شخصیت فر د کے ذہنی ،جسمانی ،شخصی ،برتاؤ ،رویوں ،اوصاف ا ور کردار کے مجموعہ کا نام ہے باالفاظ دیگر اگر سہل انداز میں شخصیت کی تعریف کی جائے تو یہ انسان کے ظاہری و باطنی صفات ،نظریات اخلاقی اقدار ،افعال احساسات اور جذبات سے منسوب ہے۔ ظاہری حسن وجمال وقتی طور پر کسی کی توجہ تو مبذول کرسکتا ہے لیکن کردار کا دائمی حسن ہی انسان کو زندہ جاوید بنا تا ہے ۔تعمیر کردار میں فکر و نظریات کا کلیدی رول ہوتا ہے۔ قرآن کریم نے موت و حیات کی تخلیق کا اصل سبب کردار کی آزمائش ہی بتا یاہے۔ ’’جس نے موت اور زندگی کو ایجاد کیا تاکہ تم لوگوں کو آزما کر دیکھیں کہ تم میں سے کو ن بہتر عمل کرنے والا ہے‘‘(سورہ ملک آیت نمبر 2)قرآن کی یہ آیت زندگی کے ترجیحات کے تعین میں ہماریمدد کرتی ہے۔ترجیحات کے تعین میں ناکامی کے سبب ہی آج ہم درپیش مسائل کو حل کرنے میں الجھن کا شکار ہیں اور ناکامی کا سامنا کر رہے ہیں۔ہم اپنے مال و متاع کے اضافے میں دن رات مصروف ہیں اور خبر بھی نہیں ہے کہ یہ اضافہ ایک دن شر کی صورت میں ظاہر ہوگا اگر چیکہ ہم اسے اعلیٰ اور عمدہ کردار کی حامل شخصیتوں کے ہاتھوں منتقل نہ کردیں۔ ہمیں طئے کرنا ہوگا کہ ہماری سب سے بڑی دولت کیا ہے یقیناًہماری سب سے بڑی اور عظیم دولت مال و متاع سونا چاند نہیں بلکہ ہمارے بچے ہماری اولادہے جن کے دم سے ہمارے آنگن جنت کی تصویر نظر آتے ہیں۔گھر میں رونقیں لگی رہتی ہیں۔اس عظیم دولت کا بگاڑ ہی دراصل ہمارے لئے خسران عظیم ہے۔ اگر ہم حقیقت میں زوال کو روکنا یا کمال سے بدلنا چاہتے ہیں تو افراد کی شخصیت ساز ی بالخصوص بچوں کی اخلاقی،روحانی اور سماجی تربیت پر ہمیں توجہ مرکوز کرنی ہوگی تاکہ معاشرہ امن و سکون کا گہوارہبن سکے۔معاشرے کی تعمیر کا انحصار افراد کی تعمیر پر ہوتا ہے۔افراد کی تعمیر میں خاندان ،سماج ،مدارس،یونیورسٹیز اورمعاشر ے کاکلیدی کردار ہوتا ہے۔ حال کے احوال کی تبدیلی اور مستقبل کی تعمیر ، نسل نو کی تعمیر سے ہی ممکن ہے۔نئی نسل کو ڈاکٹر ،انجیئنر،ماہر قانون،کامیاب تاجر یا کچھ اوربنانے سے پہلے ایک،خوش اخلاق ،باوقاراور اچھا انسان بنا نا ہوگا جس کے لئے کردار کی تعمیر ( شخصیت کی تعمیر )ضروری ہے۔اچھے اوصاف واخلاق سے آراستہ لوگ انسانیت کے سفیر ہوتے ہیں اسی لئے زندگی کی بے شمار ترجیحات میں شخصیت کی تعمیر کو اولیت حاصلہے۔ تعمیر شخصیت میں کردار کو بانکپن عطا کرنے والے عناصر کی پہچان بہت ضروری ہے۔ ان عناصر کی تلاشمیں پریشان ہونے کی اس لئے ضرورت نہیں ہے کہ اسلام شخصیت کی تعمیر کا ایک نہایت آسان فارمولہ پیش کرتا ہے۔قرآن اور سیرت رسول شخصیت کی تعمیر میں مددگار عناصر کا تعارف پیش کرتی ہے۔
قانون فطرت (سنت اللہ)سے آگہی ؛۔
بچے جس ماحول میں پروان چڑھتے ہیں اس کا رنگ ان کی شخصیت پر غالب رہتا ہے ۔یہ کلیہ صرف بچوں تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ یہ سچ ہے کہ بڑوں پر بھی ماحول کا اثر مرتب ہوتا ہے۔وہ افراد جن کی تربیت مختلف ماحول ،طرزمعاشرت اور دین پر ہوئی ہو وہ صالح نظریات ،اعلیٰ اخلاق ،اوصاف حمیدہ کو ایک زنجیر خیال کرتے ہیں اور ان بندشوں سے ان میں سرکشی کا طبعی میلان پایاجاتاہے۔حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے ’’ ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے ۔اس کے والدین اسے یہودی یا نصرانی بنا تے ہیں‘‘۔(بخاری و مسلم) معلم کائناتﷺکی تربیت اور شخصیت سازی پر مبنی اس حدیث کو انگریز فلسفی جان لاک (John Locke) اپنے نظریہ تعلیم (Tabula Rasa) یعنی بچوں کے ذہن کو ایک لوح سادہ (Plain Slate)کی صورت میں پیش کرتا ہے اور اس فکر کو ڈاکٹر فل (Dr.Phil)یوں دہراتا ہے ’’بچہ ایک سادہ تختی ہے جس پر اس کے والدین ہر دن کچھ نہ کچھ نقش کرتے رہتے ہیں‘‘۔(A Child is a plain slate in which a parent writes on every day,Dr.Phill)۔بچے سے قربت رکھنے والا ہر شخص اور ماحول اس پر اپنے نقش چھوڑتے ہیں اور انہی تجربات اور ماحول کے زیر اثر بچے کی شخصیت تشکیل پاتی ہے۔بچے بچپن ہی سے احساس ،اقدار اور رویے سیکھتے ہیں جن کا وہ اپنی عملی زندگی میں مظاہرہ کرتے ہیں۔دراصل آدمی اپنے ان رویوں اور نظریات کی غمازی کرتے ہیں جنہیں وہ دانستہ یا غیر دانستہ طور پراپناتا ہے۔ لاشعوری طور پر فکر اور رویے یقین میں بدلتے رہتے ہیں۔ حدیث مذکورہ میں نصرانی اور یہودیوں کو اہل کتاب ہونے کے باوجودان کی رذیلہ صفات اور خباثتوں کی وجہ سے مذموم اور غیر پسندیدہ امت قراردیا گیا ہے۔ہمیں غور کرنا چاہئے جن اوصاف رذیلہ کو اپنا کر یہودی اور نصرانی مقہور ہوئے ان اوصاف کو اپنا کر بھلا ہم کیسے اللہ کی خوشنودی اور سرخروئی حاصل کرسکتے ہیں۔نبی اکرم ﷺ کے فرمان کے مطابق بچوں کو پاکیزہ ماحول ،درست انداز فکر اور طرز معاشرت فراہم کرناضروری ہے تاکہ کسی بھی خباثت اور مسموم اوصاف سے نوزائیدہ ذہنوں کو محفوظ رکھا جاسکے اور اسے دین فطرت کے عین مطابق بنایا جاسکے۔تعلیم کی فراہمی میں آج کا معاشرہ نہایت چست ہے لیکن پاکیزہ ماحول کی فراہمی میں یکسر ناکام ہوگیا ہے جس کی وجہ سے معاشرے میں بدامنی اضطراب اور ناانصافیاں سر اٹھا چکی ہیں۔
اپنا پورٹریٹ خود بنائیں؛۔
اللہ تعالی فرماتا ہے کہ ’’میں اپنے بندے کے گمان کے مطابق ہوں، جیسا وہ گمان مجھ سے رکھے، اور میں اس کے سا تھ ہوں‘‘(جامع ترمذی) شخصیت کی تعمیر میں انسان کی اپنی سوچ اور فکر کا بڑا عمل دخل ہوتا ہے۔ اسی اسلامی نظریے کوولیم جیمزیوں بیان کرتا ہے’’آپ اپنے بارے میں جو تصویر بناتے ہیں اگر یہ تصویر ایک طویل عرصے تک آپ کے ذہن میں رہے تو آپ بھی ویسے ہی بن جائیں گے جیسا آپ سوچتے ہیں۔‘‘منفی سوچ اور خیالات کے زیر اثرایک متوازن اور پسندیدہ شخصیت کی تعمیر ممکن نہیں ہے۔منفی سوچ اور خیالات ایسے وائرس ہوتے ہیں جن کی وجہ سے ذہن و قلب ماؤف اور ناامید ہوجاتے ہیں۔جب کوئی پروگرام میں وائرس آجاتا ہے توفارمیٹنگ کے ذریعے اس کی کارکردگی کو بہتر بنایا جاتاہے۔ اپنی بہتری اور ترقی کے لئے انسان کو بھی اپنے ذہن کی فارمیٹنگ کرنی ضروری ہے تاکہ کارکردگی کو بہتر بناکر کامیابی کے راستوں پر گامزن ہوسکے۔
فکر کی تبدیلی؛۔
فکر کی تبدیلی سے ترقی کی جانب بڑی جست لگائی جاسکتی ہے برائن ٹرائسی اس ضمن میں اپنی کتاب’’ جیسے خیالات ویسی زندگی‘‘ (Change Your Thinking Change Your Life)میں ایک تیس سالہ شادی شدہ دو بچوں کی ماں کی روائیداد بیان کرتا ہے ۔اس عورت کی پیدائش اور پرورش ایک ایسے گھرانے میں ہوئی جہاں بچوں کو ہدف تنقید بنایا جاتا تھا اور ان کے ساتھ خراب سلوک برتا جاتاتھا۔والدین کی بدسلوکی کے نتیجے میں وہ خاتون بری طرح احساس کمتری کا شکار ہوگئی اس کا اعتماد سلب ہوگیا وہ اپنی قدر سے ناواقف ہوگئی اور خود کو کسی لائق نہ سمجھنے لگی۔ایک روز جس کار میں و ہ سفر کررہی تھی اس کا حادثہ ہوجاتا ہے اور وہ خاتون اپنی یاداشت گنوا بیٹھتی ہے۔لاکھ کوشش کے بھی جب اس کی یاداشت بحال نہ ہو تی ہے تو اسے دواخانے سے ڈسچارچ کردیا جاتا ہے۔۔اپنے ماضی کو بھول بیٹھی یہ خاتون گھر میںیاداشت کے متاثر ہونے کے اسباب اور حافظہ و یاداشت کوبہتر بنانے پر مبنی میڈیکل رپورٹس کا مطالعہ شروع کردیتی ہے۔ماہرین سے معلومات کے لئے رجوع کرتی ہے۔جدید معلومات سے لیس یہ عورت اپنی حالت پر ایک مقالہ پیش کرتی ہے ۔جہاں وہ اپنی نئی یاداشت ،اعصابی کارکردگی ،تجربات اور خیالات کی روشنی میں کنونشن کے شرکاکے سوالات کا مدلل جواب دیتی ہے۔ افراد خاندان اور اس کے معالجین اس تبدیلی پر حیران و ششدر رہ جاتے ہیں۔دراصل دواخانے او ر حادثے کے بعد گھر پر حاصل ہونے والی توجہ نے اس میں اعتماد کی کیفیت پیدا کردی اور وہ خود کو اہم اور لائق سمجھنے لگی ۔ میڈیکل شعبے میں اہمیت کی حامل شخصیت کہلانے لگی۔ اسے لکچرس کے لئے مدعو کیا جانے لگا ۔ماضی کے تمام منفی خیالات اس کے ذہن سے محو ہوچکے تھے۔ ماضی میں اس کے ذہن سے چمٹاکمتری کا احساس ختم ہوچکاتھا۔اب وہ ایک بالکل نئی شخصیت تھی۔اگر ہم بھی زندگی کے مختلف شعبوں میں اپنی کارکردگی کو بہتر بنانے کے متمنی ہیں تب اپنی منفی سوچ سے ہمیں چھٹکارا حاصل کرنا ضروری ہے ۔منفی سوچ ہماری ذات کو محدود کردیتی ہے ۔
اعتماد کی بحالی کے لئے مثبت خیالات و افراد سے رشتہ جوڑیں؛۔
کسی بھی شخص کو جب مسلسل تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے تو وہ اپنی ذات میں کمی اور کمتری محسوس کرنے لگتا ہے۔والدین بچوں کو بے جا تنقید کا نشانہ بناکر ان کی شخصیت کو تباہ کردیتے ہیں۔عمر کے ابتدائی دور میں جب کسی بچے کو لگاتار تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے تو وہ خود کو اس تنقید اور سزاکا مستحق سمجھنے لگتا ہے۔اپنی قدر و قیمت اور اہمیت سے محروم ہوجاتا ہے۔ بچپن میں محبت اور شفقت نہ ملنے کی وجہ سے بلوغت اور جوانی میں بچے مختلف معاشرتی مسائل کا شکار ہوجاتے ہیں۔کلیوں کو پھول بننے کے لئے جس طرح شبنم کی ضرورت ہوتی ہے بالکل اسی طرح بچوں میں اپنی ذات کی قدر(عزت نفس) کا جذبہ جاگزیں کرنے کے لئے محبت اور شفقت کی بے حد ضرورت ہوتی ہے۔اعتماد سے محروم شخص بھی محبت اور شفقت کی وجہ سے بے پنا ہ کارکردگی پیش کرنے کے لائق بن جاتا ہے۔انسان کو ناکامی،تنقید اور رد کیئے جانے کا خوف ہمیشہ پریشان کرتاہے۔ انسان اپنے خوف پر قابو پانے کے لئے ان کاموں کی انجام دہی میں لگ جائے جن سے وہ خوف زدہ رہتا ہے۔منفی سوچ ایک زہر ہلاہل ہے جس سے بچنا بے حد ضروری ہے۔ منفی سوچ ذہنی و جسمانی صحت پر اثر انداز ہوکر فطری صلاحیتوں کو تباہ کردیتی ہے اور جس سے آدمی کی کارکردگی متاثر ہوجاتی ہے۔ منفی فکر کو پروان چڑھانے والے، عزت نفس کو ٹھیس پہنچانے والے آپ کی تحقیر وتذلیل کرنے والے افراد، افکار اورخیالات سے آپ کو چوکنا رہنا چاہئے۔یہ افراد ،افکار اور خیالات آپ کے دشمن ہیں جو آپ کو کمزور کرنا چاہتے ہیں۔جس طرح منفی نظریات کے حامل افراد سے بچنا ضروری ہے اسی طرح اپنے آپ کو بھی منفی سوچ سے محفوظ رکھنا ضروری ہے ۔انسان کی سوچ جس قدر مثبت ہوگی اس کی زندگی اتنی ہی خوش گوار اور پرمسرت گزرے گی۔ مثبت سوچ انسان کو طاقت و توانائی فراہم کرتی ہے۔مثبت سوچ انسان میں اعتماد پیدا کرتی ہے۔انسان کی شخصیت ،صحت ،جرات اور تخلیقی صلاحیتوں کی تعمیر میں مثبت سوچ کاکلیدی کردار ہوتا ہے۔ مثبت سوچ ذہنی صلاحیتوں کو پروان چڑھاتی ہے اور کارکردگی کو عروج و بلندی بخشتی ہے۔انسان کا دماغ ایک وقت میں صرف ایک ہی خیال پر توجہ مرکوز کرنے کے قابل ہوتا ہے خواہ وہ مثبت خیال ہو یا منفی۔ لیکن یار رکھیئے انسان اپنے انداز فکر کی تبدیلی پر قادر ہے ۔وہ منفی خیالات کو مثبت خیالات سے بدل کر اپنی زندگی کو خوش گوار بنا سکتا ہے۔
تعمیر شخصیت کا اسلامی فارمولہ؛۔
انسانی شخصیت، تخلیق اور تعمیر کی دوجہات سے عبارت ہے۔تخلیقی اعتبار سے انسان کوکائنات میں ساری مخلوقات پر برتری حاصل ہے ’’بے شک ہم نے انسان کو بہترین ساخت میں پیدا فرمایا ہے‘‘۔ ( سورہ تین)۔ اگر چیکہ یہ کلیہ انسانوں کو دیگر مخلوقات پر برتری عطا کرتے ہوئے اشرف المخلوقات کا شرف عطا کرتا ہے۔ لیکن انسانوں پر انسانوں کی برتری کے بھی اللہ نے اصول مقرر کیئے ہیں جس کی بنیاد پر انسان کو اعزاز و افتخار حاصل ہوتا ہے۔’’بے شک زیادہ عز ت والا تم میں سے اللہ کے نزدیک وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ پرہیز گار (اللہ سے ڈرنے والا) ہے۔‘‘(سور ہ حجرات )مضمون کی ابتدائی سطور میں سور ہ ملک کی آیت کے ذریعے یہ بات واضح کر دی گئی کہ موت و حیات کی تخلیق کا اصل سبب ہی کردار کی آزمائش ہے۔یہ دنیا دارالعمل ہے‘ اچھے اعمال سے شخصیت کی تعمیر ہوتی ہے۔ برے اعمال تخریب شخصیت کا باعث بنتے ہیں۔ انسان کو پیدائشی طور پر ہی تما م مخلوقات پر برتری اور فضیلت بخشی گئی لیکن اپنے ہم جنسوں پر برتری اور فضیلت کے حصول کے لئے انسان کو اپنی شخصیت کی تعمیرکی ضرورت ہوتی ہے اسی وجہ سے دنیا کو دارالعمل قرار دیا گیاہے۔تعمیر شخصیت کے لئے اسلام ہماری مکمل رہبری و رہنمائی فرماتا ہے۔قرآن اور اسوہ رسول اکرم ﷺ کی روشنی میں ایمان ویقین(Faith) ،علم (Knowledge)،تفکر(Deliberation)، نیت،ارادہ (Motive) ،عمل (Execution)، اور نتیجہ عمل(Consequences)اور احتساب شخصیت سازی کے اہم عناصر قرار دیئے گئے ہیں۔
ایمان و یقین (Faith)؛۔
ایمان و یقین سے مراد وہ جذبہ ہے جو انسان کو غفلت ،بخل اور بزدلی سے آزاد کرکے تذبذب اور بے یقینی کا خاتمہ کردیتاہے۔ ایمان اقرار ،تصدیق اور عمل سے مربوط ہے۔ایمان دعوے کانہیں بلکہ رویوں (Attitude)کانام ہے ایما ن ایک ایسا جذبہ ہے جوانسان کو خالق کائنات کی ہیبت ،عظمت ،کبریائی اور محبت سے سرشار کرتا ہے، نبی اکرم ﷺ کی اطاعت پر مائل کرتا ہے ۔ ایمان انسان کو نہ صرف اللہ اور اس کے رسول کو ماننے بلکہ اللہ اور رسول کی ماننے کے لائق بناتا ہے۔ایمان سلوک اور مسلسل عمل کانام ہے۔ایمان جب ٹھیک ہوتا ہے توزندگی کے سارے معاملات درست ہوجاتے ہیں۔ایمان آدمی میں اچھا کردار پیدا کرتا ہے۔، چوری،جھوٹ،خیانت،رشوت ،دھوکہ،فسق و فجور،شراب خوری،زناسے اسے باز رکھتا ہے۔ برے کاموں سے روکتا اور اچھائی کاحکم دیتا ہے۔ایمان زبانی دعوے کا نہیں بلکہ عمل کا نام ہے۔ ایک صحابی نے نبی اکرم ﷺ سے نصیحت کے لئے کہا، آپ ﷺ نے فرمایا’’کہو!میں اللہ پر ایمان لایا،پھر اسی پر استقامت اختیار کرو۔‘‘ ایمان و یقین کی اسی طاقت نے دنیا میں ایک مثالی انقلاب برپا کیا ۔ علم ،اخلاق،فکر و فلسفہ ،سیاست اور حکومت کے میدان میں ایسی بے شمار عبقری شخصیات پیدا کیں جس کی نظیر آج تک نہیں ملتی۔ایمان استقامت اور ثابت قدمی کا نام ہے۔
علم(Knowledge)؛۔
تعمیر ذات میں علم کی کلیدی حیثیت ہے۔ علم انسان کو خیر و شر سے آگاہ کرتاہے اور جاہلوں سے آدمی کو ممتاز کرتا ہے۔’’اے بنی کہہ دیجئے کیا علم والے(عالم) اوربے علم (جاہل ) برابر ہوسکتے ہیں‘‘(سور ہ الزمر آیت 9)۔علم عرفان ذات کا سب سے بڑا ذریعہ ہے ۔نفس کی پہچان کے لئے علم ضروری ہے اسی لئے کہا گیا ہے ’’جس نے اپنے نفس کو پہچانااس نے رب کو پہچانا‘‘۔علم خیر و شر کے حدود متعین کرنے کے علاوہ انسان کو خشیت الہی سے آراستہ کرتا ہے اور یہ ہی خشیت اسے خیر پر مائل اور شر سے دور رکھتی ہے۔’’بے شک اللہ سے اس کے بندوں میں علم والے(عالم ) ہی ڈرتے ہیں‘‘۔(سورہ فاطر آیت 28)علم ایک امکانی طاقت ہے لیکن جب اس کے مطابق عمل کیا جاتا ہے تو یہ ایک حقیقی طاقت بن جاتا ہے اسی لئے قرآن کریم میں ایمان(علم) کے ساتھ عمل کی تلقین مربوط نظر آتی ہے۔پاکیزہ علم دل اور دماغ کی تربیت کرتا ہے۔علم انسان میں کردار کی مضبوطی ،ضبط نفس ،سننے سیکھنے اور جاننے کا جذبہپیدا کرتا ہے۔
تفکر(Deliberation)؛۔
علم کا دوسرا مرحلہ تفکر اورغور و خوض ہے۔غور و فکر کی صلاحیت انسانی ذات کوگہرائی اور گیرائی عطا کرتی ہے۔تفکر انسان پرانفس اور آفاق کیحقیقتیں کھول دیتا ہے۔تفکر ذہن و عقل پر پڑے راز و ظلمتوں کے پردے چاک کردیتا ہے۔فطر ی صلاحیتوں کے حساب سے انسان دنیا میں پائی جانے والی بہت ساری مخلوقات میں بہت کم فطری صلاحیتوں کا حامل ہے۔یہ پرند ے کی طرح اڑنا نہیں جانتا،چیتے کی طرح دوڑ نہیں سکتا ،مچھلی کی طر ح تیر نہیں آتا،بندر کی طرح درختو ں پر چڑھ نہیں سکتا،نہ عقاب کی طرح تیز نظر ہوتی ہے اور نہ بلی کے پنچوں کی طرح مضبوط پنچے۔ پھر بھی انسان عظیم اس لئے ہے کہ اس میں سوچنے کی عظیم صلاحیت پائی جاتی ہے۔یہ اپنا ماحول خود تخلیق کرسکتا ہے جبکہ جانور اپنے ماحول کے تابع رہتے ہیں۔انسان غور و فکر کی کوتاہی کی وجہ سے مکمل طور پر اپنی صلاحیتوں کو استعمال کرنے سے قاصر ہے۔ تسخیر کائنا ت کے لئے تسخیر ذات ضروری ہے اور تسخیر ذات و کائنات کے عمل میں تفکر اور غورو فکر انسان کے لئے بہت زیادہ مددگار ثابت ہوتا ہے۔
نیت ،ارادہ (Motive)؛۔
نیت کے بغیر شخصیت کی تعمیر ناممکن ہے۔ عمل و کردار کی دنیا میں نیت کو کلیدی حیثیت حاصل ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’بلاشبہ اعمال کا دارومدار نیت پر ہے‘‘۔انسان کا عمل اس کی نیت کا عکاس ہوتا ہے۔جیسی نیت ہوگی ویسا ہی اس کا عمل ہوگا ۔ اسی وجہ سے شخصیت کی تعمیر میں نیت کی درستگی پر بہت زیادہ توجہ مرکوز کی جاتی ہے۔نیت دراصل ایک بیج ہے اگر بیج اچھا ہوگا تب ہی اس سے بہتر پودا اور عمدہ پھل حاصلہوں گے۔
