جب جسم میرا نہیں تو میری مرضی کیسی؟

ہم (مسلمان) اس پستی تک آچکے ہیں جس کے بعد اب ایک قبر ہی رہ گئی ہے جس میں اترنا باقی رہ گیا ہے۔ پوری دنیا کے مسلمانوں کی بات تو میں اس لئے نہیں کرونگا کہ وہ جس جس خطہ زمین پر آباد ہیں، ایک عظیم الشان اسلامی ریاست کی وراثت کے بٹوارے میں انھیں مل گئے ہیں لیکن ہم (پاکستانی) جس خطے میں آباد ہیں وہ ہمیں ریاست کے بٹوارے کے نتیجے میں کسی وراثت میں نہیں ملاتھا۔ یہ خطہ زمیں دو خونخواروں کے منھ سے چھین کر حاصل کیا گیا تھا۔ ایک جانب ظالم فرنگی تھے تو دوسری جانب دھوتی پرشاد تھے اور دونوں ہی ہماری جان کے، دین اور اسلام کے دشمن تھے۔ ان کے جبڑوں میں دبے خطہ زمین کو کھینچ کر نکالنا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ اس کام کیلئے ہر فرد اس بات کا خوب خوب اندازہ تھا کہ آگ اور خون کا ایک دریا ہے جس کے پار اترنا ہوگا۔ اور پھر دنیا نے دیکھا کہ اس آگ اور خون کے دریا کو کس طرح عبور کیا گیا۔ اس وقت کی دنیا والوں کو یقین ہی نہیں تھا کہ ایسا بھی ہوسکتا ہے۔ درندوں کو شکست بھی دی جاسکتی ہے۔ بے سروسامانی کے باوجود اپنے سے کئی گناہ بڑے دشمنوں کو اپنے قدموں پر جھک جانے پر مجبور کیا جاسکتا ہے۔

کسی کام کو کرگزرنے کا عزم کرلیاجائے تو راستے کی ساری رکاوٹیں کائی کی طرح چھٹ جایا کرتی ہیں، پہاڑ دونیم ہوجاتے ہیں اور دریاوسمندر سمٹ جایا کرتے ہیں۔ مفلوک الحال لوگ لوہے کی دیوار بن گئے اور اللہ رب العزت نے کامیابیوں کے سارے در ان کیلئےوا کردیئے۔

یہ کونسا جذبہ تھا جس نے ایک انہونی کو ہونی کر دکھایا۔ وہ کونسی قوت تھی جس کے آگے کوئی چٹان نہ ٹھہر سکی اور وہ کس کی مدد شامل حال تھی جس نے کمر ہمت کو خم ہونے ہی نہیں دیا۔

ایک ہی نعرے کی گونج بر صغیر کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک سنائی دے رہی تھی “لے کے رہیں گے پاکستان بٹ کے رہے گا ہندوستان”۔ یہ پاکستان کس لئے لے کے رہیں گے یہ ایک ہی جملے میں اہلیان ہندوستان (غیرمسلم) کے دل و دماغ میں ہتھوڑے کی طرح برس رہا تھا اور وہ جملہ تھا “پاکستان کا مطلب کیا لاالہٰ الاللہ”۔

کوئی ایک فرد، پارٹی، کوئی این جی اوز تاریخ سے ثابت کرے کہ کیا اس وقت کے مسلمانوں کا کوئی اور نعرہ بھی تھا۔ پاکستان کے پسِ پردہ تحریک میں کسی اور مقصد کو بھی بیان کیا گیا تھا؟، کیا کہا گیا تھا ہم ایک ایسا خطہ زمین چاہتے ہیں جہاں کھلا کھایا جائے گا اور ننگا نہایا جائے گا؟، وہاں اللہ کا قانون نہیں بلکہ ہماری خواہشوں پر مبنی قانون چلے گا؟، ہم اس خطہ زمین میں اپنی مرضی و منشا کے مطابق زندگی بسر کریں گے۔ بھول جائیں کے اللہ اور اس کے احکامات کو، من مانیاں کریں گے اور من موجیاں ہمارا شعار ہوگا؟۔

بہت دکھ کی بات ہے ایک ایسا خطہ زمین جس کو خالصتاً اللہ کی حاکمیت کے لئے بنایا گیا تھا اس میں ایسی ایسی شرمناک باتیں ہو رہی ہیں جس پر اگر آسمان نہیں ٹوٹ رہا اور زمین نہیں پھٹ رہی تو یہ سراسر رب کریم کی مہربانیوں کے علاوہ اور کچھ نہیں ورنہ ہم اللہ کی نافرمانیوں میں اس حدتک آگے بڑھ چکے ہیں کہ ہم پر خشت باری ہو یا ابابیل کنکریاں مار کر ہمیں کھائے ہوئے بھوسے میں تبدیل کردیں تب بھی شاید یہ سزا ہمارے گناہوں کا کفارہ نہ بن سکے۔

قومیں سوجائیں تو حاکم وقت بھی خراٹے بھرنے لگتے ہیں۔ جب قوم ہی ظلم و ستم پر خاموش شیطان بن جائے تو حکمران بے حس ہوجایا کرتے ہیں۔

اندازہ لگائیں کہ جو ملک اس وعدے اور دعوے پر حاصل کیا گیا تھا کہ وہاں نظام مصطفیٰ (ص) چلے گا وہاں 70 برس میں ایک دن کیلئے بھی اللہ کے قانون کو نافذ نہیں کیا گیا۔ جب اللہ سے وعدہ خلافی کا عالم یہ ہو تو پھر اگر شیطان الرجیم دل و دماغ پر حکمرانی نہیں کریگا تو کیا فرشتے درود و سلام پیش کرتے نظر آئیں گے؟۔ 70 سال سے اللہ کے قانون کی بجائے فرنگیوں کا بنایا ہوا آئین اور طرز حکومت کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنائے رکھنے کی جرم میں اگر این جی اوز اس ملک خداداد میں یہ کہتے نظر آرہے ہیں “میراجسم میری مرضی” تو اس میں حیرانگی و پریشانی کی کیا بات ہے۔ ایسا تو ہونا ہی تھا اور اگر اب بھی ہم نے آنکھیں نہ کھولیں تو اس ملک میں ایسے ایسے نماشے بھی ہونگے جہاں فی الحال پماری سوچ کی پروازیں بھی نہیں جا سکتیں۔

جب سے پاکستان بناہے اس کی بنیادوں کو ہلانے کی سرتوڑ کوششیں جاری ہیں اور ہرآنے والے دن کے ساتھ اس میں نہایت برق رفتاری کے ساتھ اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ ایک ایسا ملک جس کے حصول کا مقصد اس کے علاوہ اور کچھ نہیں تھا کہ یہاں اللہ اور اس کے رسول (ص) کا قانون نافذ ہوگا وہاں شیطان اپنے دامِ پرفریب بچھاتا چلا جا رہا۔ نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ ہماری اشرافیہ ہی نہیں عام لوگ بھی اس میں اتنا الجھ کر رہ گئے ہیں کہ وہ کوئی احتجاج بلند کرنے کیلئے بھی تیار نہیں۔

صدائیں آرہی ہیں کہ ہمیں مادر پدرآزادی چاہیے۔ خواتین مکمل آزاد ہونی چاہئیں، مرضی منشا کہ ساتھ ساتھ لباس کی تراش خراش پر بھی کوئی پابندی نہیں ہونی چاہیے بلکہ اگر وہ بے لباسی کو اپنا شعار بنانا چاہیں تو اس میں بھی کو قباحت نہیں۔ بات یہاں پر ہی رکتی نظر نہیں آرہی، اس سے بڑھ کر بات یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ اگر مرد عورت باہمی رضامندی سے اختلاط (زنا) کے مرتکب ہوبھی جائیں تو اس قسم کے فعل کو زنا نہ سمجھا جائے اور زنا کے سلسلے میں جو سزائیں قانون میں رکھی گئی ہیں ان کی تنسیخ عمل میں لائی جائے۔

“خبر کے مطابق رضامندی سے زناکو جائز قرار دینے کیلئے اقوام متحدہ کی ایک تنظم کی سفارشات کو پاکستان نے رد کرنے کی بجائے ان سفارشات پر “غور” کرنے کا کہا ہے۔(دی یو پی آر ریکومنڈیشن 2017) میں واضح درج ہے کہ ایسے قوانین جو بغیر شادی کئے نامحرم عورت اور مرد کے جسمانی تعلق یعنی زنا پر پابندی لگاتے ہیں اور اس عمل کو غیر قانونی تصور کرتے ہیں، انھیں ختم کر دیا جائے تاکہ زنا کو قانونی تحفظ حاصل ہوجائے۔خبر میں وزارت خارجہ کے ذرائع کے حوالے سے لکھا گیا ہے کہ انھوں نے بھی اس بات کی تصدیق کی کہ پاکستان ان سفارشات جن کا حوالہ (دی یو پی آر ریکومنڈیشن 2017) میں موجود ہے اس پر “غور” کرنے کا پیغام بھیجا ہے۔ خبر کے مطابق ماضی میں بھی پہلے 2008 اور پھر 2012 میں اسی تنظیم نے کچھ دوسری متنازع سفارشات کے ساتھ ساتھ رضامندی سے زنا کے عمل کو جائز قرار دینے کی تجاویز دی تھیں لیکن دونوں مرتبہ پاکستان نے ان سفارشات کو صاف صاف مسترد کر دیا تھا جس کا مطلب یہ تھا کہ ہم اس پر غور بھی نہیں کریں گے لیکن اس بار غور کرنے کا عندیا بھیجا گیا ہے”

بات وہیں آکر ختم ہرہوتی ہے کہ ہمارے دین کی بنیادیں بہت آہستگی کے ساتھ منہدم کرنے کا ایک سلسلہ ہے جو کسی بھی طرح رکنے کا نام لے رہا۔

ذہن بنایا جارہا ہے کہ “میرا جسم میری مرضی”۔ کوئی ان شیطانوں سے پوچھے کہ جس جسم کو وہ اپنا کہہ رہے ہیں وہ کیا واقعی ان کا اپنا ہی جسم ہے؟۔ کیا اس کی تخلیق میں ان کا ہاتھ ہے؟۔ کیا ہرروز بدلتے دن کے ساتھ اس میں جو تبدیلیاں رونما ہوتی رہتی ہیں وہ عمل ان کی اپنی مرضی کے تابع ہیں؟۔ کیا وہ سانس جو وہ اپنے اندر داخل کرچکے ہیں وہ واقعی باہر نکال سکیں گے اور جو خارج کر چکے ہیں وہ دوبارہ اندر جاسکے گا؟۔ کیا جسم کا اندرونی نظام ان کی اپنی مرضی سے رواں دواں ہے۔ ہر روز بدلتی ہوئی شکل ان کے اپنے اختیار میں ہے؟۔ کیا انھیں یہ بات نہیں معلوم کہ وہ پیدائش سے لیکر اپنے بڑھاپے کی آخری حد تک کتنی بار اپنے نقوش بدل چکے ہیں؟۔ ان سب باتوں کا جواب اگر ہاں میں ہے تو پھر تو “میراجسم میری مرضی” والی بات حق ہے لیکن اگر جواب “نہیں” میں ہے تو پھر مرضی بھی اسی کی چلے گی جس کی عطا ہے۔

اگر میں یہ کہوں کہ وہ شے جو واقعی آپ ہی کی ہوتی ہے جیسے کوئی کار، اس کو چلانے میں بھی آپ ٹریفک کے قوانین کے پابند ہوتے ہیں۔ اس کو گلیوں اور سڑکوں پر چلانے میں بے شک آزاد ہوتے ہیں لیکن قوانین کی پابندی کے ساتھ۔

اب خود ہی فیصلہ کرلیں کہ اپنی بنائی ہوئی یا خریدی ہوئی کسی بھی شے کو آپ اپنی مرضی و منشا کے مطابق استعمال نہیں کر سکتے ہوں بلکہ اصول و قوائد کی پابندی آپ پر واجب و لازم ہو تو وہ جس کی تخلیق میں آپ کا پیدائش سے لیکر موت تک کوئی عمل دخل ہی نہیں ہو اس کے متعلق آپ یہ خیال کریں کہ اسے آپ اپنی مرضی سے استعمال کرنے کا حق رکھتے ہیں، ایک جاہلانہ سوچ کے سوا اس کو کیا کہا جاستا ہے۔

مجھے نہیں معلوم کہ “غور” کرنے کا پیغام دے کر کس نظام کفر کی ہمدردیا حاصل کرنے کی کوشش کی گئی ہے لیکن اس بات کو بھولنا نہیں چاہیے کہ جس پاکستان میں ہم بیٹھے ہیں اس میں ایسے ایسے کئی فرعون قصہ ماضی بن چکے ہیں۔ اگر غور کریں تو ہم نے اس ملک کو تباہ برباد کرنے میں کوئی دقیقہ فرگزاشت نہیں چھوڑا لیکن میرا رب اس کی حفاظت کرتا آیا ہے جس کی وجہ سے اب تک اس کی بنیادیں منہدم ہونے سے بچی ہوئی ہیں لیکن یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ نافرمانیاں در نافرمانیاں ہی تھیں جس نے اللہ تعالیٰ کی لاڈلی قوم بنی اسرائیل کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا اور یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ دنیا کی کوئی قوم اللہ کی لاڈلی نہیں لاڈلے وہی ہیں جو تقویٰ والے ہیں اور وہی فلاح پانے والے ہیں۔

حکومت کو بھی چاہیے کہ اگر وہ بہت سارے کاموں کے سلسلے میں کسی دباؤ کا شکار ہے تو وہ اس دباؤ کا اظہار قوم کے سامنے کرے۔ جو قوم فرنگیوں اور بنیوں کے جبڑوں سے پاکستان چھیننے کی صلاحیت و عزم و ہمت رکھتی ہو وہ اللہ کی خاطر بڑی سی بڑی طاقت کے آگے سیسہ پلائی ہوئی دیوار ثابت ہو سکتی ہے۔

اے وطن تونے پکارا تو لہو کھول اٹھا

تیرے بیٹے ترے جانباز چلے آتے ہیں

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں