انگریزی،انگریزنی اور ہم پاکستانی

انگریز برصغیر سے جاتے ہوئے اپنی اپنی انگریزنیوں کو تو ساتھ لے گئے۔تاہم انگریزی ہمارے واسطے بطور عذاب اور امتحان کے چھوڑ گئے۔ہم ٹھہرے باوقار پاکستانی،اپنی چائے میں مکھی بھی پڑ جائے تو اسے مکمل نچوڑ کر اور کبھی کبھار چوس کر چائے بدر کرتے ہوئے کہیں دور پھینک کر بقیہ چائے یہ کہتے ہوئے پی لیتے ہیں کہ حلال کمائی کی ہے، مگر کسی کی جھوٹی چائے کو تو ہاتھ لگانے کے لئے بھی تیار نہیں ہوتے۔بھلا تصور کریں کہ انگریز کی چھوڑی ہوئی انگریزی کو ہم کیسے ہاتھ لگائیں گے۔ہاں اگر انگریزی کی جگہ انگریزنی ہو تو ہاتھ اور منہ لگانے کو ہم قومی فریضہ خیال کریں گے۔پھر بھی ہم یارانِ مہر و محبت ،انگریزی کو بھی صیغہ مونث خیال کرتے ہوئے اس امید سے برداشت کر رہے ہیں کہ اک روز تو آئیگی آتے آتے’’پر کتھوں‘‘نہ انگریزی اور نہ ہی انگریزنی آتی ہے،مایوسی کہیں کفر تک نہ لے جائے اور مذکور ان دو صنف اور صنفِ نازک سے بدلہ لینا مقصود ہو تو رختِ سفر باندھیے گوروں کے دیس کا اور ایک عدد گوری سے شادی کر وا کے خوب اپنی تشنگی بجھائیے۔جیسے 90 کی دہائی میں میرا ایک دوست اس عزمِ صمیم سے ولایت پڑھنے گیا تھا کہ وہاں جا کر انگریزی اور انگریزنیوں سے گن گن کر بدلے لوں گا۔اور وہ اپنی زبان کا پکا نکلا کہ گن گن کر اس نے سات آٹھ انگریزنیوں سے شادیاں کی ،گن گن کر پندرہ بیس مکس کراپ( mix crop ) قسم کے بچے پیدا کئے جنہوں نے بڑھاپے میں ایک ایک کر کے چھوڑ دیا اور اب محترم سوچ رہے ہیں کہ ’’اپنے اور اپنا پاکستان زندہ باد‘‘۔مگر یہ سب ہر بندے کے بس کی بات نہیں ہوتی کہ انگریزی اور انگریزنی کو ایک ساتھ ہاتھ ڈال لے۔اور اگر یہ دونوں ایک ساتھ کہیں ہمارے ہتھے چڑھ جائیں تو پھر ہم ان دونوں کی وہ ’’ماں بہن‘‘ ایک کرتے ہیں کہ خدا پناہ۔میرا ایک دوست انگریزی کے ساتھ وہ ’’کتے خوانی‘‘ کرتا ہے کہ گورے ان کی انگریزی اگر پڑھ لیں تو انگریزنیوں کو بچوں سمیت موصوف سے ایسے چھپاتے پھریں جیسے بلی اپنے بچوں کو منہ میں دبائے سات گھروں میں لئے پھرتی ہو۔میری نظر سے ان کا لکھا ہوا ایک پیرا گراف گزرا ۔اس پیراگراف پڑھنے کے بعد جو میرے احساسات تھے میں چاہتا ہوں کی قارئین کی نذر کروں،پیرا پڑھتے ہوئے مجھے ایسا لگا جیسے preposition کو دھوبی پلڑا مار کر اور مجھے کرنٹ لگا کر زمیں پر دے مارا ہو،preposition کے بے ہنگم استعمال سے میں سمجھا ،کہ ہو سکتا ہے کہ میں ہی ذہنی طور پہ تیا ر نہ تھا ،ایسا ہرگز نہیں تھا کیونکہ use of tense کو بھی انہوں نے اتنی tention میں رکھا ہوا تھا کہ میں خود tense ہو گیا کہ الہی ماجرا کیا ہے،بندہ ماسٹر ڈگری کر کے ماسٹر لگا ہوا ہے تو پھر انگریزی میں اتنا ماسٹر کیوں نہیں کہ ایک جملہ ہی ٹھیک سے لکھ سکتا ہو۔اب دیکھئے ذرا کہ ’’میں کہتا ہوں‘‘ کی انگریزی me told اور ’’تم آجانا‘‘ کی they come کی ہوگی تو انگریزنیوں کا اپنے بال نوچتے ہوئے اور انگریزوں کا گنج پر ہاتھ پھیرتے ہوئے ہم سے ناراض ہونا تو بنتا ہے۔ابھی اسی کربِ ناگہانی میں مبتلا تھا کہ اچانک نظر verb پر پڑ گئی،جنابِ من نے اسے ایسے نکرے لگایا ہوا تھا کہ جیسے جیب کترے کو پولیس والے مار مار کر نکرے لگائے ہوتے ہیں۔انگریزی کے ساتھ ہونے والی اس’’ اجتماعی زیادتی‘‘کے بارے میں ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ good کی تیسری حالت کو goodest لکھ کرکچھ اس طرح ’حالتِ غیر‘‘ میں رکھا ہوا تھا کہ میری اپنی حالت غیر ہو گئی ۔ایسے ہی ان سے ایک بار میں نے farm کی حالتیں پوچھ لیں تو former,formest بتاتے ہوئے ایک تفاخرانہ مسکراہٹ بھی ہماری طرف pass کی جیسے کہنا چاہ رہے ہوں کہ جناب انگریزی تو ہمارے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے،واقعی ایسا ہی ہے کیونکہ وہ بائیں ہاتھ سے ہی لکھتے ہیں۔وہ اکثر کہا کرتے ہیں کہ انگریزی ان کے لئے کوئی مسئلہ نہیں ہاں سمجھنے والوں کے لئے ضرور مسئلہ ہوتا ہے۔میں جس ادارے میں کام کرتا ہوں وہاں پاکستانی کمیونٹی کے علاوہ فلپائن،مصر،سری لنکا،نیپال اور شامی نسل کو لوگ بھی کام کرتے ہیں۔ماسوا پاکستانی کمیونٹی کے باقی سب کمیونٹی کے لوگ ایک دوسرے کو منہ مارنے کے ساتھ ساتھ انگریزی کو بھی اچھا خاسا منہ مار لیتے ہیں۔کیونکہ انگریزوں نے بھی ان چند علاقوں میں منہ مارے رکھا ہوا ہے۔ہمارے اکاؤنٹنٹ کا اسسٹنٹ ایک سری لنکن تھا جو چند ہفتے قبل ہی سری لنکا سے’’ لنگر انداز‘‘ ہوا تھا۔وہ ماسوا سنہالی اور انگریزی کے کسی بھی زبان سے نابلد تھا۔اور ہمارے اکاؤنٹنٹ کی حالت بھی کچھ ایسی ہی تھی کہ ماسوا اردو کے ہر زبان کا اتنا ہی احترام کرتا ہے جتنا کہ اپنی بیوی کا۔ ایک روز ہم سب بس کے انتظار میں تھے کہ کیا دیکھتا ہوں کہ اکاؤنٹنٹ اس نو وارد سری لنکن سے ہنس ہنس کے گفتگو فرما رہا ہو،حیرانی ہوئی،ان دونوں کے قریب پہنچا تو کیا سنتا ہوں کی سری لنکن بچہ فر فر اردو میں بات کر رہا ہو یعنی اکائنٹنٹ صاحب نے خود انگریزی سیکھنے کا کشٹ نہیں کیا بلکہ اسے ہی اردو سکھا دی تا کہ اسے سمجھنے میں کوئی دقت پیش نہ ہو۔میں نے کہا کہ یار شرم کرو تم نے اسے اردو سکھا دی ہے تو خود انگریزی کب سیکھو گے تو کہنے لگا کہ دیکھو مراد صاحب میرا کمال کہ میں نے اس سری لنکن کو صرف دو ہفتوں میں اردو سکھا دی ہے۔اور خود اس لئے نہیں سیکھ رہا کہ میں اسے ترسا ترسا کے ماروں گا۔یعنی انگریزی کو۔
