’’سی پیک وانگ وؤئے‘‘

دنیا کے آٹھویں عجوبے سے مشہور شاہراہ قراقرم 1979 ء میں مکمل ہوئی، تو چینیوں اور پاکستانیوں نے بہت خوشی منائی۔37 برس تک پاک چین دوستی کی پتنگیں مضبوط ڈور سے اڑتی رہیں۔شاہراہ قراقرم چین سے وابستگی کی واحد علامت تھی۔پھر 2013 ء کے الیکشن میں نون لیگ برسر اقتدار آئی تو اس علامت کو سی پیک سے بدل دیا گیا ۔55 ارب ڈالر کی لاگت سے بننے والی پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف اور چینی وزیر اعظم لی کیچیانگ کی مشترکہ کاوشوں کا نتیجہ ہے ۔اس منصوبے کے ساتھ ہی آٹھ یادداشتوں اور مختلف معاہدوں پر دستخط ہوئے ۔اس میں دورائے نہیں کہ اس منصوبے نے پاکستان کو عالمی افق پر چمکتا ہوا ستارہ بنا دیا ہے۔اور دیکھا بھی یہی جا رہاہے کہ اس منصوبے کی تکمیل کے ساتھ ہی دودھ اور شہد کی نہریں بہنے لگیں گی۔مگر منصوبے کے آغاز کے چار برس کے بعدبھی اس کو عوامی پذیرائی نہیں مل سکی۔
پاکستان میں غربت و دہشت گردی ختم نہیں ہوسکی۔چھوٹے صوبوں کے خدشات جوں کے توں ہیں۔ناقدین میں سی پیک کے حوالے سے احساس محرومی بڑھ رہا ہے۔اور سی پیک کی غیر شفاف پالیسیاں زبان زد عام ہیں ۔منصوبے کے طے شدہ راستوں کا جھگڑا ابھی تک باقی ہے ۔وفاق اور صوبوں میں دوریاں پیدا ہورہی ہیں ۔ اس منصوبے سے جہاں وفاق مضبوط و متحد ہوسکتا تھااور کمزور ہوتا جا رہا ہے۔پاکستان کے لیے یہ بات انتہائی قابل قدر ہے کہ یسی پیک سیاسی و جغرافیائی وجوہ کے باعث وسط ایشیا سے معاشی ربط کا موجد بن رہا ہے۔کیوں کہ بیسویں صدی کے اوائل تک وسط ایشیا کے ممالک تک معاشی روابط کی شکل مدھم تھی۔سی پیک وسیع ترمعاشی امکانات سمیت بہت سے دروازے کھولے گا ۔ایشیا کے جنوب میں پاکستان کی گوادر بندر گاہ اور ایران کی چاہ بہار بندر گاہیں ہیں ۔یہ جڑواں صلاحیتیں رکھنے والی بندرگاہیں بن سکتی ہیں۔پاکستان کیوں کہ جنوبی ایشیاکے سیاسی ومعاشی میدان کا کھلاڑی رہا ہے ،لہذا سی پیک کی تکمیل سے یہ وسطی ایشیا و مغربی ممالک کے لیے بھی ایک قوت بن کر ابھرے گا۔
سی پیک منصوبہ خود پاکستان کے لیے بھی سیاسی و جغرافیائی اہمیت کا حامل ہے ۔اسی تناظر میں دیکھا جائے، تو پاکستان ثقافتی وسیاسی اعتبار سے جنوبی و مغربی کناروں پر واقع ہے۔سندھ پنجاب قطعی طور پر جنوبی ایشیا کا حصہ ہیں ۔بلوچستان اور خیبر پختونخواہ مغربی ایشیامیں واقع ہیں۔گلگت بلتستان اور وادی خیبر کے چین سے سے سنکیانگ اور وسط ایشیا سے صدیوں پرانے ثقافتی ومعاشی تعلقات ہیں ۔اگر سی پیک کا پھیلتا گراف دیکھیں تو یہ تمام روٹ میپ ترقی کی نوید سنا رہا ہے۔سی پیک اتنا بڑا منصوبہ ہے کہ اس کی بروقت اور پر اعتماد تکیل کی صورت میں یہ ملک کا معاشی حب بنے گا ۔یہ پاکستان کے لیے گیم چینجر ثابت ہوگا ۔اس سے قبل پاکستان کی جس منصوبے سے معاشی ومعاشرتی راہیں ہموار ہوئیں اور ملک پر پھیلے غیر ترقی یافتہ ہونے کے بادل چھٹے ،وہ 1970 ء میں انڈس واٹر ورکس منصوبہ تھا ۔جس کے تحت منگلا وتربیلا ڈیم تعمیر کیے گیے تھے اور ہزاروں کلومیٹر طوالت کی نہریں کھودی گئی تھیں۔پھر معیشت نے ایسی ترقی کے دن دیکھے کہ جہاں گھاس کا تنکا نہیں تھا، اب سال میں دو فصلیں ہوتی ہیں ،اور جہاں ویرانے تھے وہاں ہنستے بستے شہر آباد ہوگئے ہیں ۔
انڈس واٹر ورکس منصوبے سے سندھ پنجاب کے دیہی علاقوں کے ساتھ شہری علاقوں کا رقبہ بھی وسعت اختیار کرتا گیا ۔اب سی پیک سے مغربی صوبے بلوچستان و خیبر پختونخواہ جو پہلے قومی معیشت کے رحم وکرم پر تھے، اس منصوبے نے ان میں نئی روح پھونک دی ہے ۔ سی پیک پاکستا ن و بھارت کشیدگی کو بھی کم کرے گا ۔کیوں کہ بھارت بھی ایک مضبوط تعلقات کے ساتھ چین سے 100 ارب ڈالر کی تجارت کرتا چلا آرہا ہے۔جب کہ پاکستان کا تجارتی حجم 12 سے 14 ارب ڈالر سالانہ ہے ۔یہ بات انتہائی مضحکہ خیز لگتی ہے کہ چین کبھی بھی پاکستا ن کی خاطر بھارت سے جنگ کرے گا ۔ازحد ممکن ہے کہ پس پردہ حقائق میں یہ ہو کہ ون بیلٹ ون روڈ کا حصہ بھارت کو مستقبل میں بنایا جائے،پاکستان کو اس بات پر راضی کر لیا جائے کہ سی پیک روڈ سے بھارتی ٹرک چینی سامان لادے گزریں اور امرتسرجا پہنچیں اور شاید کہ بھارت بھی محدود ہی سہی ،اس منصوبے کا حصہ بن جائے ۔تب پاکستان اپنی حکمت عملی ،اپنے اثر و تاثر سے محروم ہوجائے گا۔
پاکستان کے لیے یہ منصوبہ کس حد تک مفید ثابت ہوتا ہے اس بات کا جواب اس منصوبے کے مختلف مراحل کی تیاری سے لگایا جاسکتا ہے ۔ہر چیز کے فوائد و نقصانات ہوتے ہیں ۔سی پیک کو بھی اس کلیے سے استثنیٰ حاصل نہیں۔سی پیک سے بہت سے دعوے سامنے آئے ہیں اور تبصروں کی بھر مار ہے۔اس کے تمام نا سہی، مگر بہت سے اعداد و شمار و حقائق عوام کے سامنے نہیں رکھے گئے۔اس عظیم منصوبے سے متعلق فوائد کی خوشی میں ممکنہ خطرات سے چشم پوشی نہیں کی جاسکتی۔چند سوال جو جواب طلب ہیں وہ یہ ہیں کہ کیا پاکستان نے سی پیک کی جامع فزیبلیٹی بنائی ہے ؟ کیا پاکستان سی پیک کی تکمیل کی صورت میں ماحول پر مرتب ہونے والے اثرات کے حوالے سے کوئی تخمینہ لگایا ہے؟ گوادر کی بندر گاہ سے ہونے والی مجموعی آمدن میں پاکستان کا حصہ کتنا ہوگا ؟ اور اس مجموعی آمدن سے بلوچستان کا حصہ کتنا ہوگا ؟ کیا گوادرسے خنجراب تک کی ہائی وے محض روڈ ہے؟ اگر ایسا ہے تو پھر اس آمدن سے ان صوبوں کو کتنا حصہ ملے گا جن سے یہ روڈ گزریں گے؟ چین کی ٹرانزڈ کا پاکستان کے مینو فیکچرنگ (اشیا سازی ) سیکٹر پر کیا منفی یا مثبت اثر پڑے گا ؟ سی پیک سے متعلق درآمدات پر ٹیکس چھوٹ پر پاکستان کی مینو فیکچرنگ پر کیا اثر مرتب ہوگا ؟ سی پیک سے مالیاتی وسائل کی مد سے متعلق توازن ادائیگی پر کیا قلیل المیعاد و طویل المیعاد اثرات ہوں گے؟ بحری وبری تجارتی قافلوں کے لیے جامع تحفظ فراہم کرنے پر پاکستان کے بجٹ پر کیا اثر پڑے گا؟ گوادر تا خنجراب تجارتی قافلوں کی سیکیورٹی یونٹس میں متعلقہ اضلاع کا کتنا حصہ ہوگا اور وہاں سے کتنوں کو بھرتی کیا جائے گا ؟ گوادر میں پینے کے صاف پانی کا بہت بڑا مسئلہ ہے،اس حوالے سے فراہمی آب کے انتظامات کیا ہوں گے ؟ یہ بات یقین دہانی کے ساتھ بتائی جائے کہ گوادر ایساشہر بنے گا جہاں بلوچ اقلیت میں ہوں گے؟
یہ وہ اہم سوال ہیں جو اپنے اندر جامعیت رکھتے ہیں ۔اور شفاف تشریح چاہتے ہیں ۔سی پیک اگر مقبولیت کے ساتھ معاشی حب بنا تو قوی امید ہے کہ ہماری آنے والی کئی نسلیں ’’سی پیک وانگ وؤئے ‘‘سی پیک زندہ باد کا نعرہ لگاتی رہیں ۔

جواب چھوڑ دیں