جو بھی تھا کیا تھوڑا تھا ؟

چلیں ہم جرمنی سے شروع کرتے ہیں ۔ جنگ عظیم دوئم میں جرمنی کے 114 چھوٹے بڑے شہر صفحہ ہستی سے مٹ گئے ۔ پورے ملک میں سوائے موت ، سناٹے اور مایوسی کے کچھ نہیں بچا تھا ۔جرمنی اتنے بدترین حال میں آچکا تھا کہ اس نے ملک کی تعمیر و ترقی کے لئیے دنیا سے قرضہ مانگا ۔ 1963 میں صدر ایوب خان نے 12 کروڑ روپے جرمنی کو بطور قرض دے دیا ۔ پاکستان ان چودہ ممالک میں سے تھا جس نے جرمنی کو  امداد دی تھی ۔ جرمنی کو اپنے ملک میں نئے سرے سے تعمیرات کے لئیے مزدور بھی درکار تھے  اور  لامحالہ جرمنی کی نظر  ایک دفعہ پھر پاکستان پر تھی ۔ لیکن پاکستان نے مزدور جرمنی بھیجنے سے معذرت کرلی اور اس طرح ترکی نے بڑی تعداد میں اپنے لوگ جرمنی بھیج دئیے ۔ یہی وجہ ہے کہ ترکی کے بعد سب سے زیادہ ترک جرمنی میں پائے جاتے ہیں ۔ جرمنی کے پاس سب کچھ ختم ہوگیا تھا لیکن ایک چیز وافر مقدار میں موجود تھی اور وہ  تھا ” جذبہ حب الوطنی ” ۔ اتنے بدترین حالات میں بھی جرمنی کا کوئی ڈاکٹر یا انجینئیر اپنا ملک چھوڑ کر  نہیں گیا ۔ کسی جرمن کے دل میں یہ خیال نہیں آیا کہ میں اپنا ملک چھوڑ کر چلا جاؤں ، کہیں اور جاکر عیش کی زندگی گذار لوں ۔ جرمنی کے ڈاکٹرز ، انجینئیرز اور پروفیسرز کو جرمن کے علاوہ  کوئی دوسری زبان بھی نہیں آتی تھی ۔ وہ وہیں رہے ، کسمپرسی میں رہے ، تکلیف اور تنگدستی میں رہے لیکن اپنی قوم کے ساتھ رہے ۔ آپ کمال ملاحظہ کریں آج جرمنی دنیا کی چوتھی بڑی معیشت ہے  اور ہم 43 ویں ۔

آپ جاپان کی مثال لے لیں 1945 میں امریکا نے جاپان کے دو شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم برسادئیے ۔ دونوں شہر قبرستان میں تبدیل ہوکر ملبے کا ڈھیر بن گئے ۔ ۔ آج تک ان شہروں میں بچے معذور پیدا ہوتے ہیں ۔ یہ شہر کچھ اگانے تک کے قابل نہیں رہے ۔ لیکن قوم نے ملک میں رہنے کا فیصلہ کیا ۔ دن رات ایک کردیا  ، اپنی کمزوری کو ہی اپنی طاقت بنا لیا ۔ آپ اندازہ کریں 2007 میں جاپان میں زلزلہ آیا ۔ ریکٹر اسکیل پر اس کی شدت 8 تھی ۔ یہ زلزلہ پاکستان میں آنے والے 2005 کے زلزلے سے اعشاریہ 8 فیصد زیادہ تھا  لیکن اس کے باوجود کوئی ایک جانی نقصان نہیں ہوا ۔ جاپان اس وقت پاکستان سے 300 سال آگے ہے  اور اگر ہم 100 سال تک ترقی کرتے رہیں تب بھی 150 سال پیچھے رہینگے ۔ آپ کمال دیکھیں جاپانیوں کو سوائے جاپانی کے کوئی دوسری زبان  بھی نہیں آتی ہے ۔

دوسری طرف آپ ہمارا حال دیکھیں 2013 کی گیلپ رپورٹ کے مطابق صرف پانچ سالوں میں ملک چھوڑنے والوں کی تعداد 57 لاکھ سے زیادہ ہے ۔         1984 میں پاکستان سے جانے والے 17 فیصد تھے  اور اب یہ تعداد 60 فیصد تک جاچکی ہے ۔ گیلپ کی رپورٹ کے مطابق ہر سال ڈاکٹرز کی دو تہائی اکثریت ملک سے باہر چلی جاتی ہے اور ان میں سے آدھے بھی واپس نہیں آتے ہیں ۔ 1700 سے زیادہ داکٹرز ہر سال اپنی ” لائف سیٹ ” کرنے کے لئیے ملک چھوڑ دیتے ہیں ۔ اگر ملک سے باہر جانے والے ڈاکٹرز کی تعداد کی رفتار یہی رہی تو 2020 تک 2000 لوگوں کے لئیے ملک میں صرف ایک ڈاکٹر ہوگا ۔

 آپ اندازہ کریں مغل بادشاہ جہانگیر کا علاج کے لئیے آنے والے انگریز ڈاکٹر سے جب جہانگیر نے کہا کہ ” مانگو کیا مانگتے ہو ملے گا ” ۔ تو جواب میں ڈاکٹر نے کہا ” بادشاہ سلامت ! بس اتنی عرض ہے کہ میرے ملک کے لوگوں کو اپنے ملک میں کاروبار کی اجازت دے دیں “۔ آپ قوموں کی ترقی کی انتہا دیکھیں کہ جب ایک ڈاکٹر تک کا مفاد اس کی قوم کے مفاد سے وابستہ ہوتا ہے ۔ ہم  امت کے مفاد کو تو اپنا کیا بناتے ہم آج تک ملک کے ہی مفاد کو اپنا نہیں بنا سکے ہیں ۔تعلیمی اداروں میں پڑھنے والوں کی اکثریت کا خواب ملک سے باہر ” سیٹل ” ہونے کا ہوتا ہے ۔

یہ تو وہ اثرات ہیں جو معاشرتی سطح پر ہیں ۔ آپ لوگوں کی ذاتی زندگیاں  دیکھ لیں ہارورڈ یونیورسٹی کی 75 سال سے جاری تین نسلوں پر مشتمل تحقیق کے مطابق انسان کے خوش رہنے کا دار و مدار اس کے رشتوں کی مضبوطی پر ہے ۔ رشتہ جتنا قریبی ہوگا اس سے تعلق اور قربت آپ کو زیادہ سے زیادہ خوش رکھے گا ۔ مجھے آل انڈیا انسٹیٹوٹ کے سابق ڈائریکٹر کے الفاظ یاد ہیں جس میں اس نے کہا تھا کہ ” میرا بیٹا باہر رہ کر 30 لاکھ کمائے  مجھے اس سے کہیں زیادہ عزیز  ہے کہ وہ 30 ہزار کمائے اور رات کا کھانا میرے ساتھ کھائے “۔ آپ خود اندازہ کریں ہمارے نوجوان کتنی بھاری بھاری قیمتیں چکا کر باہر زندگیاں گذارتے ہیں ۔ آپ کے بچے کو 30 ہزار والے اسکول کی نہیں آپ کی ضرورت ہے ۔ اس کو برانڈڈ کپڑوں سے زیادہ آپ کے ساتھ کہیں سے بھی خریدے ہوئے کپڑے  عزیز ہیں ۔ آپ کو سال میں ایک دفعہ بڑے ریسٹورینٹ میں بچوں کو کھانا کھلانے سے کہیں زیادہ روز ان کے ساتھ کھیلتے کودتے دال کھانے میں زیادہ مزہ آتا ہے ۔ اپنی زندگی کے قیمتی ترین اور حسین ودلکش جوانی کے لمحات بیوی ، بچوں ،ماں اور باپ سے دور گذار کر کونسی خوشی ، سکون اور عزت کو ہم تلاش کرتے ہیں ؟۔ یاد رکھیں ہر چیز پیسے سے نہیں ناپی اور تولی جاسکتی ہے بعد میں ٹھنڈی آہیں بھرنے اور بوڑھاپے میں لفظ ” کاش ” کو تکیہ کلام بنانے کے بجائے اپنا آج خوبصورت بنالیں ۔

نیلسن منڈیلا نے کہا تھا ” قومیں برے لوگوں کی وجہ سے نہیں اچھے لوگوں کی خاموشی کی وجہ سے تباہ ہوتی ہیں “۔ اس ملک کی 70 فیصد عوام ووٹ تک ڈالنے کے لئیے باہر نہیں نکلتی ہے ۔ ساری قوم الیکشن والے دن چھٹی کے مزے لیتی ہے اور پھر اگلے پانچ سالوں تک حکمران ان سے مزے لیتے ہیں ۔ آج سے کچھ عرصہ پہلے یہ اشعار سنے تھے شاعر کا نام تو نہیں یاد اشعار  ضرور یاد رہ گئے ۔

دیس کو تم پردیس کہوگے

اور پردیس کو دیس کہوگے

دیس کو تم الزام بھی دوگے

الٹے سیدھے نام بھی دوگے

دیس کو اب الزام نہ دو

الٹے سیدھے نام نہ دو

تم نے دیس کو چھوڑا تھا

یا دیس نے تم کو چھوڑا تھا ؟

ارے جوبھی تھا کیا تھوڑا تھا ؟

جواب چھوڑ دیں