لعنت کیا چیز ہوتی ہے؟

کیا آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ جب پولیس کے کسی عملدار کو اپنے بالا افسر کی طرف سے نوکری سے برخواستگی کا آرڈر موصول ہوتا ہے تو کیا ہوتا ہے؟ اس کی وردی اتر جاتی ہے، جس کرسی پر بیٹھ کر وہ صبح و شام اپنے ماتحتوں کو احکام جاری کیا کرتا تھا، وہ کرسی اس پر ممنوع ہو جاتی ہے، جو سنتری اس کے ایک اشارے پر سبک رفتاری سے ادھر ادھر دوڑ بھاگ کر رہے ہوتے تھے وہ اس کے لیے اجنبی بن جاتے ہیں۔ بلکہ اگر اس نے کوئی سنگین جرم کیا ہو تو وہی سنتری اس کے ہاتھ میں ہتھکڑی بھی ڈال دیتے ہیں۔ اس کی سیکیورٹی، اس کا پروٹوکول، اس کو ملی ہوئی تمام سرکاری مراعات واپس لے لی جاتی ہیں اور یہ تمام چیزیں اب اس کی جگہ پر آنے والے نئے افسر کو حاصل ہو جاتی ہیں۔ جرم کی نوعیت اگر سنگین ہو تو اس کو لاک اپ بھی کیا جا سکتا ہے اور وہی سپاہی جو اس کے پروٹوکول اور خدمت پر مامور تھے، اب اس کی نگرانی پہ لگ جاتے ہیں کہ کہیں بھاگ نہ ہوجائے۔ یہ سب کیا ہے؟ اس رویہ کو اگر انسانی زبان میں کوئی نام دیا جائے تو کہا جائے گا کہ فلاں شخص سرکار کے ’’زیرعتاب‘‘ آ چکا ہے۔ یہ جو ’’عتاب‘‘ ہے، اگر اس کو آپ دینی اصطلاح میں تبدیل کریں تو یہی لفظ ’’لعنت‘‘ کے مترادف بن جاتا ہے۔
اگر لفظ ’’لعنت‘‘ کو سمجھنا چاہیں تو پھر لفظ، ’’رحمت‘‘ کو سمجھنا ضروری ہے۔ ایک مؤمن، اگر معصیت کی زندگی نہیں گزار رہا اور کبائر سے بچا ہوا ہے تو وہ ہمیشہ اللہ کی رحمت کے سائے میں ہوتا ہے۔ اللہ کی سرکاری نفری (فرشتے) اس کی حفاظت پر مامور رہتے ہیں۔ اس کے کاموں میں اس کی مدد کر رہے ہوتے ہیں، اس کی وہ مشکلات جس کا اسے پتہ بھی نہیں ہوتا، (اللہ کے دیے گئے اذن سے) حل کر رہے ہوتے ہیں، اس کی جان و مال، عزت و آبرو، بال بچوں اور تمام دیگر چیزوں کی حفاظت کر رہے ہوتے ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ سب کیوں ہوتا ہے؟ جواب یہ ہے کہ مومن چوں کہ اللہ کا دوست ہوتا ہے، اس لیے کائنات کا والی اور حاکم اپنے دوست کویہ سب پروٹوکول دیتا ہے کہ یہ ہی اس کے شایانِ شان ہے۔ کیا دنیا کے بادشاہ اپنے خاص دوستوں کو اس طرح کا پروٹوکول نہیں دیتے؟ ہاں البتہ جب بندہ سرکشی کرے اور بندگی کی حدود سے نکل جائے تو یہ پروٹوکول واپس بھی لے لیا جاتا ہے تا آنکہ بندہ توبہ کر کے پلٹ آئے یا پھر اس دنیا ہی سے کوچ کر جائے۔
اس کے برعکس، اللہ کے باغیوں اور سرکشوں کے لیے اس طرح کا کوئی پروٹوکول نہیں ہوا کرتا۔ وہ ہر دم اللہ کے غضب، غصے اور عتاب کے تحت جی رہے ہوتے ہیں۔ فرشتے ان کے چاروں طرف بھی ہوتے ہیں مگر وہ اللہ کی ناراضی اور غصہ کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ہوتے ہیں۔ ایسا انسان غلطی ایک تھپڑ کی کرتا ہے، یہ اسے دس تھپڑ مار دیتے ہیں، اس کے کاموں میں رخنے ڈالتے ہیں، اس کے بال بچوں میں بیماریاں اور مال دولت میں نقصانات کی آگ لگاتے ہیں۔ گویا کہ ایسے لوگ، جو اللہ کے غضب اور لعنت کے مستحق بن چکے ہوں، یوں ہی راندہ درگاہ، دھتکارے ہوئے، پھٹکارے ہوئے زندگی گزارتے ہیں۔
اب آتے ہیں آخری بات، یعنی لعنت بھیجنے کے عمل کی طرف۔ جب ایک مسلمان کسی دوسرے انسان پر یا زندہ یا بے جان چیز پر لعنت بھیجتا ہے تو دراصل وہ اللہ کی عدالت میں ایک مقدمہ دائر کرتا ہے کہ اے اللہ! اس شخص یا چیز کو تواپنی رحمت سے دور کردے، اس کو ذلیل و خوار کر دے، اس سے اپنی رحمت کے فرشتوں کو ہٹا لے اور اس کو تباہ برباد کرتے ہوئے اس کو اس پروٹوکول سے محروم کر دے جو تو نے مومنوں کو اور اپنے پیارے بندوں کو دے رکھا ہے۔ اب اندازہ لگا لیں کہ یہ کوئی دنیا کی عدالت نہیں ہے جہاں کوئی اپیل پہنچے اور سردخانے میں پڑی رہے، یہ اللہ کی عدالت ہے۔ اپیل پر فوراً نظر ڈالی جاتی ہے۔ اگر مبنی بر حق ہے تو ’’لعنت‘‘ کا فیصلہ ہو جاتا ہے اور اگر کیس جھوٹا ہے تو فریادی خود ہی ماخوذ ہو جاتا ہے اور پھر وہی ’’لعنت‘‘ اس کے منہ پر مار دی جاتی ہے۔
اسی لیے جو لوگ دین کی سمجھ رکھتے ہیں وہ اس لفظ کو بہت احتیاط سے استعمال کرتے ہیں۔ اس کو تکیہ کلام نہیں بنا لیتے کہ اٹھتے بیٹھے ہر وقت اور ہر چیز پر لعنت بھیج رہے ہوں۔
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جانوروں تک پر لعنت کرنے سے منع فرمایا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک بار سفر میں تھے اور انصار کی ایک عورت اونٹنی پر سوار تھی تو اچانک وہ اونٹنی بدکنے لگی۔ اس عورت نے اپنی اونٹنی پر لعنت کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سن لیا تو فرمایا: اس اونٹنی پر جو سامان ہے اسے اتار لو اور اونٹنی کو چھوڑ دو کیونکہ اب یہ ملعونہ ہے۔ عمران رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں گویا کہ میں اب بھی اسے دیکھ رہا ہوں کہ وہ اونٹنی لوگوں کے درمیان چل پھر رہی ہے اور کوئی آدمی اس سے تعرض نہیں کر رہا۔ (صحیح مسلم # 6499)

جواب چھوڑ دیں