تصورِ دین

دورِ حاضر میں، جہاں ہر طرف مغربی تعلیمات کے غلام پھرتے نظر آتے ہیں، وہیں کچھ جدید تعلیمات ذہنوں میں’’روشن خیالی‘‘کے لبادے میں لپیٹ کر منتقل کی جاتی ہیں۔ اپنے نظریات درست کرتے کرتے رستہ بدل جاتا ہے اور بلآخر انجام ان نام نہاد رہنماؤں کے ساتھ ہوتا ہے، جن کو خود کو مسلمان کہتے ہوئے شرمندگی سے ڈوب جانا چاہیے۔
دین کے بہت سے غلط تصورات مختلف ذرائع سے ہم تک پہنچتے ہیں۔ ہر موڑ پر بچھا جال اپنے منفرد اور دلفریب انداز سے ایمان پر حملہ آور ہوتا ہے۔ کہیں فلم انڈسٹری کے دلوں میں اترنے والے بول، کہیں میڈیا کے چلتے پھرتے پھندے، تو کہیں محض ایک عالمِ دین کے روپ میں کوئی ایمان کی قیمت ناپ تول کر بتاتا ہے۔
پچھلے دنوں ایک موضوع پر گفتگو کے دوران کسی نے مجھے ٹوک کر کہا۔۔۔
دین ایک ذاتی معاملہ ہے۔ کسی کو حق نہیں کہ کسی اور کی غلطیوں کی نشاندہی کرے۔ نماز وغیرہ پر ٹوکے یا کوئی اور نصیحت کرے۔ اگر اس طرح کیا تو لوگ متنفر ہو جائیں گے۔ یہی ہمارا قصور ہے کہ ہم دین کو مشکل بنا کر لوگوں پر اپنی مرضی مسلط کرتے ہیں۔ ہاں بس ایک دو دفع بول دو، کوئی نہیں مانتا تو ایمان مت خراب کرو۔ ورنہ دوسروں کا دین سے دور ہونے کا عذاب بھی تمہیں ملے گا۔
کچھ دیر تک افسوس کی حالت طاری رہی۔۔۔۔ میں ان الفاظ پر غور کرتی رہ گئی کہ آخر یہ سنے کہاں سے ہیں۔ مگر پسِ پردہ کسی عالم کا حوالہ ملا تو اْس وقت خاموشی میں عافیت جانی ورنہ کافر تو مجھے بھی کہہ دیا جاتا۔
اگر ہم انبیاء کی سیرت کا بغور مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ دین، کبھی بھی ذاتی معاملہ رہا ہی نہیں۔ اگر دین ذاتی معاملہ ہوتا تو اللہ کوئی نبی ہی نہ بھیجتا۔ انسانیت کی انفرادی زندگیوں میں ’’دخل اندازی‘‘ کر کے، ان کے نفس کا تزکیہ کرنا ہی تو انبیا کی سنت ہے۔ دین کا مطلب ہی یہ ہے کہ انسان اپنے نفس کو کْلی طور پر اللہ کے حوالے کردے، اور اپنی زندگی کو اپنی مرضی کی بجائے، اللہ کی مرضی کا پابند بنائے۔
کسی بھی بات پر آنکھیں بند کر کے ایمان لانے سے پہلے اپنی غور و فکر کی صلاحیت کو استعمال کرنا سیکھیں۔ دوسروں کو یہ موقع نہ دیں کہ آپ کے ایمان پر حلمہ آور ہو کر آپ کو اپنا بندہ بنا لیں۔ خود قرآن کا مطالعہ کریں، اس کے پیغام کو سمجھیں اور اپنی زندگی میں ایسے لوگوں کو شامل کریں جو آپ کے ایمان کی فکر کرتے ہوں۔ جو آپ کی اصلاح کرنا چاہتے ہوں۔ یہ دین اجتماعی ہے، انفرادی نہیں۔
براہِ مہربانی، غلط تصورات کو دین کا حصہ مت بنائیں۔ دوسروں کو حق کی نصیحت کر دینے سے ایمان صرف ان کا خراب ہوتا ہے،جن کا کبھی پختہ ہی نہ ہو۔ انسانیت کے کردار و عمل کی تعمیر کرنا ہم سب کا فرض ہے اور حق کی جانب راہنمائی کرنا ہمارے انبیاء کی سنت ہے۔
اللہ ہمیں اپنے دین پر عمل کرنے والا بنا دے اور ہمیں یہ توفیق دے کہ ہم دوسروں کو اللہ کی بندگی کا صحیح تصوردے سکیں۔

جواب چھوڑ دیں