گزشتہ بلاگ میں عالم اسلام پر چنگیزی یلغار کے سلسلے میں سلطان جلال الدین خوارزم شاہ کا ذکر کیا گیا تھا۔ جسے بڑی تعداد نے پسند کیا اور کئی احباب نے چنگیزی یلغار پر مزید لکھنے کا مطالبہ کیا۔ چنانچہ اس سلسلے کو وسعت دیتے ہوئے اب سلطنتِ خوارزم کے دارالحکومت اور گنج کی تباہی کو قلمبند کیا جارہا ہے اور ضمنی طور پر خوارزم کی عظیم روحانی شخصیت شیخ نجم الدین کبریٰ ؒ کا احوال بھی پیش خدمت ہے۔
اور گنج:
اور گنج کا شہر جسے انگریزی میں Urgenchلکھتے ہیں دریائے آموکے کنارے واقع تھا۔ یہ شہر عالم اسلام پر چنگیز خان کی یلغار کے وقت سلطنت خوارزم کا دارالحکومت تھا۔ تہذیب و تمدن کے لحاظ سے سمر قند اور بخارا اس شہر کے ہم پلہ تھے۔ اور گنج اُس وقت صنعت و حرفت کا مرکز ہونے کے ساتھ ساتھ خوارزم کا دارالحکومت ہونے کے سبب علاقائی تجارت کا مرکز بھی تھا۔ یہی وجہ تھی کہ معاشی طور پر اورگنج کی حیثیت خوارزم کے دیگر شہروں میں نمایاں تھی۔
دریائے آمو کے کنارے پر واقع ہونے کی وجہ سے یہاں مچھلیوں کا کاروبار عروج پر تھا۔ اورگنج کی دریائی مچھلیوں کی مانگ پورے خوارزم میں تھی۔ اس کے علاوہ اورگنج کے خشک میوہ جات بھی بہت مشہور تھے۔ تلوار سازی اور مروجہ جنگی سازو سامان کی صنعت کے حوالے سے اورگنج کی نمایاں حیثیت تھی۔ دینی اور عصری علوم میں اورگنج کے مدارس اور جامعات یکتا تھیں۔ ’’جامعہ اور گنج‘‘ خطے کی مشہور جامعہ تھی جس کے شیخ الحدیث علامہ فخر الدین رازیؒ جیسے نابغہ روزگار شخص تھے۔ صاف ستھرے محلے، خوشنما باغات، خوبصورت مساجد اور ان مساجد کے بلند و بالہ مینار اور دیدہ زیب گنبد اور گنج کی پہچان تھے۔ دفاعی نکتہ نظر سے شہر کی حفاظت مضبوط اور مستحکم فصیل کے ذریعے کی جاتی تھی۔ اور گنج کی فصیل اونچائی اور مضبوطی کے لحاظ سے خوارزم کے دیگر شہروں سے منفرد تھی۔ (چنگیزی یلغار کے وقت اسی فصیل نے شہر کی پانچ ماہ تک حفاظت کی۔)
سمر قند بخارا اور دیگر شہروں کی بربادی کے بعد اور گنج میں چاروں طرف سے پناہ گزینوں کا سیلاب آگیا تھا۔ یہ پناہ گزین اپنے ساتھ تباہی اور بربادی کی داستانیں لائے تھے۔ قتل و غارت گری اور تاتاری وحشیانہ پن کی کہانیاں سن کر اور گنج کی فضا بوجھل ہوگئی تھی ۔ دارالحکومت کے باسیوں میں بھی وحشی تاتاریوں کا خوف پیدا ہوگیا تھا۔ اگرچہ فصیل کی مضبوطی بہت زیادہ تھی مگر پھر بھی ایک اندیشہ عوام میں جڑ پکڑ چکا تھا۔ ایسے میں سلطان علاؤالدین کی وفات اور سلطان جلال الدین کی تخت نشینی نے اورگنج کی سیاسی فضا میں ہلچل پیدا کردی۔
جلال الدین کی بطور خوارزم شاہ اور گنج آمد:
گزشتہ ماہ تفصیل سے عرض کیا جاچکا ہے کہ علاؤالدین خوارزم شاہ چنگیز خان کی یلغار سے گھبرا کر بحرِخزر میں روپوش ہوگیا تھا۔ دوران روپوشی ہی ولی عہد سلطنت شہزادہ قطب الدین ازلاق کی بطور ولی عہد نامزدگی کا لعدم قرار دیتے ہوئے علاؤالدین خوارزم شاہ نے جلال الدین کو اپنا جانشین مقرر کردیا تھا۔ چنانچہ جلال الدین خوارزم شاہ کے طور پر اور گنج میں داخل ہوگئے۔
تاتاری حملے سے خوفزدہ اور گنج کے عوام نے جلال الدین کا استقبال کیا مگر اس کے بھائی قطب الدین ازلاق نے جلال الدین کی دارالحکومت آمد بطور خوارزم شاہ کے دل سے قبول نہیں کی۔اس نازک دور میں جب تاتاری خوارزم میں تباہی مچا رہے تھے بجائے بھائی کے ہاتھ مضبوط کرنے کے قطب الدین نے جلال الدین کے خلاف سازشیں شروع کردیں۔ دارالحکومت میں پروپیگنڈا شروع کردیا گیا کہ تخت خوارزم کا اصل وارث قطب الدین ازلاق ہی ہے اور یہ کہ جلال الدین نے اس کا حق غضب کرلیا ہے۔ آہستہ آہستہ قطب الدین نے اپنے ہم خیال ساتھیوں کا گروہ منظم کرلیا۔
ادھر سمر قند میں چنگیز خان کو یہ اطلاع ملی کہ خوارزم شاہ کا انتقال ہوگیا ہے اور جلال الدین کی تخت نشینی پر اختلافات پیدا ہورہے ہیں تو اس نے اور گنج پر حملہ کرنے کیلئے یہ وقت بہترین خیال کرتے ہوئے اپنے لشکر کو پیش قدمی کرنے کا حکم دے دیا۔
جلال الدین کی دارالحکومت سے روانگی
اور تاتاریوں کی آمد :
دارالحکومت اور گنج میں اپنے خلاف سازشوں کو محسوس کرتے ہوئے جلال الدین نے عالم اسلام کی سر بلندی کے خاطر ایک عظیم فیصلہ کیا۔ اسے علم تھا کہ تاتاری کسی بھی وقت اور گنج پر حملہ آور ہوسکتے ہیں۔ خوارزم کی افواج پہلے ہی تتر بتر ہوچکی تھی۔ مٹھی بھر افراد اور گنج کے دفاع کیلئے بچے تھے اگرچہ دیگر شہروں سے اور گنج میں جلال الدین کی موجودگی کی اطلاع ملتے ہی رضاکاروں کی آمد شروع ہوگئی تھی مگر پھر بھی صورت حال غیر اطمینان بخش تھی۔ ایسے میں جلال الدین نے قطب الدین سے لڑنے کے بجائے کہ اس میں مسلمانوں کا سراسر نقصان تھا ایک عجیب قدم اٹھایا۔ اس نے دارالحکومت قطب الدین کیلئے خالی چھوڑنے کا فیصلہ کرتے ہوئے خاموشی کے ساتھ انخلاء کا فیصلہ کرلیا۔ امت مسلمہ کی خاطر اقتدار چھوڑنے کی روایت تاریخ میں بہت کم ملتی ہے۔ مگر جلال الدین خوارزم شاہ نے آپس کے خون خرابے سے بچنے کے خاطر اور گنج کا دفاع قطب الدین ازلاق کے سپرد کرتے ہوئے اور گنج سے روانگی اختیار کرلی۔
جلال الدین کے جاتے ہی قطب الدین کو تاتاریوں کی آمد کی اطلاع ملی۔ اب وہ گھبرا یا کہ اکیلا کس طرح تاتاریوں کا مقابلہ کرے ۔ قطب الدین نے شاہی خزانہ سمیٹا اور اپنے اہل خانہ کو ساتھ لے کر دارالحکومت سے فرار ہوگیا۔ اس کے جاتے ہی تاتاری لشکر باجی نویان کی قیادت میں اورگنج پہنچ گیا۔ ابن خلدون کے مطابق اورگنج سے جلال الدین کی روانگی کے تین دن بعد ہی باجی نویان لشکر جرار کے ساتھ وہاں موجود تھا۔
پہلا معرکہ:
محاصرہ شروع ہوتے ہی ایک دن تاتاریوں نے شہر کے نواح میں موجود اہل شہر کے مال مویشی ہانک کر تاتاری لشکر کی سمت لے جانے شروع کئے اور گنج والوں نے یہ دیکھ کر تاتاریوں کا پیچھا شروع کردیا۔ کئی میل دور تک مسلمانوں نے تاتاریوں کا تعاقب کیا اور پھر گھات لگائے تاتاریوں نے مسلمانوں کو اچانک گھیر لیا اور زبردست حملہ کردیا۔ گھمسان کی لڑائی ہوئی اور اس میں دونوں فریقوں کا سخت جانی نقصان ہوا۔ بالآخراہل اور گنج شہر کی طرف پسپائی اختیار کرتے ہوئے واپس ہوئے۔ تاتاری پیچھا کرتے ہوئے شہر کے اندر تک داخل ہوگئے مگر پھر واپس آگئے ۔ اگلے دن باجی نویان نے فصیل پر بھر پور حملہ کردیا۔ مگر اس حملے کو اورگنج کے سپاہ نے ناکام بنا دیا۔
چنگیز خان کے بیٹوں کی آمد:
چنگیز خان کو معلوم تھا کہ اورگنج کا دفاع بہت سخت انداز میں کیا جائے گا اور پھر شہر کی فصیل کی مضبوطی کا بھی اسے علم تھا ۔چنانچہ اس نے اپنی پوری قوت اور گنج کی طرف روانہ کردی۔ سب سے پہلے اور گنج کا محاصرہ کرنے والی سپاہ سے چنگیز خان کا بیٹا اوکتائی خان اپنی سپاہ کے ساتھ آکر مل گیا۔ اس کے بعد مشہور تاتاری سالار بقرجن نویان ، چنگیز خان کا دوسرا بیٹا چغتائی خان اور پھر بڑا بیٹا جوجی خان اپنے اپنے لشکر کے ساتھ پہنچتے چلے گئے ۔ اسی طرح تاتاری لشکر کی تعداد کئی لاکھ تک پہنچ گئی۔ کہا جاتا ہے کہ محاصرے میں چنگیز خان نے جتنی سپاہ استعمال کی اتنی سپاہ کسی اور حملے میں استعمال نہیں کی۔ علامہ ابن اثیرؒ لکھتے ہیں، ’’چنگیز خان نے لشکر کا جو حصہ اور گنج بھیجا تھا وہ باقی تمام حملوں کی فوجوں سے بڑا تھا۔‘‘
امیر خمار ترکی کی مزاحمت اور تاتاریوں کی طرف
سے فصیل پر تنوں کی بارش:
اور گنج میں اب شاہی خاندان کا کوئی بڑا موجود نہ تھا ۔ اہلِ شہر نے اب خمار ترکی نامی امیر کو حاکم تسلیم کرتے ہوئے اس کی قیادت میں تاتاریوں کے خلاف مزاحمت شروع کردی۔ سمر قند اور بخارا کی نسبت اورگنج میں تاتاریوں کو بہت نقصان اٹھانا پڑا۔ خمار ترکی کے شب خون حملوں اور چھاپہ مار دستوں نے تاتاریوں کو بہت نقصان پہنچایا۔ دوسری طرف فصیل شہر کو نقصان پہنچانے کے لیے تاتاریوں نے درختوں کے تنے جمع کئے اور انہیں پانی میں بھگو کر بھاری کرلیا اور پھر ان تنوں کو منجیقوں کے ذریعے فصیل کی دیوار پر برسانا شروع کردیا۔ اس بارش سے کئی جگہ شگاف پڑ گئے۔ مگر شہر والوں نے ان شگافوں کو فوراً بند کردیا۔ اس کے علاوہ منجیقوں سے آتش گیر مادہ بھی برسایا جاتا رہا۔
شیخ نجم الدین کبریٰ ؒ
اور گنج کا ذکر شیخ نجم الدین کبریٰ ؒ کے بغیر نا مکمل رہے گا۔ آپ سلسلہ کبرویہ کے بانی اور وقت کے مشہور صوفی بزرگ تھے۔ آپ کا شمارماورالنہر کے صاحبِ طریقت بزرگوں میں ہوتا تھا۔ آپ ایک عرصے سے اورگنج میں مقیم تھے۔ تاتاری حملے سے قبل آپ نے اپنے خلفاء کی مجلس طلب کی اور ان سے فرمایا کہ ’’عنقریب ایک فتنہ اس شہر پر نازل ہونے والا ہے جس سے ہر چیزبرباد ہوجائے گی، لہٰذا تم سب لوگ اپنے اپنے علاقوں کی طرف نکل جاؤ اور یہ شہر چھوڑدو۔ ‘‘
آپ کے ایک خلیفہ نے کہا کہ حضرت آپ بھی ہمارے ساتھ چلیں جس پر شیخ نجم الدین کبریٰ ؒ نے فرمایا کہ مجھے حکم نہیں ہے اور میں یہیں شہید ہوگا۔ سوال کیا گیا کہ حضرت آپ اس فتنے کے فرو ہوجانے کی دعا کیوں نہیں کرتے؟ جس پر شیخ نے جواب دیا کہ یہ مشیت ایزدی ہے اور اسے کوئی نہیں ٹال سکتا ۔ جامع التواریخ کے مصنف نے اس واقعے کو تفصیل سے درج کیا ہے۔
بہر حال شیخ نے فتنہ تاتار کے وقت اور گنج سے ہجرت نہیں کی اور جب چنگیز خان کے بیٹوں نے اورگنج کا محاصرہ کرلیا تو چنگیز زادوں کو شیخ کی کرامات کے بارے میں بتایا گیا۔ چنگیز زاد ے ان باتوں سے متاثر ہوئے اور انہوں نے شیخ نجم الدین کبریٰ کو پیغام بھیجا کہ آپ کو امان دی جاتی ہے اور آپ فوراً شہر سے نکل جائیں کیونکہ عین ممکن ہے کہ ہماری مہم کا انجام غارت گری کے سوا کچھ نہ ہو۔
اس پر شیخ نجم الدین کبریٰ ؒ نے وہ جواب دیا ہے جسے آج تک تاریخ میں سنہرے حرفوں سے لکھا جاتا ہے ۔ آپ نے فرمایا:
’’اس شہر میں میرے مریدین رہتے ہیں، انہیں چھوڑ کر اگر میں چلا گیا تو اللہ تعالیٰ کو کیا منہ دکھاؤں گا؟‘‘
اس پر تاتاریوں نے آپ کو اپنے ساتھ دس افراد کی جان بخشی کی پیشکش کی جسے آپ نے قبول نہیں کیا۔ اس پر آپ کو سو افراد کو ساتھ لے جانے کی پیش کش کی گئی جسے آپ نے پھر منع فرمادیا۔ آخر میں چنگیز خان کے بیٹوں نے شیخ سے کہا کہ آپ اپنے ساتھ ایک ہزار افراد لے جائیں ہم کوئی تعرض نہیں کریں گے ، جس پر آپ کا جواب تھا:
’’یہ کیسے ممکن ہے کہ جس قوم کے ساتھ میں نے سکون کے ستر سال گزارے ہیں، مصیبت کے وقت میں انہیں چھوڑ کر چلاجاؤں ۔ میری غیرت مجھے اس بات کی اجازت نہیں دیتی۔ ‘‘(جامع التواریخ)
چنانچہ شیخ نجم الدین آخر وقت تک اور گنج میں رہے اور پھر تاتاریوں سے جہاد کرتے کرتے شہید ہوگئے۔اس طرح شیخ نے حمیت اور غیرت کی وہ اعلیٰ مثال قائم کی جس کی نظیر ملنا مشکل ہے۔
سفاکیت اور درندگی کا انوکھا منصوبہ اور
چنگیززادوں میں اختلاف:
عالم اسلام پر تاتاریوں کی جانب سے کی جانے والی لشکر کشی تقریباًدو دہائیوں سے زیادہ عرصے پر محیط ہے۔ اس لشکر کشی کے دوران تاتاریوں نے سفاکیت اور درندگی کی وہ مثالیں قائم کیں کہ جن کی نظیر نہ ان سے پہلے کہیں ملتی ہے اور نہ ہی ان کے بعد دنیا میں کسی نے اپنی مفتوح اقوام سے ایسا سلوک کیا۔ تاتاریوں نے عام اور نہتے مسلمانوں سے انتہائی بہیمانہ سلوک کیا۔ قتل و غارت گری کی وہ داستانیں رقم کیں کہ انہیں لکھتے ہوئے آج کا مورخ بھی کانپ اٹھتا ہے۔ شہر فتح کرنے کے بعد پوری پوری آبادیوں کو تہہ تیغ کردیا گیا۔خصوصاً وہ شہر جہاں مسلمانوں نے زیادہ مزاحمت دکھائی ان علاقوں میں تو انسانوں کے ساتھ ساتھ کتے اور بلیوں کو بھی زندہ نہ چھوڑا۔ پوشیدہ خزانوں کی برآمدگی کے لیے مشتبہ مالدار افراد پر تشدد کے نت نئے طریقے ایجاد کیے گئے۔
مقتولین کی کھوپڑیوں کے مینار بنانا ان کا مشغلہ بن گیا تھا۔ شہر کے باسیوں سے تمام مال و دولت چھینتے ، ان کا قتل عام کرتے، اس کے بعد ان کے مکانات کو آگ لگادیتے اور اس طرح تہہ خانوں میں چھپے ہوئے لوگ بھی زندہ جل کر ہلاک ہوجاتے۔ سمر قند بخارا، قوقند، اترار اور دیگر شہروں میں عام مسلمانوں اور جنگی قیدیوں سے یہی سلوک کیا گیا۔ حد تو یہ ہے کہ جن شہروں کو امان دی گئی اور باقاعدہ معاہدہ کرکے قبضہ کیا گیا ان شہروں میں بھی کسی نہ کسی بہانے سے یہی سلوک کیا گیا۔ ایسے مواقع پر وہ مسلمان عمائدین جو غداری کرکے تاتاریوں سے ساز باز کرلیتے انہیں بھی بعد میں قتل کردیا جاتا۔
سمر قند میں بر شمشاش خان نے عین لڑائی کے دوران اپنی تیس ہزار کی سپاہ کے ساتھ تاتاریوں سے معاہدہ کرکے مسلم لشکر سے علیحدگی اختیار کرلی۔ بعد میں کچھ دن تو برشمشاش خان اور اس کی سپاہ سے عمدہ سلوک روا رکھا گیا۔ مگر ایک رات اچانک حملہ کرکے برشمشاش خان اور اس کی تیس ہزار کی سپاہ کو گاجر مولی کی طرح کاٹ کر رکھ دیا گیا۔
(روضتہ الصفا کے مصنف نے یہ واقعہ تفصیل سے لکھا ہے)
مقصد اس تمہید کا یہ تھا کہ اپنے قارئین کو یہ بتایا جائے کہ اور گنج والوں کے ساتھ تاتاریوں نے وہ سلوک کیا جو باقی اور کسی جگہ نہیں کیا۔ اس شہر کی تباہی کیلئے وہ سامان پیدا کئے گئے کہ جن کے باعث شہر میں موجود انسانوں کے ساتھ چرند پرند، حیوانات، باغات، ہریالی اور یہاں تک کہ تمام مکانات اور عمارتیں بھی نیست و نابود ہوگئیں۔ یعنی کہ اس شہر کا نام و نشان ہی مٹ گیا ۔ بعد میں اور گنج کے نام سے الگ شہر دوسری جگہ بسایا گیا۔
تفصیل اس سانحے کی کچھ اس طرح ہے کہ اورگنج کا شہر دریائے آمو یا دریائے جیحوں کے کنارے آباد تھا۔ تاتاری لشکر کی مدد کیلئے چنگیز خان نے اپنے تین بیٹے جوجی، اوکتائی اور چغتائی خان اپنے اپنے لشکروں کے ساتھ بھیج دیے تھے کیونکہ دارالحکومت ہونے اور مضبوط فصیل شہر کے باعث چنگیز خان سخت مزاحمت کی توقع رکھتا تھا۔ اس طرح اور گنج کے باہر تاتاریوں کا عظیم الشان لشکر جمع ہوگیا۔ چغتائی خان نے اس افرادی قوت کو دریائے آمو کا رُخ تبدیل کرنے کیلئے استعمال کرنے کا منصوبہ بنایا۔چغتائی خان نے ارد گرد کے علاقوں میں موجود مسلمان قیدیوں کو جمع کیا اور ان کے ساتھ تاتاریوں کو لگا کر دریا میں پتھروں کا بند باندھنا شروع کردیا کہ اس طرح دریا کا رخ تبدیل ہوجاتا اور گنج کا شہر پانی میں غرق ہوجاتا ۔ چغتائی خان نے سپاہ کی بڑی تعداد اس کام پر مامور کردی۔ اس موقع پر جوجی خان نے اس منصوبے کی مخالفت کردی۔ اس نے کہا، ’’یہ شہر بہت سر سبز اور خوبصورت ہے اور مزید یہ کہ خاقان اعظم چنگیز خان نے یہ شہر مجھے بخش دیا ہے۔ لہٰذا اس کے ساتھ یہ سلوک نہ کیا جائے۔ ‘‘چغتائی خان نہیں مانا اور دونوں بھائیوں میں اختلاف پیدا ہوگیا ۔ مگر اس دوران دریا پر بند باندھنے کا کام چلتا رہا۔ باہمی اختلاف کے باعث تاتاری لشکر کا نظم و ضبط کمزور پڑگیا اور ان کے حملوں میں وہ قوت نہ رہی ۔ تاتاریوں کو کمزور پڑتا دیکھ کر مسلمانوں نے حملے تیز کردئیے اور تاتاری مقتولین کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہونے لگا۔
تولی خان کی آمد
چنگیز خان اس دوران طالقان کے محاصرے میں مصروف تھا کہ اسے اس صورتحال کی اطلاع ملی۔ اس کے جاسوس نے بتایا کہ جوجی اور چغتائی کی چپقلش کے باعث تاتاریوں کا جانی نقصان ہورہا ہے۔ چنگیز خان نے فوراً اس صورتحال کو سنبھالنے کیلئے اپنے چوتھے بیٹے تولی خان کو اورگنج روانہ کیا اور اپنا ایک مکتوب اوکتائی خان کے لیے بھیجا جس میں اوکتائی خان کو حکم دیا گیا تھا کہ وہ حکمت سے کام لے کر جوجی خان اور چغتائی خان کے درمیان صلح کروائے۔ تولی خان اور گنج پہنچ گیا اور چنگیز خان کی ہدایات کے عین مطابق اوکتائی خان جوجی اور چغتائی کے درمیان صلح کروانے میں کامیاب رہا اور اس طرح تاتاری نئے جوش اور ولولے کے ساتھ حملہ آور ہوگئے۔
آخری معرکہ
تاتاریوں کا نیا انداز دیکھ کر مسلمانوں نے بھی شہر سے باہر نکل کر حملوں میں تیزی کردی۔ فصیل کی اوپر اور دروازوں کے ساتھ ساتھ دو بدو لڑائیاں شروع ہوگئیں۔ اورگنج میں مسلمانوں نے بڑی بے جگری سے دفاع کیا اور تاتاری سپاہ کی بڑی تعداد قتل کی۔ شہر کے باہر تاتاریوں کی لاشوں کے انبار لگ گئے مگر ان کی تعداد اس قدر تھی کہ پھر بھی اور گنج والے کمزور ہوتے چلے گئے۔
کہا جاتا ہے کہ اورگنج کے سقوط کے بعد اسکے نواح میں جگہ جگہ تاتاری لشکر کے مقتولین کی باقیات تقریباً سو سال بعد تک موجود رہیں۔ اور گنج میں جتنے تاتاری مارے گئے اتنے کسی اور جگہ قتل نہیں ہوئے ۔ جامع التواریخ جو سقوط اور گنج کے سو سال بعد لکھی گئی اس کے صفحہ نمبر 313 میں مصنف فضل اللہ ہمدانی رقم طراز ہیں۔
’’تاتاریوں کی ہڈیوں کے جمع کرنے سے جو ٹیلے وجود میں آئے تھے ان کے آثار اب بھی نواحی علاقوں میں نظر آتے ہیں۔ ‘‘ (جامع التواریخ)
مگر تقدیر کو کچھ اور منظور تھا۔ محاصرے کے تقریباً چھ ماہ بعد آخر کار اور گنج کی فصیلوں کے شگاف سے تاتاری شہر میں داخل ہوگئے۔ شہر کے اندر بھی مختلف محلے الگ الگ دفاعی تدابیر اختیار کئے ہوئے تھے۔ ہر محلے کی اپنی فصیل بھی موجود تھی۔ تاتاری ایک کے بعد ایک محلے پر قبضہ کرتے چلے گئے۔ ہر محلے میں لڑائی شروع ہوگئی۔ عورتیں اور بچے گھر کی چھتوں سے تاتاری لشکر پر حملہ کر رہے تھے۔
مفتی علاؤ الدین خیوطی کا وفد یہ صورت حال دیکھ کر اہل اور گنج نے پہلی مرتبہ تاتاریوں سے امان طلب کی ۔ عمائدینِ شہر کا وفد مفتی علاؤالدین خیوطی کی سربراہی میں جوجی خان کے سامنے پیش ہوا اور شہر والوں کے لیے امان طلب کرنے کا خواہاں ہوا۔ مفتی صاحب نے جوجی خان سے کہا:
’’ہم آپ کی دہشت تو دیکھ چکے ہیں، اب ہمیں اپنے رحم و کرم کا نظارہ بھی کروائیں۔ ‘‘
جوجی خان نے جواب دیا،
’’دہشت تو تم لوگوں نے پھیلا رکھی ہے کہ میرے سپاہیوں کی لاشوں کے ڈھیر لگا دئیے ہیں، اپنی دہشت تو میں تم لوگوں کو اب دکھاؤں گا۔‘‘
اس طرح یہ وفد ناکام ہوگیا اور شہر والوں کی درخواست مسترد کردی گئی۔
شیخ نجم الدین کبریٰ ؒ کی شہادت
شیخ نجم الدین کبریٰ کو جب اطلاع ملی کہ جنگ اب شہر کے اندر شروع ہوگئی ہے تو آپ اٹھ کھڑے ہوئے ۔ مریدین نے کہا کہ حضرت اس وقت باہر نکلنا خطرناک ہوگا، آپ نے جواب دیا ، ’’میں تو بس اپنے سفید بال شہادت کے رنگ سے رنگنا چاہتا ہوں۔ ‘‘
شیخ کے اعلا ن کو سن کر ان کے مریدین ان کے ساتھ باہر آگئے اور آپ نے اس مٹھی بھر جماعت کے ساتھ تاتاریوں پر حملہ کردیا، پتھروں کا ایک تھیلا آپ کے پاس تھا جس سے اسّی سالہ یہ ولی کامل تاتاری سپاہ پر حملہ کرکے اصحاب بدر کی یاد تازہ کر رہا تھا،جلد ہی یہ پتھر ختم ہوگئے تو آپ نیزہ تان کر تاتاریوں کے مجمع میں گھس گئے اور کئی سپاہیوں کو ہلاک کردیا۔ ایسے میں ایک تیر آپ کے سینے میں پیوست ہوگیا۔ مورخ لکھتا ہے کہ آپ نے وہ تیر اپنے سینے سے نکال کر آسمان کی طرف اُچھا ل دیا، اور فرمایا:
’’میرے مالک میں تیری رضا میں خوش ہوں ۔‘‘
اس طرح شیخ نجم الدین کبریٰ ؒ نے جام شہادت نوش کیا ، کہا جاتا ہے کہ اس زخمی حالت میں بھی آپ نے ایک تاتاری پر حملہ کرکے اس کے ہاتھ میں موجود تاتاری علم کو چھیننے کی کوشش کی اور تاتاری علم کو ہاتھوں میں اس طرح مضبوطی سے پکڑلیا کہ وہ شہادت کے بعد بھی شیخ کے ہاتھوں سے جدا نہ ہوا۔
مولانا جلال الدین رومی ؒ نے جو شیخ نجم الدین کبریٰ ؒ کے خلیفہ مولانا بہاؤ الدین ؒ کے فرزند تھے اس واقعے پر فرمایا:
’’بہ یکے دست مئے خالصِ ایمان نوشند
بہ یکے دست دگر پرچمِ کافر گیرند‘‘
ترجمہ: اللہ کے عاشق ایک ہاتھ سے ایمان کی خالص شراب نوش کرتے ہیں اور دوسرے ہاتھ سے کافر کا پرچم تھام لیتے ہیں۔)
تباہی شروع ہوتی ہے
آخری حملے کے تقریباً ایک ہفتے بعد تاتاری شہر پر مکمل طور پر قابض ہوگئے مزاحمت دم توڑ چکی تھی۔ اب تباہی اور بربادی کا اصل دور شروع ہوا ، جیسا کہ شروع میں عرض کیا گیا کہ خوارزم بھر سے پناہ گزین اور گنج میں جمع ہوگئے تھے ان میں لاتعداد اہل ہنر دفن بھی موجود تھے۔ ان کے علاوہ بھی اورگنج میں بڑی تعدادمیں ہنر مند طبقہ موجود تھا۔ تاتاریوں نے آنے والے وقت کی ضرورت کے حساب سے ہنر مندافراد کو قیدی بناتے ہوئے الگ کردیا۔ اسی دوران شہر میں لوٹ مار کا دور چلتا رہا۔ امیر اور دولت مند افراد پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے تاکہ وہ پوشیدہ مال و دولت تاتاریوں کے حوالے سے کردیں۔ اس سلسلے میں مکر و فریب سے بھی کام لیا گیا۔ جان بخشی کے جھوٹے وعدے بھی کئے گئے ۔ غرض جب اورگنج میں لوٹنے کو کچھ باقی نہ بچا تو قیدیوں کے علاوہ تمام مرد و عورت اور بچوں کا قتل عام شروع کیا گیا۔ تلواریں، نیزے، چاقو غرض ہر ہتھیار اور گنج کے لوگوں پر استعمال کیا گیا ۔ یہاں تک کہ ایک بھی زندہ انسان باقی نہیں بچا۔ جامع التواریخ میں اورگنج کے مقتولین کی تعداد بارہ لاکھ شمار کی گئی ہے۔ لکھا گیا ہے کہ اس قتل عام میں پچاس ہزار تاتاریوں نے حصہ لیا۔
اب تاتاریوں نے اپنے اگلے منصوبے پر عمل کرنا شروع کیا جیسا کہ عرض کیا گیا تھا کہ قیدیوں اور سپاہیوں کی ایک بڑی تعداد دریائے آمو کا رُخ تبدیل کرنے کے لیے پتھروں کا بند تعمیر کررہی تھی۔ جوجی خان اور چغتائی خان کی چپقلش کے دوران بھی اس منصوبے پر کام چلتا رہا۔ بعد میں جب اوکتائی خان نے باہمی اختلاف ختم کیا تو اس منصوبے پر کام اور تیز کردیا گیا۔ اب جب اورگنج کا قتل عام مکمل ہوگیا تو باقاعدہ طور پر دریائے آمو کا رخ تبدیل کرکے اورگنج شہر کی جانب کردیا گیا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے پورا شہر پانی میں غرق ہوگیا!
تباہی اور بربادی کی یہ وہ مثال ہے جو انسانی تاریخ میں شاید ہی اور کہیں ملے کہ ایک بھرے پڑے شہر کی آبادی کو قتل کرکے اسے پانی میں اس طرح غرق کردیا گیا کہ تمام جاندار ، نباتات، کیڑے ، مکوڑے اور عمارتیں دریا کی تند و تیز موجوں میں غائب ہوگئیں۔ اس طرح مکانات کے خفیہ کمروں اور تہہ خانوں میں پوشیدہ انسان بھی غرق ہوگئے۔ یہ انسانی تاریخ کا وہ المیہ تھا کہ جس نے سنا اسے اپنے کانوں پر یقین نہیں آیا کہ اس طرح بھی ممکن ہے ۔
ابن اثیر ؒ اپنی تاریخ ’’الکامل فی التاریخ‘‘ میں لکھتے ہیں :
’’تاتاریوں نے اس شہر کو مکمل طور پر غرق کردیا، عمارتیں تہہ و بالا ہوگئیں، ان کی جگہ پانی نے لے لی، دوسرے شہروں میں تو کئی لوگ بچ جاتے تھے لاشوں کے نیچے چھپ کر یا تہہ خانوں میں پناہ لے کر مگر اس شہر میں جو بچ گیا اسے پانی نے غرق کردیا یا عمارتوں کے گرنے سے ہلاک ہوگیا۔ ‘‘
*۔۔۔*۔۔۔*
12 تبصرے
جواب چھوڑ دیں
اہم بلاگز
چراغ تو روشن ہیں
پی ٹی اے کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سوشل میڈیا صارفین کی تعداد 16 کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ اس رپورٹ میں مکمل سچائی ہو پھر بھی ٹی وی بہرحال ایک مقبول ذریعہء مواصلات ہے۔ شام کے وقت یا رات نو بجے ٹی وی پر ٹاک شوز یا head lines ملاحظہ کرنے والے افراد کا تناسب کم نہیں ہوا۔ آج جب شام آٹھ بجے ٹی وی آن کیا تو اتفاق سے ٹاک شو کا موضوع تھا انٹرا پارٹی انتخابات اور پارٹی کی قیادتیں۔ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ، پی ٹی آئی سبھی کے انٹرا پارٹی الیکشن کے احوال چل رہے تھے۔ پھر نمایاں قائدین کے نام لیے گئے
پیپلز پارٹی:- ذوالفقار علی بھٹو، بےنظیر بھٹو، زرداری، بلاول بھٹو، آصفہ بھٹو، پارٹی قیادت کے نمایاں افراد ۔
مسلم لیگ نون:- نواز شریف، شہباز شریف، حمزہ شہباز، مریم نواز ۔
پی ٹی آئی:- عمران خان ہی موءسس اوروہی قائد انہی کے دم خم سے پارٹی ہے۔ غیر مشروط، عقیدت اور اتباع کا محور بس عمران خان کی شخصیت ہے، اختلاف ہے تو عمران خان سے، اتفاق ہے تو عمران خان سے۔
مردِ واحد یا پھرایک خاندان۔ بس ہر پارٹی میں اسی کا اجارہ ہے۔ کس منہ سے یہ لوگ جمہوریت کا نام لیتے ہیں۔ کبھی سوچا آپ نے؟؟ ووٹ دینے سے پہلے سوال کیا کبھی آپ نے ان، مقبول لیڈرز، سے؟ اکتائے دماغ کے ساتھ چینل بدلا تو حافظ نعیم الرحمن کے حلف کی خبر چل رہی تھی۔ سارامنظر ہی دلکش لگا۔ بھیگی آنکھیں، کپکپاتے الفاظ دعاؤں کی التجا. یہ ہے حافظ نعیم الرحمن کا حلف ۔ دماغ میں سوال اٹھا "کیا یہ شخص سالہا سال سے نسل در نسل اس جماعت کا گدی نشین ہے؟"
نہیں جی اس سے پہلے ایک درویش صفت، روشن کردار والا، ہمت و جہد کا استعارہ۔۔۔ سراج الحق تھا اسی ذمہ داری پہ ۔۔۔ تو کیا سراج الحق کو عوامی مقبولیت، یہ عہدہ، کروڑوں لوگوں کی دعائیں ان کے باپ دادا نے دلوائیں؟ نہیں جی، وہ تو حلف اٹھانے سے چند دن پہلے تک انہیں خبر تھی نہ خواہش اور ان سے پہلے جو اس منصب پر تھے وہ تھے سید منور حسن، وہ سید، یہ پٹھان، وہ کراچی سے، یہ کے پی سے، کیا سید منور حسن اپنے سے گزشتہ امیر جماعت کے رشتے دار تھے؟
نہیں، وہ بھی اول الذکر سبھی کی طرح ایک عام کارکن تھے۔
نعیم صدیقی (رحمہ اللہ علیہ) اپنی تصنیف "المودودی" میں لکھتے ہیں
"۔۔۔ کتنا سخت لمحہ ہے کہ اس شخص کے جسد کی امانت کو مٹی کے حوالے کرنے کے بعد میں اسی کی جدائی کاذکر چھیڑ رہا ہوں۔ ترجمان القرآن کی ادارت کرنے اوراس کے ذریعے دور دراز تک ایمان وحکمت کا نور پھیلانے والی ہستی نگاہوں سے اوجھل ہوچکی ہے۔ اس کی کرسی خالی ہے وہ اپنے تاریخی کمرے میں بھی موجود نہیں اور اہلخانہ کی مجلس میں بھی شریک نہیں۔اس کی کتابیں جیسے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اسے ڈھونڈ رہی ہیں۔۔۔"
قارئین! نعیم صدیقی کا کرب جب ان الفاظ میں ڈھل رہاتھا تو شائد انھیں بھی اندازہ نہیں تھا کہ یہ تحریک پھل پھول لائے گی ، وسعت اختیار کرے گی۔ بلاشبہ...
تاریکی میں ڈوبتی دنیا
معاشرہ افراد کی مرہونِ منت ترتیب پاتا ہے، افراد اپنی تربیت بہترین اطوار پر کرنے کی کوشش میں سرگرداں رہتے ہیں اور بہتر سے بہتر کی تلاش جاری ہے۔ تہذیبوں کا مطالعہ کیا جاتا ہے اور ان دفن شدہ تہذیبوں میں سے ان کے رہن سہن اور دیگر طور طریقوں پر تحقیق کی جاتی ہے اور باقاعدہ یہ ثابت بھی کیا جاتا ہے کہ ان تہذیبوں میں ایسا ہی ہوتا ہوگا۔ وقت کا تو نہیں، انسان کے طور طریقے ہر دور میں بدلتے رہتے ہیں۔ دنیا کی تاریخ انسانیت کی تذلیل جیسے واقعات سے بھری پڑی ہے، یہ جان کر دکھ ہوتا ہے کہ ایک انسان دوسرے انسان کو تکلیف دینے سے کسی قسم کی عبرت حاصل نہیں کرتا یا پھر ہر انسان اس سوچ کا حامل ہے کہ جو وہ کر رہا ہے وہ صحیح ہے اسے ویسا ہی کرنا تھا جیسا وہ کر رہا ہے لیکن وقت سوچ میں تبدیلی لے آتا ہے پھر پچھتاوالادے لادے زندگی گزر جاتی ہے۔
ہمارے پیارے بنی ﷺ کے چچا کہا کرتے تھے کہ ہمارا بھتیجا جو کہہ رہا ہے وہ بلکل صحیح ہے لیکن ہم اپنے آباؤ اجداد کو کیسے ترک کردیں۔ آج احساس کو بھی شرمندگی کا سامنا ہوگاکیونکہ وہ اپنی شدت کھوچکا ہے اور کسی اندھیری کال کوٹھری میں سسکیاں لے رہا ہوگا۔ ہم مادہ پرست لوگ ہیں جہاں احساسات کا تعلق کیمرے کی آنکھ کو دیکھانے کیلئے تو امڈ آتے ہیں لیکن حقیقی دکھ اور تکلیف سے باز رہنے کا ہنر خوب جانتے ہیں۔ دنیا اتنی رنگ برنگی ہوگئی ہے کہ پلک جھپکتے میں منظر بدل جاتا ہے اور وہ سب سامنے آموجود ہوتا ہے جو ہم دیکھنا چاہتے ہیں، منظر بدل لیتے ہیں۔
اب کسی کے لئے بھی ساری دنیا میں یہ کہنا ناممکن ہے کہ دنیا ایک خوبصورت جگہ ہے اور یہاں رہنے کیلئے کسی خوبصورت کونے کا انتخاب کر کے وہاں رہ لیا جائے، انسان نے اپنی تباہی کیلئے ایسا ایسا سامنا تیار کر رکھا ہے کہ جب اسے استعمال کیا گیا تو وہ وہاں بھی پہنچ جائے گا جہاں اس کی ضرورت نہیں ہوگی، یعنی جب تباہی کا عمل شروع ہوگا تو کوئی بھی اس تباہی سے کیسے محفوظ رہ سکے گا۔ دنیا نے ایک نا ایک دن ختم ہونا ہے اور مسلمانوں کے عقیدے کیمطابق اب قیامت کے قریب کی نشانیاں ظاہر ہونا شروع ہوگئی ہیں، اب یقینا قیامت آئی کھڑی ہے۔ فلسطین میں ہونے والا ظلم کسی ایسی ہی منزل کی جانب حتمی پیش قدمی کہا جاسکتا ہے۔ کوئی بولنے سے ڈر رہا ہے اور کوئی ایسے ڈھڑلے سے بول رہا ہے کہ اسے گولی سے مارا جا رہا ہے، ظالم اپنے قبیلے کے پر امن لوگوں کو مارنے سے بھی نہیں چوک رہا۔ پچھلے زمانوں میں یہ کام مخصوص لوگوں کے ذمے ہوا کرتا تھا لیکن آج تو سب، سب کچھ کرنے کیلئے پرتول رہے ہیں۔
پاکستان تو وہ ملک ہے جہاں بجلی کی تخفیف قوت (لوڈشیڈنگ)اس قدر ہوتی ہے کہ ملک کا اکثر حصہ تاریکی میں ڈوبا رہتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ بہت سارے ایسے امور ہیں جو ہمیں تاریکی...
۔23 مارچ کا یادگار دن
قوموں کی زندگی میں بعض لمحات بڑے فیصلہ کن ہوتے ہیں جو اپنے نتائج اور اثرات کے اعتبار سے خاصے دور رس اور تاریخ کا دھارا موڑنے کی اہلیت رکھتے ہیں، 23 مارچ کا یادگار دن ہماری قوم کیلئے بڑی اہمیت کا حامل ہے اسکی ایک تاریخی حیثیت ہے کہ سنہ 1940ء میں لاہور کے تاریخی شہر میں برصغیر کے تمام مسلمانوں کے نمائندوں نے قائد اعظم کی زیر صدارت ایک تاریخی اجتماع میں حصول پاکستان کی قرار داد منظور کی تھی۔ تا کہ برصغیر کے مسلمانوں کیلئے مسلم قومیت کی بنیاد پر ایک آزاد ملک حاصل کیا جا سکے۔ جس پر نہ غیر ملکی استعمار کے تاریک سائے پڑیں اور نہ ہی ہندو اکثریت اور چیرہ دستیاں مسلمانوں کے ارفع مقاصد کی راہ میں حائل ہونے پائیں۔ مسلمانان برصغیر اپنے لئے ایک الگ وطن اسی لئے چاہتے تھے جہاں قرآن و سنت کی تعلیمات کی روشنی میں وہ ایک مثال اسلامی معاشرہ تشکیل دیں جہاں اسلامی عدل و انصاف کا دور دورہ ہوا اور جو عصر حاضر میں سرمایہ داری نظام اور اشتراکیت کی قوتوں سے پسی ہوئی انسانیت کیلئے مشعل راہ ثابت ہو۔ اس عظیم مقصد کے لئے 23مارچ 1940ء کولاہور میں بادشاہی مسجد کے قریب ایک وسیع و عریض میدان میں لاکھوں مسلمان اکٹھے ہوئے اور بنگال کے وزیر اعلیٰ مولوی فضل حق نے ایک قرار داد پیش کی جس کی تائید تمام مسلمانوں نے دل و جان سے کر دی جس سے ان کی قسمت کا پانسہ پلٹ گیا۔ اس دن لاہور میں مسلمانان ہند نے اپنی منزل کا اعلان کیا تھا اور دو ٹوک الفاظ میں کہا تھا کہ ہم ہندوستان میں مسلمانوں کیلئے آزاد خطوں کی جدوجہد کا اعلان کرتے ہیں۔
23 مارچ کو قرار داد کی منظوری کے بعد قیام پاکستان کی جدوجہد فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکی تھی۔ قوم کو ایک واضح نصب العین مل چکا تھا اور خوش قسمتی سے قائد اعظمؒ جیسے مدبر قائد میسر تھے جن کی قیادت سحر انگیز اور ولولہ انگیز ہونے کے علاوہ سیاست میں صداقت اور دیانتداری کی علمبردار تھی۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے تک مسلمانان ہند مسلم لیگ کے پرچم تلے متحد ہو چکے تھے۔ 1945ء میں وائسرائے ہند لارڈ ویول نے مسلم لیگ اور مطالبہ پاکستان کی مقبولیت اور دوسری جماعتوں کی طاقت کا اندازہ کرنے کیلئے انتخابات کروائے۔ کانگرس کے ایماء پر بننے والے مسلمانوں کے نام نہاد متحدہ محاذ کی مخالفت کے باوجود مسلم لیگ کو تاریخی فتح حاصل ہوئی اور مسلم لیگ مسلمانان ہند کی نمائندہ جماعت بن کر سامنے آئی اور اس طرح حصول پاکستان کی منزل قریب سے قریب تر ہو گئی۔ اکتوبر 1946 ء میں ایک عبوری حکومت قائم کی گئی جس میں مسلم نمائندگان کی قیادت خان لیاقت علی خان نے کی ادھر حکومتی ایوانوں میں قائد اعظم ؒمسلمانوں کے سیاسی حقوق کے تحفظ اور قیام پاکستان کیلئے سیاسی جنگ لڑ رہے تھے تو دوسری طرف ہندو مسلم فسادات نے پورے ملک کو بری طرح اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ ان فسادات میں لاکھوں مسلمان شہید ہوئے۔3 جون کو تقسیم ہند کے...
وہ دانائے سبل ختم الرسل
قارئین کرام یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ختم نبوت مسلمانوں کا قطعی اجماعی عقیدہ ہے، اس پر بیسیوں آیاتِ قرآنیہ اور سیکڑوں احادیث صحیحہ میں دلائل موجود ہیں۔ قرآن مجید میں وارد لفظِ خاتم النبیین میں کسی قسم کی تاویل اور تخصیص کی گنجائش نہیں ہے۔ اس میں تاویل و تخصیص کرنے والا دراصل قرآن و حدیث کی تکذیب کرتا ہے۔
چودہ سو سال سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے باوجود امتِ محمدیہ کا آج بھی اس پر اجماع ہے کہ مدعی نبوت اوراس کے پیروکارخارج از اسلام اور مرتد ہیں۔ تاریخ گواہ ہے جب بھی کسی باغی، طالع آزما یا فتنہ پرداز نے اپنے آپ کونبی کہنے کی جرأت کی، مسلمانوں نے اس کے خلاف بھرپورجہاد کیا۔ ہر مسلمان کا غیر متزلزل عقیدہ اور ایمان یہ ہے کہ حضور سرورِ عالم سیدنا محمدﷺ آخری نبی ہیں۔ حضورﷺ کی تشریف آوری کے بعد نبوت کا سلسلہ ختم ہو گیا۔ حضور اکرمﷺ کے بعد کوئی نیا نبی نہیں آسکتا اور جو شخص اپنے نبی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور جو بدبخت اس کے اس دعویٰ کو سچا تسلیم کرتا ہے وہ دائرہ اسلام سے خارج اور مرتد ہے اور اسی سزا کا مستحق ہے جو اللہ تبارک تعالیٰ نے مرتدکے لیے مقررکی ہے۔
بحیثیت مسلمان ازروئے قرآن و حدیث ہمارا اس بات پر پختہ یقین ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے آخری نبی اور رسول ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی آخری کتاب قرآن مجید ان پر نازل فرماکر دین کی تکمیل کردی اور قرآن کو تا قیامت محفوظ بھی کردیا۔ سلسلہ نبوت پر ختم کی مہر بھی لگادی آپ صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی و رسول ہیں آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی امت آخری امت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نہ کوئی نبی ہے نہ رسول ہے نہ تھا نہ تا قیامت ہوگا۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت آخری امت ہےاور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں۔ قرآن مجید میں اس بات کی صراحت مختلف آیات میں ملتی ہے۔ جیسا کہ سورہ احزاب کی چالیسویں آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہارے مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور سب انبیا کے آخر میں (سلسلۂِ نبوت ختم کرنے والے) ہیں اور اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھنے والا ہے۔
بہت سی احادیث میں بھی ختم نبوت کی تصدیق موجود ہے۔ حدیث مبارکہ ہے۔ میری اور مجھ سے پہلے انبیاء کی مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص نے ایک گھر بنایا، اس کو بہت عمدہ اور آراستہ پیراستہ بنایا مگر ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑدی، پس لوگ جوق درجوق آتے ہیں اور تعجب کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں یہ اینٹ کیوں نہیں لگادی گئی۔ آپ نے فرمایا: وہ اینٹ میں ہوں اور میں انبیاء کرام کا خاتم ہوں۔ اسی مفہوم کی ایک اور حدیث مبارکہ حضرت جابر بن عبداللہ رضى الله تعالى عنه نے بھی روایت کی ہے۔(صحیح البخاری، کتاب المناقب، باب خاتم النّبیین...
الوداع نہیں کہتے
بی بی سی جماعت اسلامی کی خبریں عموما نہیں لگاتا۔ لیکن اس نے یہ خبر بہت کم وقت میں دے دی کہ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق صاحب اپنے امارات عہدے سے مستعفی ہوگئے ہیں۔ہم جانتے ہیں بی بی سی کس کا چینل ہے۔ان کی نیتیں بھی یہ تھیں کہ اس خبر سے جماعت کو کمزور شکست خوردہ سمجھا جائے گا۔یہ خبر بھی سنی کہ حافظ نعیم صاحب نے دھاندلی والی نشست لینے سے انکار کردیا۔جو کہتے تھے کہ سیاستدانوں کا کوئی اخلاق نہیں ہوتا۔ان دیانتدار اور اعلی کردار کے حامل سیاست دانوں کو دیکھیں۔ایک نے ہاتھ آئی سیٹ ٹھکرا دی۔ دوسرے نے پارٹی کی سربراہی چھوڑ کر ثابت کر دیا کہ جماعت اسلامی میں عہدوں کی نہیں بلکہ ویلیوز کی اہمیت ہوتی ہے۔اور بےشک یہ احساسِ ذمہ داری فقط جماعت اسلامی میں پایا جاتا ہے۔
ان دونوں واقعات سے ہوا یہ کہ جماعت اسلامی کی جمہوریت شورائیت اور واضح ہوگئی۔ عوام جماعت اسلامی سے مذید متاثر ہوگئی۔ جی ہاں جماعت اسلامی عوامی مقبولیت حاصل کر چکی ہے۔ہر شعبہ ہائے زندگی کے لوگ اس کی دیانت خدمت کے قائل ہوچکے ہیں۔اس الیکشن کے بعد یہ مغالطہ ختم ہوچکا ہے کہ جماعت کا ووٹ بینک نہیں بنتا جماعت اسلامی کا کم ازکم یہ نتیجہ اس الیکشن میں تھا کہ اسے بلوچستان میں دو سیٹیں کے پی کے میں تین اور سندھ میں پندرہ سے زیادہ ہوتیں اگر زبردستی انتقال ہوئی پارٹی کے نئے جیون کی تیاری نہ ہوتی۔ ووٹ جماعت کو ملا ہے کراچی عوام نے اسے منتخب کیا ہے یہ ہاری نہیں اسے ہروایا ہے۔
یہ استعفی دراصل ہمارے قائد کی اعلی ظرفی ہے۔ انہوں اخلاقی طور سے اچھا کیا۔یہ استعفی ہر اس کارکن پر طمانچہ ہے۔جو سمجھتے ہیں کہ اس میں جماعت کا اس کی قیادت کا کوئی قصور ہے۔ ان سب حالات میں کسی کا کوئی قصور نہیں نہ کارکن کا قصوروار ہے نہ ہی امیر کا قصور ہے۔سمجھنے کی بات ہے کہ جماعت کا مقابلہ وقت کے اصل فرعون سے ہے۔ سیکولر لبرلز ساری طاقتیں مل کر اس کے خلاف ہیں اسلام کے دشمن فرعون نمرود ابو جہل دجالی فتنے آسان ٹاسک کسی بھی دور میں نہیں تھے۔ہمارے دور کے فرعون طاقت میں قدیم فرعون سے کہیں آگے ہیں۔الیکٹرانک میڈیا جماعت کو نہیں دکھاتا۔پرنٹ میڈیا جماعت پسند اسلام پسند تحریر نہیں چھاپتا۔عوام اگر قبولتی ہے اصل نتائج نہیں دیے جاتے۔قیادت کا کیا قصور وہ کیا اپنی جان مار دیں۔اس الیکشن کو آپ صلح حدیبیہ سے جوڑ لیں یقین کریں جماعت کی مقبولیت میں اضافہ ہی ہوا ہے۔جس عوام نے جماعت کو ووٹ دیا وہ اس کی شکست پر حیران ہے۔ جان چکی ہے کہ دینی جماعتوں میں خطرہ صرف جماعت اسلامی ہے۔عوام نے کبھی کسی موروثی مذہبی لیڈر یا پیر کو یوں اپنے عہدوں سے مستعفی ہوتے نہیں دیکھا۔جماعت اسلامی عوام کے لیے حل ہے تو باطل نظام کے لیے روک ہی روک ہے۔
یہ جماعت اسلامی کے لیڈر کی اعلی قیادت ہے۔جس میں حافظ نعیم الرحمن، مشتاق احمد صاحب، اکبر چترالی اور مولانا ہدایت الرحمن جیسے ہیرے پیدا کیے اور چمکنے کے خوب مواقع دیے۔سراج صاحب آپ...
طنز و مزاح
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔
زندگی بدل گئی !
شوہر اچھا ہو بیوی بچوں کا خیال رکھتا ہو تو زندگی پرسکون ہوجاتی ہے مگر یہاں تو زبردستی نوکری پر بھیجو پھر خود بازار جاٶ ضرورت کا سارا سامان خود اٹھاٶ پھر گھر کی صفائی، کھانا بنانا، بچوں کو اسکول چھوڑنا اور لانا سارا دن اسی میں گزر جاتا ہے یہاں تک کے امّی سے بات تک کرنے کا ٹائم نہیں ملتا مہینوں گزر جاتے ہیں امّی سے ملاقات ہوئے۔
فائزہ نے دکھوں کا قصہ سنا کر سکون کا سانس لیا تو میں نے بھی تسلی دی اللہ آسانی کرے تمھارے لیئے۔آج پھر کئی مہینوں بعد فائزہ سے ملاقات ہوئی تو پتہ چلا وہ گھر خالی کر کے دوسرے محلے میں چلی گئی ہے کرائے داروں کے لیۓ یہی پریشانی ہے اللہ سب کو اپنا گھر نصیب کرے۔ فائزہ بڑی خوش اورپہلے سے بہت اچھی لگ رہی تھی خوش ہوکر بتانے لگی۔ میرے شوہر تو جی ایسے فرمابردار ہوئے ہیں کے بس پوچھو مت۔ ویسے میں نے پوچھا نہیں تھا پر فائزہ بتاۓ بغیر کہاں رہتی۔
خوشی خوشی بتانے لگی صبح وقت سے پہلے نوکری پر چلے جاتے ہیں ساتھ بچوں کو بھی اسکول چھوڑ دیتے ہیں گھر کی ساری ذمہ داری خود لے لی ہے میں تو بس اب گھر میں رہتی ہوں اور اتنے محنتی ہوگۓ ہیں کے رات رات بھر گھر نہیں آتے یہاں تک کے کئی کئی دن کام کے سلسلے میں شہر سے باہر رہتے ہیں اور میں اپنی امّی کے گھر آرام کرنے چلی جاتی ہوں رزق میں ایسی برکت ہے کہ کبھی کبھی ہر چیز ڈبل آجاتی ہے پچھلے ہفتے دو سینڈل بلکل ایک جیسی لے آۓ بس ایک نمبر چھوٹی تھی پھر وہ تبدیل کرنی پڑی۔ کبھی راشن میں بھی چیزیں ڈبل ہوجاتی ہیں بس اللہ کا کرم ہے۔ میں تو کونے والی نورن دادی کو دعائيں دیتی ہوں۔ یہ سب ان ہی کی وجہ سے ہوا ہے۔ انھوں نے مسجد کے مولوی صاحب کا پتہ دیا تھا۔ مولوی صاحب نے ایک وظیفہ بتایا تھا پڑھنے کو وہ بھی تہجد میں بس پھر کیا تھا میری تو قسمت ہی پلٹ گئی۔ زندگی آسان ہوگئی ہے۔
مجھے بڑی حیرانی ہوئی کہ ایک وظیفے سے قسمت بدل گئی بھئی یہ کونسا وظیفہ ہے چلو چھوڑو۔مگر فائزہ کہا مانتی بتائے بغیر۔ عربی کے چند الفاظ بڑے ادب سے سنائے اور چہرے پر ہاتھ پھیر کر تین بار آمین آمین آمین کہا۔ بس یہ وظیفہ پڑھ لو شوہر آپ کے قدموں میں اور ہاں کسی اور کو بھی بتا دیں اگر کوئی پریشان ہو تو کسی کا بھلا ہو جائے اچھی بات ہے۔ میرا نمبر بھی لے لیا اور پھر فائزہ مسکراتی ہوئی گھر روانہ ہو گئی۔
ہفتے بعد ہی ایک انجان نمبر سے فون آیا۔ ریسو کرنے پر فائزہ نے سلام دعا کی اور زور زور سے روتے ہوئے کہنے لگی میں تو لوٹ گئی بر باد ہوگئی بس بہن میرا شوہر تو ہاتھ سے نکل گیا پتہ نہیں کیا کمی تھی مجھ میں جو دوسری شادی کر لی اللہ ہی سمجھے گا ایسی عورتوں کو جو شادی شدہ بچوں والے مردوں سے شادی کر لیتی ہیں۔ میں...
بن بُلائے مہمان ! بَلائے جان
بن بلائے مہمان وہ بھی چپک جانے والے ایک دو دن سے زیادہ برداشت نہیں ہوتے اور اگر زیادہ ہی رک جائیں تو سارے گھر کو ہی تکلیف اور نقصان پہنچاتے ہیں اور سارے ہی لوگ ان سے کنّی کترا کر گزرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ ہمارے ساتھ ہی نہ چپک جائیں۔
ایسا ہی معاملہ ہم لوگوں کے ساتھ ہوا ہے پہلے تو اس خطرناک اماں نے اپنی اولاد کو بھیج دیا وہ ملک ملک گھوما اور یہیں ڈیرا ڈال لیا۔نہ جانے کیا کیا تباہ و برباد کیا اور یہ حضرت انسان بے بس اور بے کس منہ چھپائے گھومتا رہا حتی کہ اپنے بیماروں مجبور پیاروں سے ملنے اور ان کی تیمارداری سے بھی محروم رہا کچھ وقت گزرنے کے بعد جب اس نے دیکھا کہ ماحول ٹھنڈا ہوگیا ہے لوگ سکون میں ہیں تقریبات عروج پر ہیں اسکول، مساجد اور پارک بھرے ہوئے ہیں تو اس نے ناک بھوں چڑھایا اور سوچا ! یہ میری اولاد تو ٹھنڈی ہوتی جا رہی ہے برسوں محنت کی ہے میں نے اس پر اسے اتنی جلدی ہار نہیں ماننا چاہیے۔ اب مجھے ہی کچھ کرنا ہوگا تو لیجئے جناب پورے جوش اور بھرپور شیطانیت کے ساتھ کرونا کی امی جان اُُمِ کرونا (امیکرون) تباہ حال لوگوں کو اور تباہ کرنے دنیا میں انسانوں پر آدھمکی۔
کتنے دور اندیش تھے وہ لوگ جنہوں نے چاند پر پلاٹ بک کروائے تھے گوگل سرچ کرکے دیکھتے ہیں، تب پتہ چلے گا کہ وہ لوگ کرونا سے بچنے کے لیے چاند پر پہنچ گئے یا اس سے بھی کہیں آگے عالم برزخ پہنچ گئے۔
ہمارے گھر میں تین افراد پر اٌمِ کرونا فدا ہوگئی ہیں ہماری امی جان، بھیا اور آپی پر۔ان تینوں نے قرنطینہ کے نام پر ایک ایک کمرے پر قبضہ جما لیا ہے ابّا جان تو امی کے کمرے کے دروازے کے قدموں میں ہی پلنگ ڈالے پڑے ہیں اور ہم نے لاؤنج میں صوفے پر ڈیرہ جما لیا ہے البتہ ماسی خوش نظر ارہی ہے کہ تینوں کمروں کی صفائی سے جان بخشی ہوئی ہے۔
ویڈیو کال اور فون کال پر ہی سب رشتے داروں نے مزاج پرسی اور تیمارداری کرکے اپنا فرض نبھایا کیونکہ ہم سب مجبور ہیں ایک ان دیکھے وائرس سے۔سلائی والی آنٹی نے جب نئے سلے ہوئے سوٹ ہمیں بھجوائے تو اس کے ساتھ سوٹ کے کپڑے کے ماسک بھی بنے ہوئے رکھے تھے۔ سلائی والی آنٹی کو فون کرنے پر پتہ چلا کہ یہی فیشن چل رہا ہے، انہوں نے ایک آفر بھی دی کے ہم فینسی ماسک بھی بناتے ہیں ستارے موتیوں اور کڑھائی والے ان کا بھی پیکج ہے جو پیکج آپ لینا پسند کریں۔
نہ جانے کتنے ابہام ذہن میں گردش کر رہے ہیں۔ابھی تو ہم ڈر کے مارے اس قابل بھی نہیں ہوئے کی واٹس ایپ یا فیس بک پر اپنا اسٹیٹس لگائیں۔
I am vaccinated
کیوں کہ ابھی تو ہم اکّڑ بکّڑ ہی کر رہے تھے کہ چائنا کی ویکسین لگوائیں، کینیڈا کی یا پاکستانی کے اچانک، اْمِ کرونا سے پہلے بوسٹر بھی آٹپکا۔سوچ رہے ہیں ڈائریکٹ بوسٹر ہی لگوا لیں۔
یہ بلائے ناگہانی ہے بس...
ٹک ٹاک ایک نشہ
ٹک ٹاک مختصر ویڈیو کی ایسی ایپ ہے جس میں وہی ویڈیو چلتی ہے جو ’’مختصر‘‘ ہو۔بس ایک ویڈیو وائرل ہونے کی دیر ہے پھر آپ ایک ہی رات میں ہیرو بن گئے۔گویاٹک ٹاک سوشل میڈیا کا ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جس میں وہی ویڈیو وائرل ہوتی ہے جس میں سب کچھ’’ پلیٹ‘‘میں رکھ کر پیش کیا جائے۔بلکہ نوجوان نسل تو وائرل ہونے کے لئے ایسی اشیاء بھی ’’پیش‘‘ کر دیتی ہیں جن کا پیش نہیں ’’زیر‘‘میں ہونا ہی معیاری،مناسب اور اخلاقی ہوتا ہے۔مگرچائنہ والوں کو کون سمجھائے کہ جس لباس کو ہم پاکستانی اعلیٰ اخلاقی اقدار سے گرا ہوا سمجھتے ہیں ان کے ہاں وہ لباس اعلی اقدار کا حامل سمجھا جاتا ہے۔بلکہ یوں کہنا مناسب ہوگا کہ لباس کا صرف سرا ہی نظر آتا ہو تو اسے اخلاقی لباس سمجھا جاتا ہے۔چائنہ اور یورپ میں تو اسی کی زیبائش مناسب ہوتی ہے جس کی ’’نمائش ‘‘زیادہ ہو۔ ان کے سامنے تو بھاری بھر کم فراک،غرارہ و شرارہ زیب تن کر کے جائیں تو وہ حیران ششدر رہ جاتے ہیں کہ ان کا ناتواں جسم ایسا لباس ’’کیری‘‘ کرتاکیسے ہے۔شائد اسی وجہ سی چینی اور یورپی خواتین وہی لباس زیب تن کرتی ہیں جو ہمیں زیب نہ دیتا ہو۔
میں نے اپنے انتہائی معصوم و سادہ دوست شاہ جی سے ایک معصومانہ سوال کیا کہ مرشد ٹک ٹاک پر کیسے وائرل ہوا جاتا ہے۔شاہ جی نے شانِ بے نیازی (بے نیازی کو کسی نیازی سے نہ ملایا جائے )اور لاپروائی سے جواب دیا کہ فی زمانہ ٹک ٹاک ہی نہیں ہر جگہ وائرل ہونے کا ایک فارمولہ ہے۔میں نے متجسسانہ انداز میں پوچھا کہ مرشد وہ کیا۔فرمانے لگے۔’’جو دکھتی ہے وہ بکتی ہے‘‘یعنی جو دکھتا ہے وہی بکتا ہے۔شاہ جی کے جواب پر سوال در سوال ذہن میں کود آیا کہ کیا اس فارمولہ کا اطلاق صنف نازک(جسے میں ہمیشہ صنف آہن کہتا ہوں)پر ہی ہوتا ہے یا صنف معکوس بھی اس زد میں آتے ہیں۔کہنے لگے فارمولہ تو وہی ہے بس الفاظ کے چنائو کو بدلنا ہوگا،یعنی۔۔۔۔۔یعنی مرد حضرات کے لئے الفاظ بدل کر ایسے ہو جائیں گے کہ ’’جو بَکتا ہے وہ بِکتا ہے‘‘
چین نے جب ٹک ٹاک ایپ متعارف کروائی تو اس کا مقصد سیلیکون شہر میں بیٹھ کر ایسی مختصر مدتی ،مختصر ویڈیو،مختصر لباس میں بنا کر پیش کرنا تھاکہ جو اپلوڈ ہوتے ہی وائرل ہو جائے،اور ایسا ہی ہوتا تھا۔اس لئے ہماری نوجوان نسل بھی چین کے نقش پا پر اپنے قدم جمائے ویسی ہی مختصر ویڈیو بناتے ہیں جو وائرل ہو جائے۔مجھے حیرت یہ نہیں کہ آج کی نسل سستی شہرت کے لئے ایسا کیوں کرتی ہے۔پریشانی یہ ہے کہ انہیں شہرت مل بھی جاتی ہے۔اب تو ٹک ٹاک بھی ایک حمام سا ہی دکھائی دیتا ہے ،وہ جس کے بارے میں اکثر سیاستدان بیان بازی کیا کرتے ہیں کہ اس حمام میں سبھی ننگے ہیں۔اب تو ٹک ٹاک دیکھ کر بھی لگتا ہے کہ اس حمام میں بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ویڈیو وائرل ہونے کے بارے میں ایک دوست کی بات یاد آگئی ،اس نے ایک دن مجھ سے پوچھا کہ یار ابھی تک...
یہ نہایت خوش آئند بات ہے کہ عدیل سلیم صاحب ہمارے نوجوانوں کے لیے عام فہم انداز میں اس علاقے کے عروج و زوال کی داستان قلم بند کر رہے ہیں جس کو پاکستان کے مورخین نے افسوس ناک طور پر نظر انداز کیا ہوا ہے. یہ وہ علاقے ہیں جہاں سے برصغیر پاک و ہند کے تہذیبی ڈانڈے ملتے ہیں. خطہ عرب سے محمد بن قاسم کی فاتحانہ آمد اور المناک واپسی کے بعد ایک طویل وقفے تک مسلمانوں کی آمد برصغیر میں معطل رہی. جس کے بعد برصغیر کے شمال سے مسلمانوں کی دوبارہ فاتحانہ آمد شروع ہوئی. اس طرح مضمون میں مذکور علاقوں سے فاتحین کے ساتھ ساتھ وہاں کی تہذیبی زندگی بھی برصغیر میں در آئی جس کی مماثلت آج بھی ان خطوں میں نمایاں طور پر پائی جاتی ہے. دیر آید درست آید کے مصداق عدیل سلیم صاحب کی یہ کاوش قابلِ تحسین ہے.
شاندار عدیل صاحب تاریخ کی گم گذشتہ گوشوں دے نئی نسل کوروشناس کرنے کے لئے دلچسپ و عام فہم انداز میں لگنا آپ ہی کا خاصہ ہے۔
امید ہے کہ آپ اس سلسلے کو جاری رکھیں گے۔ خدا کرے زور قلم او ذیادہ۔
ما شاء اللہ
.
اللہ کریم
آپ کے علم میں
مشاہدہ میں
دور اندیشی میں
قلم میں
عجز میں
وسعت، برکت، روانی و فراوانی عطا فرمائے
خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں
.
جاوید اختر آرائیں
بہت اہم اور تاریخی موضوع کو عدیل سلیم نے سہل اور سادہ بنا کر قاری کو تاریخ کی گم گشتہ گلیوں کی طرف بہت عمدگی سے مائل کیا ہے۔ یہ سلسلہ اپنے سیاق و سباق کے ساتھ جاری اور مکمل ہو کر کتابی صورت میں اور آن لائن مہیا ہونا چاہئیے تاکہ تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے اور پڑھنے والے اس سے ہمیشہ استفادہ حاصل کر سکیں۔
ماشاء اللہ ۔ اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ۔
امجد محمود صاحب!
آپ نے درست کہا کہ ان علاقوں کی تاریخ پر بہت کم لکھا گیا ہے جن کے سماجی اثرات برصغیر پاک و ہند کے باشندوں پر بہت گہرے نظر آتے ہیں ۔
بالخصوص ان تاتاری سرداروں کا تذکرہ جو بعد میں مسلمان ہو گئے اور ان ہی میں سے ایک نے برصغیر میں مغل سلطنت کی بنیاد ڈالی ، جن کے لئے اقبال نے کہا تھا “پاسبان مل گئے کعبے کو صنم خانے سے “
ماشاءاللہ بہترین تحریر۔ تاریخ کے گمنام گوشوں کو آسان فہم انداز میں روشناس کرا نے کا جو سلسلہ بھائی عدیل سلیم نے شروع کیا ہے اس کی نظیر کم ہی ملتی ہے۔
لائق تحسین ہیں آپ کی یہ کاوشیں۔ اللہ آپ کے قلم کو مزید نکھار عطا کرے اور آپ اسی طرح اپنی تحاریر سے ہمیں مستفید کرتے رہیں۔
شکریہ تمام احباب کا ۔۔
بہت عمدہ تحریر بھائی عدیل سلیم جملانہ آپ کی سلامت رہیں
very informative and authentic
عدیل جملانہ ایک نو آموز لکھاری ہیں لیکن انکی تحریر سے پختگی جھلکتی ہے امید ہے کہ آئیندہ تحریر اور بہتر ہوجائے گی اور ہمیں اس بھی بہتر مضامین پڑھنے کو ملیں گے۔
ان شااللہ
یہ مضمون عالم اسلام کے بے شمار سقوط میں سے ایک کی تاریخ بتاتا ہے جو عامتہ الناس کی نظر سے اوجھل ہیں بد قسمتی سے پورے عالم اسلام پر آج بھی اسی طرح کی بے حسی طاری ہے جیسی اورگنج کے سانحے کے وقت تھی۔ لیکن بات یقین سے کہی جاسکتی کہ امت مسلمہ نے کم از کم
“تاریخ سے یہ سبق تو سیکھا ہے کہ اس سے کوئ سبق نہیں سیکھناہے “
عدیل سلیم کے دیگر بلاگز کی طرح یہ بھی عام فہم انداز میں لکھا گیا ہے، تاریخ جیسے خشک موضوع کو اتنے دلچسپ انداز میں پیش کرنا کہ دلچسپی آخر تک برقرار رہے بلا شبہ عدیل سلیم کا خاصہ ہے ۔۔۔۔۔
A detailed but interesting article ..
keep it up.