اقوالِ کنفیوشس اور آج کا چائنہ

کنفیوشس 551 قبل از مسیح پیدا ہونے والا چینی ٹیچر،ایڈیٹر،سیاست دان اور فلاسفر تھا۔مگر اس کی وجہ شہرت اس کے اقوال جو کہ انفرادیت،حکومتی پالیسیوں،اخلاقیات،سماجی تعلقات ، اصلاح عامہ ،انصاف و اخلاص پر مبنی تھے۔کنفیوشس مضبوط خاندانی نظام کے حق میں تھا۔کہ خاندان ہی واحد رشتہ ہے جو سب افراد کو ایک دوسرے سے مضبوطی سے باندھے رکھتا ہے۔بلاشبہ چائنہ کی تاریخ میں انفرادی طور پر ایسی پرُ اثر اور بھر پور خوبیوں کا مالک شخص آج تک پیدا نہیں ہو سکا۔یہی وجہ ے کہ صدیاں گزر جانے کے باوجود اس کا نا م اور اقوال آج بھی زندہ ہیں۔اقوالِ کنفیوشس کا چائنہ کی موجودہ ترقی اور سیاسی حالات پر کیسے اور کیا اثرات مرتب ہوئے قارئین کی نذر ہیں۔
کنفیوشس کہتا ہے کہ’’میرا اس بات سے کوئی علاقہ نہیں کہ کوئی مجھے کیوں نہیں جانتا،مجھے تو اس بات میں دلچسپی ہے کہ میں اسے کیوں نہیں جانتا‘‘اگر ہم غور کریں تو 1949 سے لے کرعہدِ حاضر تک اگر چائنہ کی جدید تاریخ کا مطالعہ کریں تو ان کی پالیسیوں کے دو حصے نظر آئیں گے،ایک جس میں چائنہ نے policy of isolation کا دامن پکڑے رکھا یعنی دنیا جائے جہنم میں ہمیں تو بس بحثیت قوم اپنے آپ کو منوانا ہے۔ اس عرصہ میں چین نے زندگی کو سو کر نہیں گزارا،بلکہ عوام کو نیند سے بیدار کر کے ایسی حالت میں لے آئے کہ جہاں صرف اور صرف کام کام اور کام ہی تھا۔ دوسرا دور جس میں چائنہ نے دوسروں کو جاننے کی کوششیں شروع کر دیں اور یہی وہ دور ہے جس میں چین نے پوری دنیا کو دو باتوں کی وجہ سے تسخیر کیا،ایک اپنا رویہ اوردوسرا پیداوری زرائع کا بہتر اور بروقت استعمال۔ نتیجہ آج دنیا معاشی ترقی کے لئے چین کی مثال اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کرتی ہے تاکہ دنیا میں معاشی لحاظ سے ان کا بھی نام ہو۔یعنی پہلے اپنے آپ کو منوایا اور پھر دنیا کو اپنی مثال پیش کی۔۔۔۔بقول کنفیوشس’’عظیم انسان کی تعریف یہ ہے کہ وہ پہلے خود دوسروں کے لئے مثال بنتا ہے پھر دوسروں کو تقلید کی دعوت دیتا ہے‘‘اس قول کو مدنظر رکھتے ہوئے اگر ماؤ کے اقوال کا جائزہ لیں یا اس کی زندگی کے شب و روز کا مشاہدہ کریں تو آپ دیکھیں گے کہ ماؤ اور چین کو عظیم بننے کے لئے کتنی محنت کرنا پڑی۔پہلے اس نے خود کو منوایا ،پھر اپنے اصولوں کو عوام کے سامنے رکھا اور پھر انہیں دو لوگوں کے اقوال پر عمل پیرائی نے چین کو دنیا میں بطور سپر پاور متعارف کروایا۔یہ سب اس وقت تک ممکن نہیں ہوتا جب تک کہ آپ تعلیم کے زیور سے آراستہ نہیں ہوتے۔یہ طریقہ کنفیوشس اور ماؤ دونوں کو ہی معلوم تھا۔کنفیوشس کہتا ہو کہ’’علم ان دو باتوں کو جاننے کا نام ہے کہ آپ کیا جانتے ہیں؟اور آپ کیا نہیں جانتے ہیں۔‘‘یا پھر وہ کہتا ہے کہ’’جس حد تک ممکن ہو علم حاصل کرو،سیکھو اور اس کے بعد جو فاضل اور مشکوک ہو اسے ایک طرف ڈھیر کر دو‘‘گویا ماؤ کو اس بات کا ادراک تھا کہ چین علم کے بغیر ترقی نہیں کر سکتا۔یہی وجہ ہے کہ اس نے تعلیمی اداروں کے ساتھ ساتھ ماہر کاریگروں کے لئے بھی تربیتی ادارے کھولے ،کہ علم محض کتابیں پڑھنے کا نام ہی نہیں ہے بلکہ جو لوگ ہنر مند ہیں وہ بھی اپنی فیلڈ میں پڑھے لکھے ہیں کہ جو علم تجربہ کی بنیاد پہ حاصل کیا جاتا ہے اس کو یاد رکھنے کی عمر زیادہ ہوتی ہے۔ویسے بھی قوموں کی تاریخ گواہ ہے کہ پیشہ ور افراد کے بغیر معاشی ترقی ممکن نہیں۔مشہور قول ہے کہ’’ہنر مند کبھی بھوکا نہیں مرتا‘‘آج بھی جب ہم دنیا کی معاشی ترقی اور دولت مند افراد اکا مطالعہ کرتے ہیں تو حقائق ہمیں بتاتے ہیں کہ دنیا میں ایک بھی پروفیسر داکٹر ارب پتی نہیں ہے جبکہ ان پڑھ ارب پتی آپ کو سینکڑوں کی تعداد میں مل جائیں گے۔کنفیوشس تعلیم کے چار بنیادی نکات پیش کرتا ہے۔
ادب،اخلاقی رویہ،اعمال،وفاداری و ذمہ داری۔۔۔۔۔عظیم چائنہ آج بھی ان چار ستونوں پر کھڑا ہے۔اور پوری دنیا پر حکمرانی کر رہا ہے۔تسائی لون سے لے کر ارژنگ تک چین کی اپنی مثال ،شناخت اور حوالہ ہے۔اخلاقی رویہ کا عالم یہ ہے کہ اگر کبھی آپ کو چین جانے کا اتفاق ہو گیا اورآپ کا واسطہ کچھ چینی بااشندوں سے پڑ گیا تو ’’نی ہاؤ‘‘ کا جواب دیتے دیتے آپ کی کمر میں بل پڑ جائیں گے مجال ہے کہ ان کے چہروں یا پیشانی پہ کسی قسم کا کوئی بل پڑ ے۔یہ لوگ اپنے اعمال اور اخلاص میں اس قدر مخلص ہیں کہ چائنہ کا کوئی شخص اگر کسی غیر ملکی دورے پر جائے تو اپنی شیو کے لئے ریزر بھی ’’چائنہ میڈ ‘‘اپنے ساتھ لے کر جاتا ہے۔وفاداری و ذمہ داری میں تو چین کا کوئی ثانی نہیں،جس سے ایک باردوستی کر لے پھر دشمنی کے لاکھ طوفانوں کے باوجود کوئی انہیں ایک قدم بھی پیچھے جانے کے لئے مجبور نہیں کر سکتا۔اس کی مثال ہمارے ملک میں یوں دی جاتی ہے کہ پاک چین دوستی شہد سے میٹھی،سمندروں سے گہری اور ہمالہ سے اونچی ہے‘‘چین کی ترقی کا راز کنفیوشس کے اس قول میں بھی مضمر ہے کہ’’دوسرے شخص کو کسی مداخلت کے بغیر کام کرنے دو‘‘یعنی بلاوجہ آپ کسی کے کام میں ٹانگ نہ اڑاؤ،اسے اس کی مرضی سے کام کرنے دو۔جب آپ میں یہ رویہ پیدا ہو جائے گا تو معکوس قوت آپ کے اندر خود بخود پیدا ہو جائے گی۔کہ جب آپ کسی کے کام میں دخل نہیں دیتے تو کوئی بھی آپ کے کام میں مداخلت نہ کرے۔اسی لئے چائنہ نے غیرجانبداری کی خارجہ پالیسی اپنا رکھی ہے۔کہ جب تک دوسرا ملک اپنی مدد کی درخواست نہیں کرے گا،چین ان کے معاملات میں دخل اندازی نہیں کرے گا۔اور اگر کوئی چین پر معاشی یاسرحدی حملہ کرتا ہے تو پھر چین بزدلی نہیں دکھائے گا۔کیونکہ کنفیوشس کہتا ہے کہ’’بزدلی اصل میں یہ ہے کہ آپ حق کے لئے آواز نہ اٹھائیں‘‘یوں تو کنفیوشس کے اقوال کی تعداد ہزاروں میں ہے مگر میں سمجھتا ہوں کہ ممکنہ ترقی کے پیچھے شائد اسس کا یہ قول ہے’’بڑے آدمی گفتگو میں دھیمے اور عمل میں تیز ہوتے ہیں‘‘یعنی دماغ کو ٹھنڈا اور پاؤں کو گرم رکھتے ہیں ۔

 

جواب چھوڑ دیں