عمل (Execution)؛۔قرآن عملیات کی نہیں بلکہ عمل کی کتاب ہے۔ حضور اکرمﷺ کی حیات طیبہ سخت جدوجہد کا عملی نمونہ ہے۔ محنت شاقہ اور ڈسپلن ہی نے صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم کو برتر انسان بنایا اور رسول اکرم ﷺنے ہماری محنت کی سمت اور سانچے کو بھی متعین کردیا ہے۔ غلط سمت میں دوڑنے والا یقیناًمنزل سے دور ہوجاتا ہے اور غلط سانچے میں خود کو ڈھالنیسے شخصیت تباہ ہوجاتی ہے۔ شخصیت کی تعمیر محض خواہش ،علم، غوروفکر، اچھی نیت و ارادے سے انجام نہیں پاتیبلکہ شخصیت معاون عناصر کوعمل کے قالب میں ڈھالنے سے ممکن ہوتی ہے۔ شخصیت کی تعمیر آرزؤں سے نہیں بلکہ آرزؤں کو حقیقت میں بدلنے سے ہوتی ہے۔ قرآن فرماتا ہے ’’اور یہ کہ انسان کو وہی ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے۔‘‘(سورہ نجم آیت 54) ضروری ہے کہ انسان شخصیت کی تعمیر میں سعی و عمل سے کام لے۔عمل سے فرار نہ اختیار کرے خواہشات پر اکتفا نہ کرے بلکہ خواہش کے بیج کو اپنے عمل ، تدبیر اور سعی و کوشش سے بیج کو سایہ دار ،ثمر آور شجر میں تبدیل کردے۔ خواہش کو عمل کے سانچے میں ڈھالیں۔
نتیجہ عمل(Consequences)؛۔ نتیجہ عمل شخصیت کے تعمیر ی عمل میں آخری پڑاؤ ہے لیکن یہ ازحد اہمیت کا حامل ہے۔ کامیابی کی صورت میں آدمی غرور و تکبر کا شکار ہوسکتا ہے یا ناکامی کی صورت میں ناامیدی اور بے یقینی کا ۔ یہ دونوں بھی کیفیات انسانی شخصیت کے لئے نقصان دہ ثابت ہوتی ہے۔شخصیت کی تعمیر کاایک اسلامی اصول یہ ہے کہ آدمی اپنی کامیابی کو اللہ کے فضل و کرم سے تعبیر کرے اور کامیابی پر شکر ادا کرے ۔تکبر اور غرور کا ہرگزمظاہر ہ نہ کرے۔ناکامی کی صورت میں اپنی خامیوں اور کوتاہیوں کا جائزہ لیں اور صبر و استقامت کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑے ۔ناامید ہونے کے بجائے دانشوری اور حکمت سے کام لیتے ہوئے کامیابی کے بہتر راستے ڈھونڈے۔ کامیابی کے لئے عمل میں دوام و استقامت کردار کاایک لازمیجزو ہوتاہے۔ محض ایک یا دو مرتبہ کی کوشش سے دل خواہ نتائج حاصل ہونا ضروری نہیں ہے۔مقاصد کے حصول کے لئے مسلسل جدو جہد درکار ہوتی ہے۔ اس وقت تک سعی و کوشش سے کنارہ کشی اختیار نہ کریں جب تک آپ کی محنت رنگ نہ لائے۔ اس کے لئے آپ کو خواہ کتنی ہی محنت ،مشقت، اذیت و تکلیف سے ہی کیوں نہ گزرنا پڑے۔یہی فکر حقیقی طور پر انسان کی شخصیت کو سنوار کر اسے فخرا ور تقلید کے قابل بناتی ہے۔
یقین محکم ، عمل پیہم ، محبت فاتح عالم
جہاد زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں
1 تبصرہ
جواب چھوڑ دیں
اہم بلاگز
۔23 مارچ کا یادگار دن
قوموں کی زندگی میں بعض لمحات بڑے فیصلہ کن ہوتے ہیں جو اپنے نتائج اور اثرات کے اعتبار سے خاصے دور رس اور تاریخ کا دھارا موڑنے کی اہلیت رکھتے ہیں، 23 مارچ کا یادگار دن ہماری قوم کیلئے بڑی اہمیت کا حامل ہے اسکی ایک تاریخی حیثیت ہے کہ سنہ 1940ء میں لاہور کے تاریخی شہر میں برصغیر کے تمام مسلمانوں کے نمائندوں نے قائد اعظم کی زیر صدارت ایک تاریخی اجتماع میں حصول پاکستان کی قرار داد منظور کی تھی۔ تا کہ برصغیر کے مسلمانوں کیلئے مسلم قومیت کی بنیاد پر ایک آزاد ملک حاصل کیا جا سکے۔ جس پر نہ غیر ملکی استعمار کے تاریک سائے پڑیں اور نہ ہی ہندو اکثریت اور چیرہ دستیاں مسلمانوں کے ارفع مقاصد کی راہ میں حائل ہونے پائیں۔ مسلمانان برصغیر اپنے لئے ایک الگ وطن اسی لئے چاہتے تھے جہاں قرآن و سنت کی تعلیمات کی روشنی میں وہ ایک مثال اسلامی معاشرہ تشکیل دیں جہاں اسلامی عدل و انصاف کا دور دورہ ہوا اور جو عصر حاضر میں سرمایہ داری نظام اور اشتراکیت کی قوتوں سے پسی ہوئی انسانیت کیلئے مشعل راہ ثابت ہو۔ اس عظیم مقصد کے لئے 23مارچ 1940ء کولاہور میں بادشاہی مسجد کے قریب ایک وسیع و عریض میدان میں لاکھوں مسلمان اکٹھے ہوئے اور بنگال کے وزیر اعلیٰ مولوی فضل حق نے ایک قرار داد پیش کی جس کی تائید تمام مسلمانوں نے دل و جان سے کر دی جس سے ان کی قسمت کا پانسہ پلٹ گیا۔ اس دن لاہور میں مسلمانان ہند نے اپنی منزل کا اعلان کیا تھا اور دو ٹوک الفاظ میں کہا تھا کہ ہم ہندوستان میں مسلمانوں کیلئے آزاد خطوں کی جدوجہد کا اعلان کرتے ہیں۔
23 مارچ کو قرار داد کی منظوری کے بعد قیام پاکستان کی جدوجہد فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکی تھی۔ قوم کو ایک واضح نصب العین مل چکا تھا اور خوش قسمتی سے قائد اعظمؒ جیسے مدبر قائد میسر تھے جن کی قیادت سحر انگیز اور ولولہ انگیز ہونے کے علاوہ سیاست میں صداقت اور دیانتداری کی علمبردار تھی۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے تک مسلمانان ہند مسلم لیگ کے پرچم تلے متحد ہو چکے تھے۔ 1945ء میں وائسرائے ہند لارڈ ویول نے مسلم لیگ اور مطالبہ پاکستان کی مقبولیت اور دوسری جماعتوں کی طاقت کا اندازہ کرنے کیلئے انتخابات کروائے۔ کانگرس کے ایماء پر بننے والے مسلمانوں کے نام نہاد متحدہ محاذ کی مخالفت کے باوجود مسلم لیگ کو تاریخی فتح حاصل ہوئی اور مسلم لیگ مسلمانان ہند کی نمائندہ جماعت بن کر سامنے آئی اور اس طرح حصول پاکستان کی منزل قریب سے قریب تر ہو گئی۔ اکتوبر 1946 ء میں ایک عبوری حکومت قائم کی گئی جس میں مسلم نمائندگان کی قیادت خان لیاقت علی خان نے کی ادھر حکومتی ایوانوں میں قائد اعظم ؒمسلمانوں کے سیاسی حقوق کے تحفظ اور قیام پاکستان کیلئے سیاسی جنگ لڑ رہے تھے تو دوسری طرف ہندو مسلم فسادات نے پورے ملک کو بری طرح اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ ان فسادات میں لاکھوں مسلمان شہید ہوئے۔3 جون کو تقسیم ہند کے...
وہ دانائے سبل ختم الرسل
قارئین کرام یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ختم نبوت مسلمانوں کا قطعی اجماعی عقیدہ ہے، اس پر بیسیوں آیاتِ قرآنیہ اور سیکڑوں احادیث صحیحہ میں دلائل موجود ہیں۔ قرآن مجید میں وارد لفظِ خاتم النبیین میں کسی قسم کی تاویل اور تخصیص کی گنجائش نہیں ہے۔ اس میں تاویل و تخصیص کرنے والا دراصل قرآن و حدیث کی تکذیب کرتا ہے۔
چودہ سو سال سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے باوجود امتِ محمدیہ کا آج بھی اس پر اجماع ہے کہ مدعی نبوت اوراس کے پیروکارخارج از اسلام اور مرتد ہیں۔ تاریخ گواہ ہے جب بھی کسی باغی، طالع آزما یا فتنہ پرداز نے اپنے آپ کونبی کہنے کی جرأت کی، مسلمانوں نے اس کے خلاف بھرپورجہاد کیا۔ ہر مسلمان کا غیر متزلزل عقیدہ اور ایمان یہ ہے کہ حضور سرورِ عالم سیدنا محمدﷺ آخری نبی ہیں۔ حضورﷺ کی تشریف آوری کے بعد نبوت کا سلسلہ ختم ہو گیا۔ حضور اکرمﷺ کے بعد کوئی نیا نبی نہیں آسکتا اور جو شخص اپنے نبی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور جو بدبخت اس کے اس دعویٰ کو سچا تسلیم کرتا ہے وہ دائرہ اسلام سے خارج اور مرتد ہے اور اسی سزا کا مستحق ہے جو اللہ تبارک تعالیٰ نے مرتدکے لیے مقررکی ہے۔
بحیثیت مسلمان ازروئے قرآن و حدیث ہمارا اس بات پر پختہ یقین ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے آخری نبی اور رسول ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی آخری کتاب قرآن مجید ان پر نازل فرماکر دین کی تکمیل کردی اور قرآن کو تا قیامت محفوظ بھی کردیا۔ سلسلہ نبوت پر ختم کی مہر بھی لگادی آپ صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی و رسول ہیں آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی امت آخری امت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نہ کوئی نبی ہے نہ رسول ہے نہ تھا نہ تا قیامت ہوگا۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت آخری امت ہےاور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں۔ قرآن مجید میں اس بات کی صراحت مختلف آیات میں ملتی ہے۔ جیسا کہ سورہ احزاب کی چالیسویں آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہارے مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور سب انبیا کے آخر میں (سلسلۂِ نبوت ختم کرنے والے) ہیں اور اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھنے والا ہے۔
بہت سی احادیث میں بھی ختم نبوت کی تصدیق موجود ہے۔ حدیث مبارکہ ہے۔ میری اور مجھ سے پہلے انبیاء کی مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص نے ایک گھر بنایا، اس کو بہت عمدہ اور آراستہ پیراستہ بنایا مگر ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑدی، پس لوگ جوق درجوق آتے ہیں اور تعجب کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں یہ اینٹ کیوں نہیں لگادی گئی۔ آپ نے فرمایا: وہ اینٹ میں ہوں اور میں انبیاء کرام کا خاتم ہوں۔ اسی مفہوم کی ایک اور حدیث مبارکہ حضرت جابر بن عبداللہ رضى الله تعالى عنه نے بھی روایت کی ہے۔(صحیح البخاری، کتاب المناقب، باب خاتم النّبیین...
الوداع نہیں کہتے
بی بی سی جماعت اسلامی کی خبریں عموما نہیں لگاتا۔ لیکن اس نے یہ خبر بہت کم وقت میں دے دی کہ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق صاحب اپنے امارات عہدے سے مستعفی ہوگئے ہیں۔ہم جانتے ہیں بی بی سی کس کا چینل ہے۔ان کی نیتیں بھی یہ تھیں کہ اس خبر سے جماعت کو کمزور شکست خوردہ سمجھا جائے گا۔یہ خبر بھی سنی کہ حافظ نعیم صاحب نے دھاندلی والی نشست لینے سے انکار کردیا۔جو کہتے تھے کہ سیاستدانوں کا کوئی اخلاق نہیں ہوتا۔ان دیانتدار اور اعلی کردار کے حامل سیاست دانوں کو دیکھیں۔ایک نے ہاتھ آئی سیٹ ٹھکرا دی۔ دوسرے نے پارٹی کی سربراہی چھوڑ کر ثابت کر دیا کہ جماعت اسلامی میں عہدوں کی نہیں بلکہ ویلیوز کی اہمیت ہوتی ہے۔اور بےشک یہ احساسِ ذمہ داری فقط جماعت اسلامی میں پایا جاتا ہے۔
ان دونوں واقعات سے ہوا یہ کہ جماعت اسلامی کی جمہوریت شورائیت اور واضح ہوگئی۔ عوام جماعت اسلامی سے مذید متاثر ہوگئی۔ جی ہاں جماعت اسلامی عوامی مقبولیت حاصل کر چکی ہے۔ہر شعبہ ہائے زندگی کے لوگ اس کی دیانت خدمت کے قائل ہوچکے ہیں۔اس الیکشن کے بعد یہ مغالطہ ختم ہوچکا ہے کہ جماعت کا ووٹ بینک نہیں بنتا جماعت اسلامی کا کم ازکم یہ نتیجہ اس الیکشن میں تھا کہ اسے بلوچستان میں دو سیٹیں کے پی کے میں تین اور سندھ میں پندرہ سے زیادہ ہوتیں اگر زبردستی انتقال ہوئی پارٹی کے نئے جیون کی تیاری نہ ہوتی۔ ووٹ جماعت کو ملا ہے کراچی عوام نے اسے منتخب کیا ہے یہ ہاری نہیں اسے ہروایا ہے۔
یہ استعفی دراصل ہمارے قائد کی اعلی ظرفی ہے۔ انہوں اخلاقی طور سے اچھا کیا۔یہ استعفی ہر اس کارکن پر طمانچہ ہے۔جو سمجھتے ہیں کہ اس میں جماعت کا اس کی قیادت کا کوئی قصور ہے۔ ان سب حالات میں کسی کا کوئی قصور نہیں نہ کارکن کا قصوروار ہے نہ ہی امیر کا قصور ہے۔سمجھنے کی بات ہے کہ جماعت کا مقابلہ وقت کے اصل فرعون سے ہے۔ سیکولر لبرلز ساری طاقتیں مل کر اس کے خلاف ہیں اسلام کے دشمن فرعون نمرود ابو جہل دجالی فتنے آسان ٹاسک کسی بھی دور میں نہیں تھے۔ہمارے دور کے فرعون طاقت میں قدیم فرعون سے کہیں آگے ہیں۔الیکٹرانک میڈیا جماعت کو نہیں دکھاتا۔پرنٹ میڈیا جماعت پسند اسلام پسند تحریر نہیں چھاپتا۔عوام اگر قبولتی ہے اصل نتائج نہیں دیے جاتے۔قیادت کا کیا قصور وہ کیا اپنی جان مار دیں۔اس الیکشن کو آپ صلح حدیبیہ سے جوڑ لیں یقین کریں جماعت کی مقبولیت میں اضافہ ہی ہوا ہے۔جس عوام نے جماعت کو ووٹ دیا وہ اس کی شکست پر حیران ہے۔ جان چکی ہے کہ دینی جماعتوں میں خطرہ صرف جماعت اسلامی ہے۔عوام نے کبھی کسی موروثی مذہبی لیڈر یا پیر کو یوں اپنے عہدوں سے مستعفی ہوتے نہیں دیکھا۔جماعت اسلامی عوام کے لیے حل ہے تو باطل نظام کے لیے روک ہی روک ہے۔
یہ جماعت اسلامی کے لیڈر کی اعلی قیادت ہے۔جس میں حافظ نعیم الرحمن، مشتاق احمد صاحب، اکبر چترالی اور مولانا ہدایت الرحمن جیسے ہیرے پیدا کیے اور چمکنے کے خوب مواقع دیے۔سراج صاحب آپ...
حیا ہی پروانہ خیر
ویمن یونیورسٹی کی بس میں سب سے پہلی سوار ہونے والی حنا امتیاز معمول کے مطابق آج بھی کسی کتاب کی ورق گردانی میں گم تھی اس لیے اسے اپنے ارد گرد ہونے والی غیر معمولی ہلچل کا علم ہی نہ ہوا۔
آج کی کتب بینی نے اسے خاصا الجھن میں مبتلا کیا ہوا تھا فرانسیسی انقلاب کے وقت وہاں کی عوام نے قلم کاروں کی جس طرح پیروی کی وہ حیران تھی کہ کیسے کوئی قوم اپنے ہی جیسے انسانوں کے بنائے ہوئے افکار و نظریات کے پیچھے اندھا دھند چل پڑتی ہے چاہے وہ نظریات اخلاق سے کتنے ہی گرے ہوئے کیوں نہ ہوں۔
ڈرائیور کے ہارن کرنے پر اس نے کتاب سے سر اٹھایا تو بس مکمل خالی تھی اس کی ساتھی لیکچرار اور تمام طالبات بس سے پہلے ہی اتر چکی تھیں
یونیورسٹی میں داخل ہوتے ہی اسے اندازہ ہوگیا کہ آج کیا دن ہے؟
کلاس میں داخل ہوکرحنا نے ابتدائی سلام دعا کے بعد طالبات کی طرف معنی خیز مسکراہٹ سے دیکھا
“ پیاری لڑکیو! آج خیر سے آپ میں سے بیشتر لڑکیوں نے سرخ رنگ کے دوپٹے اور بعض نے تو پورا لباس ہی سرخ پہنا ہے”
“جی میم! آج ویلنٹائن ڈے ہے نا” کسی ایک طالبہ نے جواب دیا
تو ساتھ ہی کسی دوسری طالبہ نے مزید وضاحت بھی پیش کردی “میم اب وہ جونا مناسب سا ویلنٹائن سب مناتے ہیں ویسا تو ہم کچھ نہیں کر رہے بس سب نے سوچا کہ ایک تہوار آرہا تو چلومنا لیا جائے تفریح ہو جائے گی”
ہممم۔۔تویہ باقی طالبات آپ کے ساتھ شامل کیوں نہ ہوئیں؟ جی نائلہ آپ کا اس دن کے بارے میں کیا خیال ہے؟ حنا نے ایک طالبہ کو مخاطب کیا جوویلنٹائن ڈے منانے والی لڑکیوں میں شامل نہ تھی۔
میم میرے نزدیک ویلنٹائن اخلاقی لحاظ سے انتہائی نا مناسب تہوار ہے اوراس کا ایجنڈا حیا کے منافی ہے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث مبارکہ ہے
"جب تم حیا نہ کرو تو جو جی چاہے کرو"
نائلہ لیکن ہم کوئی نا مناسب حرکت تو نہیں کر رہے نا۔ ایک دوسری طالبہ نے نائلہ کو ٹوکا
جی جی ایسا ہی ہے میری شہزادی! آپ کی نیت بالکل صاف ہے آپ کا مقصد تفریح کے علاوہ کچھ نہیں ہے یہ مجھے معلوم ہے۔ حنا نے خوبصورتی سے دونوں کی بات چیت میں مداخلت کی اور بات کو مزید آگے بڑھایا۔
لڑکیو!بات دراصل یہ ہے کہ جب ہم خود کو اسلام کے دائرے میں داخل کردیتے ہیں نہ۔۔۔ تو شعوری طور پر حیا کا اختیار کرنا ہمارے لیے اس طرح ضروری ہوجاتا ہے جس طرح سانس لینے کے لیے ہوا میں آکسیجن کا ہونا ضروری ہے کیوں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ
” حیا ایمان کی شاخوں میں ایک شاخ ہے۔ “
لیکن اللہ کی پناہ ہم ایسے معاشرے کا حصہ بن چکے ہیں جہاں حیا کو کم اعتمادی اور ترقی پذیر عناصر کے برخلاف گردانا جاتا ہے اور یہ وہ نظریات ہیں جو ہمارے کچھ نامی گرامی مہذب طبقے نے مغربی معاشرے سے شاید عاریتاً لیے تھے اور اب سارے معاشرے میں تیزی سے سرایت کر تے جا رہے ہیں
اس...
مایوس مت ہونا
ڈاکٹر فہمیدہ آپ نے تو میرا ووٹ ضائع ہی کروا دیا۔ساجدہ بیگم اپنا چیک اپ کروانے آئی تو ساتھ ہی شکوہ کر بیٹھی،میرے شوہر نے کہا بھی تھا، کہ اس شہر میں جماعت کو کوئی نہیں جانتاووٹ ضائع ہوجائے گا،لیکن میں سمجھی کیا پتاقوم ایک موقع دے ہی دیں دین دار لوگوں کو، ساجدہ باجی تو گویا آج بھری بیٹھی تھیں۔ کیا آپ نےامیر جماعت سراج الحق صاحب کا بیان نہیں سنا؟ڈاکٹر فہمیدہ نے تمہید باندھی، جب ایک نیوز اینکر نے سراج الحق صاحب سےسوال کیا،لوگ جماعت اسلامی کو ووٹ کیوں نہیں دیتے؟ تو سراج الحق صاحب کا جواب تھا: ہر صبح فجر کے وقت مسجد سے اذان کی آواز آتی ہے” *حَیّ عَلی الْفَلاحِ حیّ عَلی الْفَلاحِ* اس آواز کو سن کر اگر کروڑوں لوگ سوتے ہیں اور چند ہزار لوگ اٹھ کر مسجدوں میں جاتے ہیں، تو یہ اس آذان یا موذن کی کمی نہیں ہے۔یہ تو ان لوگوں کی کمی ہے جنہوں نے نیند نہیں چھوڑی اور مسجد کی طرف نہیں دوڑے۔ اس لیے ہم تو اذان دیتے رہیں گےاور پکارتےرہیں گے کہ آو تمہاری دنیا اور آخرت کی کامیابی اس نظام میں ہے،جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا میں پیش کرچکے ہیں۔
نہیں ڈاکٹر صاحبہ میں تو سوچ رہی تھی ساجدہ باجی نے بات کاٹی،اتنا وقت کا ضیاع ہوا اتنا پیسہ خرچ ہوا اور گھرگھر جاکےسمجھایا بھی لوگوں کو بس اسی لیے نتیجہ دیکھ کرمایوس ہوگئی۔ سادہ طبیعت کی ساجدہ باجی پھر سے گویا ہوئیں۔ ساجدہ باجی کیا آپ نے وہ آیت نہیں پڑھی" الْمَالُ وَالْبَنُونَ زِينَةُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَالْبَاقِيَاتُ الصَّالِحَاتُ خَيْرٌ عِنْدَ رَبِّكَ ثَوَابًا وَخَيْرٌ أَمَلًا"(مال اور اولاد تو دنیا کی زندگی کی رونق ہیں، اور تیرے رب کے ہاں باقی رہنے والی نیکیاں ثواب اور آخرت کی امید کے لحاظ سے بہتر ہیں۔) اس لیے میری بہن یہ ہرگز نہ سوچو کہ ہمارا پیسہ یا وقت ضائع ہوا،ارے اس کا اجر تو اللہ تعالٰی کے ذمہ ہے۔
ہماری ساری تگ ودو اللہ کے دین کو قائم کرنے اور اس ملک میں قرآن کا قانوں نافذ کرنے کے لیے ہے۔ہم نے بالکل مایوس نہیں ہونا اللہ کو ہماری یہی کوشش ہی درکار ہے۔اللہ پاک اپنے جن بندوں سے محبت کرتا انھیں آزمائش میں بھی ڈالتاہےتاکہ پتا چل سکے کون سخت وقت پہ ثابت قدم رہتاہےاور کس کے قدم ڈگمگاتے ہیں،ڈاکٹر فہمیدہ نے نرمی سے سمجھایا۔پھر تو ڈاکٹر صاحبہ ہمیں دوبارہ سے اس مہم کی تیاری میں جُت جانا چاہیے۔بالکل میری بہن!نظام کب نافذ ہوگا یہ تو اللہ ہی جانتا ہے،لیکن ہماری کوشش تو ہرحال میں جاری رہنی چاہیے۔ ہم تو اللہ کے سامنے عزر پیش کرنے والے بن سکیں، کہ اے اللہ میں نے اپنی پوری کوشش کی جہاں تک ہوسکا میں نکلی،جہاں مجھے پکارا گیا میں نے لبیک کہا، میرے مولا تو جانتا ہے،میں نےاپنی طرف سے کوئی کمی نہیں چھوڑی، ہر گھر پہ دستک دی، ہر فرد کودعوت دی، لیکن یارب تو گواہ رہنا میری اس ادنٰی سی کوشش پہ اور مجھے ہمت دے کہ میں اور زیادہ دین کی خدمت کرسکوں، ڈاکٹر فہمیدہ فرط جذبات سے بولیں۔ ساجدہ باجی شرمندگی سے...
طنز و مزاح
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔
زندگی بدل گئی !
شوہر اچھا ہو بیوی بچوں کا خیال رکھتا ہو تو زندگی پرسکون ہوجاتی ہے مگر یہاں تو زبردستی نوکری پر بھیجو پھر خود بازار جاٶ ضرورت کا سارا سامان خود اٹھاٶ پھر گھر کی صفائی، کھانا بنانا، بچوں کو اسکول چھوڑنا اور لانا سارا دن اسی میں گزر جاتا ہے یہاں تک کے امّی سے بات تک کرنے کا ٹائم نہیں ملتا مہینوں گزر جاتے ہیں امّی سے ملاقات ہوئے۔
فائزہ نے دکھوں کا قصہ سنا کر سکون کا سانس لیا تو میں نے بھی تسلی دی اللہ آسانی کرے تمھارے لیئے۔آج پھر کئی مہینوں بعد فائزہ سے ملاقات ہوئی تو پتہ چلا وہ گھر خالی کر کے دوسرے محلے میں چلی گئی ہے کرائے داروں کے لیۓ یہی پریشانی ہے اللہ سب کو اپنا گھر نصیب کرے۔ فائزہ بڑی خوش اورپہلے سے بہت اچھی لگ رہی تھی خوش ہوکر بتانے لگی۔ میرے شوہر تو جی ایسے فرمابردار ہوئے ہیں کے بس پوچھو مت۔ ویسے میں نے پوچھا نہیں تھا پر فائزہ بتاۓ بغیر کہاں رہتی۔
خوشی خوشی بتانے لگی صبح وقت سے پہلے نوکری پر چلے جاتے ہیں ساتھ بچوں کو بھی اسکول چھوڑ دیتے ہیں گھر کی ساری ذمہ داری خود لے لی ہے میں تو بس اب گھر میں رہتی ہوں اور اتنے محنتی ہوگۓ ہیں کے رات رات بھر گھر نہیں آتے یہاں تک کے کئی کئی دن کام کے سلسلے میں شہر سے باہر رہتے ہیں اور میں اپنی امّی کے گھر آرام کرنے چلی جاتی ہوں رزق میں ایسی برکت ہے کہ کبھی کبھی ہر چیز ڈبل آجاتی ہے پچھلے ہفتے دو سینڈل بلکل ایک جیسی لے آۓ بس ایک نمبر چھوٹی تھی پھر وہ تبدیل کرنی پڑی۔ کبھی راشن میں بھی چیزیں ڈبل ہوجاتی ہیں بس اللہ کا کرم ہے۔ میں تو کونے والی نورن دادی کو دعائيں دیتی ہوں۔ یہ سب ان ہی کی وجہ سے ہوا ہے۔ انھوں نے مسجد کے مولوی صاحب کا پتہ دیا تھا۔ مولوی صاحب نے ایک وظیفہ بتایا تھا پڑھنے کو وہ بھی تہجد میں بس پھر کیا تھا میری تو قسمت ہی پلٹ گئی۔ زندگی آسان ہوگئی ہے۔
مجھے بڑی حیرانی ہوئی کہ ایک وظیفے سے قسمت بدل گئی بھئی یہ کونسا وظیفہ ہے چلو چھوڑو۔مگر فائزہ کہا مانتی بتائے بغیر۔ عربی کے چند الفاظ بڑے ادب سے سنائے اور چہرے پر ہاتھ پھیر کر تین بار آمین آمین آمین کہا۔ بس یہ وظیفہ پڑھ لو شوہر آپ کے قدموں میں اور ہاں کسی اور کو بھی بتا دیں اگر کوئی پریشان ہو تو کسی کا بھلا ہو جائے اچھی بات ہے۔ میرا نمبر بھی لے لیا اور پھر فائزہ مسکراتی ہوئی گھر روانہ ہو گئی۔
ہفتے بعد ہی ایک انجان نمبر سے فون آیا۔ ریسو کرنے پر فائزہ نے سلام دعا کی اور زور زور سے روتے ہوئے کہنے لگی میں تو لوٹ گئی بر باد ہوگئی بس بہن میرا شوہر تو ہاتھ سے نکل گیا پتہ نہیں کیا کمی تھی مجھ میں جو دوسری شادی کر لی اللہ ہی سمجھے گا ایسی عورتوں کو جو شادی شدہ بچوں والے مردوں سے شادی کر لیتی ہیں۔ میں...
بن بُلائے مہمان ! بَلائے جان
بن بلائے مہمان وہ بھی چپک جانے والے ایک دو دن سے زیادہ برداشت نہیں ہوتے اور اگر زیادہ ہی رک جائیں تو سارے گھر کو ہی تکلیف اور نقصان پہنچاتے ہیں اور سارے ہی لوگ ان سے کنّی کترا کر گزرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ ہمارے ساتھ ہی نہ چپک جائیں۔
ایسا ہی معاملہ ہم لوگوں کے ساتھ ہوا ہے پہلے تو اس خطرناک اماں نے اپنی اولاد کو بھیج دیا وہ ملک ملک گھوما اور یہیں ڈیرا ڈال لیا۔نہ جانے کیا کیا تباہ و برباد کیا اور یہ حضرت انسان بے بس اور بے کس منہ چھپائے گھومتا رہا حتی کہ اپنے بیماروں مجبور پیاروں سے ملنے اور ان کی تیمارداری سے بھی محروم رہا کچھ وقت گزرنے کے بعد جب اس نے دیکھا کہ ماحول ٹھنڈا ہوگیا ہے لوگ سکون میں ہیں تقریبات عروج پر ہیں اسکول، مساجد اور پارک بھرے ہوئے ہیں تو اس نے ناک بھوں چڑھایا اور سوچا ! یہ میری اولاد تو ٹھنڈی ہوتی جا رہی ہے برسوں محنت کی ہے میں نے اس پر اسے اتنی جلدی ہار نہیں ماننا چاہیے۔ اب مجھے ہی کچھ کرنا ہوگا تو لیجئے جناب پورے جوش اور بھرپور شیطانیت کے ساتھ کرونا کی امی جان اُُمِ کرونا (امیکرون) تباہ حال لوگوں کو اور تباہ کرنے دنیا میں انسانوں پر آدھمکی۔
کتنے دور اندیش تھے وہ لوگ جنہوں نے چاند پر پلاٹ بک کروائے تھے گوگل سرچ کرکے دیکھتے ہیں، تب پتہ چلے گا کہ وہ لوگ کرونا سے بچنے کے لیے چاند پر پہنچ گئے یا اس سے بھی کہیں آگے عالم برزخ پہنچ گئے۔
ہمارے گھر میں تین افراد پر اٌمِ کرونا فدا ہوگئی ہیں ہماری امی جان، بھیا اور آپی پر۔ان تینوں نے قرنطینہ کے نام پر ایک ایک کمرے پر قبضہ جما لیا ہے ابّا جان تو امی کے کمرے کے دروازے کے قدموں میں ہی پلنگ ڈالے پڑے ہیں اور ہم نے لاؤنج میں صوفے پر ڈیرہ جما لیا ہے البتہ ماسی خوش نظر ارہی ہے کہ تینوں کمروں کی صفائی سے جان بخشی ہوئی ہے۔
ویڈیو کال اور فون کال پر ہی سب رشتے داروں نے مزاج پرسی اور تیمارداری کرکے اپنا فرض نبھایا کیونکہ ہم سب مجبور ہیں ایک ان دیکھے وائرس سے۔سلائی والی آنٹی نے جب نئے سلے ہوئے سوٹ ہمیں بھجوائے تو اس کے ساتھ سوٹ کے کپڑے کے ماسک بھی بنے ہوئے رکھے تھے۔ سلائی والی آنٹی کو فون کرنے پر پتہ چلا کہ یہی فیشن چل رہا ہے، انہوں نے ایک آفر بھی دی کے ہم فینسی ماسک بھی بناتے ہیں ستارے موتیوں اور کڑھائی والے ان کا بھی پیکج ہے جو پیکج آپ لینا پسند کریں۔
نہ جانے کتنے ابہام ذہن میں گردش کر رہے ہیں۔ابھی تو ہم ڈر کے مارے اس قابل بھی نہیں ہوئے کی واٹس ایپ یا فیس بک پر اپنا اسٹیٹس لگائیں۔
I am vaccinated
کیوں کہ ابھی تو ہم اکّڑ بکّڑ ہی کر رہے تھے کہ چائنا کی ویکسین لگوائیں، کینیڈا کی یا پاکستانی کے اچانک، اْمِ کرونا سے پہلے بوسٹر بھی آٹپکا۔سوچ رہے ہیں ڈائریکٹ بوسٹر ہی لگوا لیں۔
یہ بلائے ناگہانی ہے بس...
ٹک ٹاک ایک نشہ
ٹک ٹاک مختصر ویڈیو کی ایسی ایپ ہے جس میں وہی ویڈیو چلتی ہے جو ’’مختصر‘‘ ہو۔بس ایک ویڈیو وائرل ہونے کی دیر ہے پھر آپ ایک ہی رات میں ہیرو بن گئے۔گویاٹک ٹاک سوشل میڈیا کا ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جس میں وہی ویڈیو وائرل ہوتی ہے جس میں سب کچھ’’ پلیٹ‘‘میں رکھ کر پیش کیا جائے۔بلکہ نوجوان نسل تو وائرل ہونے کے لئے ایسی اشیاء بھی ’’پیش‘‘ کر دیتی ہیں جن کا پیش نہیں ’’زیر‘‘میں ہونا ہی معیاری،مناسب اور اخلاقی ہوتا ہے۔مگرچائنہ والوں کو کون سمجھائے کہ جس لباس کو ہم پاکستانی اعلیٰ اخلاقی اقدار سے گرا ہوا سمجھتے ہیں ان کے ہاں وہ لباس اعلی اقدار کا حامل سمجھا جاتا ہے۔بلکہ یوں کہنا مناسب ہوگا کہ لباس کا صرف سرا ہی نظر آتا ہو تو اسے اخلاقی لباس سمجھا جاتا ہے۔چائنہ اور یورپ میں تو اسی کی زیبائش مناسب ہوتی ہے جس کی ’’نمائش ‘‘زیادہ ہو۔ ان کے سامنے تو بھاری بھر کم فراک،غرارہ و شرارہ زیب تن کر کے جائیں تو وہ حیران ششدر رہ جاتے ہیں کہ ان کا ناتواں جسم ایسا لباس ’’کیری‘‘ کرتاکیسے ہے۔شائد اسی وجہ سی چینی اور یورپی خواتین وہی لباس زیب تن کرتی ہیں جو ہمیں زیب نہ دیتا ہو۔
میں نے اپنے انتہائی معصوم و سادہ دوست شاہ جی سے ایک معصومانہ سوال کیا کہ مرشد ٹک ٹاک پر کیسے وائرل ہوا جاتا ہے۔شاہ جی نے شانِ بے نیازی (بے نیازی کو کسی نیازی سے نہ ملایا جائے )اور لاپروائی سے جواب دیا کہ فی زمانہ ٹک ٹاک ہی نہیں ہر جگہ وائرل ہونے کا ایک فارمولہ ہے۔میں نے متجسسانہ انداز میں پوچھا کہ مرشد وہ کیا۔فرمانے لگے۔’’جو دکھتی ہے وہ بکتی ہے‘‘یعنی جو دکھتا ہے وہی بکتا ہے۔شاہ جی کے جواب پر سوال در سوال ذہن میں کود آیا کہ کیا اس فارمولہ کا اطلاق صنف نازک(جسے میں ہمیشہ صنف آہن کہتا ہوں)پر ہی ہوتا ہے یا صنف معکوس بھی اس زد میں آتے ہیں۔کہنے لگے فارمولہ تو وہی ہے بس الفاظ کے چنائو کو بدلنا ہوگا،یعنی۔۔۔۔۔یعنی مرد حضرات کے لئے الفاظ بدل کر ایسے ہو جائیں گے کہ ’’جو بَکتا ہے وہ بِکتا ہے‘‘
چین نے جب ٹک ٹاک ایپ متعارف کروائی تو اس کا مقصد سیلیکون شہر میں بیٹھ کر ایسی مختصر مدتی ،مختصر ویڈیو،مختصر لباس میں بنا کر پیش کرنا تھاکہ جو اپلوڈ ہوتے ہی وائرل ہو جائے،اور ایسا ہی ہوتا تھا۔اس لئے ہماری نوجوان نسل بھی چین کے نقش پا پر اپنے قدم جمائے ویسی ہی مختصر ویڈیو بناتے ہیں جو وائرل ہو جائے۔مجھے حیرت یہ نہیں کہ آج کی نسل سستی شہرت کے لئے ایسا کیوں کرتی ہے۔پریشانی یہ ہے کہ انہیں شہرت مل بھی جاتی ہے۔اب تو ٹک ٹاک بھی ایک حمام سا ہی دکھائی دیتا ہے ،وہ جس کے بارے میں اکثر سیاستدان بیان بازی کیا کرتے ہیں کہ اس حمام میں سبھی ننگے ہیں۔اب تو ٹک ٹاک دیکھ کر بھی لگتا ہے کہ اس حمام میں بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ویڈیو وائرل ہونے کے بارے میں ایک دوست کی بات یاد آگئی ،اس نے ایک دن مجھ سے پوچھا کہ یار ابھی تک...
جزاک اللّٰہ خیرا