یادیں خوبصورت ہوتی ہیں

یادیں خوبصورت ہوتی ہیں

(خالد راہی)

آئو کے دل کو کچھ بہلائیں

ان وحشتوں سے کہیں دور لے جائیں

چلو پرانے محلے کی سیر کر آئیں

سلام کریں سب کو

اور دیکھ دیکھ مسکرائیں

جہاں گلی کے کونے پر

یونہی گھنٹوں گزر جائیں

نا کوئی موبائل کی گھنٹی بجے

نا ایس ایم ایس دھیان بٹائیں

گرمیوں کی دوپہر میں

کلفی والے کی ٹن ٹن پر

دبے پائوں گھر سے نکل جائیں

اس آس پر ادھر ادھر پھرنا

کہ وہ لکڑی کا دروازہ آہستہ کھلے

جیسے اسے بھی کسی کے جاگنے کا اندیشہ ہو

پھر کانچ کی چوڑیوں کی کھنک سے احاطہ کھلے

چلچلاتی دھوپ میں ٹھنڈی ہوا کا جھونکا چلے

اور تھوڑا سا پردہ ہٹے، دور جاتے کلفی والے کی صدا لگے

کن انکھیوں کا کوئی اشارہ ملے

کلفی لادینے کی استدعا کرے

جلدی جلدی بالوں کو انگلیوں سے سنوارنا

کسی اور کے آجانے سے خوفزدہ سا

وہ جلدی میں پیسے پکڑتے

انگلیوں کا جذب ہوجانا

یوں مڑ کے بھاگنا کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں

مگر وہ دل کا دھڑکنا کے رکا ہی نہیں

 کلفی کے گرجانے سے چونک جاتا ہوں

میں ویسے ہی مسکراتے واپس آجاتا ہوں

سفید بالوں میں کنگی کرتے

آئینے کے سامنے خود کو پاتا ہوں

اداس جب بھی ہوتا ہوں

تو یونہی کبھی پرانے محلے میں چلا جاتا ہوں

یا پھر اسکول کی ڈیسک میں

 کسی بچے کو ربر مار کر چھپ جاتا ہوں

حصہ
mm
شیخ خالد زاہد، ملک کے مختلف اخبارات اور ویب سائٹس پر سیاسی اور معاشرتی معاملات پر قلم سے قلب تک کے عنوان سے مضامین لکھتے ہیں۔ ان کا سمجھنا ہے کہ انکا قلم معاشرے میں تحمل اور برداشت کی فضاء قائم کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے اور دوسرے لکھنے والوں سے بھی اسی بات کی توقع رکھتے ہیں کہ قلم کو نفرت مٹانے کیلئے استعمال کریں۔

جواب چھوڑ دیں