ہر غم بیان کرنے کو، الفاظ کہاں سے لاؤں۔۔نظم

اس خطۂ زمیں پر ہر گلشن جل رہا ہے

ہر غم بیان کرنے کو، الفاظ کہاں سے لاؤں

ان سبھی باغوں میں، پھول بھی تھےشجر بھی تھے

ہر بکھری ہوئی پتی کی داستان کسے سناؤں

اب یہ قصہ نیا نہیں، یہ سب مانوس سا لگتا ہے

پھر سے تڑپائے جو جگر، وہ درد کہاں سے لاؤں

بے نشاں چمن کی مانند، یہ الفاظ بھی بے نشاں

اُمت کے جوانوں میں جذبات کہاں سے لاؤں

میرا قلم لرزاں ہے، میرے خیالات منتشر

ہر غم بیان کرنے کو، الفاظ کہاں سے لاؤں

 

2 تبصرے

جواب چھوڑ دیں