سانحۂ قندوز۔۔۔۔۔۔امت مسلمہ کے لیے ایک لمحۂ فکریہ

افغانستان کے صوبہ قندوز کے ضلع دشت ارچی کے مدرسے میں ہونے والے حالیہ حادثے نے ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ قرآن جیسی عظیم کتاب کو سینوں میں محفوظ کر لینے کے بعد دنیا میں تواعزاز و اکرام سے نوازے ہی گئے تھے، لیکن آخرت میں یہ بچے اپنے رب کے ہاں بہترین انداز میں نوازے جائیں گے۔ حفاظ کی اتنی بڑی تعداد کا یوں مٹ جانا انتہائی غمناک ہے۔

انسانوں کے بہترین گروہ کو دو بہترین اور بے مثل استاد محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور جبرائیل امین علیہ السلام بیک وقت میسر تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تعلیم دینے جبرائیل علیہ السلام تشریف لاتے اور وہاں سے صحابہ کرام فیض یاب ہوتے۔ ہم نے اس عالیشان مدرسے سے تعلیم پائی ہے بالواسطہ۔ ہم سب سے بلند مرتبہ تعلیم کے حامل ہیں، ہم تو جبرائیلین ہیں! دشت ارچی کا یہ مدرسہ بھی اسی تعلیمی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ حاملین قرآن ہمیشہ کفار کی نگاہ میں یوں ہی کھٹکتے آئے ہیں۔ صحراؤں سے  اٹھ کر اس قرآن کی بدولت وہ سپر پاور بن گئے، دنیا ان کے قدموں میں آ گری۔ حاملین و عاملین قرآن نے جب اسلام کے دشمنوں سے ٹکر کھائی تو ہمیشہ فتح یاب ہوئے۔ یہی عاملین قرآن گزشتہ کئی سالوں سے افغانستان میں کفار کے ساتھ برسر پیکار ہیں۔ یہی حاملین قرآن جب عمل بالکتاب کرتے ہیں تو ربیع بن عامر جیسی شخصیت سامنے آتی ہے جس کے سر میں اللہ اکبر کی گونج آ جائے تو کسی وقت کے بڑے شہنشاہ کا پر تعیش دربار اور تخت و تاج اس کو چونکاتا نہیں ہے۔ آج کفار اسی اللہ اکبر کی گونج سے لرزاں ہے اور یقینا ان حفاظ کے سروں میں اس گونج سے ڈرتے ہوئے اس نے یہ شرمناک فعل کر ڈالا۔ قرآن کی تعلیم و تربیت نے صحابہ کو کندن بنا دیا تھا۔ حضرت عبد اللہ ابن مسعود کو دیکھئے چرواہے تھے، ایمان کے نور اور قرآن کی تربیت نے انہیں بے مثل عالم بنا دیا۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم حاملین قرآن بنتے ہوئےعاملین قرآن بنیں۔

یہ غازی یہ تیرے پراسرار بندے

جنہیں تو نے بخشا ہے ذوق خدائی

دونیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا

سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی

بس دنیا و آخرت بدل اور سنوار دینے والی اس کتاب کی طرف متوجہ کرنا مطلوب ہے۔ اپنے اور اپنی نسلوں کے سینے اس عظیم کتاب سے منور کریں۔ قرآن اٹھائیں اور صحابہ کی طرح اسے حرز جان بنائیں، دامن مصطفی سے وابستگی اختیار کریں۔

کفار اپنے منہ کی پھونکوں سے اس نور کو بجھانا چاہتے ہیں اور اللہ کا ارشاد ہے کہ:-

” یہ لوک چاہتے ہیں کہ اللہ کی روشنی کو اپنی پھونکوں سے بجھا دیں مگر اللہ اپنی روشنی کو مکمل کئے بغیر رہنے والا نہیں چاہے یہ کافروں کو کتنا ہی ناگوار کیوں نہ ہو”

اس واقعے پر میڈیا کی خاموشی افسوسناک ہے ۔ مدارس کو نشانہ بنانا معاشرے کی اصلاح میں مدارس کے کردار کو سبوتا‌‌ژ کرنے کے مترادف ہے۔

1 تبصرہ

جواب چھوڑ دیں