خاموشیوں کی گونج ہے نوحہ کناں

سر انتہائی بوجھل تھا۔ کنپٹیاں درد سے کلبلا رہیں تھیں۔ ایسے لگتا جیسے دماغ ابل رہا ہو۔ دجلہ بہتی آنکھوں کے پٹوٹے منوں وزنی معلوم ہو رہے تھے۔ بھاری پلکیں بوسیدہ مسجد کی پرانی دریوں کی طرح سمٹتیں تو دوبارہ سے کھل جاتیں۔ آنکھوں کے سامنے ایک فلم چلنے لگتی۔ لاکھ بھاگنے کی کوشش کرتا، سوچیں مزید جھکڑ لیتیں۔ رہ رہ کر اس معصوم بچے کا خیال آتا جو ایک ہاتھ سے معذور اور پاؤں سے شل تھا۔ روسی ساختہ اسلحے نے اس کو لنگڑا لولا کر دیا تھا۔ ایرانی تھپکی نے اسے معذور کر دیا تھا۔ وہ چلنے کی کوشش کرتا لیکن بہتا خون اور درد سے چلبلاتی طبیعت اسے پھر سے گرادیتی۔ مظلوم ماں اپنے جگر کے ٹکڑے کو کھینچتی، گھسیٹتی ؛مگر اس کی اپنی کمر میں لگا زخم خون رس رہا تھا۔ بچہ سسک رہا تھا۔ یہ تصویر شام کے مشرقی شہر غوطہ کے بچے کی تھی۔ جو شامی افواج کے ہاتھوں موت و حیات سے لڑ رہا تھا۔ اس کی ماں کی آہ و بکا کلیجہ چیر رہی تھی۔ میں نے تصویر دیکھی ایسے لگا جیسے سینہ پھٹنے لگا ہو۔ تصویریں بولتی ہیں مجھے اب یقین ہوا تھا۔ موبائل ہاتھ سے دور جا گرا۔ اس سے وحشت ہونے لگی تھی جس نے مجھے ننھے معصوم سے متعارف کروایا۔
ہماری پہلی ملاقات انتہائی تلخ ثابت ہوئی۔ میں موبائل سے دور ہو کر بیٹھ گیا۔ کسی پل سکون نہیں مل رہا تھا۔ غٹا غٹ پانی پیا، آنسو تھمے، کچھ طمانیت کا احساس ابھرا تو خود کو مصروفیات میں اتنا الجھایا کہ وہ تصویر دھندلکا معلوم ہونے لگی۔ لیکن دماغ پر چھایا وہ ہالا کسی طور مدھم ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ دن گزرتے گئے ایک دن مرغی کو دیکھا جو چوزوں کو اپنے پروں کے نیچے چھپائے خوفناک تیور لیے مجھے گھور رہی تھی۔ مجھے شام کی وہ ماں یاد آگئی جس سے گزشتہ دنوں سامنا ہوا تھا۔ دبایا ہوا درد جاگ اٹھا، آگ کا ہالا سا سینے میں گھومنے لگا۔ دل کی دھڑکن تیز ہوگئی، اور اس زور سے دھڑک رہا تھا جیسے اب منہ سے باہر آجائے گا۔ میرے دماغ کی تختی پر اس ماں کا نقش ابھرا جو اپنا سینہ پیٹتی ہوئی مردہ لاشوں کو الٹتی پلٹتی، اپنے بچوں پر آوازیں دیتی کہ شاید اس کا بچہ ماں کی آواز پر لبیک کہتا ہوا اٹھ بیٹھے۔ میری آنکھوں کے پردے پر معذور بچے کا زخمی چہرہ ابھرا، اس بلکتی ماں کا ستا ہوا چہرہ ظاہر ہوا، مجھے ٹوٹے گروندے پر بیٹھی معصوم بچی یاد آنے لگی جس کا تمام خاندان، سامان و اسباب، مال و متاع لٹ چکا تھا۔
مجھے قبر کے چوکھٹے پر بیٹھا وہ بچہ نظر آرہا تھا جو ہم مسلمانوں، ہمارے حکمرانوں کے چہروں پر سوالیہ نشان تھا۔ مجھے روہنگیا کا وہ بچہ یاد آنے لگا جس کے پورے خاندان کو ظالموں نے جلا دیا تھا جو بچے تھے انہیں مولی گاجر کی طرح کاٹ پھینکا تھا۔ اس آفت کے ٹلنے پر اس نے خود کو ذندہ پایا تو وہ چیختا چلاتا کبھی اپنے باپ کو ٹٹولتا، کبھی ماں ماں کہتے اپنی خون میں لت پت ماں سے لپٹتا، کبھی بہن کو جھنجھوڑتا۔ لیکن ظالموں کی بھنبھوڑی ہوئی حوا کی بیٹی کیسے بولتی؟ میں لاکھ کوششوں سے اپنی توجہ منتشر کرتا ہوں مگر توجہ ہے کہ بٹنے کا نام نہیں لیتی۔ آنکھیں بند کیں تو فلسطین کا باپ نظروں کے سامنے گھوم گیا جو بچے کو بازووں پر اٹھائے سائبان کی تلاش میں مارا مارا پھر رہا تھا۔ جس کی کل متاع وہی بچہ تھا۔ وہ دجلہ بہتی آنکھوں کو پونچھتا اور ننگے سر و پا دوڑتا ہی جا رہا تھا۔ ابھی یہ درد ختم نہ ہوا تھا کہ کشمیر کی چیختی چلاتی مائیں، بہنیں، خون میں نہائے جوان، بوڑھے، روتے بلکتے سسکتے بچے خون رستی آنکھیں دماغ سن کیے ہوئے تھی۔ چیخ و پکار میرے کانوں کے پردے پھاڑ دینے کو تھی۔
یہ خون کی بہتی ندی خشک نہ ہوئی تھی کہ ننھی کلیوں کو مسلنے کا آوازہ سنا، وہ ننھے پھول جو ابھی امن و سلامتی کا پیغام سینے میں لیے، دستار سجائے بیٹھے تھے۔ پل بھر میں سفید لبادے سرخ پوشاک سے بدل دیے۔ آسمان پر سے برسائی جانے والی آتش و آہن کی برسات میں آگ نے کوئلہ کر دیا۔ کوئی بتائے تو ان کا گناہ کیا تھا؟ یہی کہ وہ مسلمان تھے یا سروں پر دستار سجائے صاحب قرآن تھے؟ زرا سوچیے تو! کتنی چاہ سے ماں باپ نے پوشاک پہنا کر رخصت کیا ہوگا۔ ان والدین نے آنکھوں میں کیا کیا سپنے سجائے ہوں گے۔ میرا بیٹا حافظ قرآن بن گیا۔ رسول عربی نے جس کے بارے فرمایا کہ بروز قیامت اس کے والدین کو تاج پہنایا جائے گا۔ انہیں کیا معلوم تھا کہ ظالم ان معصوم کلیوں کو ہی مسل دیں گے۔ چھیتڑا بنا کر خون کا تاج پہنا دیں گے۔
میں تاحال صدمے سے باہر نہیں آیا تو وہ مائیں کیسے نارمل ہوئی ہوں گی؟ کرب و اذیت کی ایسی کیفیت میں مبتلا ہوں کہ سوجھتا ہی نہیں کشمیر و فلسطین کے شہدا کا نوحہ لکھوں یا قندوذ کے معصوم بچوں کا مرثیہ سناؤں۔ کیسے سناؤں دل کی غمناک صدا؟ ایسی حالت ہے گویا کیلجہ ململ کے دامن کی طرح برابر پھٹتا ہی جا رہا ہے۔ کوئی بتائے تو مسلمان کا خون اتنا سستا کیوں ہو گیا۔ اور وہ ہمارے مسلم زعما کہاں چلے گئے؟ کیوں کان لپیٹ کر سوئے پڑے ہیں؟ کھوکھلی مذمت تک کی توفیق نہ ملی؟ مغربی آقا کی خوشنودی کب تک حاصل کرتے رہیں گے؟ خون ناحق کب تک بہتا رہے گا اور خاموش تماشائی اپنی موج مستی میں کب تک مگن رہیں گے؟ فورسز کے اشتراک سے جو فرشتہ صورت بچے بموں سے لخت لخت ہو گئے اور ہمیں درد تک کا احساس نہ ہوا۔ الٹا خوشی ہوئی اور سوچنے لگے اچھا ہوا وقت پر مار دیے ورنہ کل کو یہ بھی طالبان بنتے۔
اور وہ جو انسانیت انسانیت کا راگ الاپنے والے ہیں وہ کہاں گھسے بیٹھے ہیں؟ کیا ان کا مذہب انسانیت ان معصوم کلیوں کو مسلنے کی اجازت دیتا ہے؟ کیوں لب سلے ہیں ان کے، موم بتیاں کیوں بجھی ہوئی ہیں؟ کیوں لبوں سے شبد نہیں نکل رہے؟ کہاں گئیں وہ انسانی حقوق کی تنظیمیں، ہیومن چارٹر کی دعویدار اقوام متحدہ، اور وہ دانشور جن کے دماغوں کو امریکی لالٹینوں سے روشنی پہنچتی ہے۔ چپ کیوں ہیں؟؟ یہی کچھ کسی سینٹ پیٹرک یا اس جیسی کسی جگہ یا پھر کسی نائٹ کلب میں ہی ہو جاتا تو دنیا کی چولیں ہل جاتیں۔الیکڑانک میڈیا جو بچوں کے شہادت پر تو دھنیا پیے سویا رہا چلا چلا کر اس کا گلا بیٹھ جاتا۔ اینکرز کف آلود ہو جاتے۔ لیکن یہاں چوں کہ عمامہ سجائے، دل میں نور الہی لیے بچے، ایک مدرسہ میں زیر تعلیم تھے، نام بھی انگریزی نہیں تھا، مارے گئے تو کوئی مضائقہ نہیں۔ المیہ یہ بھی ہے کہ مسلم حکمران شاہ سے بڑھ کر شاہ کے وفادار بنے بیٹھے ہیں۔ وہ کیا عام مسلمان کے درد کو محسوس کریں گے جنہیں اپنے امریکی آقا کی خوش آمد، در آمد سے فرصت نہیں۔ خیر! مظلومین کو انتظار ہے تو اب اس دن کا جس دن پوچھا جائے گا ”این الجبارون؟ اور وہ دن آکر رہے گا جلد یا بہ دیر؛ اس دن ہر دکھ، ظلم، ستم کا حساب برابر کر دیا جائے گا۔

حصہ
mm
مانسہرہ سے تعلق رکھنے والے عبد الباسط ذوالفقارمختلف سماجی موضوعات پر انتہائی دل سوزی سے لکھتے ہیں،جو براہ راست دل میں اترتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔مختلف اخبارات و جرائد میں ان کے مضامین شایع ہوتے رہتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں