خدارا احتیاط کریں

شاید یہ طے کرلیا گیا ہے کہ ہم اپنے ماضی سے کبھی سبق نہیں سیکھیں گے۔ حالات کتنے ہی خوفناک کیوں نہ ہوں اور اندرونی خلفشار خواہ کسی بھی سطح کا کیوں نہ ہو ان پر قابوپانا، شر پسند عناصر کی سرکوبی کرنا، ان پر کڑی نظررکھنا، قانون کے مطابق ان کے ساتھ معاملہ کرنا ملک میں موجود پولیس، رینجرز، فوج اور دیگر قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کا ہی کام ہوتا ہے۔ کسی بھی قسم کے حالات کو قابو میں رکھنے کیلئے مقامی افراد کا استعمال پاکستان میں آج تک کبھی کوئی اچھے نتائج سامنے نہیں لا سکا۔

ماضی میں یہ تجربہ مشرقی پاکستان کے حالات کو اپنے اختیار میں اور اپنی من مانی مرضی کے مطابق چلانے کے سلسلہ میں کیا جا چکا تھا۔ پاکستان کے دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں اور اہل کاروں کے علاوہ ہماری افواج کے بھی ایک لاکھ کے قریب جوان وہاں موجود تھے جو اپنا ملک تو اپنا ملک، کسی غیر ملک پر بھی قبضہ کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے لیکن اس کے باوجود  وہاں اس آبادی کو استعمال کیا گیا جو پہلے ہی ہجر کی آگ کادریا اپنے لہو سے سرد کرکے عبور کرکے آئی تھی۔ ستم بالائے ستم یہ ہوا کہ ان کو نہ صرف ہتھیار تھمائے گئے بلکہ ان کو اختیارات بھی دیدیئے گئے۔ اب آپ خود ہی اندازہ لگائیں کہ غیر تربیت یافتہ افراد کو اپنا حامی و ناصر بنانا، ان کے ہاتھ میں ہتھیار تھمانا اور پھر ان کو مکمل اختیار بھی دیدینا کیا کوئی اچھی تدبیر تھی؟۔ یہ بھی  کہ کیا یہ عام شہریوں کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ شرپسند اور ملک دشمن عناصر کا مقابلہ کریں؟۔ اگر یہ سب کچھ بھی عوام ہی کو کرنا ہے تو پھر لاکھوں کے لاؤلشکر کی کیا ضرورت ہے؟۔ ایک بڑی غلطی یہ بھی ہوئی کہ ہتھیار بھی ایک ایسی آبادی کے ہاتھ میں دیئے گئے جس کو وہاں کسی بھی لحاظ سے قبول ہی نہیں کیا جاتا تھا۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے اہل سندھ یا پنجاب کو دبانے کیلئے بلکہ ان کو جان تک سے ماردینے کہ لئے ہندوستان سے ہجرت کرکے پاکستان آنے والوں کو ہتھیار تھمادیئے جائیں۔

نتیجہ یہ ہوا کہ پہلے وہ پاکستانی جو اب صرف بنگالی ہیں اس آبادی کے ہاتھوں قتل ہوئے جن کو وہ آج بھی قبول کرنے کیلئے تیار نہیں اور پاک افواج کی انڈیا کے سامنے ہتھیار ڈالنے کے بعد وہ سارے کے سارے جارح لوگ جنھوں نے پاک افواج کا ساتھ دیا تھا وہ سب نہایت بیدردی کے ساتھ ہلاک کر ہی دیئے گئے، باقی ماندہ بھی پاک افواج سے ہمدردی رکھنے کے جرم میں تادم تحریر زیر عتاب ہیں اور نہایت ذلت آمیز زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

کشمیر کی سرحدیں کشیدہ ہوتی ہیں تب بھی براہ راست مقابلے سے گریز کیا جاتا ہے اور جذبہ جہاد کو ابھار کر عام افراد کو استعمال کیا جاتا ہے۔ افغانستان میں تو نہ جانے کتنے لاکھ جھونک دیئے گئے اور مطلب براری کے بعد ان کے سر پر سے بھی نہ صرف ہاتھ ہٹالیا گیا بلکہ ہتھیار نہ پھینکنے پر ان کی کرچیاں کرچیاں کر دی گئیں۔

