نسلِ نو کا اغوا

حضرات !
گھروں میں موجود بچے بظاہر تو آپ کے ساتھ ہیں لیکن درحقیقت وہ اغواء ہو چکے ہیں۔ آپ کے بچے آپ کی گود میں ہونے کے باوجود تہذیبِ مغرب کی آغوش میں قید ہیں۔ عالمِ کفر دروازے توڑ کر، دیواریں پھلانگ کر، آپ کے گھروں میں گھس کر آپ کے بچے اغواء کر رہا ہے۔
آپ کا ٹی وی ، دیگر اسکرینیں اور تعلیمی نظام آپ کے بچوں کے دماغوں پر قبضہ کر رہے ہیں، ان کے دلوں کو سیاہ و پراگندہ کیا جا رہا ہے۔ ان کے کان اور آنکھیں حیا سے عاری اور مادر پدر آزاد بنائی جا رہی ہیں، گویا ان کے اعضاء کاٹے جا رہے ہیں، بلاشبہ اب یہ صرف مسخ شدہ لاشیں ہیں۔!
بچوں کا چہرہ سامنے ہونا ہی ان کا موجود یا محفوظ ہونا نہیں کہلاتا۔ آپ کی بیٹی کے سر سے دوپٹہ سِرک کر بدن سے بھی جان چھڑا رہا ہے، وہ اب یہ بوجھ برداشت نہیں کر پاتی۔ وہ گھر چلانا اور گھر بنانا چھوڑ رہی ہے، وہ باہر کی دنیا میں “انٹرسٹڈ” ہوگئی ہے۔ یعنی بچے ہونے کے باوجود مائیں بے اولاد کر دی گئی ہیں اور آج کی بیٹی کل کی ماں بننے لائق نہیں چھوڑی جا رہی، اسے ذہنی و جسمانی طور پر بانجھ کیا جا رہا ہے۔
ہم بچوں کو اپنے ہاتھوں سے، فیسیں دے دے کر، اس تہذیب کے حوالے کر رہے ہیں، وہ تہذیب کہ جس نے آپ سے آپ کا خالق چھینا اور آپ کی آنے والی نسلیں بھی۔۔۔۔
یہ آج کے بچے نہیں بلکہ یہ اگلی نسل کے والدین اغواء ہو رہے ہیں اور یہ اغواء شدہ بچے کل کو کس طرح کے ماں باپ ہوں گے؟ اس کا تصور بھی بھیانک ہے۔ جب تربیت کا پہلا مدرسہ (ماں) ہی اجاڑ دیا جائے اور باپ کو بے حیا و آزاد کردیا جائے تو اسے کہتے ہیں ”گڈنیپنگ” اور یہ ہوتے ہیں ‘مسنگ پرسنز’ !
جنہیں اٹھا لیا جائے، جو دوبارہ نظر نہ آئیں اور چند روز بعد جن کی مسخ شدہ لاش ملے، ان پر تو پھر بھی صبر آ سکتا ہے لیکن جب نسلیں اغواء ہو جائیں، جو آپ کی نظروں کے سامنے اور آپ کے ساتھ ہوکر بھی کسی اور کے اشاروں پہ جیتے ہوں تو فکر ہونی چاہیے۔ یہ فکر ابھی کیجیے اور جان رکھیں کہ جو آپ کے پاس ہے، وہ آپ کے ساتھ نہیں ہے۔

1 تبصرہ

جواب چھوڑ دیں