شرم کی واپسی

’اباحیت ‘یعنی جنس پرستی ،فحاشی اور بے شرمی کی چوٹی پر پہونچنے کے بعد اب مغرب میں ’شرم‘ واپس آرہی ہے جب کہ مشرق میں بے حیائی کا بول بالا ہے اور شرم رخصت ہو رہی ہے ۔

امریکی معاشرے کے تجزیاتی سروے پر مبنی نیوز ویک کی ایک رپورٹ کے مطابق ازدواجی زندگی کے باہر ’لذت‘ کا حصول اب امریکیوں کے لیے ’شرم ‘ کا باعث ہونے لگا ہے۔شراب پی کر گاڑی چلانا اور بچوں کے ساتھ مارپیٹ کرنا اب امریکیوں کے لیے ’شرمندگی ‘ کا سبب بنتا ہے ۔شراب نوشی کی کثرت اور ہر طرف غیر شادی شدہ کم سن ماؤں کی بہتات ،امریکیوں کے لیے سوہانِ روح بنتی جا رہی ہے۔ نیوز ویک کی رپورٹ ’دی ریٹرن آف شیم ‘ میں سوال اٹھایا گیا ہے کہ صحیح اور غلط کے احساس کو آخر اب کیسے بحال کیا جائے ؟گناہ سے نفرت اور وہ احساس جرم جو توبہ کی طرف لے جائے ،کیسے واپس لایا جائے ؟جسے  سگمنڈ فرائڈ اور اور اس کے پیرو ماہرین نفسیات نے مریضانہ ذہنیت قرار دے کر مسترد کر دیا تھا ۔

اب امریکی معاشرے میں یہ احساس جڑ پکڑنے لگا ہے کہ’احساس ِجرم ‘ مرض نہیں بلکہ اس کا نہ ہونا انسان کو مریض بنا دیتا ہے اور پورے سماج کی صحت کے لیے مضر بن جاتا ہے ۔سماجی لاقانونیت والے امریکی معاشرے میں قانون کی بالا دستی قائم رکھنے کا احساس بھی بڑھتا جا رہا ہے ۔

سماجی اور اخلاقی جرائم پر نہ صرف گرفت ہونے لگی ہے بلکہ کھلے عام ایسی سزائیں دی جانے لگی ہیں جو ایک طرف مجرم کے اندر احساس جرم اور حقیقی احساس ندامت  پیدا کریں اور دوسری طرف سماج کے دیگر افراد بھی یہ دیکھیں کہ قانون توڑنے کا نتیجہ کیا ہوتا ہے ۔ایک امریکی جج کے لفظوں میں ’آپ اُسی وقت قانون شکنی سے بچنے کی کوشش کریں گے جب  یہ پتہ  ہو کہ آپ کو اس کے لیے کیا قیمت چکانی پڑے گی ‘۔

رواداری بے شک اچھی چیز ہے لیکن جب کسی معاشرے میں اخلاقی اور سماجی جرائم کے تئیں رواداری پیدا ہوجائے تو وہ عذاب بن جاتی ہے ۔چھوٹے موٹے جرائم کو نظر انداز کردینے ،اخلاقی جرائم کی طرف سے چشم پوشی کرنے اور مجرموں کے ساتھ رواداری برتنے کے نتائج سامنے آجانے کے بعد اب ان کی سمجھ میں آگیا ہے کہ کوئی نہ کوئی ایسا طریقہ تو ہونا ہی چاہئیے جس پر عمل کر کے سماجی تانے بانے کو مزید بکھرنے سے بچایا جا سکے ۔

مغربی معاشرہ گزشتہ سو  ڈیرھ  سو سال کے عرصے میں  ہونے والی مادّی ترقی کے نتیجے میں اخلاقی پستی کی جن گہرائیوں میں پہنچ چکا ہے ہم مشرق والے وہیں پہنچنے کے لیے پوری قوت سے دوڑ رہے ہیں ۔ملک کے اسکولوں میں نام نہاد جنسی تعلیم کا فروغ اُسی اندھی دوڑ کا ایک حصہ ہے ۔

آج ہم ثقافتی یلغار کی زد پر ہیں ۔انٹرنٹ اور چوتھی نسل (فور جی) اسمارٹ فون نے اقدار کا تیا پانچہ کر ڈالا ہے ۔آج ایڈز کی بیماری،فحاشی کی گرم بازاری اور عورت کی بے آبروئی اسی لیے ہے کہ آنکھ اور کان ،ہاتھ اور زبان کے اختیار کی حدیں توڑ دی گئی ہیں ۔ انسان اور اس کے اعضا و جوارح کو پھر سے قابو میں لانے کا کام مذہب اور اخلاقیات کے سوا اور کسی تعلیم سے نہیں لیا جا سکتا ۔

حصہ
mm
لکھنو کے رہنے والے عالم نقوی ہندوستان کے ایک کہنہ مشق صحافی،اور قلم کار ہیں وہ ہندوستان کے مختلف اخبارات و جرائد ور ویب پورٹل کے لیے لکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں