے مکمل اصرار کیا، ایسے میں کیا آپ کے لئے مناسب نہ ہو گا کہ بادشاہوں کے بادشاہ سے مدد حاصل کر لیں، اور اس پر کامیابی حاصل کرنے کے لئے اسکی پناہ میں آجائیں، پھر پوری قوت اور پورا زور لگا دیں اور طویل کشمکش کے بعد آخر کار اپنے گھر میں داخل ہو جائیں، خواہ اس کو روکنے میں کتنی ہی مشقت اور محنت کیوں نہ لگانی پڑے، آپ نے صبر بھی کیا اور جمے بھی رہے، جہدِ مسلسل جاری رکھی، آپ کے پائے استقلال میں لغزش نہ پیدا ہوئی، آپ نے اپنے جہاد پر پوری توجہ مرکوز رکھی، حتی کہ آپ نے اپنی مراد پا لی۔
اور اس ساری قوت کے باوجود، آپ جب تک مومن ہیں وہ آپ کے سامنے کمزور ہے، جب تک آپ مجاہدہ کرتے رہتے ہیں وہ آپ سے ڈرتا رہتا ہے، اور جب تک اس جنگ میں آپ اﷲ سے مدد حاصل کرتے رہتے ہیں وہ شکست خوردہ رہتا ہے، کیونکہ اس نے اس بادشاہِ عظیم کی نافرمانی کی ہے، اور اس قوی اور غالب عزوجل کے اطاعت سے فاسقانہ انداز میں نکل گیا ہے۔
اسکی چالیں کمزور ہیں:
اے انسان تو اس سے لڑائی میں متردد مت ہونا، اسکے سامنے تن کر کھڑا ہو جا، اور اسکی طاقت سے خوفزدہ نہ ہونا، وہ جتنی مرضی طاقت حاصل کر لے، حقیقت میں وہ کمزور ہی رہے گا، جتنا مرضی بلند ہو جائے، نامراد ہی رہے گا، اور کامیاب بھی ہو جائے تو شکست خوردہ ہی رہے گا ۔۔ کیونکہ یہ قوت اسکے مقرب دوستوں کی طرف نہیں پلٹتی، جو اسکی سچی بادشاہت سے نکل گئے ہیں، اور اسکے حکم سے باہر ہیں، اس دشمن کی حکمرانی تو صرف ان دلوں پر ہے، جن کو وہ دھوکہ دیتا ہے، اور وہ اسے اﷲ کو چھوڑ کر اپنا ولی بنا لیتے ہیں، اور اسکے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ انکے لئے خائن ہی ہے، اگرچہ وہ ان پر اپنی خیرخواہی اور ذہانت ثابت کرتا رہتا ہے، اور جب بھی اپنی محبت اور دوستی کا اظہار کرتا ہے تو فراڈ ہی کرتا ہے، کیونکہ اسکی قوت بھی دھوکہ ہے، اسکے پاس کچھ بھی نہیں ہے، اور اسکے اولیاء اور دوستوں پر جب بھی اس کی قلعی کھلتی ہے وہ جان لیتے ہیں کہ وہ ان کے حق میں کتنی خیانت کرتا رہا، تو وہ اس سے دور ہٹ جاتے ہیں، وہ نہ اسکے احکام کی پابندی کرتے ہیں اور نہ اسکی نصیحت قبول کرتے ہیں، وہ اسی لمحے رشد اور صواب کی جانب پلٹ جاتے ہیں، اور اپنا معاملہ اپنے آقا اور اپنی زندگیوں کے مالک سے درست کر لیتے ہیں، جو انکا حقیقی مالک اور رب ذو الجلال والاکرام ہے؛ تاکہ وہ اسکی حفاظت میں عزت اور امن کی زندگی بسر کریں۔
اس دشمن کی قوت اس لحاظ سے بھی کمزور ہے کیونکہ انسانوں ہی کی ایک صنف قلبی طور پر اس سے زیادہ قوی ہے، وہ اس سے بڑے جنگجو ہیں، اسکے چالیں ان پر اثر نہیں کرتیں، وہ نہ اسکی ترغیبات سے متاثر ہوتے ہیں نہ اسکی مکاریوں کے جال میں پھنستے ہیں، بلکہ اسکی مکاریوں کے سامنے ڈٹ جاتے ہیں، اور اسکی چالوں کا بھید کھول دیتے ہیں، اور اسکی ٹیڑھ کا اظہار کر دیتے ہیں، اور دوسرے لوگوں کے سامنے اسکے جھوٹ اور مکر کا پول کھول دیتے ہیں۔
اﷲ تعالی نے ہمیں شیطان مردود سے بچنے کی تعلیم دی ہے، اور قرآن پاک میں کئی جگہ اسکا ذکر اسکی تعظیم کے لئے نہیں کیا، بلکہ اس سے چوکنا کرنے کے لئے کیا ہے، پس ابلیس کا ذکر (۱۱) گیارہ مقامات پر کیا گیا، اور شیطان (واحد) کا ذکر (۶۳) تریسٹھ مرتبہ کیا، اور شیاطین (جمع) کا ذکر (۱۳) تیرہ مرتبہ کیا ۔۔ اور یہ انسان اور اسکے اس دشمن کے تعلقات کی اہمیت کی دلیل ہے ، جو انسان کی پیدائش سے لیکر اسکی زندگی کے آخری لمحے یعنی موت تک مسلسل اس سے دشمنی کرتا ہے، اور اسے اﷲ کے راستے سے روکنے کے لئے سرگرم رہتا ہے۔
نبی اکرم ﷺ کا ارشاد ہے: بنی آدم کا جو بچہ بھی پیدا ہوتا ہے اسکی پیدائش کے ساتھ ہی شیطان اسے چھو لیتا ہے، پس وہ شیطان کے چھونے سے چلانے لگتا ہے، سوائے مریم اور انکے بیٹے کے‘‘ (اسے بخاری نے روایت کیا ہے)۔ اور مزید فرمایا: ’’شیطان کہتا ہے: اے رب تیری عزت کی قسم، میں تیرے بندوں کو اسوقت تک گمراہ کرتا رہوں گا، جب تک انکے جسموں میں روحیں موجود ہیں ۔۔ ‘‘۔(اسے احمد نے روایت کیا، اور سیوطی نے اسے درست کیا)۔ اور حسن بصری سے سوال کیا گیا: کیا ابلیس سوتا بھی ہے؟ انہوں نے فرمایا: اگر سوتا تو ہمیں راحت مل جاتی۔
ہمارے اور شیطان کے درمیان معرکے کی ابتدا اسوقت ہوئی جب ہمارے باپ آدم ؑ کو تخلیق کیا گیا، اور ابلیس نے ان سے جنگ کا اعلان کیا، اور اسے فیصلے کے دن تک بلا توقف ہرقیمت پر مستقل جاری رکھنے پر اصرار کیا، اور اسے ذرا حیا نہ آئی جب اس نے اپنے عزوجل رب کی نافرمانی کی، اور انکار اور تکبر کیا، اور اسکے حکم سے روگردانی کی ۔۔ وہیں اﷲ نے اپنے بندے آدم کو اس دشمن سے چوکنا کر دیا تھا، اور اس سے فرمایا تھا: (فقلنا یا آدم ان ھذا عدو لک ولزوجک فلا یخرجنکما من الجنۃ فتشقی) (طہ، ۱۱۷) (ہم نے آدم سے کہا کہ ’’دیکھو، یہ تمہارا اور تمہاری بیوی کا دشمن ہے، ایسا نہ ہو کہ یہ تمہیں جنت سے نکلوا دے اور تم مصیبت میں پڑ جاؤ۔)
لیکن یہ دشمن دھوکے، بددیانتی، جھوٹ اور غلط بیانی سے لیس ہو کر آدم کے سامنے آیا، اور ان سے مکاری کی، حتی کہ انہیں اور انکی بیوی کو جنت سے نکلوا دیا، اور انکے ساتھ ہی نیچے اترا، اور اولادِ آدم کے ساتھ اس کا قبیح کردار شروع ہو گیا، تاکہ قیمت کی گھڑی کے آنے تک انکو تختہء مشق بناتا رہے، وہ مسلسل اپنے مشن پر رہتا ہے اگرچہ اسکے اغوا اور دھوکے کے انداز بدلتے رہتے ہیں، اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اسکی ابتلاء اور امتحان کے طریقے بدل گئے ہیں ۔۔ پس ہمیں ایمان کی حقیقی زرہ پہن لینی چاہیے، اور اطاعت کو بھی دوگنا کر دینا چاہیے، اور دائمی عبادات سے قوت حاصل کرنی چاہیے تاکہ اﷲشروع میں ہی اسکی چال کو اسی پر لوٹا دے، اور اسکا راستہ بند ہو جائے۔
اقدامات اور مراتب:
شیطان انسان کے پیچھے پڑا رہتا ہے، اور اسوقت تک سائے کی طرح اس کا تعاقب کرتا رہتا ہے جب تک وہ اسکی پارٹی میں شامل نہ ہو جائے، اور اسکا طریقہ بڑا آسان ہے، وہ ایک ایک قدم آگے بڑھتا چلا جاتا ہے، حتی کہ اسکا ہدف پورا ہو جائے۔ اس کو امام غزالی اس طرح بیان کرتے ہیں: ’’شیطان ابنِ آدم کے پاس اسکے گناہوں کی جانب سے آتا ہے، پھر اگر وہ رک جائے تو وہ خیرخواہی کی جانب سے اس کے پاس آتا ہے، اور اسے بدعت میں ڈال دیتا ہے، اگر وہ اس سے بھی انکار کردے تو وہ اسے رکنے کا حکم دے دیتا ہے تاکہ وہ پوری شدت سے ان چیزوں کو حرام بنا لے جو حرام نہیں ہیں، اگر وہ اس سے بھی انکار کر دے تو وہ اسے اسکے وضو اور نماز میں شک میں مبتلا کر دیتا ہے تاکہ وہ علم سے نکل جائے، اگر وہ اس سے بھی انکار کر دے تو وہ اسکے لئے نیکیاں کرنا آسان کر دیتا ہے تاکہ لوگ اسے دیکھیں کہ وہ کتنا صابر اور بچنے والا ہے، پس وہ بھی لوگوں کی جانب متوجہ ہو جاتا ہے، اور اسے خود بھی (اپنے یہ اعمال) اچھے لگتے ہیں، اور وہ انہیں کے ذریعے اسے ہلاک کر دیتا ہے‘‘۔
اور شیطان مختلف مراتب میں ایک کے بعد دوسرا وار کر کے (انسانوں کا) اغوا کرتا ہے، اگر انسان اسے کسی ایک میں عاجز کر دے تو وہ اس سے نچلے پر آجاتا ہے، اور ابنِ القیم ۔ رحمہ اﷲ ۔نے اسے چھ مراتب میں تقسیم کیا ہے:
پہلا : کفر اور شرک اور اﷲ اور اسکے رسول کی برابری۔
دوسرا: بدعت، اور یہ اسے فسق اور معاصی سے بھی زیادہ پسند ہے؛ کیونکہ اسکا دین کو ایسا ہی نقصان ہے جیسا کسی چھوتی مرض سے ہوتا ہے۔
تیسرا: ہر طرح کے کبائر۔
چوتھا: صغیرہ گناہ جو اگر جمع ہو جائیں تو انکا ارتکاب کرنے والا ہلاکت میں پڑ سکتا ہے۔
پانچواں: بندے کا ایسے مباح کاموں میں مشغول رہنا جن میں نہ کوئی سزا ہے نہ جزا، بلکہ انجام کار ثواب کا ضیاع ہے جو وہ کسی اور کام میں مشغول ہو کر حاصل کر سکتا تھا۔
چھٹا: یہ کہ اسے بڑے درجے کی نیکی سے ہٹا کر کم فضیلت کی نیکی میں لگا دے۔
اور اگر وہ انسان کو ان چھ مراتب میں بھٹکانے سے عاجز آجائے تو وہ اس پر جن و انس کے شیطانی گروہ مسلط کر دیتا ہے، جو اسے مختلف اذیت میں مبتلا کرتے ہیں، اور اسکی تکفیر اور تضلیل کرتے ہیں۔
اﷲ تعالی نے ہمیں ان سب سے ڈرایا ہے، پس فرمایا: (یا ایھا الذین آمنوا لا تتبعوا خطوات الشیطان فانہ یامر بالفحشاء والمنکر ولو لا فضل اﷲ علیکم ورحمتہ ما زکی منکم من احد ابداً ولکن اﷲ یزکی من یشاء واﷲ سمیع علیم) (النور، ۲۱) (اے لوگو جو ایمان لائے ہو، شیطان کے نقشِ قدم پر نہ چلو، اسکی پیروی کوئی کرے گا تو وہ اسے فحش اور بدی ہی کا حکم دے گا۔ اگر اﷲ کا فضل اور اسکا رحم وکرم نہ ہوتا تو تم میں سے کوئی شخص پاک نہ ہو سکتا، مگر اﷲ ہی جسے چاہتا ہے، پاک کر دیتا ہے اور اﷲ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔)
اور اﷲ کی ہر نافرمانی شیطان کی پیروی سے عبارت ہے، جو وہ شہوات اور شبہات سے بھرے راستے پر قدم اٹھاتا ہے تاکہ لوگوں کو گمراہ کرے، اور یہ اسکے اقدامات کی طرح متنوع اور کثرت سے ہیں، ان میں بعض یہ ہیں:
نافرمانوں کی نگاہوں میں باطل کو مزین بنا کر پیش کرنا: وہ اﷲ عزوجل سے کہتاہے: (قال رب بما اغویتنی لازینن لھم فی الارض ولاغوینھم اجمعین) (الحجر، ۳۹) (بولا ’’میرے رب جیسا تو نے مجھے بہکایااسی طرح اب میں زمین میں انکے لئے دل فریبیاں پیدا کر کے ان سب کو بہکا دوں گا)۔ یعنی پہلے (برے اعمال کو) زینت دینا، پھر اغواء۔
بچاؤ کے منصوبے:
حدیثِ قدسی میں آیا ہے: ’’۔۔ اور میں نے اپنے تمام بندوں کو یکسو پیدا کیا تھا، شیاطین انکے پاس آتے ہیں اور انہیں انکے دین کے بارے میں دھوکے میں ڈال دیتے ہیں، اور جو میں نے انکے لئے حلال کیا ہے اسے حرام ٹھہرا دیتے ہیں، اور انہیں حکم دیتے ہیں کہ وہ میرے ساتھ ان کو شریک ٹھہرائیں، جن کے بارے میں میں نے کوئی سند نازل نہیں کی‘‘ (اسے مسلم نے روایت کیا ہے)۔
جب آپ کو معلوم ہو گیا کہ شیطان آپ کا اولین دشمن ہے، جب سے آپ کے باپ آدم کی تخلیق ہوئی، اور وہ عمل کرنے والے انسانوں کا راہزنی کا لیڈر ہے، تو آپ کی ذمہ داری ہے کہ اسکے مقابلے سے فرار مت حاصل کریں، آپ پر لازم ہے کہ آپ اسکے منصوبوں سے آگاہ ہوں، تاکہ اسکے منصوبے چوپٹ کر سکیں، اور اسکے داخل ہونے کے دروازوں سے آگاہ ہوں تاکہ وہ آپ کے دل کی دیوار میں شگاف نہ ڈال سکے، اور نہ آپ کی روح کی دیوار کو پاٹ سکے، اس لئے بندگی کا پہلے سے علم ہونا چاہیے، اور اس پر توجہ مرکوز ہونی چاہیے۔
پھر جب آپ جانتے ہیں کہ وہ آپ کے راستے میں کھڑا ہو کر آپکا راستہ کاٹے گا، اور جہالت کے دروازے سے آپ تک پہنچے گا تو آپ بلا تردد اسے علم کے دروازے سے بند کر دیں، اور تمام راہگزر پر آپ اسی طرح اسکے لئے ایک ایک دروازہ بند کرتے چلے جائیں، تو اسکے لئے تمام داخلی دروازے بند ہو جائیں گے، اور آپ ان سے اس کے برعکس چیزوں کا دفاع کریں گے؛ پس آپ غصّے کام دفاع تحمل اور اسکے اسباب سے کیجئے، او رتکبر کا دفاع عاجزی اور کندھے جھکا کر کیجئے، اور حبِ دنیا کا زہد، قناعت سے، لمبی آرزؤوں کا موت کی یاد سے، حرص کا عطا اور بخشش سے، بخل کا انفاق اور کرم سے، ریا کا اخلاص سے، جزع اور بے صبری کا صبر سے اور اسی طرح دوسرے تمام احوال کا دفاع انکے برعکس سے کیجئے ۔۔ اور یہ کام آپ سے شدید حفاظت، مکمل بیداری اور اﷲ سے استعانت کا مطالبہ کرتے ہیں: (وقل رب اعوذبک من ھمزات الشیاطین ۰ واعوذبک رب ان یحضرون ۰)(المومنون، ۹۷۔۹۸)(اور دعا کرو ’’پروردگار میں شیطان کی اکساہٹوں سے تیری پناہ مانگتا ہوں، بلکہ اے میرے رب، میں تو اس سے بھی تیری پناہ مانگتا ہوں کہ وہ میرے پاس آئیں‘‘)
قرآنِ کریم کی تنبیہات:
قرآن کریم میں شیطان کے کئی اخلاق اور اعمال کا ذکر ہے، جیسا کہ فرمایا:
۔کبر، حسد، خوش پسندی اور جھوٹ ۔۔
(قال انا خیر منہ خلقتنی من نار وخلقتہ من طین) (ص،۶ ۷) (اس نے کہا، ’’میں اس سے بہتر ہوں، آپ نے مجھ کو آگ سے پیدا کیا اور اس کو مٹی سے‘‘)
(یعدھم ویمنیھم وما یعدھم الشیطان الا غروراً) (النساء، ۱۲۰) (وہ ان لوگوں سے وعدے کرتا ہے، اور انہیں امیدیں دلاتا ہے، مگر شیطان کے سارے وعدے بجز فریب کے کچھ نہیں ہیں۔)
۔ انسان دشمنی اور اسکی گمراہی ۔۔
(ان الشیطان لکم عدو مبین) (یوسف، ۵) (حقیقت یہ ہے کہ شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔)
(ویرید الشیطان ان یضلھم ضلالا بعیداً) (النساء، ۶۰) (شیطان انہیں بھٹکا کر راہِ راست سے بہت دور لے جانا چاہتا ہے۔۔)
۔خوف دلانا اور معصیت کا حکم دینا ۔۔
(انما ذلکم الشیطان یخوف اولیاء ہ فلا تخافوھم وخافون ان کنتم مومنین) (آل عمران، ۱۷۵) (اب تمہیں معلوم ہو گیا کہ وہ دراصل شیطان تھا، جو اپنے دوستوں سے خواہ مخواہ ڈرا زہا تھا، لہذا تم آئندہ سے انسانوں سے نہ ڈرنا، مجھ سے ڈرنا اگر تم حقیقت میں صاحبِ ایمان ہو۔)
(الشیطان یعدکم الفقر ویامرکم بالفحشاء واﷲ یعدکم مغفرۃ منہ وفضلاً واﷲ واسع علیم) (البقرۃ، ۲۶۸) (شیطان تمہیں مفلسی سے ڈراتا ہے، اور شرمناک طرزِ عمل اختیار کرنے کی ترغیب دیتا ہے، مگر اﷲ تمہیں اپنی بخشش اور فضل کی امیددلاتا ہے۔)
۔ دشمنی بھڑکانا ۔۔
(وقل لعبادی یقولوا التی ھی احسن ان الشیطان کان للانسان عدواً مبیناً) (الاسراء، ۵۳) (اور اے نبیؐ ؐ، میرے بندوں یعنی مومن بندوں سے کہ دو کہ زبان سے وہ بات نکالا کریں جو بہترین ہو، دراصل یہ شیطان ہے جو انسانوں کے درمیان فساد ڈلوانے کی کوو شش کرتا ہے، حقیقت یہ ہے کہ شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔)
۔ ستر پر حملہ ۔۔
(یا بنی آدم لا یفتننکم الشیطان کما اخرج ابویکم من الجنۃ ینزع عنھما لباسھما لیریھما سوء اتھما) (الاعراف، ۲۷) (اے اولادِ آدم، ایسا نہ ہو کہ شیطان تمہیں پھر اس طرح قتنے میں مبتلا کر دے جس طرح اس نے تمہارے والدین کو جنت سے نکلوایا تھا اور انکے لباس ان پر سے اتروا دیے تھے تاکہ انکی شرم گاہیں ایک دوسرے کے سامنے کھولے۔)
۔ اﷲ کی تخلیق میں تغییر کا حکم ۔۔
(ولاضلنھم ولامنینھم ولآمرنھم فلیبتکن آذان الانعام ولآمرنھم فلیغیرن خلق اﷲ ومن یتخذ الشیطان ولیاً من دون اﷲ فقد خسر خسراناً مبیناً) (النساء، ۱۱۹) (میں انہیں بہکاؤں گا، میں انہیں آرزؤوں میں الجھاؤں گا، میں انہیں حکم دوں گا اور وہ میرے حکم سے جانوروں کے کان پھاڑیں گے، اور میں انہیں حکم دوں گا اور وہ میرے حکم سے خدائی ساخت میں رد وبدل کریں گے، ’’اس شیطان کو جس نے اﷲ کے بجائے اپنا ولی و سرپرست بنا لیا وہ صریح نقصان میں پڑ گیا۔)
۔ اﷲ کے ذکر سے روکنا ۔۔
(انما یرید الشیطان ان یوقع بینکم العداوۃ والبغضاء فی الخمر والمیسر ویصدکم عن ذکر اﷲ وعن الصلاۃ فھل انتم منتہون) (المائدہ، ۹۱) (شیطان تو یہ چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعے تمہارے درمیان عداوت اور بغض ڈال دے، اور تمہیں خدا کی یاد اور نماز سے روک دے، پھر کیا تم ان چیزوں سے باز رہو گے؟)
نبی اکرم ﷺ کی تحذیرات:
’’شیطان ابنِ آدم (کے جسم) میں خون کی طرح گردش کرتا ہے‘‘ (متفق علیہ)۔ ’’غصّہ شیطان سے ہے‘‘ (اسے احمد نے روایت کیا، اور سیوطی نے اسے حسن قرار دیا)۔ ’’بے شک شیطان اس بات سے مایوس ہو گیا ہے کہ کہ نمازی اسکی بندگی کریں، لیکن انہیں ایک دوسرے کے خلاف لڑانے سے (مایوس نہیں ہوا)‘‘ (اسے مسلم نے روایت کیا)۔ ’’شیطان ابنِ آدم سے مستعار لیتا ہے، اور بادشاہت سے مستعار لیتا ہے، پس شیطان جو کچھ مستعار لیتا ہے، اس کے ذریعے شر سے دھمکاتا ہے، اور حق کی تکذیب کرتا ہے‘‘ (ترمذی نے اسے روایت کیا، اور سیوطی نے اسے صحیح قرار دیا)۔ ’’شیطان ایک اور دو کو قلق میں مبتلا کرتا ہے، اور جب وہ تین ہوں تو انہیں قلق میں مبتلا نہیں کر سکتا‘‘ (اسے براز نے روایت کیا، اور سیوطی نے صحیح قرار دیا)۔ ’’شیطان انسان کا بھیڑیا ہے جیسے بکریوں کا بھیڑیا ہوتا ہے، وہ دور رہنے والی اور کنارہ اختیار کرنے والی بھیڑ کا شکار کر لیتا ہے، پس بچو اور گروہ میں رہو، اور تم پر لازم ہے جماعت اختیار کرنا، عام لوگوں میں رہنا اور مسجد (میں جانا)‘‘ (اسے احمد نے روایت کیا، اور سیوطی نے اسے حسن قرار دیا)۔’’شیطان تم میں سے ہر ایک کے پاس ہر چیز کے وقت موجود ہوتا ہے، حتی کہ وہ اسکے کھانے کے وقت بھی اسکے پاس ہوتا ہے‘‘ (اسے مسلم نے روایت کیا ہے)۔ ’’شیطان تم میں سے کسی کے پاس نماز میں موجود ہوتا ہے، تو وہ اسے شک میں ڈال دیتا ہے، حتی کہ وہ نہیں جانتا کہ اس نے کتنی (رکعتیں) پڑھی ہیں‘‘ (اسے ترمذی نے روایت کیا ہے، اور سیوطی نے اسے حسن قرار دیا ہے)۔
شیطان سے بچاؤ:
نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’کہو: اللھم فاطر السموات والارض، عالم الغیب والشھادۃ، رب کل شیء وملیکہ، اشھد ان لا الہ الاانت، اعوذبک من شر نفسی، ومن شر الشیطان، وشرکہ، قلھا اذا اصبحت، واذا امسیت، واذا اخذت مضجعک‘‘ (احمد نے اسے روایت کیا، اور سیوطی نے اسے صحیح قرار دیا)۔(اے اﷲ آسمان و زمین کو پیدا کرنے والے، غیب اور موجود کے جاننے والے، ہر چیز کے رب اور مالک، میں گواہی دیتا ہوں کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں، میں اپنے نفس کے شر سے تیری پناہ میں آتا ہوں، اور شیطان کے شر سے، اور اسکے شریکوں کے، اسے پڑھو صبح کے وقت اور شام کے وقت، اور اسوقت جب تم اپنے بستر پر لیٹو)۔
اور فرمایا: ’’جس نے کہا: لا الہ الا اﷲ وحدہ لا شریک لہ، لہ الملک ولہ الحمد، وھو علی کل شیء قدیر فی یوم مءۃ مرۃ ، کانت لہ عدل عشر رقاب، وکتبت لہ مءۃ حسنۃ، ومحیت عنہ ماءۃ سیءۃ، وکانت لہ حرزاً من الشیطان یومہ ذلک حتی یمسی، ولم یأت احد بافضل مما جاء بہ الا رجل عمل اکثر منہ‘‘ (اسے بخاری نے روایت کیا)۔ (اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے، اسکا کوئی شریک نہیں، اسی کے لئے بادشاہت ہے، اور حمد اسی کے لئے ہے، اور وہ ہر چیز پر قادر ہے، جس نے یہ ایک دن میں سو مرتبہ پڑھا ، اسے دس گردنیں چھڑانے کے برابر اجر ملے گا، اور اسکے لئے سو نیکیاں لکی جائیں گی، اور اسکی سو برائیاں مٹا دی جائیں گی، اور وہ اس دن اسے شیطان سے بچانے کے لئے کافی ہو جائے گا، چتی کہ شام ہو جائے، اور اس سے افضل کوئی چیز نہیں جو آدمی کو اس سے زیادہ دلا سکے‘‘ (اسے بخاری نے روایت کیا)۔
2 تبصرے
جواب چھوڑ دیں
اہم بلاگز
۔23 مارچ کا یادگار دن
قوموں کی زندگی میں بعض لمحات بڑے فیصلہ کن ہوتے ہیں جو اپنے نتائج اور اثرات کے اعتبار سے خاصے دور رس اور تاریخ کا دھارا موڑنے کی اہلیت رکھتے ہیں، 23 مارچ کا یادگار دن ہماری قوم کیلئے بڑی اہمیت کا حامل ہے اسکی ایک تاریخی حیثیت ہے کہ سنہ 1940ء میں لاہور کے تاریخی شہر میں برصغیر کے تمام مسلمانوں کے نمائندوں نے قائد اعظم کی زیر صدارت ایک تاریخی اجتماع میں حصول پاکستان کی قرار داد منظور کی تھی۔ تا کہ برصغیر کے مسلمانوں کیلئے مسلم قومیت کی بنیاد پر ایک آزاد ملک حاصل کیا جا سکے۔ جس پر نہ غیر ملکی استعمار کے تاریک سائے پڑیں اور نہ ہی ہندو اکثریت اور چیرہ دستیاں مسلمانوں کے ارفع مقاصد کی راہ میں حائل ہونے پائیں۔ مسلمانان برصغیر اپنے لئے ایک الگ وطن اسی لئے چاہتے تھے جہاں قرآن و سنت کی تعلیمات کی روشنی میں وہ ایک مثال اسلامی معاشرہ تشکیل دیں جہاں اسلامی عدل و انصاف کا دور دورہ ہوا اور جو عصر حاضر میں سرمایہ داری نظام اور اشتراکیت کی قوتوں سے پسی ہوئی انسانیت کیلئے مشعل راہ ثابت ہو۔ اس عظیم مقصد کے لئے 23مارچ 1940ء کولاہور میں بادشاہی مسجد کے قریب ایک وسیع و عریض میدان میں لاکھوں مسلمان اکٹھے ہوئے اور بنگال کے وزیر اعلیٰ مولوی فضل حق نے ایک قرار داد پیش کی جس کی تائید تمام مسلمانوں نے دل و جان سے کر دی جس سے ان کی قسمت کا پانسہ پلٹ گیا۔ اس دن لاہور میں مسلمانان ہند نے اپنی منزل کا اعلان کیا تھا اور دو ٹوک الفاظ میں کہا تھا کہ ہم ہندوستان میں مسلمانوں کیلئے آزاد خطوں کی جدوجہد کا اعلان کرتے ہیں۔
23 مارچ کو قرار داد کی منظوری کے بعد قیام پاکستان کی جدوجہد فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکی تھی۔ قوم کو ایک واضح نصب العین مل چکا تھا اور خوش قسمتی سے قائد اعظمؒ جیسے مدبر قائد میسر تھے جن کی قیادت سحر انگیز اور ولولہ انگیز ہونے کے علاوہ سیاست میں صداقت اور دیانتداری کی علمبردار تھی۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے تک مسلمانان ہند مسلم لیگ کے پرچم تلے متحد ہو چکے تھے۔ 1945ء میں وائسرائے ہند لارڈ ویول نے مسلم لیگ اور مطالبہ پاکستان کی مقبولیت اور دوسری جماعتوں کی طاقت کا اندازہ کرنے کیلئے انتخابات کروائے۔ کانگرس کے ایماء پر بننے والے مسلمانوں کے نام نہاد متحدہ محاذ کی مخالفت کے باوجود مسلم لیگ کو تاریخی فتح حاصل ہوئی اور مسلم لیگ مسلمانان ہند کی نمائندہ جماعت بن کر سامنے آئی اور اس طرح حصول پاکستان کی منزل قریب سے قریب تر ہو گئی۔ اکتوبر 1946 ء میں ایک عبوری حکومت قائم کی گئی جس میں مسلم نمائندگان کی قیادت خان لیاقت علی خان نے کی ادھر حکومتی ایوانوں میں قائد اعظم ؒمسلمانوں کے سیاسی حقوق کے تحفظ اور قیام پاکستان کیلئے سیاسی جنگ لڑ رہے تھے تو دوسری طرف ہندو مسلم فسادات نے پورے ملک کو بری طرح اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ ان فسادات میں لاکھوں مسلمان شہید ہوئے۔3 جون کو تقسیم ہند کے...
وہ دانائے سبل ختم الرسل
قارئین کرام یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ختم نبوت مسلمانوں کا قطعی اجماعی عقیدہ ہے، اس پر بیسیوں آیاتِ قرآنیہ اور سیکڑوں احادیث صحیحہ میں دلائل موجود ہیں۔ قرآن مجید میں وارد لفظِ خاتم النبیین میں کسی قسم کی تاویل اور تخصیص کی گنجائش نہیں ہے۔ اس میں تاویل و تخصیص کرنے والا دراصل قرآن و حدیث کی تکذیب کرتا ہے۔
چودہ سو سال سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے باوجود امتِ محمدیہ کا آج بھی اس پر اجماع ہے کہ مدعی نبوت اوراس کے پیروکارخارج از اسلام اور مرتد ہیں۔ تاریخ گواہ ہے جب بھی کسی باغی، طالع آزما یا فتنہ پرداز نے اپنے آپ کونبی کہنے کی جرأت کی، مسلمانوں نے اس کے خلاف بھرپورجہاد کیا۔ ہر مسلمان کا غیر متزلزل عقیدہ اور ایمان یہ ہے کہ حضور سرورِ عالم سیدنا محمدﷺ آخری نبی ہیں۔ حضورﷺ کی تشریف آوری کے بعد نبوت کا سلسلہ ختم ہو گیا۔ حضور اکرمﷺ کے بعد کوئی نیا نبی نہیں آسکتا اور جو شخص اپنے نبی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور جو بدبخت اس کے اس دعویٰ کو سچا تسلیم کرتا ہے وہ دائرہ اسلام سے خارج اور مرتد ہے اور اسی سزا کا مستحق ہے جو اللہ تبارک تعالیٰ نے مرتدکے لیے مقررکی ہے۔
بحیثیت مسلمان ازروئے قرآن و حدیث ہمارا اس بات پر پختہ یقین ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے آخری نبی اور رسول ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی آخری کتاب قرآن مجید ان پر نازل فرماکر دین کی تکمیل کردی اور قرآن کو تا قیامت محفوظ بھی کردیا۔ سلسلہ نبوت پر ختم کی مہر بھی لگادی آپ صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی و رسول ہیں آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی امت آخری امت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نہ کوئی نبی ہے نہ رسول ہے نہ تھا نہ تا قیامت ہوگا۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت آخری امت ہےاور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں۔ قرآن مجید میں اس بات کی صراحت مختلف آیات میں ملتی ہے۔ جیسا کہ سورہ احزاب کی چالیسویں آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہارے مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور سب انبیا کے آخر میں (سلسلۂِ نبوت ختم کرنے والے) ہیں اور اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھنے والا ہے۔
بہت سی احادیث میں بھی ختم نبوت کی تصدیق موجود ہے۔ حدیث مبارکہ ہے۔ میری اور مجھ سے پہلے انبیاء کی مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص نے ایک گھر بنایا، اس کو بہت عمدہ اور آراستہ پیراستہ بنایا مگر ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑدی، پس لوگ جوق درجوق آتے ہیں اور تعجب کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں یہ اینٹ کیوں نہیں لگادی گئی۔ آپ نے فرمایا: وہ اینٹ میں ہوں اور میں انبیاء کرام کا خاتم ہوں۔ اسی مفہوم کی ایک اور حدیث مبارکہ حضرت جابر بن عبداللہ رضى الله تعالى عنه نے بھی روایت کی ہے۔(صحیح البخاری، کتاب المناقب، باب خاتم النّبیین...
الوداع نہیں کہتے
بی بی سی جماعت اسلامی کی خبریں عموما نہیں لگاتا۔ لیکن اس نے یہ خبر بہت کم وقت میں دے دی کہ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق صاحب اپنے امارات عہدے سے مستعفی ہوگئے ہیں۔ہم جانتے ہیں بی بی سی کس کا چینل ہے۔ان کی نیتیں بھی یہ تھیں کہ اس خبر سے جماعت کو کمزور شکست خوردہ سمجھا جائے گا۔یہ خبر بھی سنی کہ حافظ نعیم صاحب نے دھاندلی والی نشست لینے سے انکار کردیا۔جو کہتے تھے کہ سیاستدانوں کا کوئی اخلاق نہیں ہوتا۔ان دیانتدار اور اعلی کردار کے حامل سیاست دانوں کو دیکھیں۔ایک نے ہاتھ آئی سیٹ ٹھکرا دی۔ دوسرے نے پارٹی کی سربراہی چھوڑ کر ثابت کر دیا کہ جماعت اسلامی میں عہدوں کی نہیں بلکہ ویلیوز کی اہمیت ہوتی ہے۔اور بےشک یہ احساسِ ذمہ داری فقط جماعت اسلامی میں پایا جاتا ہے۔
ان دونوں واقعات سے ہوا یہ کہ جماعت اسلامی کی جمہوریت شورائیت اور واضح ہوگئی۔ عوام جماعت اسلامی سے مذید متاثر ہوگئی۔ جی ہاں جماعت اسلامی عوامی مقبولیت حاصل کر چکی ہے۔ہر شعبہ ہائے زندگی کے لوگ اس کی دیانت خدمت کے قائل ہوچکے ہیں۔اس الیکشن کے بعد یہ مغالطہ ختم ہوچکا ہے کہ جماعت کا ووٹ بینک نہیں بنتا جماعت اسلامی کا کم ازکم یہ نتیجہ اس الیکشن میں تھا کہ اسے بلوچستان میں دو سیٹیں کے پی کے میں تین اور سندھ میں پندرہ سے زیادہ ہوتیں اگر زبردستی انتقال ہوئی پارٹی کے نئے جیون کی تیاری نہ ہوتی۔ ووٹ جماعت کو ملا ہے کراچی عوام نے اسے منتخب کیا ہے یہ ہاری نہیں اسے ہروایا ہے۔
یہ استعفی دراصل ہمارے قائد کی اعلی ظرفی ہے۔ انہوں اخلاقی طور سے اچھا کیا۔یہ استعفی ہر اس کارکن پر طمانچہ ہے۔جو سمجھتے ہیں کہ اس میں جماعت کا اس کی قیادت کا کوئی قصور ہے۔ ان سب حالات میں کسی کا کوئی قصور نہیں نہ کارکن کا قصوروار ہے نہ ہی امیر کا قصور ہے۔سمجھنے کی بات ہے کہ جماعت کا مقابلہ وقت کے اصل فرعون سے ہے۔ سیکولر لبرلز ساری طاقتیں مل کر اس کے خلاف ہیں اسلام کے دشمن فرعون نمرود ابو جہل دجالی فتنے آسان ٹاسک کسی بھی دور میں نہیں تھے۔ہمارے دور کے فرعون طاقت میں قدیم فرعون سے کہیں آگے ہیں۔الیکٹرانک میڈیا جماعت کو نہیں دکھاتا۔پرنٹ میڈیا جماعت پسند اسلام پسند تحریر نہیں چھاپتا۔عوام اگر قبولتی ہے اصل نتائج نہیں دیے جاتے۔قیادت کا کیا قصور وہ کیا اپنی جان مار دیں۔اس الیکشن کو آپ صلح حدیبیہ سے جوڑ لیں یقین کریں جماعت کی مقبولیت میں اضافہ ہی ہوا ہے۔جس عوام نے جماعت کو ووٹ دیا وہ اس کی شکست پر حیران ہے۔ جان چکی ہے کہ دینی جماعتوں میں خطرہ صرف جماعت اسلامی ہے۔عوام نے کبھی کسی موروثی مذہبی لیڈر یا پیر کو یوں اپنے عہدوں سے مستعفی ہوتے نہیں دیکھا۔جماعت اسلامی عوام کے لیے حل ہے تو باطل نظام کے لیے روک ہی روک ہے۔
یہ جماعت اسلامی کے لیڈر کی اعلی قیادت ہے۔جس میں حافظ نعیم الرحمن، مشتاق احمد صاحب، اکبر چترالی اور مولانا ہدایت الرحمن جیسے ہیرے پیدا کیے اور چمکنے کے خوب مواقع دیے۔سراج صاحب آپ...
حیا ہی پروانہ خیر
ویمن یونیورسٹی کی بس میں سب سے پہلی سوار ہونے والی حنا امتیاز معمول کے مطابق آج بھی کسی کتاب کی ورق گردانی میں گم تھی اس لیے اسے اپنے ارد گرد ہونے والی غیر معمولی ہلچل کا علم ہی نہ ہوا۔
آج کی کتب بینی نے اسے خاصا الجھن میں مبتلا کیا ہوا تھا فرانسیسی انقلاب کے وقت وہاں کی عوام نے قلم کاروں کی جس طرح پیروی کی وہ حیران تھی کہ کیسے کوئی قوم اپنے ہی جیسے انسانوں کے بنائے ہوئے افکار و نظریات کے پیچھے اندھا دھند چل پڑتی ہے چاہے وہ نظریات اخلاق سے کتنے ہی گرے ہوئے کیوں نہ ہوں۔
ڈرائیور کے ہارن کرنے پر اس نے کتاب سے سر اٹھایا تو بس مکمل خالی تھی اس کی ساتھی لیکچرار اور تمام طالبات بس سے پہلے ہی اتر چکی تھیں
یونیورسٹی میں داخل ہوتے ہی اسے اندازہ ہوگیا کہ آج کیا دن ہے؟
کلاس میں داخل ہوکرحنا نے ابتدائی سلام دعا کے بعد طالبات کی طرف معنی خیز مسکراہٹ سے دیکھا
“ پیاری لڑکیو! آج خیر سے آپ میں سے بیشتر لڑکیوں نے سرخ رنگ کے دوپٹے اور بعض نے تو پورا لباس ہی سرخ پہنا ہے”
“جی میم! آج ویلنٹائن ڈے ہے نا” کسی ایک طالبہ نے جواب دیا
تو ساتھ ہی کسی دوسری طالبہ نے مزید وضاحت بھی پیش کردی “میم اب وہ جونا مناسب سا ویلنٹائن سب مناتے ہیں ویسا تو ہم کچھ نہیں کر رہے بس سب نے سوچا کہ ایک تہوار آرہا تو چلومنا لیا جائے تفریح ہو جائے گی”
ہممم۔۔تویہ باقی طالبات آپ کے ساتھ شامل کیوں نہ ہوئیں؟ جی نائلہ آپ کا اس دن کے بارے میں کیا خیال ہے؟ حنا نے ایک طالبہ کو مخاطب کیا جوویلنٹائن ڈے منانے والی لڑکیوں میں شامل نہ تھی۔
میم میرے نزدیک ویلنٹائن اخلاقی لحاظ سے انتہائی نا مناسب تہوار ہے اوراس کا ایجنڈا حیا کے منافی ہے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث مبارکہ ہے
"جب تم حیا نہ کرو تو جو جی چاہے کرو"
نائلہ لیکن ہم کوئی نا مناسب حرکت تو نہیں کر رہے نا۔ ایک دوسری طالبہ نے نائلہ کو ٹوکا
جی جی ایسا ہی ہے میری شہزادی! آپ کی نیت بالکل صاف ہے آپ کا مقصد تفریح کے علاوہ کچھ نہیں ہے یہ مجھے معلوم ہے۔ حنا نے خوبصورتی سے دونوں کی بات چیت میں مداخلت کی اور بات کو مزید آگے بڑھایا۔
لڑکیو!بات دراصل یہ ہے کہ جب ہم خود کو اسلام کے دائرے میں داخل کردیتے ہیں نہ۔۔۔ تو شعوری طور پر حیا کا اختیار کرنا ہمارے لیے اس طرح ضروری ہوجاتا ہے جس طرح سانس لینے کے لیے ہوا میں آکسیجن کا ہونا ضروری ہے کیوں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ
” حیا ایمان کی شاخوں میں ایک شاخ ہے۔ “
لیکن اللہ کی پناہ ہم ایسے معاشرے کا حصہ بن چکے ہیں جہاں حیا کو کم اعتمادی اور ترقی پذیر عناصر کے برخلاف گردانا جاتا ہے اور یہ وہ نظریات ہیں جو ہمارے کچھ نامی گرامی مہذب طبقے نے مغربی معاشرے سے شاید عاریتاً لیے تھے اور اب سارے معاشرے میں تیزی سے سرایت کر تے جا رہے ہیں
اس...
مایوس مت ہونا
ڈاکٹر فہمیدہ آپ نے تو میرا ووٹ ضائع ہی کروا دیا۔ساجدہ بیگم اپنا چیک اپ کروانے آئی تو ساتھ ہی شکوہ کر بیٹھی،میرے شوہر نے کہا بھی تھا، کہ اس شہر میں جماعت کو کوئی نہیں جانتاووٹ ضائع ہوجائے گا،لیکن میں سمجھی کیا پتاقوم ایک موقع دے ہی دیں دین دار لوگوں کو، ساجدہ باجی تو گویا آج بھری بیٹھی تھیں۔ کیا آپ نےامیر جماعت سراج الحق صاحب کا بیان نہیں سنا؟ڈاکٹر فہمیدہ نے تمہید باندھی، جب ایک نیوز اینکر نے سراج الحق صاحب سےسوال کیا،لوگ جماعت اسلامی کو ووٹ کیوں نہیں دیتے؟ تو سراج الحق صاحب کا جواب تھا: ہر صبح فجر کے وقت مسجد سے اذان کی آواز آتی ہے” *حَیّ عَلی الْفَلاحِ حیّ عَلی الْفَلاحِ* اس آواز کو سن کر اگر کروڑوں لوگ سوتے ہیں اور چند ہزار لوگ اٹھ کر مسجدوں میں جاتے ہیں، تو یہ اس آذان یا موذن کی کمی نہیں ہے۔یہ تو ان لوگوں کی کمی ہے جنہوں نے نیند نہیں چھوڑی اور مسجد کی طرف نہیں دوڑے۔ اس لیے ہم تو اذان دیتے رہیں گےاور پکارتےرہیں گے کہ آو تمہاری دنیا اور آخرت کی کامیابی اس نظام میں ہے،جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا میں پیش کرچکے ہیں۔
نہیں ڈاکٹر صاحبہ میں تو سوچ رہی تھی ساجدہ باجی نے بات کاٹی،اتنا وقت کا ضیاع ہوا اتنا پیسہ خرچ ہوا اور گھرگھر جاکےسمجھایا بھی لوگوں کو بس اسی لیے نتیجہ دیکھ کرمایوس ہوگئی۔ سادہ طبیعت کی ساجدہ باجی پھر سے گویا ہوئیں۔ ساجدہ باجی کیا آپ نے وہ آیت نہیں پڑھی" الْمَالُ وَالْبَنُونَ زِينَةُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَالْبَاقِيَاتُ الصَّالِحَاتُ خَيْرٌ عِنْدَ رَبِّكَ ثَوَابًا وَخَيْرٌ أَمَلًا"(مال اور اولاد تو دنیا کی زندگی کی رونق ہیں، اور تیرے رب کے ہاں باقی رہنے والی نیکیاں ثواب اور آخرت کی امید کے لحاظ سے بہتر ہیں۔) اس لیے میری بہن یہ ہرگز نہ سوچو کہ ہمارا پیسہ یا وقت ضائع ہوا،ارے اس کا اجر تو اللہ تعالٰی کے ذمہ ہے۔
ہماری ساری تگ ودو اللہ کے دین کو قائم کرنے اور اس ملک میں قرآن کا قانوں نافذ کرنے کے لیے ہے۔ہم نے بالکل مایوس نہیں ہونا اللہ کو ہماری یہی کوشش ہی درکار ہے۔اللہ پاک اپنے جن بندوں سے محبت کرتا انھیں آزمائش میں بھی ڈالتاہےتاکہ پتا چل سکے کون سخت وقت پہ ثابت قدم رہتاہےاور کس کے قدم ڈگمگاتے ہیں،ڈاکٹر فہمیدہ نے نرمی سے سمجھایا۔پھر تو ڈاکٹر صاحبہ ہمیں دوبارہ سے اس مہم کی تیاری میں جُت جانا چاہیے۔بالکل میری بہن!نظام کب نافذ ہوگا یہ تو اللہ ہی جانتا ہے،لیکن ہماری کوشش تو ہرحال میں جاری رہنی چاہیے۔ ہم تو اللہ کے سامنے عزر پیش کرنے والے بن سکیں، کہ اے اللہ میں نے اپنی پوری کوشش کی جہاں تک ہوسکا میں نکلی،جہاں مجھے پکارا گیا میں نے لبیک کہا، میرے مولا تو جانتا ہے،میں نےاپنی طرف سے کوئی کمی نہیں چھوڑی، ہر گھر پہ دستک دی، ہر فرد کودعوت دی، لیکن یارب تو گواہ رہنا میری اس ادنٰی سی کوشش پہ اور مجھے ہمت دے کہ میں اور زیادہ دین کی خدمت کرسکوں، ڈاکٹر فہمیدہ فرط جذبات سے بولیں۔ ساجدہ باجی شرمندگی سے...
طنز و مزاح
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔
زندگی بدل گئی !
شوہر اچھا ہو بیوی بچوں کا خیال رکھتا ہو تو زندگی پرسکون ہوجاتی ہے مگر یہاں تو زبردستی نوکری پر بھیجو پھر خود بازار جاٶ ضرورت کا سارا سامان خود اٹھاٶ پھر گھر کی صفائی، کھانا بنانا، بچوں کو اسکول چھوڑنا اور لانا سارا دن اسی میں گزر جاتا ہے یہاں تک کے امّی سے بات تک کرنے کا ٹائم نہیں ملتا مہینوں گزر جاتے ہیں امّی سے ملاقات ہوئے۔
فائزہ نے دکھوں کا قصہ سنا کر سکون کا سانس لیا تو میں نے بھی تسلی دی اللہ آسانی کرے تمھارے لیئے۔آج پھر کئی مہینوں بعد فائزہ سے ملاقات ہوئی تو پتہ چلا وہ گھر خالی کر کے دوسرے محلے میں چلی گئی ہے کرائے داروں کے لیۓ یہی پریشانی ہے اللہ سب کو اپنا گھر نصیب کرے۔ فائزہ بڑی خوش اورپہلے سے بہت اچھی لگ رہی تھی خوش ہوکر بتانے لگی۔ میرے شوہر تو جی ایسے فرمابردار ہوئے ہیں کے بس پوچھو مت۔ ویسے میں نے پوچھا نہیں تھا پر فائزہ بتاۓ بغیر کہاں رہتی۔
خوشی خوشی بتانے لگی صبح وقت سے پہلے نوکری پر چلے جاتے ہیں ساتھ بچوں کو بھی اسکول چھوڑ دیتے ہیں گھر کی ساری ذمہ داری خود لے لی ہے میں تو بس اب گھر میں رہتی ہوں اور اتنے محنتی ہوگۓ ہیں کے رات رات بھر گھر نہیں آتے یہاں تک کے کئی کئی دن کام کے سلسلے میں شہر سے باہر رہتے ہیں اور میں اپنی امّی کے گھر آرام کرنے چلی جاتی ہوں رزق میں ایسی برکت ہے کہ کبھی کبھی ہر چیز ڈبل آجاتی ہے پچھلے ہفتے دو سینڈل بلکل ایک جیسی لے آۓ بس ایک نمبر چھوٹی تھی پھر وہ تبدیل کرنی پڑی۔ کبھی راشن میں بھی چیزیں ڈبل ہوجاتی ہیں بس اللہ کا کرم ہے۔ میں تو کونے والی نورن دادی کو دعائيں دیتی ہوں۔ یہ سب ان ہی کی وجہ سے ہوا ہے۔ انھوں نے مسجد کے مولوی صاحب کا پتہ دیا تھا۔ مولوی صاحب نے ایک وظیفہ بتایا تھا پڑھنے کو وہ بھی تہجد میں بس پھر کیا تھا میری تو قسمت ہی پلٹ گئی۔ زندگی آسان ہوگئی ہے۔
مجھے بڑی حیرانی ہوئی کہ ایک وظیفے سے قسمت بدل گئی بھئی یہ کونسا وظیفہ ہے چلو چھوڑو۔مگر فائزہ کہا مانتی بتائے بغیر۔ عربی کے چند الفاظ بڑے ادب سے سنائے اور چہرے پر ہاتھ پھیر کر تین بار آمین آمین آمین کہا۔ بس یہ وظیفہ پڑھ لو شوہر آپ کے قدموں میں اور ہاں کسی اور کو بھی بتا دیں اگر کوئی پریشان ہو تو کسی کا بھلا ہو جائے اچھی بات ہے۔ میرا نمبر بھی لے لیا اور پھر فائزہ مسکراتی ہوئی گھر روانہ ہو گئی۔
ہفتے بعد ہی ایک انجان نمبر سے فون آیا۔ ریسو کرنے پر فائزہ نے سلام دعا کی اور زور زور سے روتے ہوئے کہنے لگی میں تو لوٹ گئی بر باد ہوگئی بس بہن میرا شوہر تو ہاتھ سے نکل گیا پتہ نہیں کیا کمی تھی مجھ میں جو دوسری شادی کر لی اللہ ہی سمجھے گا ایسی عورتوں کو جو شادی شدہ بچوں والے مردوں سے شادی کر لیتی ہیں۔ میں...
بن بُلائے مہمان ! بَلائے جان
بن بلائے مہمان وہ بھی چپک جانے والے ایک دو دن سے زیادہ برداشت نہیں ہوتے اور اگر زیادہ ہی رک جائیں تو سارے گھر کو ہی تکلیف اور نقصان پہنچاتے ہیں اور سارے ہی لوگ ان سے کنّی کترا کر گزرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ ہمارے ساتھ ہی نہ چپک جائیں۔
ایسا ہی معاملہ ہم لوگوں کے ساتھ ہوا ہے پہلے تو اس خطرناک اماں نے اپنی اولاد کو بھیج دیا وہ ملک ملک گھوما اور یہیں ڈیرا ڈال لیا۔نہ جانے کیا کیا تباہ و برباد کیا اور یہ حضرت انسان بے بس اور بے کس منہ چھپائے گھومتا رہا حتی کہ اپنے بیماروں مجبور پیاروں سے ملنے اور ان کی تیمارداری سے بھی محروم رہا کچھ وقت گزرنے کے بعد جب اس نے دیکھا کہ ماحول ٹھنڈا ہوگیا ہے لوگ سکون میں ہیں تقریبات عروج پر ہیں اسکول، مساجد اور پارک بھرے ہوئے ہیں تو اس نے ناک بھوں چڑھایا اور سوچا ! یہ میری اولاد تو ٹھنڈی ہوتی جا رہی ہے برسوں محنت کی ہے میں نے اس پر اسے اتنی جلدی ہار نہیں ماننا چاہیے۔ اب مجھے ہی کچھ کرنا ہوگا تو لیجئے جناب پورے جوش اور بھرپور شیطانیت کے ساتھ کرونا کی امی جان اُُمِ کرونا (امیکرون) تباہ حال لوگوں کو اور تباہ کرنے دنیا میں انسانوں پر آدھمکی۔
کتنے دور اندیش تھے وہ لوگ جنہوں نے چاند پر پلاٹ بک کروائے تھے گوگل سرچ کرکے دیکھتے ہیں، تب پتہ چلے گا کہ وہ لوگ کرونا سے بچنے کے لیے چاند پر پہنچ گئے یا اس سے بھی کہیں آگے عالم برزخ پہنچ گئے۔
ہمارے گھر میں تین افراد پر اٌمِ کرونا فدا ہوگئی ہیں ہماری امی جان، بھیا اور آپی پر۔ان تینوں نے قرنطینہ کے نام پر ایک ایک کمرے پر قبضہ جما لیا ہے ابّا جان تو امی کے کمرے کے دروازے کے قدموں میں ہی پلنگ ڈالے پڑے ہیں اور ہم نے لاؤنج میں صوفے پر ڈیرہ جما لیا ہے البتہ ماسی خوش نظر ارہی ہے کہ تینوں کمروں کی صفائی سے جان بخشی ہوئی ہے۔
ویڈیو کال اور فون کال پر ہی سب رشتے داروں نے مزاج پرسی اور تیمارداری کرکے اپنا فرض نبھایا کیونکہ ہم سب مجبور ہیں ایک ان دیکھے وائرس سے۔سلائی والی آنٹی نے جب نئے سلے ہوئے سوٹ ہمیں بھجوائے تو اس کے ساتھ سوٹ کے کپڑے کے ماسک بھی بنے ہوئے رکھے تھے۔ سلائی والی آنٹی کو فون کرنے پر پتہ چلا کہ یہی فیشن چل رہا ہے، انہوں نے ایک آفر بھی دی کے ہم فینسی ماسک بھی بناتے ہیں ستارے موتیوں اور کڑھائی والے ان کا بھی پیکج ہے جو پیکج آپ لینا پسند کریں۔
نہ جانے کتنے ابہام ذہن میں گردش کر رہے ہیں۔ابھی تو ہم ڈر کے مارے اس قابل بھی نہیں ہوئے کی واٹس ایپ یا فیس بک پر اپنا اسٹیٹس لگائیں۔
I am vaccinated
کیوں کہ ابھی تو ہم اکّڑ بکّڑ ہی کر رہے تھے کہ چائنا کی ویکسین لگوائیں، کینیڈا کی یا پاکستانی کے اچانک، اْمِ کرونا سے پہلے بوسٹر بھی آٹپکا۔سوچ رہے ہیں ڈائریکٹ بوسٹر ہی لگوا لیں۔
یہ بلائے ناگہانی ہے بس...
ٹک ٹاک ایک نشہ
ٹک ٹاک مختصر ویڈیو کی ایسی ایپ ہے جس میں وہی ویڈیو چلتی ہے جو ’’مختصر‘‘ ہو۔بس ایک ویڈیو وائرل ہونے کی دیر ہے پھر آپ ایک ہی رات میں ہیرو بن گئے۔گویاٹک ٹاک سوشل میڈیا کا ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جس میں وہی ویڈیو وائرل ہوتی ہے جس میں سب کچھ’’ پلیٹ‘‘میں رکھ کر پیش کیا جائے۔بلکہ نوجوان نسل تو وائرل ہونے کے لئے ایسی اشیاء بھی ’’پیش‘‘ کر دیتی ہیں جن کا پیش نہیں ’’زیر‘‘میں ہونا ہی معیاری،مناسب اور اخلاقی ہوتا ہے۔مگرچائنہ والوں کو کون سمجھائے کہ جس لباس کو ہم پاکستانی اعلیٰ اخلاقی اقدار سے گرا ہوا سمجھتے ہیں ان کے ہاں وہ لباس اعلی اقدار کا حامل سمجھا جاتا ہے۔بلکہ یوں کہنا مناسب ہوگا کہ لباس کا صرف سرا ہی نظر آتا ہو تو اسے اخلاقی لباس سمجھا جاتا ہے۔چائنہ اور یورپ میں تو اسی کی زیبائش مناسب ہوتی ہے جس کی ’’نمائش ‘‘زیادہ ہو۔ ان کے سامنے تو بھاری بھر کم فراک،غرارہ و شرارہ زیب تن کر کے جائیں تو وہ حیران ششدر رہ جاتے ہیں کہ ان کا ناتواں جسم ایسا لباس ’’کیری‘‘ کرتاکیسے ہے۔شائد اسی وجہ سی چینی اور یورپی خواتین وہی لباس زیب تن کرتی ہیں جو ہمیں زیب نہ دیتا ہو۔
میں نے اپنے انتہائی معصوم و سادہ دوست شاہ جی سے ایک معصومانہ سوال کیا کہ مرشد ٹک ٹاک پر کیسے وائرل ہوا جاتا ہے۔شاہ جی نے شانِ بے نیازی (بے نیازی کو کسی نیازی سے نہ ملایا جائے )اور لاپروائی سے جواب دیا کہ فی زمانہ ٹک ٹاک ہی نہیں ہر جگہ وائرل ہونے کا ایک فارمولہ ہے۔میں نے متجسسانہ انداز میں پوچھا کہ مرشد وہ کیا۔فرمانے لگے۔’’جو دکھتی ہے وہ بکتی ہے‘‘یعنی جو دکھتا ہے وہی بکتا ہے۔شاہ جی کے جواب پر سوال در سوال ذہن میں کود آیا کہ کیا اس فارمولہ کا اطلاق صنف نازک(جسے میں ہمیشہ صنف آہن کہتا ہوں)پر ہی ہوتا ہے یا صنف معکوس بھی اس زد میں آتے ہیں۔کہنے لگے فارمولہ تو وہی ہے بس الفاظ کے چنائو کو بدلنا ہوگا،یعنی۔۔۔۔۔یعنی مرد حضرات کے لئے الفاظ بدل کر ایسے ہو جائیں گے کہ ’’جو بَکتا ہے وہ بِکتا ہے‘‘
چین نے جب ٹک ٹاک ایپ متعارف کروائی تو اس کا مقصد سیلیکون شہر میں بیٹھ کر ایسی مختصر مدتی ،مختصر ویڈیو،مختصر لباس میں بنا کر پیش کرنا تھاکہ جو اپلوڈ ہوتے ہی وائرل ہو جائے،اور ایسا ہی ہوتا تھا۔اس لئے ہماری نوجوان نسل بھی چین کے نقش پا پر اپنے قدم جمائے ویسی ہی مختصر ویڈیو بناتے ہیں جو وائرل ہو جائے۔مجھے حیرت یہ نہیں کہ آج کی نسل سستی شہرت کے لئے ایسا کیوں کرتی ہے۔پریشانی یہ ہے کہ انہیں شہرت مل بھی جاتی ہے۔اب تو ٹک ٹاک بھی ایک حمام سا ہی دکھائی دیتا ہے ،وہ جس کے بارے میں اکثر سیاستدان بیان بازی کیا کرتے ہیں کہ اس حمام میں سبھی ننگے ہیں۔اب تو ٹک ٹاک دیکھ کر بھی لگتا ہے کہ اس حمام میں بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ویڈیو وائرل ہونے کے بارے میں ایک دوست کی بات یاد آگئی ،اس نے ایک دن مجھ سے پوچھا کہ یار ابھی تک...
بہت اہم یاد دہانی — شیطان کی چالیں اور ان سے بچا و کی تدابیر
احسن انداز میں سمجھائ گئ ہیں
بہت ھی بہترین مضمون اسان وسہل انداز میں لکھا گیا ھے ۔۔ڈاکٹر صاحبہ کی بہترین کاوش ھے۔۔۔اللہ ھم شطان کا ہر مقام پر بہترین مقابلہ کرنے والے ثابت ھوں۔اور قخرت میں سرخرو ھو جائیں۔۔۔اس تھریر کا یہ ھی کل حا صل ھو گا۔ان شاء اللہ
۔۔جزاک اللہ