کراچی کے حالات تو ہمیشہ سے ہی خونی رہے ہیں۔ یہاں مقتدر حلقے اپنی براجمانی کے تو خواہش مند رہتے ہیں لیکن اس کی ترقی و خوشحالی کیلئے کبھی سنجیدہ نظر نہیں آئے۔ کراچی کی ایک سیاسی جماعت کے خلاف خدشات اور الزامات کا سلسلہ گزشتہ 3 دھائیوں سے چلا آرہا ہے۔ یہ سب کچھ شاید اتنا عجیب اور تکلیف دہ نہیں۔ جو بات تکلیف کا سبب ہے وہ یہ ہےکہ اس جماعت کے خلاف صرف اور صرف قانونی کارروائیاں ہی کافی نہیں سمجھی گئیں بلکہ اس کو گروہوں میں بانٹنے کی اذیتناک کاروائیاں بھی کی گئیں۔ اس پر ہتھیار بند دستوں کو بٹھایا گیا جس کی وجہ سے دوطرفہ قتل و غارت گری ہوئی اور ہزاروں افراد لقمہ اجل بنے۔ اتنی قتل و غارت گری کے باوجود جو دکھ کی بات ہے کہ قاتلین آج تک نہیں پکڑے گئے خواہ ان کا تعلق کسی بھی گروہ سے رہا ہو۔ توڑنے بھوڑنے کا یہ سلسلہ آج تک جاری ہے جس سے اس بات کا خدشہ بدرجہ اتم موجود ہے کہ کہ جونہی قانون نافذ کرنے والوں کی گرفت کمزور ہوئی نہ جانے کہاں کہاں اور کس کس کا خون بہے۔

آج کل منظور پستین کا نام اسی طرح زور پکڑتا جا رہا ہے جیسے ماضی میں اور بہت سارے لیڈروں کا نام بام افق پر چمکتا رہا ہے۔ اس کی تحریک بلاشبہ بہت سے خدشات کو اپنے جلو میں لئے ہوئے ہے۔ یہاں یہ بحث مقصود نہیں کہ اس کی تحریک مثبت ہے یا منفی، بحث اس بات سے ہے کہ کیا کسی بھی غلط تحریک کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا کام عوام میں سے ہی کچھ لوگوں کا ہوتا ہے یا یہ کام ہر ملک و قوم میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کا ہوتا ہپے؟۔ یہ سارے ادارے جن میں پولیس ہے، نیم فوجی ادارے ہیں۔ رینجرز ہے، فوج ہے اور دیگر ایجنسیاں ہیں، ان کو بنایا ہی اس لئے جاتا ہے کہ وہ ہر قسم کی ریشہ دوانیوں کو ختم کریں، شر پسند عناصر کے خلاف قرار واقعی کارروائیاں کریں اورتحریکوں میں شامل سارے منفی عناصر کو ان کے انجام تک پہنچائیں۔ ہم نے کسی بھی ترقی یافتہ ملک میں ایسا کبھی نہیں دیکھا کہ انھوں نے کسی سازش کو کچلنے کیلئے مقامی آبادی کو آگے کیا ہو۔

مجھے نہیں معلوم کہ منظور پشتین کی تحریک کے مقاصد کیا ہیں اور اس کا مستقبل کیا ہوگا۔ مجھے اگر علم ہے تو بس اتنا ہی کہ اس کی تحریک کا نام “پختون تحفظ موومنٹ” ہے۔ ان کے لیڈروں کی کچھ جذباتی باتیں جو میرے کانوں تک پہنچیں ہیں ان میں بلا کی کاٹ ہے اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ وہ افواج پاکستان کیلئے اچھی رائے نہیں رکھتے لیکن اس کا یہ حل بھی نہیں کہ ان کے خلاف کسی ایسے گروہ کی حوصلہ افزائی کی جائے جو “تحفظ پاکستان موومنٹ” چلا بیٹھا ہے۔ جو بھی شر ہے، بغاوت ہے، پاکستان اور ریاست کے خلاف اقدامات ہیں ان کے خلاف ایکشن لینا صرف اور صرف قانون نافذ کرنے والے اداروں کے علاوہ اور کسی کا بھی نہیں ہونا چاہیے۔ اگر ایسا کسی عوامی تحریک کو روکنے کیلئے ہے تو اس کے نتائج بہت خطرناک ہو سکتے ہیں۔

افغان وار میں جہادیوں کو تیار کرکے، ان کو تربیت دے کر، انھیں ہتھیار بند کرنے کے جو نتائج ہیں وہ آج پوری قوم ہی نہیں وہ ادارے بھی بھگت رہے ہیں جن کے ہاتھوں یہ سارے گروہ تیار کئے گئے۔ ان تمام حالات کو سامنے رکھتے ہوئے اگر یہ بات کی جائے کہ ہم اپنے ماضی سے کوئی سبق سیکھنے کیلئے تیار نہیں۔ ہم ہر مسئلے کا حل تقسیم در تقسیم در تقسیم میں نکالنے کے عادی ہو چکے ہیں۔ ہم ان لاشوں سے بھی کوئی عبرت پکڑنے کیلئے تیار نہیں جو ہر ایسی کارروائی کے بعد دوطرفہ ہزاروں کی تعداد میں گرتی رہی ہیں۔

فتنہ و فساد کو بہر لحاظ ختم ہوجانا چاہیے لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے ہمیشہ دوسروں کے کندھوں پر ہی بندوق رکھ کر چلائیں۔

مشرقی پاکستان میں کیا کچھ ہوگیا، جہاد کے نام پر پاکستان کا کیا حال بنا، امن دستوں کے نام پر کتنی دشمنیوں نے جنم لیا اور کیسی کیسی ہستیاں خاک و خون میں نہا گئیں۔ کراچی کس تباہی کا شکار ہوا اور حالیہ اقدامات نے اسے بارود کے ڈھیر پر لاکر کھڑا کردیا۔ اب معلوم نہیں کہ منظور پشتین کیلئے جو تحفظ پاکستان موومنٹ بن رہی ہے وہ کیا گل کھلائے۔ خدا کیلئے اس سلسلے کو دراز ہونے سے اجتناب کیا جائے اگر پشتوں آپس میں الجھ گئے تو اللہ نہ کرے پاکستان کا وہی حشر نہ بن جائے جو افغانستان کا ہو گیا ہے۔ وہاں ہر گروہ یہی سمجھتا ہے کہ وہی حق پر ہے۔ سب ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہیں۔ غیر ملکی فوجیں ہوں یا نہ ہوں اب ان کو آپس میں ایک دوسرے کی گردن کاٹنے سے کوئی بھی نہیں روک سکتا اس لئے کہ وہاں حکومت کو قائم و دائم رکھنے کیلئے ایک دوسارے کو ایک دوسرے سے لڑا دیا گیا ہے۔ یہی کچھ پاکستان میں بھی جاری رہا، قانون نافذ کرنے والے ادارے از خود کارروائیاں کرنے کی بجائے افراد سے کام لیتے رہے، ایک دوسرے کی کن سوئیوں پر مامور کرتے رہے، ایک دوسرے کی مخبریاں کراتے رہے، ایک دوسراے کے سامنے لاکر کھڑا کرتے رہے اور تقسیم در تقسیم کے مکروہ عمل پر قائم رہے تو خون خرابہ شہروں اور ان کی گلیوں تک پھیل جائے گا اور امن و سکون تباہ و برباد ہو کر رہ جائے گا۔

یہ بات میں یونہی نہیں کہہ رہا ہوں۔ میں ان اسلامی ممالک کو دیکھ رہا ہوں جو عملاً دو دو تین تین ریاستوں میں تقسیم ہو چکے ہیں۔ جب اندر سے گروہ نکالنے کی کوشش کی جاتی ہے تو پھر انجام کچھ اسی طرح کا ہوتا ہے۔ چھوڑ دیں توڑ پھور کے عمل کو۔ قانون نافذ کرنے والے جس کے بھی خلاف کرروائی کریں اپنے اختیارات کے مطابق کریں۔ میں ان افراد کو بھی متنبہ کرنا چاہتا ہوں جو جوش محبت میں اداروں کے ساتھ مل جاتے ہیں۔ وہ بھی گریز کریں اور جن کا فرض امن و امان کو قائم رکھنا ہے، ذمہ داری ان ہی پر ڈال دیں۔ تعاون کی بات اور دست و بازو بننے میں فرق ہے۔ اس امتیاز کو محسوس کریں ورنہ مشرقی پاکستان میں ہونے والی پھانسیاں، افغان جہاد کے بعد برسنے والی گولہ بارود کی بارش، کراچی میں “حقیقی” کا حشر اور امن جرگوں کا حال اپنے سامنے رکھیں اور دیکھیں کہ مقصد براری کے بعد کس طرح یکہ و تنہا چھوڑدیا جاتا ہے۔

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں