میرٹ اب ہر ایک زبان پر

          انٹر بورڈ کے امتحانات میں ہی کیا، اب جہاں بھی جایئے ایک ہی شورسنائی دیگا، فلاں عہدے پر بیٹھا ہوا فرد نااہل ہے، یہ انجینئر نا اہل ہے، وہ ڈاکٹر نا اہل ہے، وہ استاد نااہل ہے ، وہ طالب علم نا اہل ہے۔ اس شعبے میں اہلیت کا خیال نہیں رکھاجاتا، اس محکمہ میں اہلیت کی دھجیاں اڑ رہی ہیں، بھرتیوں میں کسی اہلیت کے بغیر خالی آسامیوں کو پر کیا گیا ہے، فلاں جگہ سیاسی بنیاد پر ملازم رکھے گئے ہیں اور فلا فلاں جگہ جہلا بٹھا دیئے گئے ہیں۔ پاکستان کے سارے ادار کس لئے تباہ ہو بر باد ہوئے؟ واپڈا، پی آئی اے، ریلوے، کے الیکٹرک، ٹیلیفون، ٹیلیگراف، پاکستان پوسٹ، پاکستان کا نہری نظام، پولیس، پاکستان اسٹیل اور اب حد یہ ہے کہ محکمہ تعلیم بھی نہ صرف اس کی لپیٹ میں آگیا بلکہ سب سے برا حال اسی محکمے کا ہے جو اب نہ تو تعلیم دینے کے قابل رہا ہے، نہ امتحانات شفاف طریقے سے کرا سکتا ہے، نہ بروقت انرولمنٹ کارڈ جاری کر سکتا ہے اور نہ امتحانات کے نتائج بروقت نکال سکتا ہے

          ایک زمانہ تھا کہ پاکستان کا کوئی ایک محکمہ بھی ایسا نہیں تھا جہاں نا اہل فراد کی کوئی جگہ ہوتی تھی اور اب وہ دور آگیا ہے کہ کسی بھی ادارے کا کوئی ایک شعبہ بھی ایسا نہیں ہے جہاں ہر پوسٹ پر ایسا فرد بیٹھا ہو جو اس پوسٹ کا اہل ہو حتیٰ کہ اس محکمہ کا کوئی پیون ہی کیوں نہ ہو۔ پھر اس پر ستم بالائے ستم یہ کہ ہر فرد کے سر پر کسی نہ کسی بڑے، مضبوط اور بااختیار آدمی کا ہاتھ نظر آتا ہے

          یہ ساری باتیں تو وہ ہیں جس کو آج کل ایک نابینا فرد بھی اسطرح دیکھ سکتا ہے جیسے اس کی آنکھیں بھی ہوں، بصارت بھی ہو اور وہ سورج کی روشنی میں کھڑا ہولیکن کسی نے یہ بات کبھی نہیں سوچی ہوگی کو پاکستان میں یہ صورت حال کب سے شروع ہوئی، اس کو اپنے آغاز سے ہیں کیوں پذیرائی ملی، اس مکروہ فعل کو کون کون مہمیز دیتا رہا اور ان سب باتوں کی پشت پر کیسی کیسی جہالتیں موجود رہیں

          جب پاکستان بنا تھا تو اس مغربی پٹی میں آباد تعلیم کا اوسط فقط پانچ فیصد تھا جبکہ اسی پٹی میں جو لوگ ہندوستان سے ہجرت کرکے آئے تھے ان میں تعلیم کا اوسط ستر فیصد سے بھی زیادہ تھا ۔ وہ نہ صرف تعلیم یافتہ تھے بلکہ وہ یہاں کے باسیوں سے زیاد تہذیب یافتہ اور ہنر مند لوگ تھے۔ ممکن ہے کہ یہاں کی آبادی میں رہنے والے لوگوں کو یہ بات مناسب نہ لگے اس لئے کہ ہم ستر برس کی دوری پر کھڑے ہیں اور اب پاکستان کے رنگ پہلے کے سے نہیں رہے ہیں بلکہ بیشمار معاملات میں کایا پلٹ چکی ہے لیکن حقیقت کا تعلق خواہ حال سے ہو یا ماضی سے، حقیقت حقیت ہی ہوتی ہے خواہ اس کو مانا جائے یا نہ مانا جائے۔ دلیل کے لئے یہی بات کافی ہے کہ اس وقت کے پاکستان کے سارے محکمے انھیں لوگوں نے چلائے اور سنبھالے جس کے بغیر ریاست کا اپنے قدموں پر کھڑا ہونا ممکن ہی نہیں اور اس بات کا سب سے بڑا ثبوت اسلام آباد میں بسنے والے وہ ہزاروں بلکہ لاکھوں مہاجرین ہیں جو محض اسلام آباد جانے کے لئے اس لئے مجبور ہوئے کہ حکومت نے اپنے تمام محکمے اسلام آباد کو دارالحکمت بنانے کے بعد اسلام آباد منتقل کر دیئے تھے چنانچہ ان محکموں کے ملازمیں کو ہجرت کے فوراً بعد ہی ایک اور ہجرت کا سامنا کرنا پڑاتھا لیکن پاکستان کی خاطر قربانیاں دینے والوں کے لئے یہ کوئی بہت تکلیف دہ عمل نہیںتھا۔ کیوں گئے تھے وہ اسلام آباد؟ اسی لئے کہ اس نو زائدہ پاکستان میں وہ اہلیت ہی نہیں تھی کہ وہ ان تمام اہم محکموں کو فوری طور پر رواں کر سکےں۔ وہ کونسا محکمہ تھا جس کی اعلیٰ سر براہی پر وہ براجمان نہیں تھے؟ اسی لئے کہ اس وقت وہی تھے جو ایسے اہم امور انجام دے سکتے تھے۔ پھر یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ وہ تمام افراد جو اپنا سب کچھ چھوڑچھاڑ کر پرائی سر زمین پر آئے تھے ان کو شہروں میں ہی آکر آباد رہنا پڑا کیونکہ اب ان کے پاس دکانداری، کاروبار، تجارت، مزدوری اور ملازمت کے علاوہ اور کوئی راستہ ایسا نہیں رہ گیا تھا جس کو اختیار کرکے وہ زندگی کی گاڑی کو آگے بڑھا سکیں۔ باقی شہروں کو جانے دیں، کوئی مجھے یہ بتائے کہ کراچی شہر ۷۴۹۱ءمیں کیا تھا؟ اور آج کا شہر کیا ہے؟ یہ شہر اتنا ہی پرانا ہے جتنا پاکستان کے شہر اور خصوصاً سندھ کے شہر تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سندھ کا کوئی ایک شہر بھی کراچی کے قریب تر کیوں نہیں آسکا اور جن جن شہروں کی حالت باقی ماندہ سندھ سے بہتر ہے ان شہروں میں آبادی کی اکثریت کس کی ہے؟ سکھر کو لے لیں، نواب شاہ اور سانگھڑ کا ذکر کرلیں، میرپورخاص اور حیدرآباد کو لے لیں، سندھ کے قابل ذکر یہی شہر تو ہیں، ان کو گاوں دیہاتوں سے تبدیل کرکے شہر کی کس نے شکل دی؟ کن کن شہروں اور بستیوں میں تعلیم کو اہمیت حاصل ہے؟ کہاں کہاں اچھے اور معیاری تعلیمی ادارے ہیں؟ کہاں کہاں کارخانے ، ملیں، اور بڑے بڑے ادارے ہیں جہاں ہر قسم کی تعلیم ، بنیادی ضرورتیں کے اسباب، ملازمتیں، ہسپتال، اور دیگر ضروریات زندگی کی فرا وانی ہے اور پاکستان بن جانے کے ستر برس بعد بھی سندھ اور پنجاب ، بلوجستان، اور کے پی کے کے شہری تعلیم ہی نہیں ہر قسم کی بنیادی ضرورتوں تک سے محروم ہیں؟ ایماندارانہ تجزیہ کیا جائے تو آج بھی پاکستان کاہر وہ شہر(معدودچند) ترقی و خوشحالی سے محروم ہے جہاں ہندوستان سے آئے ہوئے وہ مہاجرین آباد نہیں اور پاکستان کا ہر وہ شہر خواہ وہاں وہ مقامی آبادی سے بہت کم ہی کیوں نہ ہوں، مہاجرین آباد ہوئے، وہ شہر پاکستان کے نمایاں شہر بن گئے۔ اسلام آباد، راولپنڈی، لاہور، ملتان، شیخوپرہ ، بہاولپور اس کی نمایاں مثالیں ہیں۔ ان کے آنے سے زندگی کو ایک نئی نمو ملی، اسکول بنے، کالج اور یونیورسٹیاں تعمیر ہوئیں، رہن سہن کے طور طریق میں تبدیلیاں آئیں۔ اب دیکھتے چلے جائیں اور ان آبادیوں پر بھی نظر ڈالیں جہاں وہ نہیں ان میں ترقی کی کیا رفتار ہے اور وہ شہر جن میں ہندوستان سے آنے والے آباد ہیں ان شہروں کی تہذیب و تمدن میں کتنا فرق ہے

          ہندوستان سے آنے والوںکا تعلیم یافتہ، متمدن ہونا اور تعمیری ذہن کا ہونے کا سب سے بڑا ثبوت اس سے زیادہ کیا ہو سکتا ہے کہ ”کوٹا سسٹم“ کس کو آگے جانے سے روکنے کے لئے بنایا گیا تھا ؟ اور اس کریہہ اور ظالمانہ سسٹم کو درست ثابت کرنے کے کئے کون کون سے بھونڈے دلائل دیئے جاتے تھے؟

          یہ قانون سندھ کے شہری اور دہی علاقوں کی تقسیم کا قانون تھا جس کے ذریعے شہری علاقوں میں رہنے والوں کی تعلیم، صلاحیتوں اور قابلیتوں کا قتل عام کیا گیا اور دلیل دی گئی کہ شہر کے لوگوں کو تعلیم کی سہولت زیادہ ہے جبکہ دیہات کے لوگوں کو تعلیم حاصل کرنے کے مواقع اور سہولیات مسیر نہیں اس لئے ”ایک جاہل دیہاتی“ کو ایک ”قابل شہری“ پر برتری کا حق حاصل ہے۔ کوئی پاکستانی مجھے یہ بتائے کہ اس وقت بھی اور آج بھی سندھ کے بڑے شہروں میں کون آباد تھا اور آج بھی کون آباد ہے؟ تو پھر با الفاظ دیگر قابل اور اہل شہر والے ہی ہوئے؟

          اب جبکہ پاکستان کے طول و عرض میں، پاکستان کے ہر اہم اور غیر اہم محکموں میں، ملوں میں ، کارخانوں میں، تعلیمی اداروں میں، محکمہ تعلیم میں، پولیس میں، چوکیداری سسٹم میں، المختصر ملک کے چپے چپے میں ہر ہر مقام پر قابل افراد کی جگہ نااہل ترین اور جاہل ترین افراد کو اتنا بھر دیا گیا ہے کہ شاید تل دھرنے کی بھی جگہ نہیں رہی تو اتنا شور مچانے کی کیا ضرورت ہے؟ پورے پاکستان میں بالعموم اور سندھ میں بالخصوص، کوئی ایک فرد بھی ایسانہیں جو سامنے کے دروازے سے کسی محکمے میں داخل ہوا ہو، ہر ہر فرد اور اہلکار چور درازے داخل ہی نہیں ہوا بلکہ اسے دھکا دے کر داخل کیا گیا ہے تو اس کا کیا قصور ہے؟ کیوں کسی کو باہر نکالنے کی باتیں کی جاتی ہیں؟ کیوں اس کو نااہل کہا جاتا ہے؟ کیوں نااہل کو اب مجرم بنا دیا گیا ہے جبکہ اس کے نااہل ہونے اور کسی مقام پر پہنچ جانے میں نہ تو اس کا کوئی کمال ہے اور نہ ہی اس کا کوئی قصور۔ اس تمام تر کھیل میں تو خون ان لوگوں کا ہوا ہے جو قابل تھے، ذہین تھے، تعلیم یافتہ تھے، ہنر مند تھے لیکن ان کو محض اس لئے پیچھے دھکیل دیا گیا کہ ان کا تعلق شہر سے تھا۔ سوچئے کہ کن کا تعلق شہرسے تھا؟ پاکستان کی مٹی کے بیٹوں کا یا وہ جن کے خمیر میں مغربی پٹی کی مٹی کی بو باس نہیں تھی؟

          میں تو یہاں تک کہنے کو تیار ہوں کہ وہ تمام افراد جو اب چیخ چیخ کر ”میرٹ میرٹ“ کا شور مچارہے ہیں خود ان میں ایک فیصد لوگ بھی میرٹ پر پورے نہیں اتر تے ہونگے اور مجھے یہ بھی یقین ہے کہ شور مچانے والوں کے پس پردہ بھی کوئی اور شرارتی ہونگے اس لئے کہ میرٹ کی بات اب قصہ پارینہ بن چکی ہے۔ جس ملک کے رہبران قوم اور اسمبلیوں میں پہنچنے والے تقریباً سارے افراد جعلی ڈگری ہولڈر ہوں وہاں میرٹ کی دھائیاں گناہ کبیرہ کے علاوہ اور کچھ نہیں

          یہ تو تصویر کا ایک رخ ہے، اب میں پوچھتا ہوں کہ جن کو پیچھے دھکیلنے کے لئے یہ تمام کھڑاک مچاکر پاکستان کے سارے اداروں کا جنازہ نکال کر رکھ دیا گیا کیا وہ لوگ ہلاک ہوگئے؟ تباہ برباد ہو گئے؟ یا اب بھی ان کے گھروں کی روزی روٹی پاکستان کے طول و عرض میں بسنے والے کروڑوں افراد سے کہیں بہتر انداز میں چل رہی ہے

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں