تحریک انصاف کی جماعت اسلامی

یہ 12 مئی 2013 سے پہلے کی بات ہے ۔عمران خان اپنے تقریبا ہر انٹرویو میں اس بات کو دہراتے  نظر آتے تھے کہ اگر ہمارا کوئی فطری اتحادی ہوسکتا ہے تو وہ جماعت اسلامی ہے ۔ جماعت اسلامی کے سابق امیر سید منور حسن بھی مجلس عمل کی بحالی میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے تھے اور ان کو پورا یقین تھا کہ عمران خان پورے ملک میں جماعت اسلامی سے سیٹ ایڈجیسٹمنٹ کرینگے ۔ لیکن عمران خان کو ” پیچھے ” سے اس کے احکامات نہیں تھے ۔اور الیکشن کے آخری دن تک جماعت اسلامی اس امید پر رہی کہ ” شاید یہ بیل منڈھے چڑھ جائے ” ۔ لیکن وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہوجائے ۔ مسلم لیگ (ن ) نے جماعت اسلامی کو پنجاب سے قابل ذکر صوبائی اور قومی کی نشستوں کا وعدہ کیا تھا لیکن جماعت اسلامی خان صاحب سے آس لگائے بیٹھی رہی ۔ 12 مئی کے بعد سید منور حسن اپنے ہر انٹرویو میں یہ کہتے سنائی دئیے کہ “میں عمران خان سے پوچھونگا ضرور کہ انھوں نے ایسا کیوں کیا ” ؟۔ یہ تحریک انصاف کا جماعت اسلامی کو باقاعدہ پہلا ” تحفہ ” تھا ۔ الیکشن کے نتائج آئے اور خان صاحب کی امیدوں کے بلکل بر خلاف آئے ۔ المیہ تو یہ ہوا کہ خیبر تک سے تحریک انصاف 124 میں سے 59 نشستیں لے سکی ۔ جبکہ حکومت بنانے کے لئیے تحریک انصاف کو مزید 4 ووٹؤں کی ضرورت تھی ۔ اور لامحالہ ” نظر عنایت ” جماعت اسلامی کی طرف ٹہری ۔ جماعت اسلامی نے اصول کی بنیاد پر اکثریت حاصل کرنے والی جماعت کو اپنی سیٹیں دے دیں ۔ جماعت اسلامی کی کل سیٹوں کی تعداد 8 تھی ۔ اس طرح تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کا نازک سی ڈور سے مضبوط سا رشتہ قائم ہوگیا ۔ کچھ مہینوں بعد خیبر پختونخواہ اسمبلی میں ایک  فارورڈ گروپ بن گیا  جو عمران خان سے بھی خاصا نالاں تھا ۔ پرویز خٹک سراج الحق کے پاس آئے اور ان لوگوں کو سمجھانے کی درخواست کی اور اس طرح تحریک انصاف کی حکومت ایک دفعہ پھر سراج الحق کی وجہ سے بچ گئی ۔ 14 اگست 2014 کو عمران خان نے آذادی مارچ کا اعلان کردیا 17 دسمبر 2014 یعنی 126 دن تک یہ دھرنا جاری رہا  تحریک انصاف کے تمام اراکین اسمبلی نے اپنے استعفی اسپیکر کو جمع کروادئیے اور ایمپائر کی انگلی اٹھنے کا پوری بے تابی اسے انتظار کرنے لگے ۔لیکن ایمپائر کو تو میچ ٹف کرنا تھا ۔اس کو نہ انگلی اٹھانی تھی اور نہ اس نے اٹھائی ۔ البتہ دنیا کی ساتویں ایٹمی قوت کے دار الحکومت میں 126 دن تک جو تماشہ لگا  ، جو قبریں بنیں اور کفن سلے اس نے ساری دنیا کے سامنے پاکستان کی ” پول ” ضرور کھول دی۔اس دفعہ پھر سراج الحق نے مداخلت کی اسپیکر ایاز صادق ، چوہدری نثار اور نواز شریف سے ملاقاتیں کر کر تحریک انصاف کے استعفی قبول نہ کرنے کی درخواست کی اور اس طرح تحریک انصاف دوبارہ چور ، ڈکیتوں کے ساتھ اسمبلی میں واپس آگئی ۔ 2016 کی گیلپ کی رپورٹ کی مطابق عمران خان قومی اسمبلی  کے سیشنز میں صرف 5 فیصد حاضر ہوئے جبکہ نواز شریف کی حاضری 10 فیصد تھی ۔ 2017 میں قومی اسمبلی کے کسی ایک سیشن میں بھی حاضری دینا خان صاحب نے اپنے شایان شان نہیں سمجھا حتی کے 3 مارچ 2018 کو سینٹ نشستوں کے لئیے ہونے والے انتخابات میں عمران خان اپنی زوجہ محترمہ بشری مانیکا صاحبہ کے ساتھ شیخ رشید کے گھر میں دوپہر کے کھانے میں مصروف تھے ۔ آپ کمال ملاحظہ کریں ان پانچ سالوں میں کوئی ایک مہینہ بھی ایسا نہیں آیا جب تحریک انصاف کے کے کسی ایک رکن پارلیمنٹ نے بھی اپنی تنخواہ اور مراعات نہ لی ہوں۔ اسی دھرنے کے دوران مولانا فضل الرحمن نے جماعت اسلامی سے بیک ڈور رابطہ کیا اور واضح پیغام دیا کہ اگر جماعت اسلامی تحریک انصاف کا ساتھ چھوڑدے تو آٹھ کے آٹھ ارکان  اسمبلی کو ان کی پسند کی وزارتیں دی جائینگی ۔ لیکن ایک دفعہ پھر جماعت اسلامی اور سراج الحق صاحب نے پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے بجائے اصول کی سیاست کا فیصلہ کیا اور تحریک انصاف کی حکومت قائم رہی ۔ اب تک تحریک انصاف کی حکومت جماعت اسلامی کی 8 سیٹوں کی مرہون منت ہے لیکن اس کے باوجود تحریک انصاف نے 3 مارچ کو جماعت اسلامی کے سینٹر کو ووٹ دینے سے انکار کردیا ۔ سراج الحق اور خیبر پختونخواہ قیادت نے اپنے ذاتی رابطوں  کے نتیجے میں عوامی نیشنل پارٹی کے ارکان کی حمایت حاصل کرلی ۔ 90 دن میں کرپشن ختم کرنے کا خواب دیکھنے والے عمران خان اس بات پر حیران و پریشان تھے کہ ” گھوڑے خریدنے ” کی دوڑ میں سب سے زیادہ بکنے والے ارکان اسمبلی تحریک انصاف کے ہی تھے ۔ آپ ذرا اندازہ کریں خیبر اسمبلی میں ایک سینیٹر بنانے کے لئیے 14 ووٹ درکار ہوتے ہیں  اور پیپلز پارٹی صرف 7 ارکان اسمبلی پر 2 سینیٹرز بنانے میں کامیاب ہوگئی  یعنی 21 ارکان نے خود کو زرداری صاحب کے ہاتھوں بآسانی بیچ دیا ۔ بہرحال پنجاب اسمبلی میں تحریک انصاف کو چوہدری سرور کو منتخب کروانے کے لئیے ایک دفعہ پھر سراج الحق سے رابطہ کرنا پڑا ۔ شاہ محمود قریشی خود منصورہ آئے اور سراج الحق سے ووٹ دینے کی درخواست کی ۔ اور اس طرح 371 کے ایوان میں جماعت اسلامی کے اکلوتے رکن اسمبلی ڈاکٹر  وسیم اختر نے چوہدری سرور کے حق میں ووٹ ڈال دیا چوہدری سرور بال بال بچتے ہوئے سینیٹر بن گئے ۔جس کے لئیے انھوں نے پریس کانفرنس میں باقاعدہ نام لے کر جماعت اسلامی کا شکریہ ادا کیا ۔ 12 مارچ کو چئیرمین سینٹ کے لئیے اپنے 13 سینیٹرز زرداری صاحب کی جھولی میں ڈالنے کے فورا بعد ہی خان صاحب کو اندازہ ہوگیا کہ تیر کمان سے نکل چکا ہے اور اسکا خمیازہ بھگتنا پڑیگا اس احساس کے ساتھ ہی ایک دفعہ پھر تحریک انصاف اپوزیشن لیڈر منتخب کروانے کے لئیے سراج الحق کے پاس موجود تھی اور یوں جماعت اسلامی نے اصولی سیاست کا فیصلہ کرتے ہوئے اعظم سواتی کو اپنے دونوں ووٹ دے دئیے لیکن پچھتاوے کیا ہوت جب چڑیا چگ گئی کھیت ۔سینیٹر شیری رحمن صاحبہ اپوزیشن لیڈر منتخب ہوگئیں ۔ دنیا بھر میں سیاست دوبنیادوں پر ہوتی ہے یا تو اصول کی بنیاد پر یا مفادات کی بنیاد پر اور خان صاحب کی بدقسمتی یہ ہے کہ خان صاحب اصولی طور پر ہر مشکل گھڑی میں ساتھ دینے والی جماعت اسلامی کے ساتھ  ہوئے اور نہ 13 سینیٹرز دے کر ایک روپے کا مفاد بھی حاصل کرسکے ۔ عامر لیاقت حسین کی تحریک انصاف میں شمولیت مرے پہ سو درے ہیں ۔ گلوکار سلمان احمد اور پی – ٹی – آئی کے باشعور ارکان خان صاحب سے مایوس ہوچکے ہیں ان کے چاروں طرف اب وہی لوگ ہیں جو کبھی زرداری اور نواز شریف کے ساتھ ہوا کرتے تھے ۔ اس لئیے مجھے ڈر ہے کہ پاکستانی قوم کی یہ آخر ی امید بھی ان مفاد پرست مشیروں کی نذر نہ ہوجائے ۔

جواب چھوڑ دیں