ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو

            خبر ہے کہ امریکی حکومت نے افغانستان میں حملہ کرنے والے عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی کیلئے پاکستان میں ڈرون حملے تیز کرنے اور امداد رکنے پر غور شروع کردیا ہے۔ غیرملکی میڈیا نے اپنی رپورٹ میں امریکی حکومتی ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ پاکستان میں طالبان اپنی محفوظ پناہ گاہوں سے افغانستان پر حملے کرتے ہیں اور پھر دوبارہ منظم ہوتے ہیں۔ اس لئے ٹرمپ حکومت پاکستان سے متعلق اپنی پالیسی سخت کرنے کا جائزہ لے رہی ہے تاکہ پاکستان میں موجود مبینہ عسکریت پسندوں کے خلاف کریک ڈاؤن کیا جاسکے۔ امریکی حکومت کا کہنا ہے ٹرمپ حکومت پاکستان میں ڈرون حملوں میں اضافہ کر سکتی ہے، پاکستان کی امداد روک سکتی ہے یا پھر اہم غیر نیٹو اتحادی ملک کے طور پر حاصل پاکستان کے مرتبے کو بھی کم کرسکتی ہے۔ بعض امریکی حکام کا کہنا ہے کہ یہ اقدامات لاحاصل ہیں کیونکہ اس سے پہلے بھی پاکستان کو عسکریت پسند تنظیموں کی حمایت سے باز رکھنے کی امریکی کوششیں ناکام ہو چکی ہیںجبکہ بڑھتے ہوئے امریکہ بھارت تعلقات کی وجہ سے بھی پاکستان کے ساتھ کسی پیشرفت کے امکانات کو نقصان پہنچا ہے۔

            امریکہ کی بدلتی ہوئی پالیسی کوئی ایسی بات نہیں جس کے متعلق یہ کہاجائے کہ کوئی ایسی بات تھی جس کی توقع کی ہی نہیں جا سکتی تھی۔ دنیا کا ہر ملک جس وقت بھی چاہے اپنی پالیسیاں بدلنے کا حق رکھتا ہے۔ اس قسم کے خارجی تعلقات ہمیشہ دو طرفہ مفادات کی بنیاد پر ہی ہوتے ہیں اور مفادات ضروری نہیں کہ ہمیشہ مشترک رہیں ان کی نوعیت، وقت اور حالات کے ساتھ ساتھ بدلتی رہتی ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ پاکستان ہر پالیسی بنانے سے قبل امریکہ کی جانب دیکھا کرتا تھا اور اس کے اشارہ ابرو کا منتظر رہتا تھا۔ پاکستان میں جتنی بھی جمہوری حکومتیں آئیں، انتخابات سے پہلے امریکہ کے خلاف زہر اگل کر ہی آتی رہیں۔ ممکن ہے یہ پاکستان کی ساری سیاسی پارٹیوں کی مجبوری رہی ہو کیونکہ پاکستان کے عوام ذہنی طور پر کبھی امریکہ کے قریب نہیں رہے۔ عوام میں مقبولیت حاصل کرنے کا ایک عام اور سادہ سا نسخہ ہمیشہ یہی رہا ہے کہ ملک کی مذہبی اور سیاسی جماعتیں اپنی اپنی انتخابی مہمات میں امریکہ کو برا بھلا کہیں ۔ خصوصاً 9 نومبر 2000 ہزار کے بعد جو “9/11” کی نام سے مشہور ہے، پاکستان میں امریکی مخالفت عروج پر جا پہنچی۔ امریکہ کی اس مخالفت کو سب سے پہلے متحدہ مجلس عمل نے کیش کرایا اور پاکستان میں فقید المثال کامیابی سمیٹی لیکن ہمارے حکمرنوں کی چاپلوسی کی پالیسی وہی کی وہی رہی اور زرداری دور تک جو حکومت بھی بنی اس کی یہی کوشش رہی کہ کسی نہ کسی طرح امریکہ کے چرنوں میں جگہ ملتی رہے۔ ایسا پہلی مرتبہ ہے کہ پاکستان نے خارجی تعلقات کو ایک نیا موڑ دے کر امریکہ کی بجائے چین سے قربت بڑھائی جس کا کافی فائدہ پاکستان کو ہو رہا ہے لیکن افسوس کا پہلو یہ ہے کہ اپنے قدموں پر اب بھی کھڑے ہونے کا عزم نہیں کیا اور دست نگر بننا ہی پسند کیا خواہ وہ پہلے امریکہ کا رہا ہو یا اب چین۔ چین سے قربت اور امریکہ سے دوری کیا پاکستان کیلئے کسی خوش بختی کی علامت بن سکتی ہے؟ اس کا جواب تو آنے والا وقت ہی دے سکے گا لیکن اس بات کو اچھی طرح جان لینا چاہیے کہ اس کو امریکہ یا وہ ممالک جو امریکہ کے اتحادی ہیں کوئی بہت اچھا تصور نہیں کریں گے۔ امریکہ آج کل بھارت سے اپنی محبت کی پینگیں بڑھارہا ہے جبکہ بھارت پاکستان کا ازلی دشمن ہے، ظاہر ہے کہ امریکہ کو کیا کسی کو بھی کسی بھی ملک کے ساتھ دوستی یا دشمنی بڑھانے کا پورا پورا حق ہے لیکن امریکہ بھارت قربت پاکستان کیلئے کوئی خوش کن خبر نہیں اس لئے کہ بھارت پاکستان کا دیرینہ دشمن ہے اور وہ پاکستان کو کبھی پھلتا پھولتا نہیں دیکھ سکتا۔ ایک جانب بھارت کی امریکہ کے ساتھ دوستی ایک بہت بڑے خطرے کی علامت ہے دوسری جانب بھارت اور افغانستان کا گٹھ جوڑ ایک اور لمحہ فکریہ۔ بھارت کا افغانستان پر اثرورسوخ اتنا زیادہ ہے کہ افغان صدر وہی زبان پاکستان کے خلاف استعمال کرتے ہیں جو بھارت کرتا ہے بلکہ بعض معاملات میں افغان حکومت بھارت سے بھی دوہاتھ بڑھ کر پاکستان کے خلاف بات کرتی ہے اور دنیا کا کوئی فورم بھی ایسا نہیں جہاں افغان حکومت کسی لحاظ کو خاطر میں لائے بغیر پاکستان کے خلاف زہر افشانی نہ کرے۔

            پاکستان کے ساتھ امریکی تعلقات کی بڑھتی ہوئی خلیج، بھارت سے پیار و محبت اور افغانستان کی ریشہ دوانیوں اور بدزبانی کو سامنے رکھتے ہوئے اگر اوپر کی سطور میں امریکی رپورٹ کا جائزہ لیا جائے تو بات روز روشن کی طرح عیاں ہوکر سامنے آجاتی ہے۔ وہی پاکستان جس نے افغانستان میں گھس آنے والے روس کو افغانستان سے بھگانے میں کلیدی کردار ادا کیاا اور افغانستان کو ایک عذاب سے نجات دلائی، وہی افغانستان کی نظروں میں آج برا ہے۔ وہی پاکستان جو اس کے پندرہ لاکھ افغانیوں کی پرورش کر رہا ہے آج انھیں افغانیوں کو وہ واپس لینے کیلئے تیار نہیں۔ وہی عسکریت اور شدت پسند جو افغانستان کے لئے بلائے جان بنے ہوئے تھے ان کے ساتھ جس طرح پاک افواج نے مقابلہ کیا، ان کو ہلاک کیا، ان کے ٹھکانے تباہ کئے، ان کی تربیت گاہیں برباد کر کے رکھ دیں، ان تما م باتوں کو بھول کر وہی ہرزہ سرائی کہ پاکستان اپنی علاقوں میں طالبان کو تربیت دے کر افغانستان بھیجتا ہے اور وہاں تخریبی کارروائیاں کراتاہے، جیسے الزامات لگا نا دراصل امریکہ کا بھارت کے ساتھ بڑھتے ہو رومانس کا شاخسانہ ہے۔

            اس میں کوئی شک نہیں کہ پہاڑ جیسی غلطی بھی کیوں نہ ہو، اگر نہایت دیانت داری سے تجزیہ کیا جائے تو رائی کے برابر ہی کیوں نہ ہو، اپنی غلطی اس میں ضرور شامل ہوتی ہے۔ جب افغانستان میں روس نے مداخلت کی تو پاکستان کو اس بات کا اچھی طرح احساس تھا کہ اس کا اگلا نشانہ پاکستان ہی ہوگا۔ بد قسمتی سے روس گرم سمندروں سے محروم ہے اور اس کی ایک طویل عرصے سے یہ کوشش رہی تھی کہ کسی نہ کسی طرح کسی ایسے ملک پر قبضہ جمائیں جہاں اسے گرم سمندر مل سکیں، درہ دانیال جس پر ترکی کا قبضہ ہے، اس پر کئی بار قابض ہونے کی روسی کوشش کو بہادر ترکیوں نے نے ہربار ناکام بنایا۔ خدشہ تھا کہ اب وہ پاکستان میں ہی گھس آئے اس لئے لازم تھا کہ اس کا تدارک کیا جائے۔ امریکہ کو بھی اس بات کا خوب اندازہ تھا کہ اگر روس نے افغانستان کے بعد پاکستان کی جانب بھی پیش قدمی کی اور گرم سمندروں تک پہنچ حاصل کرلی تو وہ بہت ہی مضبوط ہوجائے گا اور شاید اس کی باد شاہی کا سورج ہی غروب کردے۔ ایک جانب پاکستان کو کسی بڑے ملک کی امداد کی ضرورت تھی اور دوسری جانب امریکہ کو پاکستان کی۔ یہ تھے وہ دو طرفہ مفادات جو ایک دوسرے کو تیزی سے اس قدر قریب لے آئے کہ دونوںیک دل اور یک جان ہوگئے۔ پاکستان نے شاید امریکہ کی اس غرض مندی پر اتنا غور نہیں کیا جتنا اس بات پر کہ جس طرح بھی ہو روس کو افغانستان سے اس کی اپنی سرحدوں میں واپس دھکیلا جائے۔ بس اسی غفلت کی وجہ سے پاکستان امریکہ سے وہ مفادات حاصل نہیں کر سکا جو اس وقت اس سے منوائے اور حاصل کئے جا سکتے تھے، نتیجہ یہ ہوا کہ ایک جانب پاکستان کا مقصد حل ہوا اور دوسرے جانب امریکہ کا مفاد۔ جب ایک احتیاج تسکین پاجاتی ہے تو پھر اس کی کوکھ سے کوئی اور احتیاج جنم لیتی ہے۔ اب امریکہ اگر آنکھیں بدل رہا ہے تو ایسی کوئی انہونی بات نہیں لیکن ہے بہت پریشان کن اس لئے ہے کہ ہم نے کسی بھی دور میں یہ سوچا ہی نہیں کہ جن جن سہاروں پر ہم کھڑے ہیں اگر وہ سہارے ساتھ چھوڑ گئے تو ہمارا کیا بنے گا۔ جو جو بیساکھیاں ہم نے اپنی بغلوں میں دبائی ہوئی ہیں وہ ٹوٹ گئیں تو ہمارا کھڑا رہنا کیونکر ممکن رہ سکے گا؟ چین کی قربت نے ہمیں یقیناً بہت فائدہ دیا ہے اور اگر اسی طرح اس سے مراسم رہے تو مستقبل میں پاکستان کیلئے اور بھی فوائد ہیں لیکن اس میں برائی کا یہی پہلو ہے کہ یہ سب کچھ ادھار پر اور انحصار ہے۔ کاش ایسا سب کچھ ہم خود کر رہے ہوتے اور اپنی ہر آمدنی کو خالص کر رہے ہوتے۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ ہم نے اس بات کا جائزہ ہی نہیں لیا کہ ہمارے جس ملک سے محبوبانہ تعلقات رہے ہیں اس کو ہمارا یوں نگاہیں پھیر لینا کتنا گوارہ ہوگا۔ بھارت سے امریکہ کی قربت، منظرعام پر آنے والی امریکی خبر، یہ سب اسی جانب اشارہ ہے کہ شاید ہم نے اپنی مشکلات میں کچھ اضافہ ہی کیا ہے اور آنے والے ماہ و سال شاید مشکلات کی نئی نئی کہانیاں سنانے والے ہیں۔ دعا کرنی چاہیے کہ اللہ پاکستان کو ہر مشکل اور پریشانی سے اپنی پناہ میں رکھے لیکن یاد رکھنے کی جو بات ہے اسی بھی کبھی فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ “انسان کیلئے کچھ بھی نہیں، مگر وہ جتنی کوشش کرتا ہے”(القرآن)۔

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں