حقوق کے پیچھے

گزشتہ دنوں سورۃ البقرۃ کا مطالعہ کرتے ہوئے بنی اسرائیل کا ایک واقعہ میری نظر سے گزرا۔ وہ واقعہ کچھ یوں ہے کہ جب حضرت موسیٰؑ اپنی قوم کو فرعون کی غلامی سے آزاد کروا چکے، تو اللہ نے بنی اسرائیل کو امامت کا شرف بخشا۔ ان کو انسانیت کا امام بنایا، ان کے لیے ہر ضرورت کا انتظام کیا اور ان پر اپنی رحمتیں اور برکتیں نازل فرمائیں۔ ان ساری نعمتوں کے بدلے اس قوم سے صرف ایک بات کا عہد لیا گیا، کہ بنی اسرائیل، اللہ کی نازل کی ہوئی کتاب کو مضبوطی سے تھامے، اور اس کتاب میں دیے گئے احکام اور ہدایات کو یاد رکھے، اور زمین میں فساد برپا نہ کرے۔ یہ وہ قوم ہے جس پر من و سلویٰ نازل کیا گیا، اور جس کی ہر ضرورت اس کو مہیا کی گئی۔
اس سب کے جواب میں اس قوم نے پھر سختیوں کی فرمائش کر ڈالی۔ من و سلویٰ کے بدلے اناج اور سبزیاں مانگیں، اللہ کی نازل کردہ کتاب کو اپنے من گھڑت معانی و مفہوم کا جامہ پہنایا، اور بالاٰخر زمین میں قتل و غارت گری اور فساد کا بازار گرم کر دیا۔
اس کے بعد امت مسلمہ کو امامت کا مقام دیا گیا اور ہم سے بھی یہی عہد لیا گیا جو بنی اسرائیل سے لیا گیا تھا۔
ہماری امت کو ہر نعمت سے نوازا گیا۔ اور قرآن جیسی مکمل کتاب کو ہمارا قانون بنایا گیا۔ ہمیں ہر وہ حق دیا گیا جس سے ہماری زندگی محفوظ ہو۔ ہمیں معاشی و معاشرتی ہر شعبہ کے حقوق و فرائض بتا دیے گئے اور عزت، جان اور مال کا تحفظ دیا گیا۔
مگر۔۔۔۔۔۔۔
اس سب کے بدلے ہم پھر وہی سختیاں مانگ رہے ہیں۔ اپنے فرائض کو پسِ پشت ڈال کر ایسے حقوق کی تمنا کرتے پھر رہے رہیں جنہوں نے ہمیں غیرت کی حدود سے نکال کر بہت دور لا کھڑا کر دیا ہے۔
ایک عورت کو ہر طرح سے محفوظ کر کے صرف اتنی ذمہ داری دی گئی کہ نسل کی تربیت کرے۔ مگر یہ کام گراں سمجھ کر اور اپنی عزت کو غیروں کے مقابلے میں کمتر سمجھ کر، آج وہی عورت گھر سے آزادی چاہتی ہے۔ گھر کی چاردیواری میں ملی ہوئی عزت کو ذلت سمجھتی ہے۔
ہر فرد کے کرنے کے کام بہت مختصر ہیں اور انکا بدلہ بہت قیمتی ہے۔ مگر یہی مسلمان اپنی زندگی کے بہترین سال دین سے دور رہ کر گزار دیتا ہے۔ اسکی ساری زندگی بس بہترین معاش اور دولت کی ریل پیل کی تمنا کرتے ہوئے گزر جاتی ہے۔
ہر طبقہ، ہر شخص، ہر نوجوان، ہر عورت، غرض معاشرے کا ہر فرد نجانے کن حقوق کی تلاش میں سڑکوں تک آپہنچا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے شمع کے ہوتے ہوئے بھی پتنگے ایسی آگ اور شرارے ڈھونڈ رہے ہیں جس سے سب جل کر راکھ ہو جائیں۔
کوئی یہ بھی تو سمجھے کہ یہ حقوق کچھ بھی نہیں۔ اسلام نے کسی بھی معاملے کو نظرانداز نہیں کیا اور کسی حق کی کمی نہیں کی۔ یہ نعرے تو اس ’’گھر‘‘ کو توڑ دینے کی سازشیں ہیں جو کسی بھی معاشرے کا ایک بنیادی اور مضبوط ترین جزو ہوتا ہے۔
اپنے فرائض سے لاعلم یہ لوگ، دوسروں کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے ہر اس پھندے میں پھنس چکے ہیں جس کو خوبصورت الفاظ میں ’’جدیدیت‘‘،’’روشن خیالی‘‘ اور ’’زمانے کے ساتھ چلنا‘‘ کہا جاتا ہے، باالفاظِ دیگر، جس کو لادینیت اور گمراہی کہا جاتا ہے۔ بیچارے ان پڑھ لوگ تو بڑی بیچارگی سے اپنے گھر کو این۔جی۔اوز کے حوالے کر کے حقوق کی جنگ لڑنے لگے، مگر’’معصوم‘‘ پڑھے لکھے بھی اس سے کہیں زیادہ معصومیت سے مظلوم اور بے بس دکھائی دیے۔
ایک لائحہ عمل موجود تو ہے۔ مگر رہبر مغرب کو مانتے ہیں۔ وہی تہذیب، وہی رنگ ڈھنگ، انہی میں رچ بس جانا چاہتے ہیں۔ سمجھتے ہیں اسلام ایک زنجیر ہے، جو نجانے کن رنگینیوں سے سب کو محروم کیے ہوئے ہے۔ اب یہ موقع ملا ہے، ہر کوئی اپنے حقوق مانگ سکتا ہے۔ کوئی پیچھے نہ رہ جائے۔ اور اگر یہ موقع بھی کچھ حاصل کیے بغیر گزر گیا تو ایک دفعہ پھر دین کی فرسودہ سوچ معاشرے کی اکثریت ہوگی۔
جس کو دیکھو، اسلام کو کوستا ہوا نظر آرہا ہے۔ گویا کہ یہی زندگی کی سب سے بڑی مشکل ہے۔ یہی دین ایسی آزادی نہیں دیتا جو انسان کو’’اشرف‘‘ بنائے۔ اس لیے جہاں تک ممکن ہو، حق مانگو اور اس دین سے دور رہو ورنہ جینا دوبھر ہو جائے گا۔
مگر صرف ایک بات۔۔۔۔ یہ سب بھی گزر جائے گا !
یہ تہذیبِ حاضر کی چمک دمک کچھ دیر تک کو نظروں کو خیرہ رکھے گی۔ لیکن ایک وقت آئے گا کہ جھوٹے نگوں کی یہ ریزہ کاری خود سب پر عیاں ہو جائے گی۔
بنی اسرائیل نے حکم سے روگردانی کی تو گمراہ اور ملعون ہو کر رہ گئے۔ اگر یہ آخری امت ہے تو اس کے لیے اللہ کا قانون بدل نہیں جائے گا، قانون وہی رہے گا، یہ تو بس ایک ڈھیل ہے، یہ دیکھنے کے لیے کہ کون اپنے فرائض سے آشنا ہے، جب یہ ڈور کھنچے گی تو انجام پچھلی قوموں سے مختلف نہیں ہوگا۔
یہ وقت، یہ مہلت، یہ ڈھیل، کفر کے حقوق حاصل کرنے کی تگ و دو میں مت ضائع کریں۔ خود بھی آگ سے بچیں اور اپنے معاشرے کو بھی بچائیں، ورنہ اگر یہ آگ بھڑک اٹھی تو سارا زمانہ اس کی لپیٹ میں آجائے گا۔

جواب چھوڑ دیں