ہم پاکستانیوں کے لئے سب سے مشکل کام ترجمہ کرنا ہے چاہے اردو سے انگریزی یا انگریزی سے اردو میں ہو۔جیسے سائیکل کے کتے فیل ہو گئے کا ترجمہ کچھ اس طرح سے ہوگا،cycle,s dog failed اور بتی آ گئی ہےthirty two comes ،یہ تو طے ہے کہ ترجمہ اردو سے انگریزی یا انگریزی سے اردو ہو دونوں صورتوں میں ٹانگیں تو انگریزی کی ہی ٹوٹنی ہیں۔جیسے کہ جب ہماری قوم کو انگریزی میڈیم کا دورہ پڑا تو پرانے اساتذہ کو تو جیسے بوڑھے طوطوں کو پڑھنا سکھایا جا رہا ہو،کی سی حالت ہو گئی ۔پھر بھی ان کی محنت اور کاوش کی داد تو بنتی ہے کہ سیکھنے میں لگے ہوئے ہیں۔جیسے کہ ایک سینئر استاد کو انگریزی میڈیم کے ایک نالائق بچے کو یہ بتانا مقصود تھا کہ پڑھنا ہے تو پڑھو وگرنہ میرا کیا جاتا ہے۔تمھارے باپ کا جائیگا یا ماں کا جائیگا۔اب ذرا ترجمہ ملاحظہ ہو کہ read,read,not read,not read,what my goes,your father goes,your mother goes ۔لفظی ترجمہ بھلے ٹھیک ہی لگتا ہو مگراس اسکول کے بند ہونے میں مجھے رتی بھر شبہ نہیں تھا اور آجکل اس جگہ پان والے کی دکان ہے۔عرصہ دراز سے چونکہ ایک عرب ریاست میں بسلسلہ روزگار مقیم ہوں۔جہاں دنیا بھر سے لوگ آئے ہوئے ہیں۔ایک دن ایک ریستوران میں دو مختلف کمیونٹی کے افراد کی گفتگو سننے کا اتفاق ہوا جو کچھ اس طرح سے تھی کہ اس کا taste آج بھی محسوس ہوتا ہے بالکل ویسے ہی جیسے میرے سامنے کھانا کھانے کے بعد گاہک نے کہا تھا کہ taste has come (سواد آگیا بادشاہو)۔ہوا کچھ یوں کہ میں اور میرا دوست مظفر ریستوران میں کھانا کھا رہے تھے کہ ایک آواز نے سب کو متوجہ کیا کہoh deaf listen یعنی او بیرے سنو۔اب بیرا بھی ماشااللہ فل انگریزی اور مستعدی سے جواب میں بولا oh yeah my head. یعنی جی سر۔گاہک،what ,what is یعنی کیا کیا ہے۔بیرا،foot and head (سری پائے)گاہک کھانا کھاتا ہے اور اپنا بل کچھ اس طرح سے منگواتا ہے کہbring my math (میرا حساب بلاؤ)اور آخر میں کھانے کی تعریف اس طرح سے کرتا ہے کہ taste has come یعنی مزہ آ گیا۔اسی سے ایک ضمنی واقعہ یاد آ گیا کہ ایک سردار جی جن کا انگریزی میں ہماری طرح ہاتھ کافی تنگ تھا جو کہ ایک عدد کینیڈین بیوی کو کھلے دل سے قبولیت بخشتے ہوئے گھر داماد کے طور رہ رہا تھا۔ایک روز بیوی کی فرمائش پہ ایک اسٹور میں سردا لینے چلا گیا۔اب سردار کو نہیں پتہ تھا کہ’’ سردے‘‘کو انگریزی میں کیا کہتے ہیں۔کافی سوچ بچار کے بعد ذہن ناتوا میں یہ خیال لانے میں کامیاب ہو گیا کہ اگر سردی کو انگریزی میں cold کہتے ہیں تو سردے کو یقیناًcolda ہی کہتے ہونگے،سردار جی سیل مین کو بلا کر مدعا بتاتے ہیں تو سیل مین بے چارہ پریشانی کے عالم میں مینجر کو بلا کہ پوچھتا ہے کہ سردار جی کا مسئلہ حل کریں،ابھی سبھی لوگ باجماعت پریشانی کے عالم میں سوچ رہے تھے کہ ایک اور سردار وارد ہوئے تو انہیں دیکھ کر سب کی جان میں جان آئی کہ چلو یہ سردار مسئلہ کا حل نکال دیتے ہیں۔پہلا سردار دوسرے سے کہتا ہے کہ دیکھو سردارجی پچھلے ایک گھنٹہ سے میں colda مانگ رہا ہوں اور ان کو پتہ ہی نہیں چل رہا کیسا اسٹور ہے یہ،یہ سنتے ہی دوسرا سردار چلایا کہ ابے نالائق تم ایک گھنٹہ کی بات کر رہے ہو میں پچھلے ایک ماہ سے HEATA تلاش کر رہا ہوں مجھے ابھی تک وہ نہیں ملا تمہیں ایک دن میں کیسے مل جائے گا۔خیر یہ تو کچھ بھی نہیں سکول کی PTM میں ایک بچہ کے والد سے یہ شکائت کی گئی کہ آپ کا بچہ انگریزی لکھنے میں بہت کمزور ہے تو جواب ملا کہ اچھا تو ’’لکھنے‘‘ میں کیسا ہے۔لیجئے جناب بیٹا نمبری تو باپ دس نمبری۔
چلئے اس ساری بحث سے ایک نتیجہ تو نکلا کہ جیسے انگریز جاتے جاتے چلے ہی گئے،ایسے ہی انگریزی آتے آتے آ ہی جائیگی۔یہ ظالم ہے ہی ایسی غریبوں کے پاس آتی نہیں اور امیروں کے پاس سے جاتی نہیں۔میری نظر میں تو اس کا ایک ہی حل ہے کہ گھر میں ایک عدد انگریزنی بیاہ کے لے آئیں انگریزی خود بخود ہی آ جائے گی۔

حصہ
mm
مراد علی شاہد کا بنیادی تعلق کمالیہ پنجاب سے ہے ،تاہم بسلسلہ روزگار عرصہ بیس سال سے دوحہ قطر میں مقیم ہیں ،اور ایک پاکستانی تعلیمی ادارے میں بطور ہیڈ آف سوشل اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹ میں فرائض منصبی ادا کر رہے ہیں ۔سنجیدہ موضوعات کے ساتھ ساتھ طنز و مزاح پر لکھنا پسندیدہ موضوع ہے ۔ان کی طنزومزاح پر مشتمل مضامین کی کتاب "کھٹے میٹھے کالم"منصہ شہود پر آ چکی ہے۔دوسری کتاب"میری مراد"زیرطبع ہے۔قطر کی معروف ادبی تنظیم پاکستان ایسوسی ایشن قطر میں بحیثیت جنرل سیکرٹری اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں ۔

1 تبصرہ

  1. In last sentence author has suggested s very right solution of this problem, But who will dare to bell the cat

Leave a Reply to Tariq Mahmood