قندوزکے معصوم فرشتے

سروں پر سفیدعمامے ، سفیدلباس میں نکھرے نکھرے سے خوبصورتی کے شاہکار،مسکراتے کھلکھلاتے چہرے، لبوں پہ تبسم آمیز مسکراہٹ، آنکھوں میں مستقبل کے سہانے خواب سجائے، شکل وصورت سے جنت کے شہزادے معلوم ہوتے ، گلے میں پھولوں سے سجے ہارڈالے محبت وامن کاپیغام دیتے ہوئے، سینوں کے طاقوں میں قرآن کومحبت کے غلاف میں لپیٹ کرسرخرو ہوئے ۔ سب ہی خوش تھے کہ آج معصوم فرشتے اپنی منزلِ مرادپانے کوہیں، ماں باپ خوشی سے پھولے نہ سماتے تھے ، چشم فلک نے ایسانظارہ شاذہی دیکھا ہوگاکہ سینکڑوں کی تعدادمیں حفاظ کرام یکبارگی دنیاکی تاریکیوں کوقرآن کے اجالوں سے منورکرنے والے ہیں۔سب کچھ ہی توٹھیک ٹھاک تھامگرپھراچانک اک قیامت ٹوٹی، اس قیامت نے حشربپاکرڈالا،ان معصوموں کومٹادیاگیا، ان پربم برسے، ان پرقہر نازل ہوا، ان کے چیتھڑے اورلاشے ہرسوبکھرگئے، خوبصورت جسم چھلنی ہوئے، چہروں نے اپنی شادابی کھودی،سفیدلباس رنگین ہوئے، عمامے کفن بنے، ان کی مسکراہٹ چھن گئی، جو سینے قرآن محفوظ کرچکے تھے وہ خودغیرمحفوظ ہوئے، جن ہاتھوں نے قرآن اٹھایااسی قرآن پرہاتھ کے پورپوربکھرگئے، فرعونوں نے فرعونیت کی انتہا کر ڈالی۔
ان کے سینوں میں نوراورچہرے پُرنورتھے، سفیدلباس علامت نوراورمحفل پر نوری فرشتے سایہ فگن تھے، الغرض وہ سرتاپانورتھے ، یہ سچ ہے کہ تاریکی کوکبھی نوراچھانہیں لگتا، سوکافربھی تاریک تھے، انہیں قرآن اچھالگانہ قرآن والے،اسی لیے وہ بوکھلائے اورپھروہ کچھ ہواجوساری دنیادیکھ کربھی نہ دیکھ پائی۔ فرشتوں نے فرشتوں کااستقبال کیا، ماں باپ نے ان معصوموں کوجنت کے سفرپرروانہ کیااوردنیابس تماشادیکھتی رہ گئی۔یہ دلدوزسانحہ قیامت کبریٰ کی ایک جھلک تھی، روزقیامت آسمان پھٹے گایہاں سینے پھٹ گئے، علم اٹھ جائے گایہاں علم والوں کے جنازے اٹھے، اس دن آسمان آگ برسائے گایہاں بھی آگ برسی،کیاکیانشانیاں بتاؤں ہرنشانی ہی علامات قیامت سے مماثل ہے۔ مسلمان کبھی بھی دنیامیں تاریکی برداشت نہیں کرسکتا، اسی لئے کفرنے اس نورکوپھونکوں سے بجھاناچاہا ، لیکن وہ نہیں جانتے کہ ’’پھونکوں سے یہ چراغ بجھایانہ جائے گا‘‘۔
اے دنیائے کفر!قندوزکے یہ معصوم فرشتے تمہیں پیغام دیتے ہیں، وہ تمہیں بتارہے ہیں ، ہم پہلی بارنہیں کٹے، پہلی بارنہیں مٹے، ہم نے توخون جگرسے تاریخ کے چراغ روشن کئے، ہماری تاریخ تابناک، ہماراحال روشن اورمستقبل روشن ترہے۔ہم پھرسے اکٹھے ہونگے، پھرسے مسجدومدرسہ کوآبادکریں گے، پھرسے فضاؤں میں قرآن کی آوازگونجے گی، اس صداسے تمہارے ایوان لرزجائیں گے، جلی ہوئی چٹائیوں پردوزانوہوکردنیائے کفرکے سینے میں سوزقرآن سے خنجرچبھوتے رہیں گے، تم ہمارے خوبصورت چہروں کوجتنا بگاڑوگے ہمارے منورچہروں کی کرنیں تمہیں اتناہی پاش پاش کرڈالیں گی، تم ہمیں لاکھ مٹاؤ، مٹانہ پاؤگے ، تم جتنادباؤگے ، ہم اتنا ہی ابھریں گے،ہماراقتل عام تمہیں سکون سے جینے نہ دے گا، تم کبھی اضطراب سے نکل نہ پاؤگے ۔
تم روشنی کوروکنے چلے ہو، ہواؤں کوتھمانے چلے ہو، اجالوں کوتاریکی میں بدلنا چاہتے ہو،سمندرکوخشک کرناچاہتے ہو۔تم یہ کیوں بھول گئے اندھیرے روشنی کے سامنے اک پل بھی ٹکانہیں کرتے، کمزوردیواریں کبھی بھی آندھیوں کوروک نہیں سکتیں، ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندرکے سامنے ریت کے گھروندے ڈھے جایا کرتے ہیں۔
قندوزکے یہ معصوم فرشتے مسلمان سے شکوہ کناں بھی ہیں ، انہیں اپنوں سے گلہ بھی ہے، وہ پوچھتے ہیں کہ جسدواحدکوکاٹاگیاتوباقی جسم کیوں مفلوج ہوا؟اس میں کیوں نہ حرکت پیدا ہوئی؟ہم خون میں لت پت پڑے تھے ، تم دیکھ رہے تھے پھرکیوں خاموش رہے؟ ہم سے محبت کے تمہارے کھوکھلے دعوے کسی کام کے نہیں ، تم ہزارمذمتی بیان جاری کرو، جھاگ کی طرح بیٹھ جانے والاجوش وجذبہ دکھاؤ، تم احتجاج کرولیکن یادرکھناتمہارے پاس اب ان چیزوں کے سواکچھ ہے بھی نہیں۔ تم درندوں کے سامنے بین بجانے چلے ہو، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ بھینس کے سامنے بین بجانے سے وہ سمجھے نہ سمجھے لیکن سرضرورہلائے گی،وہ تمہارے لئے بے ضررہوگی ، تم اسے قابوکرسکتے ہو لیکن یہاں درندے تمہیں دیکھتے ہی چیرپھاڑڈالیں گے۔تم نے یہ حقیقت کیوں بھلادی کہ جب سترحفاظ کرام کوکفارنے ظلم وبربریت کانشانہ بنایاتو صاحب قرآن حضرت محمدمصطفیﷺ نے کیسے ان کافروں کوکیفرکردارتک پہنچایا۔تم نے یہ اصول کیوں نظراندازکردیاکہ جان کے بدلے جان ہے نہ کہ جان کے بدلے بیان ۔ہاں یہ سچ ہے کہ قرآن کی حفاظت اللہ کے ذمہ ہے لیکن قرآن والوں کی حفاظت توخلیفۃ اللہ کے ذمہ ہے ۔اگرتوُاللہ کاخلیفہ نہیں ، اس کانائب نہیں توبتاپھرکون ہے جسے اللہ نے فرشتوں کے سامنے اپناخلیفہ قراردیا؟اگرتوُکچھ نہیں کرسکتاتیرے لب توہل سکتے ہیں ، دعاکے لئے تیرے ہاتھ تو اٹھ سکتے ہیں ، اگرتوُاس قدربے بس ہے توپھراللہ کے حضورسجدہ کرنے سے عاجزتونہیں ، ہمارے لئے دوبول دعاہی کے بول دے ، کم ازکم ہماری لاشوں کے لئے ہی دعاکردے ، ہمارے ماں باپ کے صبرکے لئے ہی کچھ کہہ دے، اپنے معصوم بچوں کی خیروعافیت ہی مانگ لے ، اس لئے کہ یہ آگ صرف ہم پرنہیں برسی بلکہ پوری امت مسلمہ کی جانب بڑھ رہی ہے، اس آگ کی زدمیں تم بھی ہو،یہ یادرکھناکبھی بھلانہ دینا،کہیں ایسانہ ہوکہ غفلت میں تم بھی اپنے معصوموں کے ٹکڑے چنتے رہ جاؤ۔
یہ توقندوزکے فرشتوں کی انتباہ تھی ، شائدانہیں غلط فہمی ہوئی ہے ، وہ نہیں جانتے کہ ہمارے لب بھی ہلتے ہیں اورہاتھ بھی اٹھتے ہیں ، فرق صرف اتناہے کہ لب ہلتے ہیں اورزبانیں بھی کھلتی ہیں مگراپنے مسلمان بھائیوں کے خلاف زہراگلنے کے لئے، ہاتھ بھی اٹھتے ہیں مگراپنے ہی مسلمانو ں کے گریبان چاک کرنے کے لئے، ان کے خون سے ہاتھ رنگنے کے لئے ، اپنے بچوں کی بھی فکرہے اسی لئے تونہ حلال دیکھتے ہیں نہ حرام ،انہیں سب کچھ کھلائے جارہے ہیں ، ہمیں اپنے بچوں کی اس قدرپرواہ ہے کہ انہیں جدیدیت کے سانچے میں ڈھال رہے ہیں ، انہیں اس قرآن سے دورکررہے ہیں جوقرآن تمہاری شہادت کاباعث بنا، ہم چاہتے ہیں کہ شیرکی ایک دن کی زندگی جینے کی بجائے دنیاکوپوراپورا’’انجوائے‘‘ کرنے کے لئے گیدڑکی سوسالہ زندگی جیئیں۔ مسلمانوں پر ہم بطورمسلمان حکمران ہوتے ہیں مگرہمیں سورۂ اخلاص تک نہیں آتی ۔اگرہم نے قرآن پرعمل کیاتوہم بھی مارے جائیں گے ، امیدہے اب توتم ہماری خاموشی کاسبب جان چکے ہوگے ،مزیدوضاحت کے لئے اللہ کی عدالت میں ہماراگریبان حاضرہے ۔اس وقت تک کے لئے خداحافظ۔

جواب چھوڑ دیں