حق فتحیاب میرے خدا کیوں نہیں ہوا ؟

اک بڑے ریزیڈنشیل اسکول ’ودیا گیان ‘ میں میتھ پڑھانے والے ایک لائق اور ہونہار ٹیچر نے دوروز قبل  وہاٹس ایپ پر مجھے یہ دل شکن میسج بھیجا کہ  :

’’ایک بچے نے مجھ سے پوچھا :’سر !اگر بھگوان ہے تو دنیا میں اتنا ظلم اور ایسی درندگی کیوں ہے ؟ میں نے سر جھکا کے کہا کہ ’بیٹے! میرے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ہے ۔‘مجھے بہت سے فلسفیانہ جواب معلوم ہیں لیکن سب نرے کھوکھلے ہیں ۔‘‘

کل (۱۵ اپریل کو )عرفان صدیقی کی چودہویں برسی تھی ۔انتقال سے دو سال قبل گجرات ہولوکاسٹ کے بعد انہوں نے ایک غزل کہی تھی ۔آئیے پہلے اُس کے کچھ شعر پڑھتے ہیں :

حق فتحیاب ،میرے خدا، کیوں نہیں ہوا ؟۔۔۔تو نے کہا تھا ،تیرا کہا ،کیوں نہیں ہوا ؟

جب حشر اِس زَمیں پہ اُٹھائے گئے تو پھر ۔۔۔۔برپا یہیں پہ روزِ جزا کیوں نہیں ہوا ۔۔؟

واماندگاں پہ تنگ  ہوئی  کیوں تری زمیں ۔۔۔۔دروازہ آسمان کا ،وَا کیوں نہیں ہوا ۔۔۔؟

وہ شعلہ ساز بھی اُسی بستی کے لوگ تھے ۔۔۔اُن کی گلی میں رقصِ ہَوا ،کیوں ہُوا ۔۔؟

آخر اسی خرابے میں زندہ ہیں اور سب ۔۔۔یوں خاک کوئی میرے سِوا کیوں نہیں ہوا ؟

جو کچھ ہوا وہ کیسے ہوا جانتا ہوں میں ۔۔۔جو کچھ نہیں ہوا ،وہ بتا کیوں نہیں ہوا ۔۔۔۔۔؟

یہ تو خیر ایک شاعر انہ شکوہ تھا لیکن اُس حقیقت پسند ٹیچر کے جواب نے مجھے مایوس کیا ۔ بچے کو اُس کے  سوال کا دو ٹوک جواب دینا یا کم از کم وقتی طور ہی پر سہی ا ُسے مطمئن کر دینا ٹیچر کی ذمہ داری تھی۔ مجھے افسوس ہے کہ وہ اپنی یہ منصبی  ذمہ داری بر وقت پوری  کرنے سے قاصر رہا ۔

 بعض سوالوں کے جواب، خواہ کتنے ہی مشکل کیوں نہ ہوں ،فوری طور پر دینا اس لیے بھی ضروری ہوتے ہیں کہ  دوسری صورت میں سوال کرنے والے کے دل میں   وہ ایک ایسی اُلجھی ہوئی ڈور کی طرح گھر کر  جاتے ہیں کہ جن کا سلجھانا بعد میں ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہو جاتا ہے ۔

میں اُس  ٹیچر کی جگہ ہوتا تو شاید اُس  بچے سے کہتا کہ:

’’ چلو تھوڑی دیر کے لیے مانے لیتے ہیں کہ بھگوان نہیں ہے ۔ پھر اِس سارے ظلم اور درندگی کے ذمہ دار انسان ہی  تو ٹھہرے !تو انسانوں کو کیا ہوا تھا کہ وہ اپنی انسانیت بھُلا بیٹھے ؟اور چلو تھوڑی دیر کے لیے  مانے لیتے ہیں کہ جب کوئی بھگوان نہیں ہے تو  اُس  کا کوئی قانون بھی نہیں ہوگا ۔لیکن، یہ بتاؤ کہ انسانوں کا بنایا ہوا قانون کیوں سو رہا تھا ؟ اور خود قانون کے محافظ  قانون کی دھجیاں کیوں اُڑا رہے تھے؟  تو میرے بچے بات بھگوان کے ہونے یا نہ ہونے کی نہیں ۔ بات انسان کے انسان نہ رہ جانے بلکہ وحشی درندہ یا اس سے بھی بدتر کوئی چیز بن جانے کی ہے ! اب تم بتاؤ کہ تم انسان  کی جون میں انسانوں ہی کی طرح جینا چاہتے ہو یا انسان کی کھال میں کتوں اور بھیڑیوں کی طرح ؟‘‘

میں سمجھتا ہوں یہ چھوٹا سا فوری جواب اُس معصوم بچے کے سامنے خود اُس کے مستقبل کا راستہ’ دو اور دو چار‘ کی طرح  واضح کر دیتا۔ بعد میں ،کلاس میں یا کلاس سے باہر ، کسی فلسفیانہ مو شگافی کے بغیر بھی، اِس مسئلے پر  تفصیل سے گفتگو کی جا سکتی تھی !

در اصل ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ کار گاہِ ہستی  ایک ’عالَمِ اَسباب ‘ ہے ۔  یہاں جَو بُو کر گیہوں نہیں کاٹا جا سکتا اور ببول کے پیڑ پر گلاب نہیں اُگتے !یہ دارِ عمل ہے ۔یہ دنیا ایک امتحاں گاہ ہے ۔یہاں ہمیں وہی ملتا  ہے جس کی ہم کوشش کرتے ہیں۔

ویسے بھی جرمن فلسفی فریڈرک نطشے نے اپنی  بدنام زمانہ کتاب ’خدا مر چکا ہے ‘ میں یہ  بھی لکھا ہے کہ ’خدا کا قتل  ہمیں   نے  کیا  ہے !‘ یعنی، وہ بھی خدا کے’’ نہ ہونے ‘‘ کا قائل کہاں  تھا ؟

ویسے فلسفیوں کے بارے میں اکبر الہ آبادی جو کہہ گئے ہیں وہ سرِ دَست حرف ِآخر ہے کہ :

فلسفی کو بحث کے اندر خدا ملتا نہیں ۔۔۔ڈور کو سلجھا رہا ہے اور سِرا مِلتا نہیں !

ورنہ خداتوفیق دے تو ایک جاہل بڑھیا بھی ا پنے اس   جواب سے اسٹیفن ہاکنگ جیسوں تک  کو لاجواب کرسکتی ہے کہ’’ جب یہ چرخا میرے چلائے بغیر سوت نہیں کات سکتا تو یہ اتنی بڑی دنیا کسی بنانے والے کے بغیر کیسے بن سکتی ہے !‘‘ اور جوش جیسا شاعر یہ کہنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ :

ہم اَیسے اہل ِنظر کو ثبوت ِحق کے لیے ۔۔اگر رسول ﷺنہ ہوتے تو صبح  کافی تھی !

ہاکنگ سمیت ،کائنات کے ’مِسِنگ لِنک‘ Missing Link تک پہنچ جانے کے باوجود کسی Ultimate Creatorکی موجودگی کا  اعتراف  محض اس لیے نہ کرنے والے  کہ وہ حد ادراک سے باہر ہے اُسی طرح کے صاحب عقل ہیں  کہ جس کے بارے میں ایک شاعر ہی نے یہ کہا ہے کہ :

اِس پہ مچلے ہیں کہ ہم ’دردِ جگر ‘ دیکھیں گے !

جب ہمارے جیسے جاہل بھی یہ جانتے ہیں کہ ’زمان و مکان کا قیدی کوئی ’محدود ‘ وجود کسی ’لا محدود کا ادراک نہیں  کر سکتا جو زمان و مکان سے پرے ہے ! ‘ رہے موجودہ حالات   تو صاحب عرفان ،وقت کے کچھ عظیم شاعروں میں سے ایک عرفان صدیقی ہی کا یہ جواب ملاحظہ ہو جو ’درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہو جانا ‘سے بہت آگے کی بات  ہے ۔وہ کہتا ہے اور ہم جیسوں کی ڈھارس بندھاتا ہے کہ :

سِتَم سِوَا ہو توَاپنی  طرف ہی لَوٹتا ہے ۔۔۔ابھی تو خیر یہاں پائمال دوسرے ہیں ! ۔۔اور یہ کہ :

وہیں رہ جاتے ہیں سب ’حد سے گزرنے والے ‘۔۔۔چلتی رہتی ہے زمیں’ بے خبروں ‘سے آگے !

گزارنا ہے ہمیں صرف ایک لمحہ صبر ۔۔۔ کہ عُمر  خنجر ِ بےدادگر، زیادہ نہیں !

چلے تو کوئی اندھیرے سے روشنی کی طرف ۔۔یہ فاصلہ تو بہت ہے مگر ،زیادہ نہیں !

زمین گھوم رہی ہے ہمارے رُخ کے خلاف ۔۔۔اشارہ یہ ہے کہ سَمتِ سَفَر بدل دیں ہم

اب آفتاب تو محور بدل نہیں سکتا ۔۔۔تو کیوں نہ زاویہ بام و در بدل دیں ہم !

یعنی اب اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ ہم جھوٹ ظلم ،نفرت اور کرپشن کے قومی اور بین ا لاقوامی دھارے سے جتنی جلدی ہو سکے باہر آجائیں اور بہر حال و بہر قیمت انسانیت ،انصاف، عدل ،ایثار اور خدمت یعنی خالق کی عبادت ،مخلوق کی بلاتفریق خدمت کے اسلامی دھارے میں  ِشامل ہوجائیں کہ موجودہ تمام ہٹلروں ،فاشسٹوں ،ظالموں اور قارونوں کا انجام بھی وہی ہونا ہے جو تاریخ کے کوڑے دان میں موجود ہٹلروں  ،فاشسٹوں ،ظالموں ،قارونوں ،فرعونوں ،نمرودوں اور یزیدوں کا  ہو چکا ہے !

بقول مرشدی رشید کوثر فاروقی :

میں اپنے علم کی محدودیت پہ نازاں ہوں ۔۔نہیں کچھ اور تری راہ کے سوا معلوم !

حصہ
mm
لکھنو کے رہنے والے عالم نقوی ہندوستان کے ایک کہنہ مشق صحافی،اور قلم کار ہیں وہ ہندوستان کے مختلف اخبارات و جرائد ور ویب پورٹل کے لیے لکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں