حیدرآبادکے لیے یونیورسٹی کی ضرورت

عام تعلیمی ادارے اورجامعہ میں بنیادی فرق تحقیق کاہے درس وتدریس کے ساتھ ساتھ تحقیق جامعات کی بنیادی ذمہ داری اورمیدان خاص ہے۔ تحقیق کااظہارجدت اوراختراعات لیے ہوتاہے، جامعات اس میں نمایاں کرداراداکرتی ہیں،عموماًیہ طنزسننے میں آتاہے کہ جب برصغیرمیں تاج محل بن رہاتھااس وقت انگلستان میں جامعات کی بناڈالی جارہی تھی ۔بے شک حقیقت یہی تھی لیکن …!ہماراعلم درس گاہوں سے نکل کراس سطح پر آچکاتھاکہ اس کااظہاردنیاکے منفردعجوبے تاج محل کی صورت کی رونماہورہاتھا۔سائنس ،دفاع اورمعیشت سمیت ہرمیدان علم کی بنیادروزافزوں بڑھتاجارہاہے۔نت نئی تبدیلیاں تیزی سے رونماہورہی ہیں نصاب پرمسلسل نظر ثانی ہورہی ہے کتب شایع ہورہی ہیں تراجم کے ذریعے علوم وفنوں کواپنے ہا ں منتقل کیاجارہاہے ۔برقی ذرائع ابلاغ سے مددلی جارہی ہے ایک طرف طلبہ کی تربیت کی جارہی ہے دوسری طرف اساتذہ کونئی جہات سے روشناس کیاجارہاہے۔ملک میں یونی ورسٹی گرانٹس کمیشن کوہائرایجوکیشن کمیشن میں بدل کراس کے فرائض میں اضافہ کردیاگیاہے صوبائی سطح پر ہائرایجوکیشن کمیشن تشکیل دیے جارہے ہیں۔پرائمری تعلیم سے جامعہ تک اعلیٰ تعلیم کے لیے پورے ملک میں تعلیمی اداروں کاجال بچھادیاگیاہے۔سندھ میں بھی جابجاتعلیمی ادارے تعمیرہوتے جارہے ہیں شہرکیادیہات کے لیے بھی جامعات کے چارٹرمنظورکیے جارہے ہیں معیارسے قطع نظراحسن اقدام ہے مگر ملک کاپانچواں اور سندھ کادوسرابڑاشہر حیدرآبادیونی ورسٹی جیسے اعلیٰ تعلیمی ادارے سے محروم ہے ۔
اندرونِ سندھ کامرکزحیدرآبادایسابدقسمت شہر ہے جس میں سرکاری ونجی سطح پرکوئی جنرل یونی ورسٹی موجودنہیں ہے ۔قیام پاکستان کے بعدکراچی کوملک کادارالحکومت قراردیے جانے کے بعدسندھ یونی ورسٹی کوحیدرآباد میں اس جگہ منتقل کیاگیا جہاں آج سندھ یونی ورسٹی کااولڈکیمپس قائم ہے صرف ایجوکیشن فیکلٹی کام کررہی ہے ۔ بعدازاں جامعہ سندھ بھی یہاں سے جام شورومنتقل کردی گئی ،لیاقت میڈیکل کالج اورمہران انجینئرنگ کالج بھی حیدرآباد کے لیے منظورہوئے تھے اوریہیں قائم تھے انھیں بھی جام شوروضلع میں منتقل کردیاگیاہے دونوں پروفیشنل کالج یونی ورسٹی کادرجہ حاصل کرچکے ہیں۔یعنی پہلے حیدرآبادکے طلبہ وطالبات کوجنرل یونی ورسٹی اورانجنئنرنگ اورمیڈیکل کالج جیسے پروفیشنل ادارے میسرتھے ماضی کی نسبت اِن اداروں میں گنجائش میں کم ہے اور حیدرآبادکی ضروریات بھی بڑھ گئی ہے مگر اعلیٰ تعلیمی ادارے موجودنہیں ہیں ۔البتہ سرکاری سطح پر حیدرآباددیہی میں ایک زِرعی جامعہ اور نجی سطح پر مہنگی ترین میڈیکل اورایک آدھ سائنسی شعبے پر مشتمل جامعہ ضرورہے ۔چھٹی مردُم شماری کے مطابق حیدرآبادضلع کی کل آبادی 20لاکھ 20ہزارایک سواُناسی ہے ۔تعلیمی بورڈ حیدرآبادسے ہرسال پچاس ہزارسے زائدطلبہ وطالبات انٹرکاامتحان پاس کرتے ہیں جن میں پری انجینئرنگ کے طلبہ وطالبات کی تعداد18ہزارایک سوچھتیس ، پری میڈیکل کے 27ہزار ایک سواڑسٹھ اورجنرل سائنس کے 993طلبہ وطالبات شامل ہیں۔
حیدرآبادمیں اعلیٰ تعلیمی ادارے نہ ہونے کے سبب قریب ترین لیاقت میڈیکل اینڈہیلتھ سائنسزمیں پہلے 47سیٹیں مختص تھیں اب گھٹاکر37کردی گئی ہیں۔مہران انجینئرنگ اینڈٹیکنالوجی یونی ورسٹی میں حیدرآبادڈومیسائل کے حامل طلبہ وطالبات کے لیے صرف88نشستیں ہیں جب کہ پبلک یونی ورسٹی سندھ کے مین کیمپس سمیت لاڑکانہ ،نوشہروفیروز، دادو،میرپور،حیدرآباد،ٹھٹھہ اوربدین کیمپس میں کل 18930 گریجویشن اورپوسٹ گریجویشن داخلے کی گنجائش ہے۔قانوناً60اور 40کادیہی اورشہری کوٹہ نافذہے ۔پروفیشنل کالجزکیاسندھ جیسی جنرل یونی ورسٹی میں حیدرآبادکے طلبہ کی غالب اکثریت داخلوں سے محروم ہیں۔معدودے چندسو کے علاوہ باقیماندہ طلبہ وطالبات کے لیے اعلیٰ تعلیم ایک خواب ہی ٹھہرتاہے۔قیام پاکستان کے بعدحیدرآبادشرح خواندگی کے لحاظ سے پانچ سرفہرست شہروں میں شامل تھا70 سال بعدیعنی اکیسویں صدی بھی میں اس کاشمارپہلے دس شہروں میں بھی نہیں ہے ۔
کہاجاتاہے کہ مختلف الخیال ،عقائد،رنگ اورنسل کی اجتماعیت میں رواداری نسبتاًزیادہ ہوتی ہے یہاں اس کے برعکس کوفروغ دیاگیاہے ۔سرمئی شاموں اور ہوادانوں کے اس شہرکولسانیت کی راہ دکھائی اوراپنے کہلائے جانے والے اورپرائے قراردیے جانے دونوں اس عصبیت میں اپناہی نقصان کرتے رہے ہیں۔حیدرآبادضلع چار تحصیلوں حیدرآباد سٹی ،لطیف آباد،قاسم آباداورحیدرآباددیہی (ٹنڈوجام) پر مشتمل ہے اردواورسندھی بولنے والوں کے ساتھ پختون ،پنجابی ،کشمیری ودیگر اس کے باسی ہیں یہ سب کے سب حیدرآبادکاڈومیسائل رکھنے کے سبب یونی ورسٹی میں داخلے سے محروم ہیں۔اونٹ کے منہ میں زیرہ کے مصداق کوٹے کی وجہ سے بیرونی جامعات میں بھی نہ ہونے کے برابر داخلہ مل پاتاہے ۔بیرونی جامعات میں یہاں کے طلبہ وطالبات جس گریڈپر داخلے سے محروم ہوجاتے ہیں اسی گریڈ اور اس سے کمتر گریڈ پر دیگراضلاع کے طلبہ وطالبات کوبآسانی داخلہ مل جاتاہے۔ اعلیٰ تعلیم کے محدودترین مواقعے ہونے کی وجہ سے وفاقی اورصوبائی مقابلے امتحانات میں بھی کم تعدادشریک ہوتی ہے۔
مقامی نوجوانوں کے اس مقدمے کے بعدایک امیدافزاخبر ضرورزیر گردش ہے خبر اس لیے کہ ابھی تک میڈیاسے ایوانوں تک محدودہے گزشتہ سال مئی میں سابق وزیراعظم نوازشریف نے حیدرآبادآمدپر اسے یونی ورسٹی دینے کااعلان کیاتھااس سے قبل قومی اسمبلی میںیونی ورسٹی کے لیے قراردادمنظورہوچکی ہے ۔مسلم لیگ ہی کے وزیراعظم شاہدخاقان عباسی نے یہی بات کراچی میں دہرائی ،ہائرایجوکیشن کمیشن نے ہرضلع میں ایک یونی ورسٹی قائم کرنے کااُصولی فیصلہ کیا ۔ سندھ اسمبلی بھی حیدرآبادکے سوسالہ قدیم تاریخی گورنمنٹ کالج کو یونی ورسٹی کادرجہ دینے لیے ایک قرارداد منظورکرچکی ہے ۔ وزیراعلیٰ سندھ سیدمرادعلی شاہ مزیدآگے بڑھ کروزیرتعلیم جام مہتاب ڈھرکی سربراہی میں کمیٹی کوقائم کرکے خصوصی ٹاسک دیا۔کمیٹی کی سفارشات کی روشنی میں صوبائی کابینہ نے اس کی منظوری دی اور 2مارچ کوسندھ اسمبلی نے گورنمنٹ کالج حیدرآبادکویونی ورسٹی کادرجہ دینے کاتاریخی بل منظورکیاہے۔یونی ورسٹی کاقیام حیدرآبادکے شہریوں خصوصاًطلبہ کادیرینہ مطالبہ رہاہے بلاامتیازحیدرآبادکے شہری سندھ اسمبلی کے اس تاریخی بل کواسی سال مدت ختم ہونے سے پہلے عملی جامہ پہنتے دیکھنے کے شدید خواہش مندہیں ۔یونی ورسٹی کے قیام سے جہاں معیارتعلیم بلند ہوگا،جامعات کے درمیان علمی وتحقیقی مسابقت پیداہوگی وہیں حکومت وقت کوبھی اس کاکریڈٹ دیاجائے گا۔بشرط یہ کہ صوبائی حکومت اپنی مدت کے اختتام سے پہلے کرگرزے۔

جواب چھوڑ دیں