سیٹی بجی

کس قدر جذباتی ہو رہی تھی وہ یہ سب بتاتے ہوئے۔ایونٹ بھی تو کتنا بڑا کتنا خوش آئند تھا۔ہر طرف اسی کا چرچا اسی کا تذکرہ۔ مگر وہ اتنی مضطرب جیسے چھلک جائے پیمانہ، کہتے کہتے خاموش ہوجائے جیسے الفاظ کہیں کھو جائیں نہ جانے میں نے محسوس کیا یا معاملہ ہی کچھ اتنا نازک تھا،ضبط کا تار تار دامن پلکیں بار بار جھپک کر آنسووں کو پینے کی سعی۔ اتنے عرصے  بعد تو یہ موقع آیا تھا ۔پورا شہر بیک وقت ایک نکتہ پر مرکوز ۔پی ایس ایل پر تو بچے کیا بڑے سب ہی نئے روپ میں تھے مگر کیا یہ منظر بھی  اس خوشی کے ساتھ پھانس بن کر روح میں چبھ نہیں رہا۔کھیل کے ساتھ ناچتی جھومتی لہراتی قوم کی بیٹیاں اسٹیڈیم سے براہ راست چائے خانوں،گھروں،  عوامی مراکز میں ملک کے کونے کونے میں بلکہ دنیا بھر میں دکھائی دیں۔کسی قحبہ خانہ جانے ضرورت کیا ہے؟

کھیل سے پہلے موسیقی کے پروگرام کا مقصد منتظمین سے تو پوچھا ہی جانا چاہیے جن کی ماتھوں پر پڑے گٹے اور ٹخنوں سے اونچی شلوار یں اور چلے اس پروگرام پر کوئی اثر نہ ڈال سکے ۔احساس زیاں ہے کہ کم نہیں ہوتا۔شہر کراچی کتنی مدت بعد اپنے اصلی شیڈ میں نظر آ رہا تھا چمکتا دمکتا مگر ایک ہجوم ہے آوازوں کا جو ہنسنا تو درکنار مسکرانے بھی نہیں دیتا۔ایک کسک ہے جو اندر ہی اندر کاٹتی رہتی ہے ،اذاں مغرب کی پکار اور موسیقی کی تانیں گڈمڈ ہورہی تھیں۔ان آوازوں کا خلط ملط ہونا اور دکھانا دنیا سے قابل قبول ہونے کی سند لینا ہے۔ اس دنیا سے جس نے پاک سرزمین کو پہلے دہشت گرد قرار دیا پھر اپنی شرائط پر الزام سے بریت کا جھانسا ۔دشمن عیار بھی ہے حیلہ جو بھی۔سیٹی بجا کر کھیل شروع کردیا کرکٹ کا نہیں،پاکستان کا چہرہ بدلنے کا۔کرکٹ ہمارے لئے صرف ایک کھیل ہے مگر ان کے نزدیک کروسیڈ ۔ یروشلم کی فتح پر شکست خوردہ عیسائی قیادت نے فیصلہ کیا کہ شہر میں داخل ہونے والے راستے پر دونوں طرف خوبصورت عورتوں کو کھڑا کردیا جائے جو نہی مسلمان مجاہدین ان کے حسن جمال سے مسحور ہوجائیں ان پر قابو پا لیا جائے۔ مگر ان کی چال حیا دار، باکردار لشکر نے تاریخ کے صفحات پر ناکامی کے باب میں درج  کروائی ۔ کاش اسٹیڈیم میں بیٹھے شرکاء بھی رقص اور موسیقی سے کنارہ کرلیتے ۔ دنیا کی خرابی برے لوگوں سے نہیں خاموش اکثریت کی وجہ سے ہے ۔جو ہر تبدیلی کو دیکھ کر ردعمل کے بجائے سر جھکا کر گذر جاتے ہیں کہ اس  کام میں ہے محنت زیادہ ۔

4 تبصرے

Leave a Reply to افشاں نوید