آئیے بد دعا کریں۔

سیلانی کے قلم سے

احسان اللہ اور حبیب اللہ کی آنکھوں سے نیند کوسوں دور تھی وہ بار بار کمرے میں جا کر کھونٹی سے لٹکے ہوئے بے داغ سفید لباس کو دیکھتے اور چھ گز کی پشتون دستار کو چھو کران لمحات کی مسرت محسوس کرنے لگتے جب ان کانام لاؤڈ اسپیکر پر پکارا جاتا اور بھرے مدرسے میں سینکڑوں لوگوں کے سامنے استاد انہیں سینے سے لگا کر ان کی پیشانی کو بوسہ دے کر ان کے لئے دعا کرتے اور دستار باندھ دی جاتی ۔۔۔۔احسان اللہ اور حبیب اللہ سرخ وسپید رنگت اور چمکدار آنکھوں والے ویسے ہی خوبصورت بچے تھے جیسے عموماً افغان بچے ہوتے ہیں،وہ ’’طالب ‘‘تھے اس لئے ان کے سروں پر عموماً ٹوپی اور کاندھے پر بڑا سا عربی رومال ہوتا تھا۔ یہ عربی رومال بیک وقت جائے نماز کا کام بھی دیتا ہے اور وضو کے بعد تو لیہ کا بھی ،یہ مدرسے کے بعد بستہ بھی بن جاتا ہے ۔یہ ٹوپی ،رومال اورسینے سے لگا قرآن مجیدجاگتے میں ان کے ساتھ ساتھ رہتے تھے ۔یہ دونوں بھائی چھوٹے سے تھے، جب ان کی قرآن پاک سے دوستی ہوئی ،انہیں یاد تھا جب انہیں دشت ارچی کے مدرسہ جامعہ ہاشمیہ میں داخل کرایاگیا تب انہیں ٹھیک سے ٹوپی بھی لگانی نہیں آتی تھی ،انہیں ان کا والد لے کر آیا تھا۔استاد نے ان سے ان کا نام پوچھا،رجسٹر میں اندراج کیااوروہ باقاعدہ طالب ہو گئے۔ انہیں مدرسے میں ناظرہ کی جماعت میں بھیج دیاگیا۔ یہاں ان کی عمر کے بہت سارے بچے لہک لہک کر قرآن پڑھ رہے تھے۔مولوی صاحب سامنے بید رکھے آنکھیں موندے مراقبے کی سی کیفیت میں بیٹھے تھے۔یہ بھی ان بچوں میں شامل ہوگئے ۔یہ ان کی جماعت تھی جہاں انہوں نے الف ،با ،تا سیکھا اور پھر یہ سیکھتے اورپڑھتے چلے گئے ۔تجوید کے بعد انہوں نے قرآن مجید کا حفظ شروع کیا۔استاد جی بتاتے تھے کہ یہ کتاب خود کسی معجزے سے کم نہیں کہ عرب سے عجم تک بدلتی دنیا میں کوئی اس کا ایک نکتہ تک نہیں بدل سکا ہے۔ وہ طلباء کو بتاتے کہ قرآن پاک حفظ کرنے کی بڑی فضیلت ہے آخرت میں حفاظ کی پیشانیاں چمک رہی ہوں گی ،ایک حافظ ستر بندوں کو جنت میں لے کر جائے گا۔۔۔احسان اللہ یہ ساری باتیں بڑے غور سے سنتا اور موقع ملتے ہیں آئینے میں اپنی پیشانی پر نظریں جما کر سوچنے لگتا چمکتی روشن پیشانی کے ساتھ وہ کیسا لگے گا ،اس نے تو ایک فہرست بھی بنانی شروع کر دی تھی۔ اس فہرست میں وہ لوگ تھے جن کی اللہ میاں سے سفارش کرکے جنت میں ساتھ لے جانا تھا۔ دونوں بھائی ہوشیار اور ذہین طالب علم تھے۔ قرآن ان کے لئے آسان ہوتا چلا گیا۔ ان کے سینے میں آسانی سے یہ نور سماتا چلا گیا اور پھر وہ دن بھی آگیا جب وہ حافظ احسان اللہ اور حافظ حبیب اللہ ہو گئے۔ انہوں نے قرآن پاک سے دوستی کی تھی۔ قرآن نے بھی ان دوستی نبھائی اور ان کے سینوں میں محفوظ ہوگیا۔استاد جی انہیں کھڑاکرتے اور جہاں سے سنانے کا کہتے وہ فرفر سنانے لگ جاتے ۔اساتذہ ان سے بہت خوش تھے۔
اورپھر وہ دن بھی آگیاجب افغانستان کے صوبے کندوز کے علاقے دشت ارچی کے جامعہ ہاشمیہ میں دستار بندی کی تقریب کی منادی کرادی گئی۔افغان، مدارس کی ان تقاریب میں ایسے ہی شرکت کرتے ہیں جیسے کسی عزیز کی شادی ہو،مدرسے سے فارغ ہونے والے طالب علم کے گھر والے پورے خاندان قوم قبیلے کو دستار بندی کی تقریب میں شرکت کی دعوت دیتے ۔بڑی دعوت کا اہتمام کیا جاتا ہے اور لوگ پک اپ گاڑیوں ،کاروں میں بھر بھر کر پہنچتے ہیں۔
دو اپریل کو جامعہ ہاشمیہ کی ختم بخاری شریف اور دستار بندی میں بھی ایسی ہی حاضری تھی۔
سیلانی کو سرحد پار رابطے رکھنے والے دوست نے بتایا کہ لگ بھگ دوہززار بائیس سو لوگ جامعہ ہاشمیہ میں موجود تھے ۔ان میں معصوم حفاظ بھی تھے اور دورہ حدیث کے فضلا ء بھی ۔ مدرسے کا صحن لوگوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا اور صحن ہی نہیں باہربچھائی گئی دریاں بھی کم پڑ رہی تھیں ۔
احسان اللہ اور حبیب اللہ بھی بے چینی سے کچی پکی نیند میں رات کاٹ کر صبح سویرے ہی اٹھ گئے تھے۔ ماں نے ان کے نہانے کے لئے پانی گرم کر رکھا تھا ،وہ نہائے سفید بے داغ لباس پہنے اور دونوں بھائی مسکراتے ہوئےماں کے سامنے آکھڑے ہوئے ،ماں کی آنکھیں خوشی کے آنسوؤں سے بھر گئیں۔ وہ فرط محبت سے کبھی ایک بیٹے کو سینے سے لگاتی اور کبھی دوسرے کو،کبھی ایک کی پیشانی چومتی اور کبھی دوسرے کا چہرہ ہاتھوں کے کٹورے میں لے لیتی ،وہ روئے جارہی تھی یہ خوشی کے آنسو تھے کہ اسے اللہ نے اتنا بڑا رتبہ دیا ۔وہ ایک نہیں دو دو حافظوں کی ماں تھی ۔
سیلانی یہاںآپ کو مدارس کی دستار بندی کے بارے میں بتانا چاہتا ہے ،دستار بندی ،ختم بخاری شریف یونیورسٹیوں کے کانووکیشن ڈے کی طرح ہی کی تقریب ہوتی ہے جس طرح اسکولوں کالجوں میں RESULT DAY یا یونی ورسٹیوں میں کانووکیشن ڈے ہوتا ہے ویسے ہی مدارس میں ’’ختم بخاری شریف‘‘ اور دستار بندی کی تقریب ہوتی ہے بس فرق یہ ہوتا ہےکہ ان تقاریب میں پہنائے جانے کے بعد ٹوپیاں دستاریں اچھالی نہیں جاتیں ۔۔۔
جامعہ ہاشمیہ قندوز میں صبح ہی سے غیر معمولی چہل پہل تھی ،ہر طرف سفید اور سیاہ پگڑیوں والے دکھائی دے رہے تھے ،طلباء کے چہرے خوشی سے دمک رہے تھے اور اساتذہ کے چہروں سے اطمینان چھلک رہا تھا۔
تقریب کا آغاز ہو ایک طالب نے لحن داؤدی میں تلاوت کلام پاک کی ۔ایسی تلاوت کہ سننے والوں کی آنکھیں نم ہو گئیں۔ قرآن کا یہی تو اعجاز ہے کہ یہ دل پگھلا دیتا ہے ،سختی کم کر دیتا ہے نیکیوں کی کھیتی کے لئے زمین تیار کر دیتا ہے۔
تقریب کا آغاز ہوا،اساتذہ نے سیرت نبیﷺ پر بیان کیا ۔مسلمانوں کو احساس دلایا کہ وہ ایک امت کا حصہ ہیں اور شرمندہ بھی کیا کہ کیا ہم اس امت کا حصہ ہونے کے حقدار ہیں؟۔
علماء کرام کے بیانات کے بعد فارغ التحصیل طلباء کے نام پکارے جانے لگے ۔جس جس کا نام لیا جاتا وہ دمکتے چہرے کے ساتھ آگے بڑھتا اساتذہ سے مصافحہ کرتا ،دعائیں لیتا اوراساتذہ اس کے سر پر دستار فضیلت باندھ کر نصیحتیں کرکے روانہ کرتے۔حفظ کے کم سن طلباء کی خوشی ان کے چہروں سے پھوٹی پڑ رہی تھی ،وہ چمکتی آنکھیں اور گلنار چہرے لئے اساتذہ کے سامنے آتے سرجھکاتے اور اساتذہ سے دستار بندی کروا کر اپنے اپنے اہل خانہ کے پاس چلے جاتے۔ جہاں انہیں ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا۔تقریب اختتام کو پہنچنے والی تھی علمائےکرام نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے تھے کہ غیر معمولی سی گڑگڑاہٹ کی آواز سنائی دی سب کی نظریں بے اختیار آسمان کی طر ف اٹھیں اور پھر اٹھی ہی رہ گئیں آسمان سے ان پر موت جھپٹ پڑی تھی ،تقریب پر فضائی حملہ کیا گیا تھا۔ یہ دیکھے جانے بنا کہ اس تقریب میں چھوٹے چھوٹے معصوم بچے بھی شریک ہیں اور جھکی ہوئی کمروں والے سفید ریش بزرگ بھی،آسمان سے طیاروں اور گن شپ ہیلی کاپٹر نے دیکھتے ہی دیکھتے خوشی و شادمانی کی اس تقریب کا رنگ بدل دیا،ہرطرف خون ہی خون بکھر گیا جہاں نگاہ جاتی،لوگوں کے اعضاء بکھرے ہوئے تھے، جسموں سے خون ابل رہا تھازخمی تکلیف سے کراہ رہے تھے،آہ وبکا کا شورتھا۔ بمبای سے بھگدڑ مچ گئی لوگ جان بچانے کے لئے بھاگ کھڑے ہوئے ۔جو بھاگ نہ سکے وہ مدد کے لئے پکارنے لگے،یہ منظر سیلانی کے پاس ایک دوست کے توسط سے آیا دو منٹ دو سیکنڈ کی وڈیو کسی مذبح خانے کی لگتی تھی،شائد قیامت ایسی ہی ہوگی ۔خون میں لت پت لاشیں اور زخمی جسم بکھرے ہوئے تھے، جن میں زندگی کی کچھ رمق باقی تھی وہ چیخ رہے تھے ،مدد کے لئے پکار رہے تھے اور جو جان سے گز رچکے تھے ان کے ساکت بدن گھٹڑیوں ،شہتیروں کی طرح پڑے ہوئے تھے ،افغان سیکیورٹی فورسز کے نام پر حملہ کرنے والوں نے دیکھتے ہی دیکھتے سو سے زائد زندگیاں موت کی تاریکیوں میں اتار دی تھیں ۔سرحد پار مضبوط تعلق رکھنے والے کہتے ہیں ڈھائی سو افراد شہید ہوئے ہیں ڈیڑھ سو کی تو تصدیق ہو چکی ہے جس وقت حملہ کیا گیا بائیس سو سے ڈھائی ہزار افراد وہاں موجود تھے ،دعا کے بعد کھانے کی تیاری تھی کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی بغل بچہ کابل انتظامیہ نے دو اپریل 2018کو سال کا بدترین دن بنادیا۔
ہمارے میڈیا نے برادر ملک کی اس افسوسناک خبر پر کان لپیٹ لئے ،کسی نے خبر دی بھی تو یوں جیسے کہیں کوئی وبائی مرض پھوٹ پڑا ہو۔۔۔
دبئی کے ہوٹل میں شرب پی کر غسل خانے میں مرنے والی آنجہانی سری دیوی کیلئے ماتم کرنے والے میڈیا نے ایک بار پھر تعصب کا اظہار کرکے مذہبی طبقے کو مشتعل او ر خود سے مزید دور کر دیا۔ لوگوں کو شائد خبر بھی نہ ہوتی کہ قندوز میں قال اللہ قال رسول ﷺ پڑھنے والوں کا کس طرح قتل عام کیا گیا ہے،سوشل میڈیا پر تصویریں پھیلنا شروع ہوئیں ،وڈیو کلپس آنا شروع ہوئے تب پتہ چلا کہ پڑوس میں کیا قیامت گزر گئی ہے ،افغان حکومت نے ڈھٹائی سے اعلان کیا کہ حملہ ٹریننگ سینٹر پر طالبان راہنماؤں کی موجودگی میں کیا گیا لیکن وہ کسی ایک ’’دہشت گرد‘‘ کانام بتانے سے اب تک قاصر ہیں ،کسی مسلم ملک کے سربراہ نے لفظوں کی کھوکھلی مذمت بھی نہیں کی کہ ٹرمپ کی پیشانی پر بل نہ پڑ جائیں۔
درد دل رکھنے والے سوشل میڈیا پران ننھے منے’’ دہشت گردوں‘‘ کی تصویریں دیکھ دیکھ کر بے بسی سے ہونٹ کاٹ رہے ہیں۔ ہاتھ مل رہے ہیں کہ وہ اور کریں ہی کیا۔ ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو بالکل لاتعلق ہے ۔ان کے نزدیک یہ مذہبی ’’رجعت پسند‘‘ سارے فساد کی جڑ ہیں یا پھر شائد یہ ان کا معاملہ نہیں حملہ ملک سے باہر ہوا ہے لیکن وہ نہ بھولیں کہ امریکہ وہ ڈائن ،ویمپائر ہے جو ایک ایک کرکے سب مسلم ممالک کا لہو پی رہی ہے ۔ہمارے حکمران بس اسی پر مطمئن ہیں کہ قصائی نے ساتھ والا بکراگرایا ہے وہ یہ نہیں جانتے کہ ان کی زندگی گرے ہوئے بکرے کی کھال اترنے اور بوٹیاں بننے تک ہے۔۔۔۔
حفاظ کرام کی شہادتیں کوئی معمولی واقعہ نہیں ،کائنات لرز گئی ہوگی۔
چوتھی ہجری میں دشمنان دین نے اسلام قبول کرنے کا ڈھونگ رچا کر رسول اللہ ﷺ سے ستر حفاظ لئے کہ اپنے قبیلے والوں کو دین سکھائیں گے مکہ کے قریب ان ستر حفاظ کو رعل اور ذکوان قبائل نے شہید کر دیا صرف ایک باقی بچے تھے جنہوں نے مدینہ پہنچ کر رسول اللہ ﷺ کو شہادتوں کی اطلاع دی تو رحمت اللعالمین ﷺ ایسے غمگین ہوئے کہ ان کے ہاتھ بددعا کے لئے اٹھ گئے۔ میرے رسول اللہﷺ نے چالیس روز تک قنوت نازلہ پڑھی اور ان بدبختوں کے لئے بددعا کی نبیﷺ کی زندگی میں ایسا کوئی اور واقعہ کسی سیرت کی کتاب میں کہیں درج نہیں ۔آج قندوز کے بے گناہ حفاظ کی شہادتوں پر مدینہ میں کوئی توبے چین ہو گا ؟کوئی تومضطرب ہو گا؟ اور کیا روضہ ء رسولﷺ میں قنوت نازلہ نہ پڑھی جا رہی ہوگی؟
ایک دوست نے حبیب اللہ اور احسان اللہ کی قبور کی تصاویر بھیجی ہیں نیلے برقعے میں ملبوس ایک دکھیاری ایک بچہ گود میں لئے ان قبروں کے سرہانے بیٹھی ہوئی ہے،پھولوں کی قبر پر پھولوں کے ہار پڑے ہوئے ہیں ،اس دکھیاری کے دل سے بھی یقیناًظالموں کے لئے بددعائیں نکل رہی ہوں گی۔سیلانی بھی اپنی اس بہن کی آواز میں آواز ملا کرقاتلوں ظالموں کے لئے بددعا کرنے لگا۔ اس بددعا میں امت مسلمہ پر جونک کی طرح چمٹے ہوئے غیرت سے عاری حکمران بھی شامل تھے جن کی عیاشیوں کی وجہ سے ہی آج امت کا لہو مویشیوں کے پیشاب کا محلول بن چکا ہے ۔سیلانی دکھی دل کے ساتھ بددعائیں دیتے ہوئے احسان اللہ اور حبیب اللہ کی قبروں کو پرنم نگاہوں سے دیکھتا رہا دیکھتا رہا اور دیکھتا چلا گیا۔

حصہ
mm
احسان کوہاٹی المعروف سیلانی معروف قلم کار ہیں۔لکھنےکے لیے بلاشبہ قلم و قرطاس ہی کا سہارا لیتے ہوں گے مگر ان کی تحریر پڑھیں تو محسوس ہوتا ہے کہ سیاہی نہیں بلکہ اپنے خونِ جگر میں ڈبو کر فگار انگلیوں سے لکھ رہے ہیں۔۔سچے جذبوں اور احساس کی فراوانی صرف سیلانی ہی کے قلم میں ملے گی۔گزشتہ دو دھائی سے روزنامہ امت کراچی میں سیلانی دیکھتا چلا گیا کہ عنوان سے لکھ رہے ہیں ۔آج کل ایک نجی ٹی ؤی چینلز میں پیشہ ورانہ فرائض انجام دے رہے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں