مسئلہ کھانا گرم کرنے کا نہیں ہے

پچھلے دنوں ،پہلے کارڈ اٹھا کر عورتوں کے حقوق کے لیے بات کی گئی اس کی گونج الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا پر اب تک سنائی دے رہی ہے۔ لوگوں نے خصوصاً مردوں نے ترکی بہ ترکی جواب دیا کہ اگر ہم نے اپنا کھانا خود گرم کرنا ہے تو تم اپنا بکرا خود گرا لینا۔
مگر بات اس مناظرے سے بہت آگے نکل چکی ہے ہمارے پاکستانی معاشرے کا اصل ایشو یہ نہیں کہ کون کھانا پکائے گا؟ اور بکرا کون گرائے گا؟ہمارے پاس اپنا مکمل نظام حیات موجود ہے جسے اپنی زندگیوں میں نافذ کرکے حقوق و فرائض کی جنگ خود بخود ختم ہو جائے گی۔
اصل ایشو ہے اس علم کی قلت جو انسان کو اپنی ذات سے آگے سوچنے نہیں دیتا۔اصل ایشو ہے وہ چھوٹی سی اسکرین جو بین الاقوامی ایجنڈے پر کام کر رہی ہے۔اصل ایشو ہے وہ حکمران جو مراعات کی لالچ میں کرسیوں پر براجمان ہوتے ہیں اور عوام کو بنیادی سہولیات سے محروم رکھتے ہیں اصل ایشو بیروزگاری اورکرپشن ہے۔ اصل ایشو وہ غریب طبقہ ہے جن کے مرد گھروں میں بیکار پڑے رہتے ہیں اور عورتیں دوسرے کے گھروں میں کام کرنے پر مجبور ہوتی ہیں۔ اصل میں پلے کارڈ ان عورتوں کو اٹھانے چاہیے تھے جو چھ سات بچوں کے ساتھ میرے اور آپ کے گھروں میں کام کرتی ہیں اور پھر واپسی پر اپنا سودا سلف خود خریدتی ہیں اور اپنے بچوں کو محلے سے اکٹھا کرتے ہوئے اپنے گھر جاتی ہیں اور اپنے بچوں کو قریبی مدرسوں میں بھیجتی ہیں،اپنا کھانا بھی پکاتی ہیں اور اپنے گھر کی صفائی بھی کرتی ہیں۔
الیکٹرانک میڈیا کی زبان جن جرائم کی داستانیں سناتے نہیں تھکتی یہ داستانیں اسی طبقے سے تعلق رکھتی ہیں کیونکہ ان کے زیادہ تر مرد نشئی اور بیروزگار ہیں یہ اپنے بچوں کو پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے کسی کے گھر ملازمت کیلیے رکھوادیتے ہیں یہ وہی طبقہ ہے جو نہ اپنے بچوں کو مالکن کے ظلم سے بچا سکتے ہیں نہ کسی کی ہوس کا نشانہ بننے سے۔
اصل میں ان پلے کارڈز اٹھانے والوں کا مقصد عورتوں کے حقوق کے لیے آواز اٹھانا نہیں بلکہ بین الاقوامی ایجنڈے کی تکمیل اور فنڈنگ تھا اگر انھیں واقعی عورتوں سے اور ان کے حقوق سے ہمدردی ہے دیہی علاقوں اور کچی بستیوں میں جائیں انکے مسائل حل کریں۔انکے بچوں کی تعلیم و تربیت پر توجہ دیں انکے مردوں کے بیروزگاری کے مسائل حل کریں۔ خالی خولی پلے کارڈز اٹھانے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا بات تو اس سے آگے نکل چکی۔

جواب چھوڑ دیں