پاکستانی موقف کی کیا اہمیت ہے؟

دنیامیں بیک وقت دن بھی رہتا ہے اور رات بھی رہتی ہے، کہیں ڈوبنے والا سورج کہیں طلوع ہورہا ہوتا ہے ۔ دنیا میں ہرروز کہیں نا کہیں کو ئی نا کوئی ایسا واقع ضرور ہوتا ہے جس کی مذمت بین الاقوامی سطح پر کرنی پڑتی ہے اور اپنا واضح پیغام دینا پڑتا ہے۔ جس کے لئے ہر ملک اپنے سرکاری اہلکاروں اور وزراء کیلئے باقاعدہ طور پر حکمت عملیاں مرتب کرتے ہیں اور ان کی بنیاد ی تربیت بھی فراہم کرتے ہیں۔ جیسے کہ دنیا میں کہیں رونما ہونے والے کسی حادثے پر سب سے پہلے سرکاری اعلامیہ جاری کیا جاتا ہے اوراس اعلامئے کیلئے حکومتی ادارے کا کارندہ تعینات ہوتا ہے اور اسکا بیانیہ ملک کی عوام و خواص کا بیانیہ سمجھا جاتا ہے جو ملک کی خارجہ حکمت عملی کا حصہ بھی ہوتا ہے ۔ اسے ہم ضابطہ اخلاق کی کارورائی بھی کہہ سکتے ہیں۔ کسی ملک کیلئے کسی ملک کا اعلامیہ اہم ہوتا ہے اور کسی ملک کیلئے کسی ملک کا ، اس تعلق کو خاطر میں رکھتے ہوئے اعلامیئے جاری کئے جاتے ہیں اور اسی تعلق کی خصوصی وضاحت اعلامیہ جاری کرنے والی شخصیت سے بھی ہوتی ہے ۔ کسی بھی فرد کے بیان دینے پر کسی قسم کی کوئی پابندی نہیں ہوتی البتہ اس بات کا خیال رکھنا بہت ضروری ہوتا ہے کہ وہ ملک کی بنائی ہوئی حکمت عملی کے خلاف نا ہو اورمتعین کردہ حدود کو پار نا کر رہا ہو۔
دنیا میں جن ملکوں کے بیانئے کو اہمیت دی جاتی ہے ان میں سر فہرست امریکہ ہوسکتا ہے ، اہمیت کا تعلق ملک میں رائج حکومت کے مزاج سے بہت حد مطابقت رکھتا ہے ۔ بہت سارے ایسے واقعات رونما ہوچکے ہیں کہ جن کی مذمت اس وقت تک نہیں کی جاتی جب تک کسی اہم ملک کے بیانیے سے پوری طرح سے آگاہ نا ہوجائے۔ پاکستانی موقف پر گہری نظر ڈالیں، کشمیر پر سال ہا سال سے کئے جانے والے بحث و مباحثے دیکھ لیجئے ، دنیا میں کہاں کہاں اور کس کس طرح سے آواز اٹھائی گئی ہے ، افغانستان کا معاملے میں ہمارے موقف پر ہونے والے عمل درآمد تو رہنے دیجئے عالمی رد عمل دیکھ لیجئے، فلسطین پر ہم کوئی خاص موقف ہی نہیں رکھتے۔
ہم نے پہلے دن سے دہشت گردی کی بھر پور مذمت کی اور اپنا بہت واضح موقف دنیا کے سامنے رکھ دیا مگر پھر بھی ہمیں ہی دہشت گرد کہا جانے لگا، یہاں تک کے دہشت گردوں نے ہمارے معصوم بچوں ، بوڑھوں ، عورتوں اور جوانوں کو نشانا بنانا شروع کردیا، ہمارے ملک کو خوف و ہراس کی علامت بنانے کی کوششیں کیں۔ہم بہت ہی غیر مستقل مزاج قوم ہونے کی وجہ سے آج دنیا میں کہیں بھی نہیں ہیں لیکن ہم دہشت گردی کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر کھڑے ہوگئے اور دہشت گردی کا مقابلہ بہت ہی مستقل مزاجی کیساتھ کیا جبکہ دنیا جو اپنے جدیدترین اسلحے کیساتھ بھی دہشت گردی سے نجات نہیں پارہی کیونکہ دنیا کے پاس نا تو ہماری جیسی افواج ہیں اور نا ہی ہمارے جیسا عزم اور حوصلہ ہے۔
ہمارے سیاستدان جھوٹ کا پلندہ اپنے اپنے کاندھوں پر رکھ کر سیاست کے میدان میں آتے ہیں اور جھوٹ و فریب بیچ بیچ کر ملک و قوم کی عزت بقاء اور سالمیت تک کو داؤ پر لگا دیتے ہیں۔ ہم کسی بھی ملک کے خلاف ہونے والے اقدامات پر بھرپور موقف کیوں نہیں دیتے ، آج اگر حکومتی جماعت کے ایک اہم ترین رکن جن وجوہات کی بنا پر اپنی جماعت سے نالاں ہیں ان میں ایک اہم ترین وجہ یہ بھی ہے کہ انکی جماعت نے عالمی سطح پر اپنے کسی بھی موقف کو نا تو واضح طور پر عیاں کیا ہے اور نا کسی عملی اقدام کی شنید دی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے دشمن ہمارے خلاف صبح شام کسی نا کسی قسم کا بیان داغ دیتے ہیں۔ انہیں تو پتہ ہے کہ پاکستان میں تو ایسے سیاستدان ہیں جو نا صرف اپنے اہم ترین اداروں پر کیچڑ اچھالنے سے دریغ نہیں کرتے بلکہ کسی بھی ملک کے سب سے اہم ، قابل احترام اور اعلی ادارہ عدالتوں پر بھی ہر طرح کی تنقید کرتے سنائی دیتے ہیں جو دنیا میں جگ ہنسائی کا سبب بھی بن رہا ہے ۔ اس کا قطعی یہ مطلب نہیں لیا جائے کہ یہ جمہوریت کی بالادستی کا منہ بولتا ثبوت ہے ، دراصل یہ ایک غیر منظم اور غیر مستقبل مزاج کے حامل افراد کا گروہ ہے جو اپنی اجارہ داری پر انگلی اٹھتے برداشت نہیں کرسکتا۔ وہ ایسے ہی لوگ ہوتے ہیں جو اپنے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو ہمیشہ کیلئے بند کروادیتے ہیں۔ بد قسمتی سے سماجی میڈیا کی مرہون منت اب دنیا میں ایسا نہیں ہے کہ نا انصافی یا بے ایمانی نہیں ہورہی مگر جہاں کہیں بھی ہو رہی ہے اسکو منظر عام پر لا کر اسے ہر ممکن کیفر کردار تک پہنچانے کی کامیاب کوشش کی جاتی ہے ۔ بد قسمتی سے ہمارے ملک میں جو اقتدار میں ہوتا ہے تو وہ پاکستان کو اپنی نجی ملکیت سمجھ لیتا ہے اور اسکا حال ایسا کرکہ چھوڑتا ہے کہ کیا کہا جائے۔ اس بات سے کسی کو اختلاف نہیں ہوگا کہ دنیا اقوام متحدہ اور پاکستان کا موقف واقعی بہت دھیان سے پڑھتی اور سنتی ہے۔
آپ کے مقاصد یہ طے کرتے ہیں کہ آپ کے موقف کی کیا اہمیت ہے ، دراصل ہمارے جیسے ممالک کسی بھی قسم کی صورتحال میں حکمت عملی پر مبنی بیان دیتے ہیں اور یہ کوشش بھی کرتے ہیں کہ ہمارا بیان سب سے پہلے نا ہوجائے ۔ آج ہماری بطور پاکستانی حیثیت کیا ہے اس کی وضاحت کی قطعی ضرورت نہیں ہے ۔ ہمیں دنیا کو اپنی بات سنانے کیلئے پہلے اپنی بات خود ماننی پڑے گی۔ جن کاموں کو سیاستدانوں نے کرنا تھا اور ملک میں جمہوریت کو مستحکم کرنا تھا ، آج وہ کام کوئی اور کر رہا ہے ۔آج ملک میں قانون کی بالادستی قائم ہوتی محسوس کی جاسکتی ہے قانون متحرک ہوچکا ہے(قانون بدعنوانی کے تعافن سے اٹی عدالتوں کے کمروں سے نکل کر سڑکوں پر انصاف فراہم کررہا ہے ) ، ملک میں بدعنوانی کیخلاف کاروائیاں کی جارہی ہیں (چھوٹی بڑی مچھلیا قابو میں کی جارہی ہیں) ، ذہنی اور جسمانی غلامی سے نجات مل رہی ہے ، ملک بہت حد تک دہشت گردی جیسے مرض پر قابو پاچکا ہے ،فوج خود کو سیاست ایوانوں سے باز رکھنے کا عہد کرچکی ہے اور صرف ملک کی بقاء اور سلامتی کیلئے اپنا ہر ممکن کردار ادا کرنے کیلئے پر عزم ہے۔ہارس ٹریڈنگ پر بھی بات ہورہی ہے اور ایسے لوگوں کو منظر عام پر لاکر بطور بدعنوان پیش کیا جا رہے ہے، آج ملک میں سیاست کا نظریہ تبدیل ہورہا ہے ، سیاستدانوں کیلئے ایسے حالات پیدا ہوتے جارہے ہیں کہ وہ اب ڈرا دھمکا کے یا لسانیت کی بنیاد پر ووٹرز کو ورغلا نہیں سکتے اور ووٹ نہیں لے سکتے ۔ اس ساری صورتحال کے پیچھے جس کسی کا بھی ہاتھ ہے اسے ہم سب جانتے ہیں لیکن ہم یہاں کسی کا نام نہیں لینا یا لکھنا چاہتے ۔ نیکی اللہ کی رضاء کیلئے کی جاتی ہے اور اسکا بدلا بھی اللہ تعالی خود ہی دیتے ہیں۔
ان شاء اللہ بہت جلد پاکستان ایک ایسی مستحکم پوزیشن میں داخل ہونے جا رہا ہے جب پاکستان کا موقف سننے کیلئے ساری دنیا اپنے کان لگائے بیٹھی ہوگی۔ ہمیں کسی کو ڈرانا یا دھمکا نہیں ہے ہمیں صرف اور صرف برابری کی بنیاد پر دنیا کے اختیار ات رکھنے والے ممالک کی فہرست میں جگہ چاہئے اور ہم وہ جگہ ا آنے والے دنوں کی کارگردگی سے بنا لینگے۔ ایسے پاکستان کی بنیاد رکھی جا چکی ہے ۔کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اب حکومت میں کوئی بھی آئے مگر اب انصاف ہوگا اور انصاف کرنا پڑے گا، تب ہی ہم اپنے موقف کو موثر اور پر اثر بنا سکیں گے ۔ کشمیر بھی آزاد کرواسکیں گے، عافیہ صدیقی کو بھی وطن واپس لاسکیں گے، فلسطین پر ہونے والے مظالم بھی بند کروا سکیں گے اور افغانستان سے بہترین تعلقات استوار کرسکینگے۔ یہ سب کچھ پاکستان کے موقف کو مضبوط تر بنانے سے ہی ممکن ہوسکے گا۔

حصہ
mm
شیخ خالد زاہد، ملک کے مختلف اخبارات اور ویب سائٹس پر سیاسی اور معاشرتی معاملات پر قلم سے قلب تک کے عنوان سے مضامین لکھتے ہیں۔ ان کا سمجھنا ہے کہ انکا قلم معاشرے میں تحمل اور برداشت کی فضاء قائم کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے اور دوسرے لکھنے والوں سے بھی اسی بات کی توقع رکھتے ہیں کہ قلم کو نفرت مٹانے کیلئے استعمال کریں۔

جواب چھوڑ دیں