شرمیلے بچے

مائیں شرمیلے بچوں کو بدلنے کی کوشش کریں۔ مثلاً ان سے یہ نہ کہیں کہ ’’میں تمہیں پسند نہیں کرتی‘‘۔ شرمیلے بچے بہت زیادہ حساس ہوتے ہیں اور ایسے جملے حساسیت کی وجہ سے انھیں احساس کم تری میں مبتلا کرکے ذہنی اعتبار سے پیچھے دھکیل سکتے ہیں۔ انھیں کسی بھی نئے تجربے کے لئے تیار کریں۔ انھیں یقین دلائیں کہ آپ ان کے ساتھ ہوں گی۔
انھیں کچھ اختیار دینے کی کوشش کریں۔ مثلاً یہ طے کرنے دیں کہ ’’کہاں جانا ہے‘‘۔ ابتداء میں ان سے ملتی جلتی طبیعت رکھنے والے بچوں سے متعارف کرائیں۔ وہ ان سے سیکھیں گے اور ان کے درمیان رہ کر اپنے آپ کو آرام دہ اور پْرسکون محسوس کریں گے۔ بہت زیادہ تعریف و تحسین کی ضرورت نہیں۔ انھیں نارمل طریقے سے چیزوں کو سمجھنے کا موقع دیں۔ تھوڑا ٹف ٹائم اور تھوڑی سی تگ و دو کرنے دیں، پھر جب وہ سیکھ جائیں تو انھیں باور کرائیں کہ ’’تم بالکل پرفیکٹ ہو اور بہت سے بچوں سے بہتر ہو۔ شوہر سے درخواست کریں کہ کچھ وقت بچوں کے ساتھ گزاریں تاکہ انھیں دیکھ کر وہ سیکھ سکیں کہ مختلف صورت حال میں بے چینی،گھبراہٹ اور جارحیت پسندی پر کیسے قابو پایا جاتا ہے۔ اس موضوع پر بات کرنے کی حوصلہ افزائی کریں کہ انھوں نے دوسرے بچوں (یا بالغوں) کو دیکھ کر اور سن کر کیا سیکھا۔ ان کے مسابقتی احساسات کی تشفی اور نمو پذیری کیلئے مناسب خود اظہاری کے راستے تلاش کریں جیسے کارڈ گیمز یا کوئی اور کھیل جس سے وہ لطف اندوز ہوسکیں۔ انھیں نرمی سے نظم و ضبط کا پابند بنائیں، مگر حساس بچے کیلئے نظم و ضبط کے اٹل اصول بہترین ہیں۔

حصہ
mm
ڈاکٹر شاکرہ نندنی لاہور میں پیدا ہوئی تھیں اِن کے والد کا تعلق جیسور بنگلہ دیش (سابق مشرقی پاکستان) سے تھا اور والدہ بنگلور انڈیا سے ہجرت کرکے پاکستان آئیں تھیں اور پیشے سے نرس تھیں شوہر کے انتقال کے بعد وہ شاکرہ کو ساتھ لے کر وہ روس چلی گئیں تھیں۔شاکرہ نے تعلیم روس اور فلپائین میں حاصل کی۔ سنہ 2007 میں پرتگال سے اپنے کیرئیر کا آغاز بطور استاد کیا، اس کے بعد چیک ری پبلک میں ماڈلنگ کے ایک ادارے سے بطور انسٹرکٹر وابستہ رہیں۔ حال ہی میں انہوں نے سویڈن سے ڈانس اور موسیقی میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ہے۔ اور اب ایک ماڈل ایجنسی، پُرتگال میں ڈپٹی ڈائیریکٹر کے عہدے پر فائز ہیں۔.

جواب چھوڑ دیں