ایسے توامن کبھی نہیں ہوسکتا

امن کی دو قسمیں ہوسکتی ہیں ایک باطنی اور دوسرا ظاہری ۔ عمل سے ثابت ہے کہ زندگی مسلسل جستجو کا نام ہے تو پھر لفظ امن کی کیا ضرورت تھی ، جستجو جاری رہے گی تو اکھاڑ پچھاڑ تو ہوتارہے گا اور اکھاڑ پچھاڑ میں امن کیسے قائم ہوسکتا ہے ۔ ایک طرف ! ارسطوکا قول ہے محض جنگ جیتنا کافی نہیں اس سے زیادہ اہم امن قائم کرنا ہے۔ ارسطو نے ظاہری امن کی بات کی ہوگی کیونکہ باطنی امن تو سب کا نجی مسئلہ ہے لیکن باطنی آسودگی امن کی گواہی ہے ، اندر امن ہوگا تو باہر کے امن کیلئے کام کرے گا۔ بظاہریہ ایک لاحاصل بحث دیکھائی دے رہی ہے ۔ آپ اپنے گھر کو صاف رکھنے کیلئے گھر کا سارا کچرا اٹھا کر گلی میں انڈیل دیں اور یہ سمجھیں کہ چلو گھر تو صاف ہوگیا مگر کچھ ہی دیر بعد وہی کچرا دوبارہ آپ کے گھر میں داخل ہونا شروع ہوجائے گا۔ جنگ اور امن بھی کچھ ایسے ہی ہیں، جدید دنیا کا یہ سمجھنا ہے کہ وہ جنگ کر کے امن قائم کرلینگے۔ زیادہ نہیں گزشتہ بیس پچیس سالوں پر نظر دوڑائیں جو کچھ نظر آرہا ہے اسے سمجھنے کی کوشش کریں۔ سمجھانے والا سمجھانے کی ہر ممکن کوشش کر رہا ہے مگر ہم ہیں کہ سمجھنے کی کوشش تک نہیں کر رہے ۔ اس سمجھانے والے نے ظلم اور ستم کی مثالیں قائم کردیں لیکن ہم ہیں کہ سمجھنے کیلئے تیارہی نہیں ہیں اور ظالم کی مدد اس صورت میں کرتے دیکھائی دے رہے ہیں کہ اب تک وہ کس کس کا گھر برباد کر رہا تھا کہیں اب وہ ہمارے گھر میں گھس آئے۔ دشمن ہماری صفوں میں بیٹھ کر ہمیں ہمارے خلاف استعمال کرتا چلا جا رہا ہے ۔ اب لفظ امن بھی اپنے نام کی تبدیلی کا درخواست کرتا سنائی دے رہا ہے ۔ کیوں کہ کسی کا گلا دبا کر یہ کہا جائے کہ وہ بولنا ہی نہیں چاہتا کون سے امن کی وضاحت ہے ۔ یہاں تو آنکھوں دیکھی چیزوں پر بولنا محال ہوجاتا ہے ۔
تقریباً دنیا کی کیفیت اس کبوتر کی طرح ہے جو آنکھیں بند کر کے یہ سمجھتا ہے کہ بلی اسے نہیں دیکھ رہی ، سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ سب ہی بلی ہیں اور سب ہی کبوتر ہیں فرق اتنا ہے کہ کہیں بلی زیادہ تو کہیں کبوتر۔ انڈیا تو دنیا کو کشمیر میں امن کی فاختائیں اڑتی ہوئی دیکھاتا ہے ، اسرائیل سمجھتا ہے کہ وہ فلسطینیوں کا خون بہا کر دنیا سے برائی ختم کر رہے اور امریکی اسکے اتحادی مل کر افغانستان میں امن قائم کرنے میں مصروف ہیں اسی طرح شامی اور روسی شام میں امن قائم کرنا چاہتے ہیں۔ بغیر غور کئے بھی نظر آرہا ہے کہ ساری دنیا کیلئے تختہ مشق ایک اللہ اور اسکے آخررسول ﷺ کو ماننے والے تختہ مشق بنے ہوئے ہیں اور اپنے ہی خون سے ساری دنیا کی آبیاری کررہے ہیں ۔ افسوس اس امر کا ہے کہ ہمارے دشمن ہمیں ہی ہمارے خلاف استعمال کرتے ہیں اور ہمارے ہی مال و دولت پر عیاشی کرتے ہیں۔
بھارت کشمیری نوجوانوں کے خون کی ہولی کھیلے ، عزتیں پامال کرے ، سرحدی خلاف ورزیاں کرے اور امن کی آشا کی بات کرے ،ایسا ہی سب کچھ اسرائیلی کر رہے ہیں بھلا کسی ذی شعور ذہن میں یہ باتیں جگہ بنا سکتی ہیں کبھی بھی نہیں ۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ ہم انکے لئے اہم واہ دل تیرے وہم
مذکورہ شعر ناصرف ہمارے حکمرانوں کیلئے لکھا گیا ہے بلکہ ان تمام ممالک کیلئے لکھا گیا ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ امریکہ انکی مدد کیلئے انکے ساتھ کھڑا ہے یا کھڑا ہوسکتا ہے ۔ کشمیر ، فلسطین ، شام اور افغانستان میں زندگی تھمتی نہیں اور موت رکتی نہیں ۔ ان ملکوں میں صبح اور شام خوف و ہراس کا راج ہے یہاں جنم لینے والے بھی خوف میں لتھڑے ہوئے دنیا میں آتے ہیں۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک جن کی معیشت مستحکم ہے اور معصوم بچے اپنی معصومیت کے ساتھ زندگی کی تمام رعنائیوں سے لطف اندوز ہورہے ہیں۔ آپ کسی کا حق مار لیجئے اور اس سے یہ توقع رکھیئے کہ وہ کوئی شور نہیں مچائے گا۔
دنیا میں امن کیلئے سب سے اہم اور ضروری بات یہ ہے کہ طاقت کا توازن قائم کیا جائے اور کسی ایک طاقت کو اس اختیار سے باز رکھا جائے کہ کسی بھی ملک کو جب چاہے کسی بھی الزام کی بنیاد پر فوج کشی کرنے کا حکم دے دے۔ طاقت کی مرکزیت دنیا کیلئے خطرہ بنتی چلی جا رہی ہے اب یہاں لکھا جائے یا نا جائے مگر یہ بات تو واضح ہے کہ اس طاقت کا اتنا بے دریغ استعمال صرف اور صرف مسلم ممالک پر ہی ہوتا نظر آرہا ہے ۔ اگر امریکہ اور اسکے اتحادیوں کو مسلم ممالک میں رائج طرز حکومت سے مسلۂ ہے تو مسلم ممالک کو بھی امریکہ اور اسکے اتحادیوں کی معاشرتی اور مذہبی اقدار سے مسلمانوں کو بھی مسئلہ ہے ۔ لیکن بد قسمتی سے جہنم پر چڑھایا جانے والا غلاف ہی تو مسلمانوں کو پسند آگیا ہے اور وہ اس کے حصول میں مگن ہوچکے ہیں۔
روس کی وجہ سے امریکہ ، برطانیہ اور فرانس نے شام پر جدید ترین اسلحے سے گولہ باری کی اور بہت خوشی خوشی یہ بات دنیا کو بتائی کے انہوں نے اپنے اہداف کو نشانہ بنایا اور شام کی تباہی بربادی کی ایک نئی داستان سے آگاہ کیا۔ چاہے روس ہو ، امریکہ ہو ، برطانیہ ہو یا پھر فرانس سب کے سب کا ایک مقصد واضح ہے کہ ملک شام کو تہس نہس کر دیا جائے۔ عراق کا کیا حال کیا جا چکا ہے ، افغانستان کس نہج پر پہنچ چکا ہے لیکن ہمارے حکمرانوں کو سمجھ کیوں نہیں آرہی کہ یہ دشمنی عراق، شام ، افغانستان ، کشمیر یا فلسطین سے نہیں ہے یہ دشمنی اسلام سے ہے ۔ امریکہ اور اسکے اتحادیوں کا مسلم ممالک میں نام نہاد جمہوریت نافذ کرنے کا شوق بہت خوفناک صورتحال کی طرف دھکیل رہا ہے ۔
حکمران تو اقتدار کے نشے میں دھت ہیں مگر ہمارے ملک کے تھنک ٹینک کیا کر رہے ہیں، ہمارے ملک کا ادیب کیا کر رہا ہے ، ہمارے ملک کے صحافی کیا کر رہے ہیں۔ کیا انہیں یہ بات نہیں سمجھ آرہی کہ دراصل دنیا میں ہو کیا رہا ہے ۔ انہیں تو ان باتوں سے فرصت ہی نہیں مل رہی کہ ہمارے سیاست دان صبح ناشتے میں کیا کھا رہے ہیں اور رات کو سونے سے پہلے کیا پی رہے ہیں۔ ہمیں بہت ہی منظم طریقوں سے الجھایا جاتا ہے ،کبھی بھارتی فوج سرحدوں پر بد انتظامی پھیلا کر یہ ذمہ داری نبھاتی ہے ، کبھی افغانی سرحدوں سے گولا باری کی جاری ہے ، کبھی اپنی ہی حدوں میں دھماکے ہونے لگتے ہیں، کبھی سیاسی جماعتیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجاتی ہیں تو کبھی کرپشن کا پنڈورا بکس کھول دیا جاتا ہے ۔ مجھے یقین ہے کہ ہمارے ملک میں کہیں نا کہیں کوئی ایسی آنکھ ضرور ہوگی جو اس ساری صورتحال کو بلکل اسی طرح سے دیکھ رہی ہوگی جس طرح سے اس صورتحال میں ہمیں دھکیلا جا رہا ہے ۔
گزشتہ دنوں قصور سے تعلق رکھنے والی بچی زینب کے ساتھ ہونے والے دلدوز واقع نے پوری پاکستانی قوم کو ہلا کر رکھ دیا جبکہ نا تویہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ تھا اور نا ہی آخری قرار پایا ، اس واقع کے بعد سے بلکہ مجرم کو قرار واقع سزاہونے کے بعد سے ابتک تواتر سے ایسے ہی واقعات ملک کے تقریباً ہر شہر میں رونما ہوتے چلے جا رہے ہیں، لیکن کیا وجہ رہی ہوگی کہ زینب کے معاملے نے پوری قوم میں ایک نئی روح پھونک دی تھی جبکہ اسکے بعد ہونے والے واقعات کسی عام سی خبر سے زیادہ اہمیت حاصل کرسکے۔ پاکستان میں رونما ہونے والے ہر قسم کے واقعات کا تانابانا کسی نا کسی طرح پاکستان سے باہر نکل جاتا ہے ۔ جیسے زینب کے معاملے میں ہمارے معزز ڈاکٹر شاہد مسعود صاحب نے کیا کچھ کھول کر رکھ دیا۔ بد قسمتی سے ڈاکٹر صاحب کو اپنی باتیں ثابت کرنے میں ناکام رہے یقیناًکچھ نا کچھ تو اس سارے معاملے کے پیچھے ہوگا۔ جی ہاں دنیا میں امن قائم کرنے کیلئے ضروری ہے کہ ہرقسم کی معلومات کو برابری کی بنیاد پر دنیا کے ساتھ بانٹا جائے۔آپ اسلام آباد اور راولپنڈی میں دھرنے والوں کو لے لیجئے کیا یہ امن و امان کیلئے خطرے کا باعث نہیں ہیں۔ ان کے پیچھے بھی کسی کے ہاتھ ہونے کی خبریں سرگوشیوں میں گردش کرتی سنائی دے رہی ہیں۔ طاقتور اپنی بالادستی قائم کرنے کیلئے اور اسے برقرار رکھنے کیلئے کسی بھی عمل سے دریغ نہیں کرتااور دنیا تو ویسے بھی طاقتور کے آگے گھٹنے ٹیکے اور سر کو جھکائے بیٹھی ہوئی ہے ۔عالمی اداروں کو مفلوج بناکر اپنے ماتحت کر کے کبھی بھی دنیا میں امن قائم نہیں ہوسکتا۔ اس بات کو کم ازکم ہمیں تو سمجھ لینا چاہئے کہ جس طرح امریکہ امن قائم کرنے کا خواہش مند ہے اس طرح سے کبھی بھی امن قائم نہیں ہوسکتا۔

حصہ
mm
شیخ خالد زاہد، ملک کے مختلف اخبارات اور ویب سائٹس پر سیاسی اور معاشرتی معاملات پر قلم سے قلب تک کے عنوان سے مضامین لکھتے ہیں۔ ان کا سمجھنا ہے کہ انکا قلم معاشرے میں تحمل اور برداشت کی فضاء قائم کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے اور دوسرے لکھنے والوں سے بھی اسی بات کی توقع رکھتے ہیں کہ قلم کو نفرت مٹانے کیلئے استعمال کریں۔

1 تبصرہ

جواب چھوڑ دیں