قیادت کا فقدان

سوشل میڈیا کا دور ہے۔پلک جھپکتے دنیاکے کونے کونے سے سکنڈوں میں خبریں موصول ہو جاتی ہیں۔ایک دن ہمارے ایک رفیق کی طرف سے ویڈیو موصول ہوئی ،جسے دیکھ کر دل حیران و پریشان ،راندہ درگا سا ہو گیا۔سفید جبے زیب تن کیے ،لال رومال سروں پے لپیٹے عرب خون مسلم سے بے خبر تھے۔تاش کے پتوں کی آوازوں سے عالی شان حال گونج رہا تھا ۔ڈالروں ، ریالوں کی تتلیاں ہرطرف اڑتی پھر رہی تھیں۔دولت کو بے تحاشابہا جارہا تھا،کہیں پاؤں میں تو کہیں جھولیوں میں ۔
سچ ہے کہ آج امت محمدیؐ کے خون کی قیمت استمراری قوتوں نے کوڑیوں کے دام لگا رکھی ہے۔عالم اسلام کے اس خون ارزانی کی وجہ باکردار ،مخلص ،اور صالح قیادت کا نہ ہونا ہے،جس کی وجہ سے مسلمان مسائل کا شکار ہیں ۔رعایا کے امیر اگر ٹھیک ہو جائیں تو پوری قوم درست راستہ پر چل پڑتی ہے ۔تعلیمات نبویؐ کی روشنی میں امت مسلمہ کو ایسی قیادت کی ضرورت ہے، جس میں ایثار ،ہمدردی ، خیر خواہی ، اخلاص ہو ۔قیادت کے وہ بنیادی اصول جو حضور علیہ السلام نے بیان فرمائے ہیں، کہ قائد وہ ہوتا ہے جو حقیقی معنوں میں سید القوم کا مطلب سمجھتا ہو۔آج ان صفات کا نام ونشان کسی مسلم ممالک کی قیادت میں نظر نہیں آتا۔
ہر جگہ مسلمانوں کا خون بہ رہا ہے ۔شام ،افغانستان ،کشمیر ، عراق ، یمن دنیا کا کوئی اسلامی خطہ ایسا نہیں کہ جس میں مسلمانوں کے لہو کی ندیاں جاری نہ ہوں ۔پاکستان کی سرزمین جو آزادی کے وقت سے مسلمانوں کی ،اسلام کی، آنکھوں کی ٹھنڈک بن کر ابھری تھی ،کچھ ناہنجاروں ،خود غرضوں ،ضمیر فروشوں کی بدولت سترسالوں سے اسلامی قیادت سے محروم ہے۔کئی موقع پرست چالباز آزادی کے وقت بھی اکابرین امت کی صفوں میں موجود تھے ۔پاکستان کی تحریک جب عروج پر پہنچی ،اور انتخابات ہندمیں مسلم لیگ کی کامیابی یقینی نظر آنے لگی، تو وہ لوگ اپنے سانپ آستین میں چھپائے شامل ہو گیے۔قائد اعظم محمد علی جناح ان کی اس مکر فریبی کو جانتے تھے ۔آج یورپ کی سوچ یہ ہے کہ یورپ سمیت پوری دنیا جانتی ہے کہ اسلام کے نام معرض وجود میں آنے والا یہ خطہ پوری دنیا کے مسلمانوں کو تمام تر مسائل سے نکالنے کی سعی نہ کرسکے،اور اس کے لیے انہوں نے بہت سوں کے آگے اپنی ٹیبل حاضرکررکھی ہے ۔دشمن جانتا ہے کہ پوری دنیا خصوصاََ پاکستان میں علماء ہی اسلام کو پھیلائے گے اور آج حالت یہ ہے کہ علماء ہی اس ملک کی شان ہونے کی بجائے مطعون ذات سمجھے جاتے ہیں ۔
علماء نے ہمیشہ سے اپنی ذمہ داریوں کو پوری ایمانداری سے پورا کیا ۔چاہے وہ قانون و آئین کی بالادستی ہو یا عوامی سطح پر ایفادیت و فلاح وبہبود کے کام ہوں ۔پاکستان کے تمام مکاتب فکر کے علماء نے تین مختلف اوقات میں فتوے جاری کیے ۔2004 میں خودکش حملوں کے خلاف جاری کیا گیا ۔دوسرا فتویٰ یہ جاری ہوا کہ ایسی ریاست جہاں آئین و قانون ہو، جس کا سرکاری مذہب اسلام ہو وہاں اسلام کے لیے ہتھیار اٹھانا ،مسلح جد جہد کرنا شریعت اس کی اجازت نہیں دیتی۔تیسرا فتویٰ یہ دیا کہ جہاد کا اعلان کوئی فرد یا گروہ یا جماعت نہیں،بل کہ ریاست کرے گی۔ اس لیے یہ کہنا کہ علماء ،مدارس، ریاست میں امن و امان کی مخدوش صورت حال کے ذمہ دار ہیں ،بے ڈھنگی سی بات ہے۔
مسلمانوں کا قبلہ و کعبہ بیت اللہ میں جب دنیا کے مختلف ممالک سے لوگ حج و عمرہ کی غرض سے جمع ہوتے ہیں ،رقت آمیز مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں ۔یہاں تک کہ بعضوں کو اس محبت سے ملتے دیکھا کہ لگتا تھا سالوں کے بچھڑے ہیں۔جن تعلیمات کی روشنی میں، اور جس قیادت کی قیادت میں مسلمانوں نے کئی صدیاں دنیا پر حکمرانی کی،وہ صفات کہاں ہیں۔دنیا کے ذرے ذرے کونے کونے اس بات پر شاہد ہیں کہ مسلمان سلاطین نے کبھی اغیار کے ہاتھ اپنا ایمان نہیں بیچا۔تاریخ انسانی کے مؤرخ قلم کی نوک سے اس سچ کو لکھنے سے نہ روک سکا ،کہ مسلمانوں نے سب سے زیادہ انسانیت کی خدمت کی۔بلاتفریق ہر مذہب کو اپنی دور اقدار میں نمایاں مقام عطا کیا ۔کیوں کہ اس وقت مسلمانوں کی قیادت قرآن و سنت کے رہنما اصولوں کے مطابق تھی۔مسلمانوں کا مرکز محفوظ ہاتھوں میں تھا ۔مسلم ممالک میں دینی رمق باقی تھی ۔عالم کفر عالم اسلام کو میلی آنکھ سے دیکھنے کے لیے ہزار بار سوچتا تھا ۔پھر چور و ڈاکوشامل ہونا شروع ہویے۔جنہوں نے مسلمانوں کو اندر سے انفرادی و اجتماعی طور کمزور کیا۔مذہب بیزار لوگ اکھٹے کیے ۔عقیدہ پر وار کیا ۔مسالک میں انتشار بپا کیا ۔تحفظات کی دیواریں کھوکھلی کیں۔معاشرے میں دینی حمیت کو میلا کیا ۔پھر قیادت میں ایسے لوگوں کو لایا گیا جو اسلام کو مسخ کرنے کا پورا ارادہ کر چکے ہوں ،اور یورپ کے ہر ناجائز حکم پر جی حضور ی کرتے نہ تھکتے ہوں۔
مسلمانوں کی دگرگوں حالت ،دھواں ہوتی زندگیاں خالد بن ولیدؓ ،سلطان محمد فاتح ،محمدبن قاسم ، صلاح الدین ایوبیؒ کی راہ تکتی ہیں۔اور دنیا کا ہر وہ مظلوم مسلمان جو ظالموں کے چنگل میں ہے،یہ دعا کرتا ہوگا کہ مشرق وسطیٰ سمیت زمین کے جس حصے میں مسلمان غم و الم کی چکی میں پس رہے ہیں،مسلم امہ اس پر اپنے شدید رد عمل کا اظہار کرے ۔کشمیر ،برما ، فلسطین ، عراق ، شام افغانستان میں امت مسلمہ کے بے گناہ خون کاجواب طلب کرے۔کاش کہ عالم اسلام اپنے المیے سے باہر نکال آیے ۔کہ یہی دین کی بقا کا راستہ ہے ۔اور یہی ہمارے دین و ایمان کا مسئلہ ہے۔

جواب چھوڑ دیں