سلو پائیزن

          معاشرے کو نہ تو ایک دم سدھارا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس میں ایک ہی دن میں بگاڑ پیدا کیا جا سکتا ہے۔ ہر کام کے لئے دل و دماغ کو پہلے تیار کرنا ضروری ہو جاتا ہے۔ دھاتوں کو ہزار صورتوں میں ڈھالنے سے پہلے ضروری ہوتا ہے کہ انھیں گرم کیا جائے۔ یہ گرمی ان کو موم سے بھی زیادہ نرم بنادیتی ہے اور پھر آپ ان کو جس شکل میں چاہیں ڈھال لیں ڈھل جائیں گی

          مجھے اچھی طرح یاد ہے کراچی کے ایک سینما گھر میں چلنے والی ایک مقبول اور گھریلو فلم روک کر لباس سے آزاد فلم چلا دی گئی تھی تو فلم بینوں نے اس سینما گھر کو نذر اتش کر دیا تھا ۔ کئی سال بعد اسی سینما میں اعلان کرنے کے باوجود “ٹوٹے” نہ چلانے پر نذرآتش کردیا گیا

          یہ سینما پہلے صرف اور صرف اس لئے جلا دیا گیا تھا کہ جو کچھ بھی آپ نے دکھایا وہ دل و دماغ تیار کئے بغیر دکھایا اور دوسری مرتبہ بھی محض اس لئے جلادیا گیا کہ اپ نے وہ کچھ نہیں دکھایا جس کو دیکھنے کے لئے لوگوں نے ٹکٹ حاصل کئے تھے

          آپ اصلاحی کام کریں یا ایسے کام جس میں لذت کام و دہن کے علاوہ اور کچھ مقصد پوشیدہ نہ ہو، دل و دماغ کی تیاری پہلی شرط ہے

          قر ان کی کی سورة العصر میں یہی بات بیان کی گئی ہے۔ زمانے کی قسم کھا کر کہا گیا ہے

”انسان خسارے میں ہے سوائے ان لوگوں کو جو ایمان والے ہیں، نیک اعمال کرتے ہیں، حق کی تاکید کرتے ہیں اور صبر کی تلقین کرتے ہیں“

          گویا ایمان اور نیک اعمال اپنی جگہ، لیکن اس بات کی مسلسل تاکید کرتے رہنا اور اس کی راہ کی ہر مشکل پر تحمل و برداشت سے کام لینا، اس سے بھی زیادہ ضروی ہے اور اگر اس عمل کو روک دیا جائے یعنی مسلسل تاکید اور صبر کی تلقین۔۔ تو۔۔ پھر ایمان اور اعمال میں بگاڑ پیدا ہو سکتا ہے

          گروہ بتائے گئے دو۔ ایک وہ جس نے شعار بنایا ایمان کو، اچھے اعمال کو اور پھر اس کے لئے طریقہ اپنایا مسلسل تاکید اور صبر کا، اور ایک وہ جو اس کے بر عکس ہے

          گویا کام نفع والا ہو یا نقصان والا، ایمان و یقین اس کے لئے نہ صرف شرط ہے بلکہ اس کے لئے مسلسل تیار رہنا اور دل و دماغ کو ہر مشکل اور آزمائش سے مقابلے پر ثابت قدم رکھنے کے لئے امادہ کرتے رہنا ضروری ہوا ورنہ خواہ مقاصد نیک ہوں یا بد، ان کا حصول ممکن نہیں

          جب پاکستان میں ٹیلیوژن پہلی پہلی مرتبہ متعارف ہوا، بہت ساری بحثوں کا سبب بنا۔ اس کو کیسے دیکھا جا سکتا ہے۔ اس میں مرد بھی ہوتے ہیں اور خواتین بھی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب اس میں عام پروگرام ہوں یا ڈرامے، خواتین مکمل ساتر ہوا کر تی تھیں اور خاص طور سے وہ خواتین جو پاکستان ٹیلیوژن کی خبروں یا کسی پروگرام کی انچارج ہوا کرتی تھیں وہ نہ صرف مکمل ساتر لباس میں ہوا کرتی تھیں بلکہ اپنے ڈوپٹے کو بھی گھریلو خواتین کی طرح اوڑھ پہن کر بیٹھا کرتی تھیں البتہ ان کا چہرہ کھلا ہوا ہوتا تھا جو ایک نو زائیدہ پاکستان کے عوام کیلئے تکلیف دہ فعل تھا۔ شور مچاکہ خواتین مردوں کے سامنے کیسے بیٹھیں یا پھر مردوں کے لئے خواتین کی موجودگی میں بیٹھنا اور ان کے چہروں کی جانب نظر بھربھرکر دیکھنادرست ہے بھی کہ نہیں۔ ٹیلیوژن گھر میں رکھنا شیطانی عمل قرار دیا گیا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ دیکھنے والی نگاہیں یہ سب کچھ دیکھنے کی عادت ہوتی گئی، خواتین بھی اہستہ اہستہ کھلتی گئیں، پہلے دو پٹے گئے اور پھر ہر قسم کی شرم و حیا بھی گئی، خواتین کی شرم و حیا تو گئی سو گئی، مردوں کی غیرت بھی ایسی رفو چکر ہوئی کہ اس سے بھی اگے کی باتیں ہو نے لگیں جن کو میں صاف صاف تو بیان نہیں کر سکتا لیکن دو ”مچھروں“ کی گفتگو سے اپ اس بات کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ معاملات کہاں تک جا پہنچے ہیں

 ایک جوان مچھر نے ایک بہت ضعیف العمر مچھر سے شکوہ کیا کہ اج کل کے انسانوں میں تو”خون نام کی کوئی چیز ہی نہیں رہی ہے، چوسو تو چائے، کافی، شراب اور بھنگ کشید ہوتی ہے۔ یہ سن کر ضعیف العمر مچھر نے ایک لمبی سرد اہ بھر کے کہا۔ تم لوگوں کے تو پھر بھی بہت مزے ہیں، ہمارے زمانے میں تو ہم خواتین کے صرف چہروں پر ہی کاٹ سکتے تھے”

          آغاز میں ، جب ٹیلیوژن ہوتا ہی بلیک اینڈ وائٹ تھا جس، میں لاکھ میک اپ کرو پھر بھی ہر چہرہ بلیک اینڈ وائٹ ہی نظر آتا تھا تب اتنا فساد بپا تھا۔ اب جبکہ بد صورت سے بد صورت چہرہ بھی حور غلمان بنا دیا جاتا ہے اور اس پر قیامت یہ کہ جسم کے سارے خدو خال بڑی وضاحتیں پیش کر رہے ہوتے ہیں، نہ تو کوئی “چوں” سنائی دیتی ہے اور نہ ہی کہیں سے ‘چراں” بلند ہوتی ہے، کیوں؟ ۔۔کبھی اس پر بھی کسی نے غور کیا؟ ۔۔نہیں ناں ۔۔۔ یہ بات ویسی ہی ہے جب ایک سینما کو اس لئے جلا دیا گیا تھا جس میں اعلان کئے جانے کے باوجود بھی ”ٹوٹے“ نہیں چلائے گئے تھے۔ وہی عالم آج معاشرے کا ہو گیا ہے۔ یاتو یہ عالم تھا کہ ٹیلیوژن “شیطان کا چرخہ” سمجھا جاتا تھا اور اکثر گھروں میں تو اس کو توڑ نے کے چکر میں بیسیوں سر کھولدیئے اور کھل جایا کرتے تھے یا ایک یہ زمانہ اگیا ہے کہ اگر “کیبل” یا پی ٹی وی کا “اسمارٹ ٹی وی” گھنٹے بھر کو بند ہوجائے تو گھر گھر دہائیاں مچ جاتی ہیں، پیغامات پر پیغامات دوڑنا اور فون پر فون کھڑکنا شروع ہوجاتے ہیں اور اگر یہ سلسلہ طوالت پکڑ جائے تو یوں لگتا ہے جیسے مریض کے خلق سے “مصنوئی الائے تنفس” کھینچ لیا گیا ہے

          اگر اس ساری خرابی کی جڑ کی جانب غور کیا جائے تو سبب ایک ہی سامنے اتا ہے اور وہ یہ ہے کہ وہ عناصر جن سے اللہ تعالیٰ نے یہ کہا تھا کہ “تم حق کی تاکید کرو اور اس راہ میں جو بھی مشکلات آئیں ان پر ثابت قدم خود بھی رہو اور دوسروں کو بھی ایسا ہی کرنے کی تاکید کرو” انھوں نے اپنے اس فرض کو ترک کردیا اور وہ قوت جس کو خسارے والا کہا گیا تھا اس نے اپنے ان دونوں کاموں کو اپنا مشن بنا لیا اور کامیابیوں (ناکامیوں کی) کی جانب مسلسل پیش قدمی میں لگے رہے اور تا حال خسارے در خسارے کی جانب خود بھی رواں ہیں اور کروڑوں کو اپنا ہمنوا بنانے میں لگے ہوئے ہیں

           طویل عرصے سے یہ بات ایک تسلسل کے ساتھ ہو رہی ہے کہ ہمارا الیکٹرونک میڈیا برہنہ سے برہنہ ہوتا جا رہاہے، خوتین کی وہ باتیں جو آپس میں خواتین بھی نہیں کرتیں اور اگر کرتی بھی ہیں تو اپنی ماوں بہنوں سے کر تی ہیں وہ بھی جب ۔۔۔ جب ایسا کرنا ضروری ہی ہو جائے، ایسی ساری باتیں اب میڈیا پر اتنی عام ہیں کہ بہت ساری وہ بچیاں اور بچے جن کو ایسی باتوں اور رازوں کا علم ہی نہیں ہوتا وہ بھی اپنے والدین کی نظریں یہ پوچھ کر جھکانے پر مجبور کر دیتے ہیں کہ فلاں بات کا کیا مطلب ہوتا ہے

          کیا کچھ ہے جو مختلف مصنوعات کی فروخت کے لیئے اشتہارات میں کھل کھل کر سامنے نہیں آرہا ہوتا، کیا کچھ ہے جو مختلف فیشن شوز دکھانے کے چکر میں نہیں دکھایا جارہا ہوتا۔ کیا کیا شے جو چھپانے کی ہے وہ عیاں نہیں کی جارہی ہوتی اور کیا کیا کچھ جو عیاں ہے وہ مزید تیغِ براں نہیں بنا دی جارہی

          یہ سب کچھ ایک دن میں نہیں ہوگیا، اس بگاڑ کو 1964 سے اس وقت شروع کیا گیا جب پاکستان میں ٹیلیوژن آیا، ہر انے والے دن کو ہر نئے انداز میں پیش کرتے کرتے نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ اگر چند گھنٹوں کے لئے بھی یہ طوفان کسی فنی خرابی کی وجہ سے بھی تعطل کا شکار ہوجائے تو لوگ ماہی بے آب کی طرح تڑپنے لگتے ہیں

          کیا کبھی کسی نے اس بات پر غور کیا کہ اس میں کس کا کتنا قصور ہے؟ نہیں بالکل نہیں۔ قوم کو سونے اور سوتے رہنے کی اتنی بری عادت پڑ چکی ہے کہ وہ بیدار ہونے کے لئے تیار ہی نہیں اور نہ ہی زمانے کا یہ کام ہے کہ وہ قوموں کو بیدار کرے اس لئے کہ جو قوم بھی بیدار ہو تی ہے وہ از خود ہوتی ہے کوئی اور اسے نہ تو بیدار کرسکتا ہے اور نہ ہی تاریخ میں ایسا ہوا ہے کہ وہ کسی کے بیدار کئے جانے پر بیدار ہوئی ہو

سوتے ہوئے لوگوں کو جگانے کا نہیں ہے

یہ کام زمانے سے زمانے کا نہیں ہے

          اب اگر کوئی گروہ یہ سمجھتا ہے کہ وہ خود کش دھماموں سے بیدار ہوجائے گی، زندگی کو اجیرن کردینے سے ضمیر جاگ جائے گا، ڈنڈے برسانے سے لہو گرماجائے گا، طعن سے کام چل جائے گا، طنز کے نشترسے ابلوں اور پھپھولوں کی جراحی جلن کا احساس ختم کرنے ممد و معاون ثابت ہوگی تو یہ اس کی سخت بھول ہے اس لئے کہ جس مرض کی جو دوا ہے وہی دوا اس مرض کو دور کر سکتی ہے دوسری کوئی بھی دوا یا علاج مریض کو مار تو دے گا اس کو تندرستی نہیں دے سکے گا

          جس طرح بگاڑ نے والے عناصر نے اس قوم کو “سلوپائیزن” یعنی میٹھا زہر دے دے کر نہایت اہستگی کے ساتھ برسوں میں بگاڑا ہے بالکل اسی انداز میں مسلسل تبلیغ اور تاکید سے کام لیتے ہوئے اس قوم کو واپس “بناو” کی جانب لیکر آنا ہوگا۔ اس سلسلے میں کوئی بھی جلد بازی، بازی تو پلٹ سکتی ہے دشمن کو مات نہیں دے سکتی

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں