حیراں ہوں دل کو رؤں کہ پیٹوں جگر کو میں

ایک طویل عرصے سے لاپتہ افراد کا معاملہ ایک معمہ بناہوا ہے۔ پاکستان میں ہزاروں خاندان اپنے اٹھائے گئے افراد کے سلسلے میں بہت پریشان ہیں۔ خاص طور سے ان سے وابستہ خواتین اور بچے جس ذہنی کرب اور اذیت سے دوچار ہیں ان کے درد کی کیفیت کا احساس لگتا ہے کسی کو بھی نہیں۔ ریٹائرڈ چیف جسٹس چوہدری افتخار بھی اس سلسلے میں بہت سرگرم رہے لیکن وہ بھی اپنی کوششوں میں ناکام رہے۔ اب بھی گاہ بگاہ کئی اطراف سے گم شدہ افراد کیلئے آوازیں اٹھائی جارہی ہیں مگر ہر اٹھنے والی آواز نقارخانے میں طوطی کی آواز ہی ثابت ہو رہی ہے اور اب تو یہ لگتا ہے کہ پاکستان میں انصاف ملنا یا کسی کے ظلم کے نشتروں سے چھدے ہوئے زخموں پرمرہم پاشی کم از کم اس دنیا میں ممکن نظر نہیں آتی۔

یہ بات تو طے ہے کہ جو افراد بھی اٹھائے گئے ہیں وہ فورسسز نے ہی اٹھائے ہیں لیکن معمہ یہ ہے کہ ان کے متعلق ان کے لوحقین کو کوئی علم نہیں ہے کہ وہ اب اس دنیا میں ہیں بھی یا عالم بالا پہنچا دیئے گئے ہیں۔ اگر زندہ ہیں تو کس حال میں ہیں اور کیا ان کو کبھی رہائی مل بھی سکے گی یا نہیں۔ ایک پھانس ہے جو جسم میں گہرائی تک اتری ہوئی ہے یا ایک ایسا تیر جو ترکش میں کھینچ دیا گیا ہے اور کچھ علم نہیں کہ جسم کے آرپار ہوجائے گا یا ترازو ہوکر رہ جائے گا۔ اس کا اندازہ وہی افراد کر سکتے ہیں جن کے پیارے اٹھائے لئے گئے ہیں اور ہوتے ہوئے بھی جیسے ہیں ہی نہیں۔

انسان مرجائے تو صبر آجاتا ہے۔ جدائی کے گہرے سے گہرے زخم وقت کا مرہم بھردیا کرتا ہے لیکن جو لاپتہ ہوجائے، اٹھالیاجائے یا غائب کردیا جائے اس کے نہ ہونے کا غم کس طرح غلط ہو سکتا ہے؟۔

یہ تو نہیں ہر غم رات دن سر پر سوار ہی رہتا ہے۔ غم روزگار کی تلاش و جستجو پیاروں کے چہرے یادوں کے گرد و غبار میں چھپالیا کرتی ہے۔ انسان کچھ دیر کیلئے غم کو بھول کر دنیا کی بھول بھلیوں میں ٓکھوجایا کرتا ہے لیکن پھر کوئی نہ کوئی آہٹ، کوئی خیال، کوئی یاد کا ٹمٹماتا چراغ کوئی ماضی کی ہوا کا سبک جھونکا دل کے زخم ہرے کر جاتا ہے۔ ممکن ہے کہ کچھ لمحوں کیلئے اپنے پیاروں کی یاد میں رودھوکر چپ ہوجانے اور آنسو بہانے والے لواحقین تھک ہار کر بیٹھے ہی ہوں کہ غم کا ایک پہاڑ ان پر توڑ دیا گیا۔ کیا یہ بات لواحقین کے زخموں پر نمک پاشی سے کم ہے کہ ان کو یہ بتایا جائے کہ وہ تمام لوگ جن کو پاکستان کی فورسز نے بنا کسی اعلان اور جرم بتائے اٹھایا ہے ان میں سے 70 فیصد سے زیادہ افراد “دہشتگرد” گرد ہیں۔

اخبار میں یہ سرخی پڑھ کر میں دہل کر رہ گیا کہ ہزاروں اٹھائے جانے والے افراد میں سے 70 فیصد افراد کو دہشت گرد قرار دیدیا گیا۔

یہ بیان کسی کرنل جنرل کی جانب سے ہوتا، کسی رینجرز کے سربراہ کی جانب سے ہوتا، کسی سیاسی لیڈر کا بیانیہ ہوتا، کسی پارٹی کا مؤقف ہوتا یا ٹی وی پر نہادھو کر بیٹھے کسی اینکرز کی جانب سے ہوتا تو شاید میں خوف زدہ نہ ہوتا۔ 70 فیصد سے زیادہ کو دہشتگرد قرار دینے والا معلوم ہے کون ہے؟۔ ایک سابق جج، جسٹس جاوید اقبال۔ جی ہاں ماضی کا منصف، جاوید اقبال۔

 جسارت کے رپورٹر خالد مخدومی رپورٹ کرتے ہیں کہ لاپتا افراد کمیشن کے سربراہ نے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کو اعداد وشمار میں الجھادیا،اہم سوالات کے جواب فراہم نہیں کیے گئے، کمیشن کی ناقص کارگر دگی کو چھپانے کے لیے 70 فیصد لاپتا افراد کو دہشت گرد قرار دے دیا،اس سے قبل کمیشن کے سیکرٹری”جسارت” سے گفتگو میں لاپتا افراد کو جنگی قیدی قرار دے چکے ہیں، قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی بھی “نامعلوم خوف” کی بناپر رسمی اجلاس تک محدود رہی۔ تفصیلات کے مطابق لاپتا افراد کی تلاش کے لیے بنائے گئے کمیشن کے سربراہ جسٹس (ر)جاوید اقبال نے گزشتہ روزقومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کے اجلاس میں کمیشن کی کارگردگی اور لاپتا افراد کے حوالے سے رپورٹ پیش کی۔جسٹس(ر)جاوید اقبال نے اپنی رپورٹ میں لاپتا افراد کے بارے میں جواعداد شمار پیش کیے،ان کے مطابق مارچ 2011ء سے فروری 2018ء تک کمیشن کو4929 کیسزموصول ہوئے جن میں3219کیسز نمٹادیے گئے تاہم انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے بنائی گئی قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کے سامنے ان”نمٹائے” گئے کیسز کی نوعیت ان کے نمٹانے کے طریقہ کار کے بارے میں تفصیلات فراہم نہیں کی گئیں تاہم خود کمیشن کی جانب سے وقتاًفوقتاً جاری ہونے والی دستاویزات میں سرسری طور پر اس بات کاتذکرہ ملتاہے کہ برسو ں سے لاپتا افرادمیں سے فلاں فلاں اچانک اپنے گھر پہنچ گئے ہیں تاہم ان دستاویزات میں اس بات کاکوئی ذکر موجود نہیں ہو تاکہ گھر پہنچنے والامذکورہ شخص برسوں سے کس ادارے کی تحویل میں تھااور اس کو کس جرم میں گرفتار کیاگیا،ملک کی کس عدالت میں اس کو پیش کیاگیا اور اگر بے گناہ گرفتار کیاگیا تو ایک معصوم شہری کوبرسوں قید میں رکھنے والے شخص یاادارے کے خلاف کوئی کارروائی بھی کی جاسکی یا نہیں ۔ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی “نامعلوم خوف” یادباؤ کی وجہ سے جسٹس(ر)جاوید اقبال سے اس بارے میں کوئی وضاحت طلب کرنے سے قاصر رہی ،3219کیس نمٹانے کادعویٰ کرنے والے جسٹس(ر)جاویداقبال نامعلوم افراد کے ہاتھوں جبری لاپتا ہونے والے افرادکی لاشوں کی صورت میں ملنے کو بھی کیس نمٹنا قرار دیتے ہیں اورمذکورہ شخص کیوں اور کس جرم میں مار اگیا،اس بارے میں کمیشن مکمل طور پر خاموشی اختیارکیے ہوئے ہے۔کمیشن کے سربراہ نے قائمہ کمیٹی کو بریفنگ میں کہا کہ بطورسربراہ کمیشن کسی قسم کادباؤنہیں تھا۔دوسری طرف جبری طور پرلاپتا کئے گئے سیکڑوں افراد کے بارے میں ایم آئی اور آ ئی بی نے اعتراف کیا ہے کہ سیکڑوں افرادان کے پاس برسوں سے قید ہیں اور اس دوران ان کو کسی بھی قا نونی کارروائی سے نہیں گزارا گیا۔ ملکی قوانین کے مطابق کسی بھی شہری کو کسی سنگین ترین جرم میں گرفتاری کے بعد 24گھنٹے کے اندر عدالت میں پیش کرنالازمی ہے۔اعلیٰ ترین عدالت کے ایک سابق جج ہو نے کی حیثیت سے ا س بات کا اچھی طرح علم ہونے باوجو جسٹس(ر) جاوید اقبال کی جانب سے ایم آئی اور آئی بی سے ا س معاملے پروضاحت طلب نہ کرنامعنی رکھتاہے اور قائمہ کمیٹی کے سامنے ہر قسم کے دباؤ سے آزاد ہونے کے دعویٰ کی نفی کرتاہے،لاپتا افراد کاکمیشن کس قسم کے دباؤکاشکار ہے کہ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ جب” جسارت” نے فاٹا میں قائم فوجی نگرانی میں چلنے والے حفاظتی مراکز میں برسوں سے لاپتا افرادکی موجودگی اور ان مراکز میں قوانین کی خلاف ورزدی کی اطلاعات پرجبری طور لاپتا افراد کمیشن کے سیکرٹری فرید احمد خان نے ا س بارے میں بات کی توانہوں نے فاٹاکے حراستی مرا کز میں قید پاکستانیوں سمیت تمام لاپتا افراد کو جنگی قیدی قرار دے دیا۔جسٹس(ر)جاوید اقبال نے قائمہ کمیٹی کوبریفنگ دیتے ہو ئے دعویٰ کیاکہ جبری طور پرلاپتا افراد میں سے 70فیصدکودہشت گردقرار دے دیا جو فوجیوں کو مارکر ان کے سروں سے فٹبال کھیلتے تھے۔

اندازہ لگائیں کہ ایک ریٹائرڈ جج فرما رہے ہیں کہ جو افراد فورسز کے پاس ہیں ان میں سے 70 فیصد دہشتگرد ہیں۔ یہ بات کسی سیاسی جماعت یا اس کے لیڈر کے منھ سے تو کسی حد تک اچھی لگتی ہے لیکن کسی جسٹس (موجودہ و سابقہ) کے منھ سے سن کر سننے والا اپنا سر ہی پیٹ سکتا ہے۔ یہ کسی جنرل کرنل کا اسٹیٹمنٹ تو ہو سکتا ہے منصف کا بیان نہیں ہو سکتا۔ کوئی بتائے کہ جن کو کسی عدالت میں ہی نہ پیش کیا ہو، ان پر کوئی فرد جرم ہی نہ عائد کی گئی ہو، کوئی مقدمہ ہی نہ چلاہو، کسی کو اپنی صفائی پیش کرنے کا موقعہ ہی نہ دیا گیا ہو اس کو کس طرح دہشتگرد قرار دیا جا سکتا ہے؟۔ یہ کونسی مخلوق کے جج ہیں؟۔ کچھ دیر کیلئے یہ مان بھی لیا جائے کہ 70 فیصد لاپتہ افراد واقعی دہشتگرد ہی ہیں تو باقی 30 فیصد کس جرم میں برس ہا برس سے قید میں ہیں؟۔ اس میں کیا مضائقہ تھا اگر 100 فیصد کو ہی دہشتگرد قرار دیدیا جاتا۔

مان لیتے ہیں کہ پیچیدہ و ناقص طریقہ انصاف کی بنا پر ان کو روایتی عدالتوں سے سزا دلانا ممکن نہیں تھا یا ہے تو یہ جو “مارشل کورٹس” بنائی گئیں ہیں کیا نمائش میں سجا کر رکھنے کیلئے ہیں؟۔

ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ جسٹس صاحب معترف ہیں کہ سیکڑوں افراد جو لاپتا ہوئے تھے ان کی لاشیں ملی ہیں، تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ لاشوں کی صورت میں مل جانے والے افراد کے قاتلوں کو گرفتار کرنا اور ان کو قرار واقعی سزا دلوانے کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے؟۔ کیا رپورٹ میں قاتلوں کی گرفتاری کا کوئی ذکر موجود ہے؟۔ اگر نہیں تو پھر آپریشن ضرب عضب ہو یا ردالفساد، ان کی کیا اہمیت رہجاتی ہے۔

مجھے اگر جان کی امان ملے تو عرض ہے کہ جب گرفتار کرنے، بلا اطلاع اٹھائے جانے، پھر ہمیشہ ہمیشہ کیلئے غائب کردینے، ان کو آپ ہی ماردینے، آپ ہی غدار قرار دینے، آپ ہی دہشتگرد بنانے، آپ ہی پکڑنے اور رہائی دینے کا سارا اختیار اگر فورسز کو ہے تو پھر پاکستان پر ہزاروں ججوں کے بوجھ کو لادنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟۔ کیوں نہ عوام کے ٹیکسوں پر پلنے والے ہزاروں ججوں کو فارغ کرکے ان سب کو ملک کے خزانے پر بوجھ بننے سے بچالیا جائے۔

ایک عام انسان کی بھی جراحی در جراحی کی جاتی رہے تو اس کو زندہ رکھنا ناممکن ہوجایا کرتا ہے۔ ریاست بھی انسانوں ہی طرح ہوتی ہے۔ 1958 سے لیکر آپریشن در آپریشن کا سلسلہ تا حال جاری ہے۔ ریاست ایک بڑی چیراپھاڑی سے باہر آتی ہی ہے کہ اسے پکڑ کر پھر کسی آپریشن تھیٹر میں لٹا دیا جاتا ہے۔ آپریشنوں کے یہ سلسلے بند نہیں ہوئے تو اس بات کی امید لگانا کہ مریض صحتمند ہوکر عام انسانوں کی طرح اپنے معمول کے کاموں میں مصروف ہوجائے گا، مجذوب کی بڑ تو ہو سکتی ہے کسی ہوشمند کی بات نہیں۔

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں