فداک امی وابی یا رسول اﷲ ﷺ
میرے ماں باپ آپؐ پر قربان اے اﷲ کے رسول ﷺ!!!
مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ بات کہاں سے شروع کروں، اتنی عظیم ہستی کے بارے میں کچھ لکھتے ہوئے بار بار قلم کو اپنی بے مائیگی کا احساس پکڑ لیتا ہے، مگر کیا کروں کہ آئے دن دل تڑپتا ہے، ایسا لگتا ہے کہ دنیا ہمارے نبیﷺ کی ذاتِ اقدس پر حملے کر کر کے ہمارے ایمان کی کمزوری اور طاقت کا اندازہ لگاتی ہے، ہماری نیند ، بے ہوشی اور موت کا معائنہ کرتی ہے، کبھی تقریر، کبھی تحریر اور کبھی ان دونوں سے ہٹ کر مگر برق رفتار اور کثیر الاثر الیکٹرانک میڈیا کا ہتھیار!!! ایک جانب امت کو نازیبا الفاظ، خاکوں، فلموں کے ذریعے اذیت میں مبتلا کیا جاتا ہے تو دوسری جانب آزادیء اظہارکے عالمی دو غلے رویے کی کند چھری سے اس بے بس امت کو ذبح کیا جاتا ہے۔
شاید یہ گستاخانِ رسول ﷺ یہ نہیں جانتے کہ پوری امت کی تاریخ میں انکا انجام ذلت اور رسوائی ہی ہوا ہے جب کہ میرے نبی محترم ﷺ کے لئے اﷲ کا اعلان ہے : ’’ورفعنا لک ذکرک‘‘۔
نبی اکرم حضرت محمد ﷺ کا یہ بھی امتیاز ہے کہ آپؐ پر فدا ہونے والے ابتدائے اسلام ہی سے سر فروشی کی تاریخ مرتب کر رہے ہیں، اسلام کے پہلے شہید حارثؓ بن ابی ہالہ نے حضور اکرمﷺ کو بچاتے ہوئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا۔ حضرت ابو بکر صدیقؓ نے آپ ؐ کو کفار کے حملے سے بچایا، اور وہ آپ ؐ کا دفاع کرتے ہوئے فرما رہے تھے:’’اتقتلون رجلًا ان یقول ربی اﷲ‘‘۔۔۔۔(سورۃ المومن، آیۃ۲۸)۔
کفر واسلام کی پہلی جنگ غزوہء بدر میں دو بچے کفر کے ایک سردار کی تلاش میں ہیں، انہوں نے اسے دیکھا نہیں، مگر اس کے قتل کا عزم لئے بڑے اصرار کے ساتھ اجازت لے کر میدانِ جہاد میں اترے ہے، ایک صحابی سے ابو جہل کا پوچھتے ہیں، اور اپنا ارادہ بھی بیان کر دیتے ہیں، وہ اس عزم کا سبب پوچھتے ہیں تو معاذؓ اور معوذؓ کا جواب ہے: ’’کان یوذی رسول اﷲ ﷺ‘‘، یعنی ابو جہل رسول اﷲ ﷺ کو مکہ میں ایذا دیا کرتا تھا، اس لئے وہ اسکے بدلے اسے قتل کرنا چاہتے ہیں، اور یہ اﷲ کی قدرت ہے کہ وہ اس سورما کو ان بچوں کے ہاتھوں ذلت سے قتل کرواتا ہے۔
رسالت مآب حضرت محمد ﷺ نے نبوت کا اعلان کیا تو انکے چچا زاد اور ابو لہب کے بیٹے عتیبہ نے اپنے باپ کے کہنے پر آپؐ کو اذیت دینے کے لئے برا بھلا کہا اورآپکی بیٹی کو طلاق دے دی، رسول اﷲ ﷺ نے اسے بددعا دی: ’’اللہم سلّط علیہ کلباً من کلابک‘‘، (اے اﷲ اس پر اپنا ایک کتا مسلط کر دے)۔ عتیبہ شام کے سفر پر تھا جب اس نے رات کو پڑاؤ ڈالا تو اسے ایک شیر کی دھاڑ سنائی دی، اس کا رواں رواں کانپ اٹھا، ساتھیوں نے اسے تسلی دی مگر اسے یقین تھا کہ محمد (ﷺ) کی بددعا سے وہ بچ نہ پائے گا، انہوں نے اس کے خیمے کے گرد رکاوٹیں کھڑی کر دیں اور اسے درمیان میں سلایا، مگر رات کو شیر آیا اور سب کے سر سونگھے اور عتیبہ پر پل پڑا اور اسے ہلاک کر دیا۔ (البہیقی) اﷲ تعالی کا آپؐ سے وعدہ ہے:’’انا کفیناک المستھزئین‘‘۔ الحجر، ۹۵۔
قرآن کریم نے نام لیکر ابو لہب پر لعنت بھیجی، اور اسکے اور اسکی بیوی کے بد انجام کی خبر دی، جو رسول اﷲ ﷺ کو اذیت دینے میں پیش پیش تھے۔
قرآن کریم سے استشہاد
’’یآایھا الرسول بلّغ ما انزل الیک من رّبک ۔۔۔ واﷲ یعصمک من النّاس‘‘ ۔۔۔ (المائدۃ، ۶۷) (اے پیغمبرؐ، جو کچھ تمہارے رب کی طرف سے نازل کیا گیا ہے وہ لوگوں تک پہنچا دو ۔۔۔ اﷲ تم کو لوگوں کے شر سے بچانے والا ہے ۔۔۔ )۔
’’سیکفیکھم اﷲ، وھو السّمیع العلیم ‘‘ (البقرۃ، ۱۳۷)۔ (اطمینان رکھو کہ ان کے مقابلے میں اﷲ تمہاری حمایت کے لئے کافی ہے، وہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے)۔
’’الیس اﷲ بکافٍ عبدہ، ویخوّفونک بالّذین من دونہ ‘‘۔۔۔(الزمر، ۳۶)۔ (اے نبیؐ، کیا اﷲ اپنے بندے کے لئے کافی نہیں ہے؟ یہ لوگ اس کے سوا دوسروں سے تم کو ڈراتے ہیں)۔
’’انّ شانئک ھو الابتر‘‘ (الکوثر، ۳)۔ (تمہارا دشمن ہی جڑ کٹا ہے)۔
’’انّ الذین یؤذون اﷲ ورسولہ لعنھم اﷲ فی الدنیا والآخرۃ واعدّلھم عذاباً مھیناً‘‘۔ (الاحزاب، ۵۷)۔ (جو لوگ اﷲ اور اسکے رسول کو اذیت دیتے ہیں ان پر دنیا اور آخرت میں اﷲ نے لعنت فرمائی ہے اور انکے لئے رسوا کن عذاب مہیا کر دیا ہے۔)
’’ومنھم الذین یؤذون النبیّ ویقولون ھو اذن، قل اذن خیر لّکم یؤمن باﷲ ویؤمن للمؤمنین ورحمۃ للذین آمنوا منکم، والذین یؤذون رسول اﷲ لھم عذاب الیم‘‘۔ (التوبۃ، ۶۱)۔ (ان میں سے کچھ لوگ ہیں جو اپنی باتوں سے نبی ؐ کو دکھ دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ شخص کانوں کا کچا ہے۔ کہو، وہ تمہاری بھلائی کے لئے ایسا ہے، اﷲ پرایمان رکھتا ہے اور اہلِ ایمان پر اعتماد رکھتا ہے اور سراسر رحمت ہے ان لوگوں کے لئے جو تم میں سے ایمان دار ہیں۔ اور جو لوگ اﷲکے رسولؐ کو دکھ دیتے ہیں ان کے لئے دردناک سزا ہے۔)
یہ تمام وثائق ثابت کرتے ہیں کہ اﷲ رسول ﷺ کا محافظ ہے، انکا مددگار ہے، اور جو رسول ﷺ پر ظلم کے مرتکب ہوں ان سے خود انتقام لینے والا ہے۔ وہ آپ ﷺ کا تمسخر اڑانے والوں کی پکڑ اپنا حق سمجھتا ہے، بلکہ وہ آپ ﷺ کا استہراء اڑانے والوں کے مقابلے میں اکیلا ہی کافی ہے۔
ابنِ تیمیہؒ اپنی کتاب ’’الصارم المسلول‘‘ کے ۱۴۴ صفحہ پر لکھتے ہیں:
۔ ’’یہ اﷲ تعالی کی سنت ہے کہ اگر مومنوں کے پاس اتنا اقتدار نہ ہو کہ وہ اﷲ اور اسکے رسول ﷺ کو اذیت دینے والے سے انتقام لے سکیں تو اﷲ اس سے اپنا حق سمجھ کر انتقام لیتا ہے اور وہ انکے لئے کافی ہے ۔۔ اور جس کسی نے آپ ﷺ سے برائی کی، یا بغض رکھا یا عداوت رکھی، اﷲ اسکی جڑ کاٹ دیتا ہے اور اسے اور اسکی نسل کو مٹا ڈالتا ہے۔ اور تاریخ میں ایسے متعدد واقعات موجود ہیں، کہ جس نے آپ کو برا بھلا کہا، اور اگر کسی نے فوراً بدلہ نہ لیا تو اﷲ نے خود اس سے انتقام لیا۔ السعدی کی رائے ہے کہ جس کسی کا ایسا عمل ظاہر ہو گیاکہ اس نے آپ ﷺ کی استہزاء کی تو اﷲ نے اسے ہلاک کر دیا اور وہ بری موت مارا گیا۔
تاریخ کی کتابوں میںیہ قصّہ ابنِ عباسؓ کی روایت سے موجود ہے کہ کفار کے بعض اکابرین نے رسول اﷲﷺ کی استہزاء کی، وہ ولید بن المغیرۃ، اسود بن عبد یغوث، اسود بن المطلب، حارث بن غیطل السہمی، اور عاص بن وائل تھے، حضرت جبریل ؑ آئے تو آپؐ نے ان سے ان کی شکایت کی، آپؐ نے انہیں ولید بن المغیرہ دکھایا، جبریل نے اسکی طرف اشارہ کیا، اور اسکا ہاتھ بھیگا ہوا تھا، آپ ﷺ نے پوچھا، تو جبربلؑ نے کہا: ’’میں انکے مقابلے میں آپؐ کی طرف سے کافی ہوں، پھر انہوں نے حارث بن غیطل السہمی کی طرف دیکھا،اور اس کے پیٹ ک طرف اشارہ کیا، آپؐ نے پوچھا: جبریل نے کہا: ’’میں اس کے لئے آپؐ کی طرف سے کافی ہوں، پھر عاص بن وائل السہمی کی طرف دیکھا اور اسکے پاؤں کے اخمص یعنی نچلی جانب اشارہ کیا، آپؐ نے فرمایا: ’’مین نے کچھ نہیں کیا‘‘، جبربل نے کہا: میں انکے لئے آپؐ کی طرف سے کافی ہوں۔ پھر جب ولید بن المغیرہ گھر سے نکلا تو وہ خزاعہ کے ایک شخص کے پاس سے گزرا، جو اپنا تیر ٹھیک کر رہا تھا، وہ ولید بازو پر لگ گیا اور اسکی بڑی رگ کٹ گئی، اسود بن المطلب اندھا ہوا، اور وہ ایسے کہ وہ ایک درخت کے نیچے آیا، تو کہنے لگا: ’’اے بیٹو، تم میرا دفاع کیوں نہیں کرتے؟ میں قتل ہو جاؤں گا، وہ کہنے لگے ہمیں تو کچھ نظر نہیں آرہا، وہ بولا: میری آنکھ میں ایک کانٹا پڑ گیا ہے، وہ دیکھتے رہے مگر انہیں کچھ دکھائی نہ دیا حتی کہ وہ اندھا ہو گیا۔ اسود بن عبد یغوث باہر نکلا تو کسی جانب سے تیر آیا اسے جا لگا، اور وہ مر گیا۔ الحارث بن غیطل کو پیلا پانی جاری ہو گیا، اور وہ کثرتِ اجابت سے مر گیا، اور العاص بن وائل کی موت بھی اسی طرح واقع ہوئی کہ اس کا پاؤں کانٹے دار جھاڑی پر اس بری طرح پڑا کہ کانٹے اس میں بھر گئے اور وہ مر گیا۔ (اصفہانی نے اسے دلائلِ نبوت کے باب میں درج کیا ہے، ۱:۶۳) یہ پانچوں اپنی قوم کے سرکردہ افراد تھے، انہوں نے رسول اﷲ ﷺ کی استہزاء کی، تو اس نے اپنی قدرت سے انہیں سزا دی اورانکے لئے وہ اکیلا ہی کافی ہے۔
بزّار اور طبرانی نے الاوسط میں حضرت انسؓ کی روایت لکھی ہے کہ: نبی اکرم ﷺ مکہ کے کچھ لوگوں کے پاس سے گزرے تو انہوں نے آپؐ کو دیکھ کر چپکے چپکے آنکھوں سے اشارے شروع کر دیے، اور کہنے لگے: ’’یہ صاحب خود کو اﷲ کا نبی کہتے ہیں‘‘، حضرت جبریلؑ آپ کے ہمراہ تھے، انہوں نے انکی جانب انگلی سے اشارہ کیا، جو کفار کے جسموں پر ناخنوں کی طرح لگا اور انکے ایسے بد بو دار زخم بن گئے کہ کوئی انکے قریب بھی نہ آتا تھا۔ (دیکھئے الدر المنثور، ۱۰۰:۵)
صحیحین میں ایک عجیب واقعہ درج ہے: بنو نجار کا ایک عیسائی شخص مسلمان ہو گیا، وہ نبی اکرم ﷺ پر وحی کی کتابت کرنے لگا، پھر وہ الٹے قدموں پھر گیا اور مرتد ہو کر دوبارہ عیسائیت میں داخل ہو گیا، وہ اہلِ کتاب کے پاس چلا گیا اور رسول اﷲ ﷺ کا مذاق اڑانے لگا، اور دعوی کرنے لگا کہ وہ وحی میں وہ کچھ شامل کر دیتا تھا جو اس میں نہیں تھا، اور وہ کہتا: اﷲ کی قسم، محمد (ﷺ) وہی جانتے ہیں جو میں بتاتا ہوں، وہ کچھ عرصہ اسی طرح رہا، پھر اﷲ نے اسے ہلاک کر دیا، لوگوں نے اسے دفن کیا، مگر اگلی صبح زمین نے اسے (قبر سے) باہر پھینک دیا، لوگ کہنے لگے: یہ محمد (ﷺ) اور انکے اصحاب نے کیا ہے۔ انہوں نے ہمارے ساتھی کی قبر کھود کر اسے نکالا اور باہر ڈال دیا، انہوں نے قبر کے گڑھے کو اور گہرا کیا اور اسے پھر دفن کر دیا، صبح اسے پھر زمین نے باہر اگل دیا تھا، اسکے ساتھی کہنے لگے: یہ محمد (ﷺ) اور انکے ساتھیوں کا کام ہے، انہوں نے اسکی قبر سے اسے باہر پھینکا کیونکہ یہ ان سے بھاگ گیا تھا، اور انہوں نے اسے پا لیا، انہوں نے تیسری مرتبہ جتنی گہری قبر کھود سکتے تھے کھود دی اور دفن کر دیا، لیکن اگلی صبح وہ پھر زمین سے باہر پڑا تھا، تو انہوں نے جان لیا کہ یہ کسی آدمی کا کام نہیں ہے، پس انہوں نے اسے چھوڑ دیا اور چلے آئے۔ (بخاری حدیث نمبر۱۷ ۳۶، مسلم حدیث نمبر۲۷۸۱) یہ اﷲ کی شان ہے کہ اس نے اپنے نبی ﷺ کا استہزاء کرنے والوں کو نشانِ عبرت بنا دیا۔
نبی مہربان ﷺ نے بادشاہوں کے نام خط ارسال کئے تو قیصر وکسری کو بھی خط بھیجا گیا، قیصر نے اس خط کا اکرام کیا تو اسکی سلطنت باقی رہی، اگرچہ اس نے اسلام قبول نہیں کیا، اور کسری نے اس خط کی اہانت کی اور اسے پرزے پرزے کر دیا، اور رسول اﷲ ﷺ کا مذاق اڑایا، وہ تھوڑے عرصے بعد بری طرح قتل ہوا اور اسکی مملکت پارہ پارہ ہو گئی۔ (الصارم المسلول، ۱۴۴)
اﷲ کے نبی ﷺ کے استہزاء کرنے والوں کے بدلے کی صرف یہی صورت نہیں کہ وہ قتل کر دیے جائیں یا ان کے لئے زمین پھٹ پڑے، بلکہ اس کے لئے متعدد اور متنوع صورتیں ہیں، کبھی اﷲ تعالی ان پر ایسے بندے مسلط کر دیتا ہے جو اسے ہلاک کر دیتے ہیں، جیسے کعب بن اشرف نے نبی رحمت ﷺ کو ستایا، اور اشعار کے ذریعے انکا استہزاء کیا تو محمد بن سلمہؓ نے رسول اﷲ ﷺ کے حکم پر اسکا کام تمام کیا، ایک یہودیہ رسول اﷲ ﷺ کو گالیاں بکتی تھی، ایک صحابی نے اسکا گلا گھونٹ کر اسے مار دیا، اورایک نابینا صحابیؓ کی بیوی رسول اﷲ ﷺ کی اہانت کرتی تھی، اور وہ انکے بچوں کی ماں بھی تھی، انہوں نے اسے قتل کر دیا، اور خمیطہ نے رسول اﷲ ﷺ کی ہجو کی تو اسکی اپنی قوم کے ایک شخص نے اسے قتل کر دیا، (الصارم المسلول، ۹۵) ابو عفک یہودی نے آنحضرت کی ہجو بیان کی تو سالم بن عمیرؓ نے اس سے قصاص لے لیا، (الصارم المسلول، ۱۰۱) اور انس بن زنیم نے آپؐ کی ہجو کی تو خزاعہ کے ایک لڑکے نے اس سے بدلہ لے لیا(الصارم المسلول، ۱۰۲)، سلام بن ابی الحقیق نے آپؐ کے لئے ابال کھایا تو عبد اﷲ بن عتیک نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ اس کا کام تمام کر دیا۔ (الصارم المسلول، ۱۳۵)۔
اﷲ تعالی نے اپنے نبی ﷺ کی دشمنوں سے اس طرح بھی حفاظت کی کہ انکے دلوں میں انکی ہیبت اور رعب طاری کر دیا، کہا جاتا ہے کہ غورث بن الحرث کہتا تھا: میں ضرور محمد (ﷺ) کو قتل کروں گا؟ اس کے ساتھی اس سے پوچھتے: تم انہیں کیسے قتل کرو گے وہ کہتا کہ میں ان سے کہوں گا: مجھے اپنی تلوار دیں، جب وہ مجھے اپنی تلوادیں گے تومیں ان کی گردن اڑا دوں گا ۔ وہ آپؐ کے پاس آ کر کہنے لگا: محمد مجھے ذرا اپنی تلوار دو میں اسے سونگھوں گا، آپؐ نے اسے تلوار دے دی، اس کے ہاتھ لرز اٹھے اور تلوار نیچے زمین پر گر گئی، آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تیرے اور تیرے ارادے کے درمیان اﷲ حائل ہو گیا‘‘۔ (الدر المنثور، ۱۱۹:۳)
ابن کثیر میں بیان کیا گیا ہے کہ ابو جہل کہتا تھا: لات اور عزی کی قسم، اگر میں نے محمد (ﷺ) کو نماز پڑھتے دیکھا تو میں ضرور آپ کی گردن پر پاؤں رکھ دونگا اور آپؐ کا چہرہ خاک آلود کر دوں گا، پس جب رسول اﷲ ﷺ نماز پڑھ رہے تھے وہ آپؐ کی گردن پر پاؤں رکھنے کے لئے آیا، مگر آگے بڑھتے ہوئے وہ اچانک الٹے قدموں پیچھے پلٹنے لگا، اور اپنے ہاتھ سے کچھ پیچھے کرنے لگا، اس سے پوچھا گیا: تجھے کیا ہوا؟، وہ بولا: میرے اور انکے درمیان آگ کی ایک ھولناک خندق ہے، جس سے شعلے لپک رہے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اگر وہ میرے ذرا بھی قریب آتا، فرشتے اسکو ٹکڑے ٹکڑے کر دیتے‘‘۔ (۵۳۰: ۴)
ابنِ عباس کی روایت ہے کہ قریش کے کچھ لوگ الحجر میں اکٹھے ہوئے اور انہوں نے باہم عہد کیا کہ لات، عزی اور منات الثالثۃ الاخری، اور نائلہ اور اساف کی قسم، اگر ہم نے محمد (ﷺ) کو دیکھا تو ہم سب اکٹھے اس پر یکبارگی حملہ کر دیں گے، اور اسے قتل کر دیں گے، یہ سن کر ان کی بیٹی فاطمہ روتی ہوئی اندر آئی، رسول اﷲ ﷺ اندر آئے تو انہوں نے ان کو بتایا کہ یہ آپ کی قوم کے افراد ہیں، انہوں نے آ پ کو اکٹھے ہو کر قتل کرنے کا عہد کیا ہے اور ان میں سے ہر ایک اس خون میں شریک ہو گا، آپؐ نے فرمایا: جاؤ وضو کا پانی لاؤ، پھر آپؐ بے وضو کیا، اور مسجد میں چلے گئے، انہوں نے جب آپؐ کو دیکھا بولے: ہاں وہ آگئے، اور ان کی آنکھیں جھک گئیں اور ان کے کان سینوں پر گر گئے، ان کی آنکھیں آپؐ کو دیکھ نہ پائیں، ان میں سے کوئی بھی آپؐ کی جانب نہ بڑھا، نبی اکرم ﷺ ان کے سروں پر پہنچ گئے، آپؐ نے مٹھی بھر خاک لی اور ’’شاھت الوجوہ‘‘ کہہ کر ان کے چہروں پر پھینک دی، ان میں سے جس پر ایک کنکر مٹی بھی پڑی وہ بدر کے روز کفر کی حالت میں مارا گیا۔ (دیکھئے دلائلِ النبوۃ، ۶۵:۱) اﷲ نے سچ فرمایا، ہم آپؐ کے لئے کافی ہیں۔
نبی آخرالزمان حضرت محمد ﷺ کی محبت شرطِ ایمان ہے، آپؐ نے فرمایا: لا یؤمن احدکم حتی اکون احبّ الیہ من ولدہ ووالدہ والناس اجمعین۔ (متفق علیہ) یعنی تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اسے اس کی اولاد ، اس کے باپ اور تمام لوگوں سے بڑھ کر محبوب نہ ہو جاؤں۔
عہدِ رسالت کا واقعہ ہے کہ ایک یہودی اور ایک (منافق) مسلمان اپنے جھگڑے کا فیصلہ کروانے کے لئے رسول اﷲ ﷺ کے پاس لے گئے، رسول اﷲ ﷺ نے فیصلہ یہودی کے حق میں کیا، منافق کو سخت تکلیف پہنچی اور اس نے یہودی سے کہا کہ ہم اس معاملہ کو حضرت عمرؓ کے پاس لے جاتے ہیں، (اس کا خیال تھا کہ عمرؓ یہودیوں کے دشمن ہیں اس لئے فیصلہ اس کے حق میں کریں گے) حضرت عمرؓ نے پوری تفتیش کے بعد پوچھا کہ رسول اﷲ ﷺ کافیصلہ منظور کس کو نہیں ہے، منافق کے اقرار پر انہیں رک جانے کو کہا، عمرؓ اندر گئے، اپنی تلوار نکالی، اس کی دھار چیک کی اور آ کر منافق کی گردن اڑا دی، رسول اﷲ ﷺ کو اس کی خبر دی گئی، آپ ﷺ نے فرمایا ہم عمرؓ کے ساتھ ہیں۔
مدینہ کے یہودی رسول اﷲﷺ کو زِک پہنچانے کے نئے نئے انداز اختیار کرتے، آپ ﷺ کی مجلس میں آتے، اور بظاہر’’ راعنا ‘‘ کہہ کر مگر دل کا غبار نکالتے ہوئے ’’راعینا‘‘ کہتے، حضرت سعدؓ بن عباد ان کی زبان سمجھتے تھے ، کہ وہ آپؐ کو ’’او احمق‘‘ کہتے ہیں، انہوں نے دھمکی دی کہ اگر اب کسی نے ایسا لفظ استعمال کیا تو اس کی گردن اڑا دوں گا، پھر سورہ البقرۃ کی یہ آیۃ نازل ہوئی:
یاأیھا الذین آمنوا لا تقولوا راعنا وقولوا انظرنا واسمعوا وللکافرین عذاب الیم( البقرۃ، ۱۰۴)
آغازِ اسلام ہی سے ناموسِ رسالت پر حملہ کرنے والوں سے سختی سے نبٹا گیااور اس میں کسی کی دینی حیثیت اور دنیوی منصب کا خیال نہیں رکھا گیا، حضرت عمرؓ بن خطاب کے دور میں بحرین کا عیسائی پادی گستاخیء رسول کا مرتکب ہوا، اسے کچھ نو عمر لڑکوں نے موت کے گھاٹ اتار دیا، معاملہ حضرت عمرؓ تک پہنچا تو آپ نے اس قتل کو درست قرار دیا۔
تاریخِ اسلامی میں گستاخانِ رسول ﷺ کے اعداد شمار دیکھے جائیں تو ریاستِ مدینہ کے قیام سے اب تک ۴۰ گستاخان کو عوام نے اور ۸۰ کو عدالتوں نے سزائیں دی۔
اسپین کی اسلامی ریاست میں پادریوں نے توہینِ رسالت کی مہم چلا رکھی تھی، وہ خود بھی آپﷺ کی شان میں گستاخی کرتے اور دوسروں کو بھی ترغیب دیتے، چناچہ ۲۳۶ ھ میں ۵۳ شاتمانِ رسول کو موت کے گھاٹ اتارا گیا جن میں پادری بھی تھے۔
توہینِ رسالت ایسا معاملہ نہیں جسے کسی صورت بھی ٹھنڈے پیٹوں برداشت کیا جائے، شہنشاہ اکبر کے زمانے میں ایک ہندو نے شانِ رسالت مآب میں گستاخی کی، معاملہ بیربل اور ابو الفضل کے سپرد ہوا، توہین ثابت ہو گئی، علماء کے بھی دو گروہ بن گئے، محل کی خواتین بھی ہندو مجرم سے ہمدردی رکھتی تھیں، قاضی القضاۃ نے سزا سنائی اور فیصلہ نافذ کر دیا گیا۔
حقیقت رائے نے حضرت فاطمہؓ اور رسول اﷲ ﷺ کی شان میں گستاخی کی، زکریا شاہ لاہور کا گورنر تھا، اس نے ہندو اکثریتی آبادی کی پرواہ نہ کرتے ہوئے سزا کو نافذ کیا۔
اﷲ اور اس کے رسول ﷺ پر ایمان رکھنے والے اور ان سے محبت کرنے والے حزب اﷲ کا گروہ ہیں اور وہ حزب الشیطان سے کسی قسم کی الفت، محبت اور مروت نہیں رکھتے، خواہ وہ ان کے رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں۔
لاتجد قوماً یؤمنون باﷲ والیوم الآخر یوادّون من حاد اﷲ ورسولہ ولو کانوا آباءھم او اخوانھم او عشیرتھم ۔۔۔ (المجادلۃ، ۲۲)
تم کبھی یہ نہ پاؤ گے کہ جو اﷲ اور آخرت پر ایمان رکھنے والے ہیں وہ ان سے محبت کرتے ہوں جنہوں نے اﷲ اور اس کے رسول ﷺ کی مخالفت کی ہے، خواہ وہ ان کے باپ ہوں یا ان کے بیٹے یا بھائی یا اہلِ خاندان ۔۔
یعنی یہ بات قطعی ناممکن ہے کہ ایمان اور دشمنانِ خدا اور رسول کی محبت ایک دل میں جمع ہو جائیں، بالکل اسی طرح جیسے ایک دل میں اپنی ذات کی محبت اور اپنے دشمن کی محبت جمع نہیں ہو سکتی ۔۔۔ (تفہیم القرآن پنجم، ۳۶۶)
اسی کے بے شمار نمونے غزوات میں بھی دکھائی دیے اور مسلمانوں کی عام زندگی میں بھی، سچے مومنوں نے ان تمام رشتوں کو کاٹ کر پھینک دیا جو ان کے دین کے راستے میں مزاحم ہوئے، غزوہء بدرمیں ابو عبیدۃؓ نے اپنے باپ عبد اﷲ بن جراح کو قتل کیا، مصعبؓ بن عمیر نے اپنے بھائی عبید کو عمرؓ بن خطاب نے اپنے ماموں عاص بن ہشام کو قتل کیا، حضرت ابو بکرؓ اپنے سگے بیٹے سے لڑنے کو تیار ہو گئے، حضرت علیؓ حضرت حمزۃؓ اور عبیدۃ بن الحارث نے عتبہ شیبہ اور ولید بن عتبہ کو قتل کیا جو ان کے قریبی رشتہ دار تھے اور ثابت کیا کہ اﷲ اور اس کے رسول ﷺ کی محبت کسی رشتے کے سامنے مغلوب نہیں ہو سکتی۔
یہ آج کے دور کا بہت بڑا المیہ ہے کہ ایسی مملکت جسے لا الہ الا اﷲ کے نام پر حاصل کیا گیا ہے ، شانِ رسالت کے معاملے میں لیت و لعل کا شکار ہے، قیامِ پاکستان سے لے کر آج تک توہینِ رسالت کے کسی مجرم کو سزا نہیں دی گئی، اس وقت بھی جیلوں میں کم ازکم چودہ مجرمان ایسے ہیں جن پر جرم ثابت ہو چکا ہے، لیکن سزا نافذ نہیں ہوئی، حالانکہ پرویز مشرف جیسے حکمران بھی ہیں جو زندہ موجود ہیں مگر ان کے اقدامِ قتل کے کئی مجرم پھانسی کی سزا پا چکے ہیں۔
اس ملک میں ایسا گورنر بھی تھا جو شاتمِ رسول آسیہ بی بی کی اشک شوئی کے لئے جیل جا تا ہے اور قانون میں تبدیلی کے عزم کا اظہار کرتا ہے۔
اور کروڑوں مسلمانوں کا دل دکھانے پر جب ایک محبِ رسول اسے کیفرِ کردار تک پہنچاتا ہے توبیرونی آقاؤں کو اسے پھانسی دے کر خوش کیا جاتا ہے۔
گاہے گاہے کبھی ہلکی اور کبھی تیز آوازیں ناموسِ رسالت کے قانون میں تبدیلی کے لئے اٹھتی رہتی ہیں، لیکن سوچنے کا مقام یہ ہے کہ کیا ایسے قانون کو تبدیل کیا جا سکتا ہے؟ یہی سوال امام مالکؒ سے بھی پوچھا گیا تھا، کہ کوفہ کے کچھ مولویوں کی رائے ہے کہ گستاخیء رسول ﷺ کی سزا موت سے کم بھی ہو سکتی ہے؟
آپ نے فرمایا: ’’اگر گستاخ گستاخی کے بعد بھی زندہ رہے تو پھر امت کے زندہ رہنے کا کوئی جواز نہیں رہ جاتا‘‘۔
اس معاملے کا سب سے حساس پہلو یہ ہے کہ اگر اس قانون کا غلط استعمال کیا جائے، تو اس کا تدارک کیسے ہو؟ حقیقت یہ ہے کہ اگر اس قانون کو فعالیت کے ساتھ عدالتیں استعمال کریں اور شہادتوں کی بنیاد پر درست فیصلے کریں تو غلط استعمال بھی محدود ہو جائے گا، بروقت سزاؤں کا نفاذ عوام کا اعتماد بڑھائے گا۔
’’سباب المسلم فسوق وقتالہ کفر‘‘ مسلمان کو گالی دینا فسق اور اسے قتل کرنا کفر ہے، اور اگر کسی کو مسلمان جانتے ہوئے ناحق قتل کیا تو اس کی سزا سے دنیا میں بچ بھی جائے تو آخرت میں نہ بچ پائے گا، حضرت اسامہ بن زیدؓ نے ایک کافر کو تلوار دیکھ کر کلمہ پڑھنے پر قتل کردیا تو رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: اے اسامہ تم کیا کرو گے اس روز جب وہ کلمہ کے ساتھ آئے گا؟، اور آپؐ بار بار یہی دہراتے رہے حتی کہ اسامہؓ نے تمنا کی کہ : ’’کاش میں آج ہی مسلمان ہوا ہوتا‘‘ اور یہ عمل میرے نامہء اعمال میں نہ ہوتا۔
دنیا میں کوئی قانون ایسا نہیں جسے غلط تشریح سے استعمال کی کوشش نہ کی جاتی ہو، لیکن نظامِ انصاف ظالموں کی ٹیڑھ کو سیدھا کرتا ہے، اگر دنیا میں زن، زر اور زمین کی بنیاد پر اور نسلی، قومی اور لسانی عصبیتوں کے نام پر قتل ہونے والے اعداد و شمار کا موازنہ توہینِ رسالت کے مقتولوں سے کیا جائے تو یہ تعداد کافی کم ہے، لیکن یہ ہماری بد نصیبی ہے کہ بموں کی ماں بستیوں کی بستیاں اجاڑ دیتی ہے، مگر ہمارے کان پر جوں نہیں رینگتی اور ایک نوجوان جس کا معاملہ ابھی تک واضح نہیں قتل ہوتا ہے (قابلِ افسوس جرم، انتہائی سفاکی سے)لیکن اخبار و جرائد اور میڈیا کے چینلز پر ایسی آوازیں اور شور ہے کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی، ترحم کی ایسی آوازیں کہ ہزاروں انسانوں کے قتل کی روداد دب کر رہ گئی ہے۔
اہم بلاگز
تاریکی میں ڈوبتی دنیا
معاشرہ افراد کی مرہونِ منت ترتیب پاتا ہے، افراد اپنی تربیت بہترین اطوار پر کرنے کی کوشش میں سرگرداں رہتے ہیں اور بہتر سے بہتر کی تلاش جاری ہے۔ تہذیبوں کا مطالعہ کیا جاتا ہے اور ان دفن شدہ تہذیبوں میں سے ان کے رہن سہن اور دیگر طور طریقوں پر تحقیق کی جاتی ہے اور باقاعدہ یہ ثابت بھی کیا جاتا ہے کہ ان تہذیبوں میں ایسا ہی ہوتا ہوگا۔ وقت کا تو نہیں، انسان کے طور طریقے ہر دور میں بدلتے رہتے ہیں۔ دنیا کی تاریخ انسانیت کی تذلیل جیسے واقعات سے بھری پڑی ہے، یہ جان کر دکھ ہوتا ہے کہ ایک انسان دوسرے انسان کو تکلیف دینے سے کسی قسم کی عبرت حاصل نہیں کرتا یا پھر ہر انسان اس سوچ کا حامل ہے کہ جو وہ کر رہا ہے وہ صحیح ہے اسے ویسا ہی کرنا تھا جیسا وہ کر رہا ہے لیکن وقت سوچ میں تبدیلی لے آتا ہے پھر پچھتاوالادے لادے زندگی گزر جاتی ہے۔
ہمارے پیارے بنی ﷺ کے چچا کہا کرتے تھے کہ ہمارا بھتیجا جو کہہ رہا ہے وہ بلکل صحیح ہے لیکن ہم اپنے آباؤ اجداد کو کیسے ترک کردیں۔ آج احساس کو بھی شرمندگی کا سامنا ہوگاکیونکہ وہ اپنی شدت کھوچکا ہے اور کسی اندھیری کال کوٹھری میں سسکیاں لے رہا ہوگا۔ ہم مادہ پرست لوگ ہیں جہاں احساسات کا تعلق کیمرے کی آنکھ کو دیکھانے کیلئے تو امڈ آتے ہیں لیکن حقیقی دکھ اور تکلیف سے باز رہنے کا ہنر خوب جانتے ہیں۔ دنیا اتنی رنگ برنگی ہوگئی ہے کہ پلک جھپکتے میں منظر بدل جاتا ہے اور وہ سب سامنے آموجود ہوتا ہے جو ہم دیکھنا چاہتے ہیں، منظر بدل لیتے ہیں۔
اب کسی کے لئے بھی ساری دنیا میں یہ کہنا ناممکن ہے کہ دنیا ایک خوبصورت جگہ ہے اور یہاں رہنے کیلئے کسی خوبصورت کونے کا انتخاب کر کے وہاں رہ لیا جائے، انسان نے اپنی تباہی کیلئے ایسا ایسا سامنا تیار کر رکھا ہے کہ جب اسے استعمال کیا گیا تو وہ وہاں بھی پہنچ جائے گا جہاں اس کی ضرورت نہیں ہوگی، یعنی جب تباہی کا عمل شروع ہوگا تو کوئی بھی اس تباہی سے کیسے محفوظ رہ سکے گا۔ دنیا نے ایک نا ایک دن ختم ہونا ہے اور مسلمانوں کے عقیدے کیمطابق اب قیامت کے قریب کی نشانیاں ظاہر ہونا شروع ہوگئی ہیں، اب یقینا قیامت آئی کھڑی ہے۔ فلسطین میں ہونے والا ظلم کسی ایسی ہی منزل کی جانب حتمی پیش قدمی کہا جاسکتا ہے۔ کوئی بولنے سے ڈر رہا ہے اور کوئی ایسے ڈھڑلے سے بول رہا ہے کہ اسے گولی سے مارا جا رہا ہے، ظالم اپنے قبیلے کے پر امن لوگوں کو مارنے سے بھی نہیں چوک رہا۔ پچھلے زمانوں میں یہ کام مخصوص لوگوں کے ذمے ہوا کرتا تھا لیکن آج تو سب، سب کچھ کرنے کیلئے پرتول رہے ہیں۔
پاکستان تو وہ ملک ہے جہاں بجلی کی تخفیف قوت (لوڈشیڈنگ)اس قدر ہوتی ہے کہ ملک کا اکثر حصہ تاریکی میں ڈوبا رہتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ بہت سارے ایسے امور ہیں جو ہمیں تاریکی...
۔23 مارچ کا یادگار دن
قوموں کی زندگی میں بعض لمحات بڑے فیصلہ کن ہوتے ہیں جو اپنے نتائج اور اثرات کے اعتبار سے خاصے دور رس اور تاریخ کا دھارا موڑنے کی اہلیت رکھتے ہیں، 23 مارچ کا یادگار دن ہماری قوم کیلئے بڑی اہمیت کا حامل ہے اسکی ایک تاریخی حیثیت ہے کہ سنہ 1940ء میں لاہور کے تاریخی شہر میں برصغیر کے تمام مسلمانوں کے نمائندوں نے قائد اعظم کی زیر صدارت ایک تاریخی اجتماع میں حصول پاکستان کی قرار داد منظور کی تھی۔ تا کہ برصغیر کے مسلمانوں کیلئے مسلم قومیت کی بنیاد پر ایک آزاد ملک حاصل کیا جا سکے۔ جس پر نہ غیر ملکی استعمار کے تاریک سائے پڑیں اور نہ ہی ہندو اکثریت اور چیرہ دستیاں مسلمانوں کے ارفع مقاصد کی راہ میں حائل ہونے پائیں۔ مسلمانان برصغیر اپنے لئے ایک الگ وطن اسی لئے چاہتے تھے جہاں قرآن و سنت کی تعلیمات کی روشنی میں وہ ایک مثال اسلامی معاشرہ تشکیل دیں جہاں اسلامی عدل و انصاف کا دور دورہ ہوا اور جو عصر حاضر میں سرمایہ داری نظام اور اشتراکیت کی قوتوں سے پسی ہوئی انسانیت کیلئے مشعل راہ ثابت ہو۔ اس عظیم مقصد کے لئے 23مارچ 1940ء کولاہور میں بادشاہی مسجد کے قریب ایک وسیع و عریض میدان میں لاکھوں مسلمان اکٹھے ہوئے اور بنگال کے وزیر اعلیٰ مولوی فضل حق نے ایک قرار داد پیش کی جس کی تائید تمام مسلمانوں نے دل و جان سے کر دی جس سے ان کی قسمت کا پانسہ پلٹ گیا۔ اس دن لاہور میں مسلمانان ہند نے اپنی منزل کا اعلان کیا تھا اور دو ٹوک الفاظ میں کہا تھا کہ ہم ہندوستان میں مسلمانوں کیلئے آزاد خطوں کی جدوجہد کا اعلان کرتے ہیں۔
23 مارچ کو قرار داد کی منظوری کے بعد قیام پاکستان کی جدوجہد فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکی تھی۔ قوم کو ایک واضح نصب العین مل چکا تھا اور خوش قسمتی سے قائد اعظمؒ جیسے مدبر قائد میسر تھے جن کی قیادت سحر انگیز اور ولولہ انگیز ہونے کے علاوہ سیاست میں صداقت اور دیانتداری کی علمبردار تھی۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے تک مسلمانان ہند مسلم لیگ کے پرچم تلے متحد ہو چکے تھے۔ 1945ء میں وائسرائے ہند لارڈ ویول نے مسلم لیگ اور مطالبہ پاکستان کی مقبولیت اور دوسری جماعتوں کی طاقت کا اندازہ کرنے کیلئے انتخابات کروائے۔ کانگرس کے ایماء پر بننے والے مسلمانوں کے نام نہاد متحدہ محاذ کی مخالفت کے باوجود مسلم لیگ کو تاریخی فتح حاصل ہوئی اور مسلم لیگ مسلمانان ہند کی نمائندہ جماعت بن کر سامنے آئی اور اس طرح حصول پاکستان کی منزل قریب سے قریب تر ہو گئی۔ اکتوبر 1946 ء میں ایک عبوری حکومت قائم کی گئی جس میں مسلم نمائندگان کی قیادت خان لیاقت علی خان نے کی ادھر حکومتی ایوانوں میں قائد اعظم ؒمسلمانوں کے سیاسی حقوق کے تحفظ اور قیام پاکستان کیلئے سیاسی جنگ لڑ رہے تھے تو دوسری طرف ہندو مسلم فسادات نے پورے ملک کو بری طرح اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ ان فسادات میں لاکھوں مسلمان شہید ہوئے۔3 جون کو تقسیم ہند کے...
وہ دانائے سبل ختم الرسل
قارئین کرام یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ختم نبوت مسلمانوں کا قطعی اجماعی عقیدہ ہے، اس پر بیسیوں آیاتِ قرآنیہ اور سیکڑوں احادیث صحیحہ میں دلائل موجود ہیں۔ قرآن مجید میں وارد لفظِ خاتم النبیین میں کسی قسم کی تاویل اور تخصیص کی گنجائش نہیں ہے۔ اس میں تاویل و تخصیص کرنے والا دراصل قرآن و حدیث کی تکذیب کرتا ہے۔
چودہ سو سال سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے باوجود امتِ محمدیہ کا آج بھی اس پر اجماع ہے کہ مدعی نبوت اوراس کے پیروکارخارج از اسلام اور مرتد ہیں۔ تاریخ گواہ ہے جب بھی کسی باغی، طالع آزما یا فتنہ پرداز نے اپنے آپ کونبی کہنے کی جرأت کی، مسلمانوں نے اس کے خلاف بھرپورجہاد کیا۔ ہر مسلمان کا غیر متزلزل عقیدہ اور ایمان یہ ہے کہ حضور سرورِ عالم سیدنا محمدﷺ آخری نبی ہیں۔ حضورﷺ کی تشریف آوری کے بعد نبوت کا سلسلہ ختم ہو گیا۔ حضور اکرمﷺ کے بعد کوئی نیا نبی نہیں آسکتا اور جو شخص اپنے نبی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور جو بدبخت اس کے اس دعویٰ کو سچا تسلیم کرتا ہے وہ دائرہ اسلام سے خارج اور مرتد ہے اور اسی سزا کا مستحق ہے جو اللہ تبارک تعالیٰ نے مرتدکے لیے مقررکی ہے۔
بحیثیت مسلمان ازروئے قرآن و حدیث ہمارا اس بات پر پختہ یقین ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے آخری نبی اور رسول ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی آخری کتاب قرآن مجید ان پر نازل فرماکر دین کی تکمیل کردی اور قرآن کو تا قیامت محفوظ بھی کردیا۔ سلسلہ نبوت پر ختم کی مہر بھی لگادی آپ صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی و رسول ہیں آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی امت آخری امت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نہ کوئی نبی ہے نہ رسول ہے نہ تھا نہ تا قیامت ہوگا۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت آخری امت ہےاور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں۔ قرآن مجید میں اس بات کی صراحت مختلف آیات میں ملتی ہے۔ جیسا کہ سورہ احزاب کی چالیسویں آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہارے مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور سب انبیا کے آخر میں (سلسلۂِ نبوت ختم کرنے والے) ہیں اور اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھنے والا ہے۔
بہت سی احادیث میں بھی ختم نبوت کی تصدیق موجود ہے۔ حدیث مبارکہ ہے۔ میری اور مجھ سے پہلے انبیاء کی مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص نے ایک گھر بنایا، اس کو بہت عمدہ اور آراستہ پیراستہ بنایا مگر ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑدی، پس لوگ جوق درجوق آتے ہیں اور تعجب کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں یہ اینٹ کیوں نہیں لگادی گئی۔ آپ نے فرمایا: وہ اینٹ میں ہوں اور میں انبیاء کرام کا خاتم ہوں۔ اسی مفہوم کی ایک اور حدیث مبارکہ حضرت جابر بن عبداللہ رضى الله تعالى عنه نے بھی روایت کی ہے۔(صحیح البخاری، کتاب المناقب، باب خاتم النّبیین...
الوداع نہیں کہتے
بی بی سی جماعت اسلامی کی خبریں عموما نہیں لگاتا۔ لیکن اس نے یہ خبر بہت کم وقت میں دے دی کہ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق صاحب اپنے امارات عہدے سے مستعفی ہوگئے ہیں۔ہم جانتے ہیں بی بی سی کس کا چینل ہے۔ان کی نیتیں بھی یہ تھیں کہ اس خبر سے جماعت کو کمزور شکست خوردہ سمجھا جائے گا۔یہ خبر بھی سنی کہ حافظ نعیم صاحب نے دھاندلی والی نشست لینے سے انکار کردیا۔جو کہتے تھے کہ سیاستدانوں کا کوئی اخلاق نہیں ہوتا۔ان دیانتدار اور اعلی کردار کے حامل سیاست دانوں کو دیکھیں۔ایک نے ہاتھ آئی سیٹ ٹھکرا دی۔ دوسرے نے پارٹی کی سربراہی چھوڑ کر ثابت کر دیا کہ جماعت اسلامی میں عہدوں کی نہیں بلکہ ویلیوز کی اہمیت ہوتی ہے۔اور بےشک یہ احساسِ ذمہ داری فقط جماعت اسلامی میں پایا جاتا ہے۔
ان دونوں واقعات سے ہوا یہ کہ جماعت اسلامی کی جمہوریت شورائیت اور واضح ہوگئی۔ عوام جماعت اسلامی سے مذید متاثر ہوگئی۔ جی ہاں جماعت اسلامی عوامی مقبولیت حاصل کر چکی ہے۔ہر شعبہ ہائے زندگی کے لوگ اس کی دیانت خدمت کے قائل ہوچکے ہیں۔اس الیکشن کے بعد یہ مغالطہ ختم ہوچکا ہے کہ جماعت کا ووٹ بینک نہیں بنتا جماعت اسلامی کا کم ازکم یہ نتیجہ اس الیکشن میں تھا کہ اسے بلوچستان میں دو سیٹیں کے پی کے میں تین اور سندھ میں پندرہ سے زیادہ ہوتیں اگر زبردستی انتقال ہوئی پارٹی کے نئے جیون کی تیاری نہ ہوتی۔ ووٹ جماعت کو ملا ہے کراچی عوام نے اسے منتخب کیا ہے یہ ہاری نہیں اسے ہروایا ہے۔
یہ استعفی دراصل ہمارے قائد کی اعلی ظرفی ہے۔ انہوں اخلاقی طور سے اچھا کیا۔یہ استعفی ہر اس کارکن پر طمانچہ ہے۔جو سمجھتے ہیں کہ اس میں جماعت کا اس کی قیادت کا کوئی قصور ہے۔ ان سب حالات میں کسی کا کوئی قصور نہیں نہ کارکن کا قصوروار ہے نہ ہی امیر کا قصور ہے۔سمجھنے کی بات ہے کہ جماعت کا مقابلہ وقت کے اصل فرعون سے ہے۔ سیکولر لبرلز ساری طاقتیں مل کر اس کے خلاف ہیں اسلام کے دشمن فرعون نمرود ابو جہل دجالی فتنے آسان ٹاسک کسی بھی دور میں نہیں تھے۔ہمارے دور کے فرعون طاقت میں قدیم فرعون سے کہیں آگے ہیں۔الیکٹرانک میڈیا جماعت کو نہیں دکھاتا۔پرنٹ میڈیا جماعت پسند اسلام پسند تحریر نہیں چھاپتا۔عوام اگر قبولتی ہے اصل نتائج نہیں دیے جاتے۔قیادت کا کیا قصور وہ کیا اپنی جان مار دیں۔اس الیکشن کو آپ صلح حدیبیہ سے جوڑ لیں یقین کریں جماعت کی مقبولیت میں اضافہ ہی ہوا ہے۔جس عوام نے جماعت کو ووٹ دیا وہ اس کی شکست پر حیران ہے۔ جان چکی ہے کہ دینی جماعتوں میں خطرہ صرف جماعت اسلامی ہے۔عوام نے کبھی کسی موروثی مذہبی لیڈر یا پیر کو یوں اپنے عہدوں سے مستعفی ہوتے نہیں دیکھا۔جماعت اسلامی عوام کے لیے حل ہے تو باطل نظام کے لیے روک ہی روک ہے۔
یہ جماعت اسلامی کے لیڈر کی اعلی قیادت ہے۔جس میں حافظ نعیم الرحمن، مشتاق احمد صاحب، اکبر چترالی اور مولانا ہدایت الرحمن جیسے ہیرے پیدا کیے اور چمکنے کے خوب مواقع دیے۔سراج صاحب آپ...
حیا ہی پروانہ خیر
ویمن یونیورسٹی کی بس میں سب سے پہلی سوار ہونے والی حنا امتیاز معمول کے مطابق آج بھی کسی کتاب کی ورق گردانی میں گم تھی اس لیے اسے اپنے ارد گرد ہونے والی غیر معمولی ہلچل کا علم ہی نہ ہوا۔
آج کی کتب بینی نے اسے خاصا الجھن میں مبتلا کیا ہوا تھا فرانسیسی انقلاب کے وقت وہاں کی عوام نے قلم کاروں کی جس طرح پیروی کی وہ حیران تھی کہ کیسے کوئی قوم اپنے ہی جیسے انسانوں کے بنائے ہوئے افکار و نظریات کے پیچھے اندھا دھند چل پڑتی ہے چاہے وہ نظریات اخلاق سے کتنے ہی گرے ہوئے کیوں نہ ہوں۔
ڈرائیور کے ہارن کرنے پر اس نے کتاب سے سر اٹھایا تو بس مکمل خالی تھی اس کی ساتھی لیکچرار اور تمام طالبات بس سے پہلے ہی اتر چکی تھیں
یونیورسٹی میں داخل ہوتے ہی اسے اندازہ ہوگیا کہ آج کیا دن ہے؟
کلاس میں داخل ہوکرحنا نے ابتدائی سلام دعا کے بعد طالبات کی طرف معنی خیز مسکراہٹ سے دیکھا
“ پیاری لڑکیو! آج خیر سے آپ میں سے بیشتر لڑکیوں نے سرخ رنگ کے دوپٹے اور بعض نے تو پورا لباس ہی سرخ پہنا ہے”
“جی میم! آج ویلنٹائن ڈے ہے نا” کسی ایک طالبہ نے جواب دیا
تو ساتھ ہی کسی دوسری طالبہ نے مزید وضاحت بھی پیش کردی “میم اب وہ جونا مناسب سا ویلنٹائن سب مناتے ہیں ویسا تو ہم کچھ نہیں کر رہے بس سب نے سوچا کہ ایک تہوار آرہا تو چلومنا لیا جائے تفریح ہو جائے گی”
ہممم۔۔تویہ باقی طالبات آپ کے ساتھ شامل کیوں نہ ہوئیں؟ جی نائلہ آپ کا اس دن کے بارے میں کیا خیال ہے؟ حنا نے ایک طالبہ کو مخاطب کیا جوویلنٹائن ڈے منانے والی لڑکیوں میں شامل نہ تھی۔
میم میرے نزدیک ویلنٹائن اخلاقی لحاظ سے انتہائی نا مناسب تہوار ہے اوراس کا ایجنڈا حیا کے منافی ہے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث مبارکہ ہے
"جب تم حیا نہ کرو تو جو جی چاہے کرو"
نائلہ لیکن ہم کوئی نا مناسب حرکت تو نہیں کر رہے نا۔ ایک دوسری طالبہ نے نائلہ کو ٹوکا
جی جی ایسا ہی ہے میری شہزادی! آپ کی نیت بالکل صاف ہے آپ کا مقصد تفریح کے علاوہ کچھ نہیں ہے یہ مجھے معلوم ہے۔ حنا نے خوبصورتی سے دونوں کی بات چیت میں مداخلت کی اور بات کو مزید آگے بڑھایا۔
لڑکیو!بات دراصل یہ ہے کہ جب ہم خود کو اسلام کے دائرے میں داخل کردیتے ہیں نہ۔۔۔ تو شعوری طور پر حیا کا اختیار کرنا ہمارے لیے اس طرح ضروری ہوجاتا ہے جس طرح سانس لینے کے لیے ہوا میں آکسیجن کا ہونا ضروری ہے کیوں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ
” حیا ایمان کی شاخوں میں ایک شاخ ہے۔ “
لیکن اللہ کی پناہ ہم ایسے معاشرے کا حصہ بن چکے ہیں جہاں حیا کو کم اعتمادی اور ترقی پذیر عناصر کے برخلاف گردانا جاتا ہے اور یہ وہ نظریات ہیں جو ہمارے کچھ نامی گرامی مہذب طبقے نے مغربی معاشرے سے شاید عاریتاً لیے تھے اور اب سارے معاشرے میں تیزی سے سرایت کر تے جا رہے ہیں
اس...
طنز و مزاح
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔
زندگی بدل گئی !
شوہر اچھا ہو بیوی بچوں کا خیال رکھتا ہو تو زندگی پرسکون ہوجاتی ہے مگر یہاں تو زبردستی نوکری پر بھیجو پھر خود بازار جاٶ ضرورت کا سارا سامان خود اٹھاٶ پھر گھر کی صفائی، کھانا بنانا، بچوں کو اسکول چھوڑنا اور لانا سارا دن اسی میں گزر جاتا ہے یہاں تک کے امّی سے بات تک کرنے کا ٹائم نہیں ملتا مہینوں گزر جاتے ہیں امّی سے ملاقات ہوئے۔
فائزہ نے دکھوں کا قصہ سنا کر سکون کا سانس لیا تو میں نے بھی تسلی دی اللہ آسانی کرے تمھارے لیئے۔آج پھر کئی مہینوں بعد فائزہ سے ملاقات ہوئی تو پتہ چلا وہ گھر خالی کر کے دوسرے محلے میں چلی گئی ہے کرائے داروں کے لیۓ یہی پریشانی ہے اللہ سب کو اپنا گھر نصیب کرے۔ فائزہ بڑی خوش اورپہلے سے بہت اچھی لگ رہی تھی خوش ہوکر بتانے لگی۔ میرے شوہر تو جی ایسے فرمابردار ہوئے ہیں کے بس پوچھو مت۔ ویسے میں نے پوچھا نہیں تھا پر فائزہ بتاۓ بغیر کہاں رہتی۔
خوشی خوشی بتانے لگی صبح وقت سے پہلے نوکری پر چلے جاتے ہیں ساتھ بچوں کو بھی اسکول چھوڑ دیتے ہیں گھر کی ساری ذمہ داری خود لے لی ہے میں تو بس اب گھر میں رہتی ہوں اور اتنے محنتی ہوگۓ ہیں کے رات رات بھر گھر نہیں آتے یہاں تک کے کئی کئی دن کام کے سلسلے میں شہر سے باہر رہتے ہیں اور میں اپنی امّی کے گھر آرام کرنے چلی جاتی ہوں رزق میں ایسی برکت ہے کہ کبھی کبھی ہر چیز ڈبل آجاتی ہے پچھلے ہفتے دو سینڈل بلکل ایک جیسی لے آۓ بس ایک نمبر چھوٹی تھی پھر وہ تبدیل کرنی پڑی۔ کبھی راشن میں بھی چیزیں ڈبل ہوجاتی ہیں بس اللہ کا کرم ہے۔ میں تو کونے والی نورن دادی کو دعائيں دیتی ہوں۔ یہ سب ان ہی کی وجہ سے ہوا ہے۔ انھوں نے مسجد کے مولوی صاحب کا پتہ دیا تھا۔ مولوی صاحب نے ایک وظیفہ بتایا تھا پڑھنے کو وہ بھی تہجد میں بس پھر کیا تھا میری تو قسمت ہی پلٹ گئی۔ زندگی آسان ہوگئی ہے۔
مجھے بڑی حیرانی ہوئی کہ ایک وظیفے سے قسمت بدل گئی بھئی یہ کونسا وظیفہ ہے چلو چھوڑو۔مگر فائزہ کہا مانتی بتائے بغیر۔ عربی کے چند الفاظ بڑے ادب سے سنائے اور چہرے پر ہاتھ پھیر کر تین بار آمین آمین آمین کہا۔ بس یہ وظیفہ پڑھ لو شوہر آپ کے قدموں میں اور ہاں کسی اور کو بھی بتا دیں اگر کوئی پریشان ہو تو کسی کا بھلا ہو جائے اچھی بات ہے۔ میرا نمبر بھی لے لیا اور پھر فائزہ مسکراتی ہوئی گھر روانہ ہو گئی۔
ہفتے بعد ہی ایک انجان نمبر سے فون آیا۔ ریسو کرنے پر فائزہ نے سلام دعا کی اور زور زور سے روتے ہوئے کہنے لگی میں تو لوٹ گئی بر باد ہوگئی بس بہن میرا شوہر تو ہاتھ سے نکل گیا پتہ نہیں کیا کمی تھی مجھ میں جو دوسری شادی کر لی اللہ ہی سمجھے گا ایسی عورتوں کو جو شادی شدہ بچوں والے مردوں سے شادی کر لیتی ہیں۔ میں...
بن بُلائے مہمان ! بَلائے جان
بن بلائے مہمان وہ بھی چپک جانے والے ایک دو دن سے زیادہ برداشت نہیں ہوتے اور اگر زیادہ ہی رک جائیں تو سارے گھر کو ہی تکلیف اور نقصان پہنچاتے ہیں اور سارے ہی لوگ ان سے کنّی کترا کر گزرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ ہمارے ساتھ ہی نہ چپک جائیں۔
ایسا ہی معاملہ ہم لوگوں کے ساتھ ہوا ہے پہلے تو اس خطرناک اماں نے اپنی اولاد کو بھیج دیا وہ ملک ملک گھوما اور یہیں ڈیرا ڈال لیا۔نہ جانے کیا کیا تباہ و برباد کیا اور یہ حضرت انسان بے بس اور بے کس منہ چھپائے گھومتا رہا حتی کہ اپنے بیماروں مجبور پیاروں سے ملنے اور ان کی تیمارداری سے بھی محروم رہا کچھ وقت گزرنے کے بعد جب اس نے دیکھا کہ ماحول ٹھنڈا ہوگیا ہے لوگ سکون میں ہیں تقریبات عروج پر ہیں اسکول، مساجد اور پارک بھرے ہوئے ہیں تو اس نے ناک بھوں چڑھایا اور سوچا ! یہ میری اولاد تو ٹھنڈی ہوتی جا رہی ہے برسوں محنت کی ہے میں نے اس پر اسے اتنی جلدی ہار نہیں ماننا چاہیے۔ اب مجھے ہی کچھ کرنا ہوگا تو لیجئے جناب پورے جوش اور بھرپور شیطانیت کے ساتھ کرونا کی امی جان اُُمِ کرونا (امیکرون) تباہ حال لوگوں کو اور تباہ کرنے دنیا میں انسانوں پر آدھمکی۔
کتنے دور اندیش تھے وہ لوگ جنہوں نے چاند پر پلاٹ بک کروائے تھے گوگل سرچ کرکے دیکھتے ہیں، تب پتہ چلے گا کہ وہ لوگ کرونا سے بچنے کے لیے چاند پر پہنچ گئے یا اس سے بھی کہیں آگے عالم برزخ پہنچ گئے۔
ہمارے گھر میں تین افراد پر اٌمِ کرونا فدا ہوگئی ہیں ہماری امی جان، بھیا اور آپی پر۔ان تینوں نے قرنطینہ کے نام پر ایک ایک کمرے پر قبضہ جما لیا ہے ابّا جان تو امی کے کمرے کے دروازے کے قدموں میں ہی پلنگ ڈالے پڑے ہیں اور ہم نے لاؤنج میں صوفے پر ڈیرہ جما لیا ہے البتہ ماسی خوش نظر ارہی ہے کہ تینوں کمروں کی صفائی سے جان بخشی ہوئی ہے۔
ویڈیو کال اور فون کال پر ہی سب رشتے داروں نے مزاج پرسی اور تیمارداری کرکے اپنا فرض نبھایا کیونکہ ہم سب مجبور ہیں ایک ان دیکھے وائرس سے۔سلائی والی آنٹی نے جب نئے سلے ہوئے سوٹ ہمیں بھجوائے تو اس کے ساتھ سوٹ کے کپڑے کے ماسک بھی بنے ہوئے رکھے تھے۔ سلائی والی آنٹی کو فون کرنے پر پتہ چلا کہ یہی فیشن چل رہا ہے، انہوں نے ایک آفر بھی دی کے ہم فینسی ماسک بھی بناتے ہیں ستارے موتیوں اور کڑھائی والے ان کا بھی پیکج ہے جو پیکج آپ لینا پسند کریں۔
نہ جانے کتنے ابہام ذہن میں گردش کر رہے ہیں۔ابھی تو ہم ڈر کے مارے اس قابل بھی نہیں ہوئے کی واٹس ایپ یا فیس بک پر اپنا اسٹیٹس لگائیں۔
I am vaccinated
کیوں کہ ابھی تو ہم اکّڑ بکّڑ ہی کر رہے تھے کہ چائنا کی ویکسین لگوائیں، کینیڈا کی یا پاکستانی کے اچانک، اْمِ کرونا سے پہلے بوسٹر بھی آٹپکا۔سوچ رہے ہیں ڈائریکٹ بوسٹر ہی لگوا لیں۔
یہ بلائے ناگہانی ہے بس...
ٹک ٹاک ایک نشہ
ٹک ٹاک مختصر ویڈیو کی ایسی ایپ ہے جس میں وہی ویڈیو چلتی ہے جو ’’مختصر‘‘ ہو۔بس ایک ویڈیو وائرل ہونے کی دیر ہے پھر آپ ایک ہی رات میں ہیرو بن گئے۔گویاٹک ٹاک سوشل میڈیا کا ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جس میں وہی ویڈیو وائرل ہوتی ہے جس میں سب کچھ’’ پلیٹ‘‘میں رکھ کر پیش کیا جائے۔بلکہ نوجوان نسل تو وائرل ہونے کے لئے ایسی اشیاء بھی ’’پیش‘‘ کر دیتی ہیں جن کا پیش نہیں ’’زیر‘‘میں ہونا ہی معیاری،مناسب اور اخلاقی ہوتا ہے۔مگرچائنہ والوں کو کون سمجھائے کہ جس لباس کو ہم پاکستانی اعلیٰ اخلاقی اقدار سے گرا ہوا سمجھتے ہیں ان کے ہاں وہ لباس اعلی اقدار کا حامل سمجھا جاتا ہے۔بلکہ یوں کہنا مناسب ہوگا کہ لباس کا صرف سرا ہی نظر آتا ہو تو اسے اخلاقی لباس سمجھا جاتا ہے۔چائنہ اور یورپ میں تو اسی کی زیبائش مناسب ہوتی ہے جس کی ’’نمائش ‘‘زیادہ ہو۔ ان کے سامنے تو بھاری بھر کم فراک،غرارہ و شرارہ زیب تن کر کے جائیں تو وہ حیران ششدر رہ جاتے ہیں کہ ان کا ناتواں جسم ایسا لباس ’’کیری‘‘ کرتاکیسے ہے۔شائد اسی وجہ سی چینی اور یورپی خواتین وہی لباس زیب تن کرتی ہیں جو ہمیں زیب نہ دیتا ہو۔
میں نے اپنے انتہائی معصوم و سادہ دوست شاہ جی سے ایک معصومانہ سوال کیا کہ مرشد ٹک ٹاک پر کیسے وائرل ہوا جاتا ہے۔شاہ جی نے شانِ بے نیازی (بے نیازی کو کسی نیازی سے نہ ملایا جائے )اور لاپروائی سے جواب دیا کہ فی زمانہ ٹک ٹاک ہی نہیں ہر جگہ وائرل ہونے کا ایک فارمولہ ہے۔میں نے متجسسانہ انداز میں پوچھا کہ مرشد وہ کیا۔فرمانے لگے۔’’جو دکھتی ہے وہ بکتی ہے‘‘یعنی جو دکھتا ہے وہی بکتا ہے۔شاہ جی کے جواب پر سوال در سوال ذہن میں کود آیا کہ کیا اس فارمولہ کا اطلاق صنف نازک(جسے میں ہمیشہ صنف آہن کہتا ہوں)پر ہی ہوتا ہے یا صنف معکوس بھی اس زد میں آتے ہیں۔کہنے لگے فارمولہ تو وہی ہے بس الفاظ کے چنائو کو بدلنا ہوگا،یعنی۔۔۔۔۔یعنی مرد حضرات کے لئے الفاظ بدل کر ایسے ہو جائیں گے کہ ’’جو بَکتا ہے وہ بِکتا ہے‘‘
چین نے جب ٹک ٹاک ایپ متعارف کروائی تو اس کا مقصد سیلیکون شہر میں بیٹھ کر ایسی مختصر مدتی ،مختصر ویڈیو،مختصر لباس میں بنا کر پیش کرنا تھاکہ جو اپلوڈ ہوتے ہی وائرل ہو جائے،اور ایسا ہی ہوتا تھا۔اس لئے ہماری نوجوان نسل بھی چین کے نقش پا پر اپنے قدم جمائے ویسی ہی مختصر ویڈیو بناتے ہیں جو وائرل ہو جائے۔مجھے حیرت یہ نہیں کہ آج کی نسل سستی شہرت کے لئے ایسا کیوں کرتی ہے۔پریشانی یہ ہے کہ انہیں شہرت مل بھی جاتی ہے۔اب تو ٹک ٹاک بھی ایک حمام سا ہی دکھائی دیتا ہے ،وہ جس کے بارے میں اکثر سیاستدان بیان بازی کیا کرتے ہیں کہ اس حمام میں سبھی ننگے ہیں۔اب تو ٹک ٹاک دیکھ کر بھی لگتا ہے کہ اس حمام میں بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ویڈیو وائرل ہونے کے بارے میں ایک دوست کی بات یاد آگئی ،اس نے ایک دن مجھ سے پوچھا کہ یار ابھی تک...