جبری گمشدگیوں کاسلسلہ کب رکے گا؟

جبری گمشدگیاں یا افراد کا لاپتہ ہوجانا کوئی معمولی بات نہیں۔ یہ نہایت سنگین معاملہ ہے لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں نہ تو کوئی ادارہ ہے جو اس معاملے کو سنگین نوعیت کا معاملہ سمجھتا ہے اور نہ ہی حکومت سمجھتی ہے کہ اس سلسلہ میں اس کی کوئی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ کوئی مؤثر کارروائی کرے اور اگر کسی قسم کی کوئی قانون سازی کرنا ہے تو وہ وقت ضائع کیے بغیر قانون سازی کرے۔
کسی گھر کا کوئی فرد اگر مرجائے تو لواحقین کو آخرکار صبر آجایاکرتا ہے لیکن جس گھر کا کوئی فرد اٹھالیاجائے، گم شدہ ہوجائے یا غائب کردیا جائے تواس کو کیسے چین نصیب ہو سکتا ہے کہ وہ کس حال میں ہے، کہاں ہے اور کس کی گرفت میں ہے۔
سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے اس سلسلے میں بہت پراسرار طریقے سے کام لیتے ہیں۔ اس طرح کی کارروائی کیلئے عموماً ذاتی گاڑیاں استعمال میں لائی جاتی ہیں، لباس بھی سرکاری نہیں ہوتے اور جن افراد کو اٹھالیاجاتا ہے ان کے لواحقین کو گرفتاری سے قبل یا گرفتاری کے بعد کسی قسم کی کوئی اطلاع بھی نہیں دی جاتی کہ ان کے گھرکا فرد کن کی ’’محافظت‘‘ میں ہے جس سے کسی بھی فردوبشر کو اس بات کا علم ہی نہیں ہو پاتا کہ ان کا لخت جگر، بھائی، شوہر یا بیٹا کہاں ہے اور کس حال میں ہے۔
جب قانون نافذ کرنے والے اس قسم کی واردات چوروں اور اغواکاروں کی طرح کرتے ہیں تو جو واقعی چور یا اغوا کار ہوتے ہونگے وہ بھی اس سب کا فائدہ اٹھاکر کیا کچھ نہیں کرلیتے ہونگے اور دیکھنے والے یہی سمجھ کر خاموش رہ جاتے ہونگے کہ ایساکرنے والے ’’قانون کے محافظ‘‘ ہی ہونگے۔ یہ بات مان بھی لی جائے کہ اس قسم کی کارروائیاں یا وارداتیں جرائم پیشہ لوگ ہی کرتے ہونگے تب بھی اس قسم کی مجرمانہ کارروائیوں کی روک تھام اور مجرموں تک پہنچ کر اغواشدہ افراد کی بازیابی بھی تو آخر قانون نافذ کرنے والوں کا ہی کام ہوتا ہے۔
ان سب سے بڑھ کر قابل تشویش بات یہ ہے کہ زیادہ تر ایسے افراد مردہ حالت میں کسی ندی، نالے، جھاڑیوں یا سرد خانوں سے مل جاتے ہیں۔ اٹھائے جانے کے بعد مردہ حالت میں مل جانا کچھ اتنے معمول کی بات ہو گئی ہے کہ جیسے یہ کوئی قابل گرفت جرم ہی نہیں اور یہی وہ بات ہے جس کو دنیا بہت سنجیدگی سے دیکھ رہی ہے۔ چنانچہ پاکستان میں انسانی حقوق کے تحفظ کے سرکاری ادارے کے سربراہ جسٹس ریٹائرڈ علی نواز چوہان نے کہا ہے کہ جبری گمشدگیوں کے معاملے میں پاکستان میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا معاملہ ہے۔ بی بی سی کو جبری طور پر گمشدہ ہونے والے افراد کے بارے میں دیے گئے انٹرویو میں قومی کمیشن برائے انسانی حقوق کے سربراہ نے کہا کہ پاکستان میں جبری طور پر گمشدہ ہونے والے لوگوں کے بارے میں کوئی قانون نہیں ہے اور نہ ہی پاکستان نے اس بارے میں بین الاقومی معاہدوں کی توثیق کی ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا ’’قانون نہ ہونے کی وجہ سے ان افراد کی کسی ایجنسی کی تحویل میں ہونے کی تصدیق کا کوئی طریقہ کار نہیں ہے۔ اگر یہ طریقہ کار بن جائے تو ایجنسیوں یا پولیس میں جو (پالیسیوں سے ) باغی عناصر ہیں ان کا احتساب ہو سکے گا اور وہ قانون کے مطابق چلیں گے‘‘۔لاپتہ افراد کی تلاش کے لیے حکومتوں کی طرف سے تعاون کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال پر نیشنل کمیشن برائے انسانی حقوق کے سربراہ نے کہا کہ حکومتیں تعاون تو کرتی ہیں لیکن سب لوگ شائد نہیں کرتے۔’’یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا سارے لوگ تعاون کرتے ہیں حکومت کے اندر؟ کیا وہ لوگ تعاون کرتے ہیں جو شائد ذمہ دار ہوں (گمشدگیوں کے) یا باغی (روگ) عناصر ہوں، سارے تو ایسے نہیں ہیں۔‘‘ اندزاہ لگائیں کہ انسانی حقوق کے تحفظ کے سرکاری ادارے کے سربراہ جسٹس چوہان کیا فرما رہے ہیں ’’قانون کی عدم موجودگی کے باعث گمشدہ افراد کے مقدمات کی تفتیش کرنے میں ان کا ادارہ بعض اوقات بے بس ہو جاتا ہے۔‘‘ قانون نہ ہونے کی وجہ سے ان افراد کی کسی ایجنسی کی تحویل میں ہونے کی تصدیق کا کوئی طریقہ کار نہیں ہے۔ اگر یہ طریقہ کار بن جائے تو ایجنسیوں یا پولیس میں جو (پالیسیوں سے ) باغی عناصر ہیں ان کا احتساب ہو سکے گا اور وہ قانون کے مطابق چلیں گے۔جسٹس ریٹائرڈ علی نواز چوہان مزید فرماتے ہیں کہ ’’جب تک گمشدہ فرد الزام علیہ (ایجنسیوں) کے ہاں سے برآمد نہیں ہو گا یا وہ ہمارے ساتھ تعاون نہیں کرے گا تو ہم تو بے بس ہیں‘‘۔ اس سوال پر کہ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ جب تک ایجنسیاں، جن پر الزام ہے کہ انھوں نے کسی شخص کو غیر قانونی حراست میں رکھا ہوا ہے، انسانی حقوق کمیشن کے ساتھ تعاون نہیں کرتیں تو یہ ادارہ کچھ نہیں کر سکے گا، جسٹس چوہان نے کہا کہ یہ تاثر کلی طور پر درست نہیں ہے۔’’کچھ تو ہم کر سکتے ہیں۔ جیسے دباو ڈال سکتے ہیں، شور مچا سکتے ہیں اور ایجنسیوں کو بلا بھی لیتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ ان سے کچھ حاصل ہو جائے‘‘۔
اندازہ لگایئے کہ اس جملے یا اس جواب میں کتنی بے بسی کا اظہار ہو رہا ہے یعنی کسی بھی حکومت کی زیادہ سے زیادہ کارروائی بس اتنی ہی ہو سکتی ہے کہ جلسے کرے، جلوس نکالے، چیخے چلائے اور سراپااحتجاج بن جائے اور اگر اس سے بھی آگے قدم اٹھائے تو وہ یہ کہ کسی ادارے کے ذمہ دار فرد کو بلاکر اس سے ہاتھ جوڑ کر کہے کہ خداکیلئے سچ سچ بتادو اور اگر وہ انکار کردے تو معاملہ اللہ پر چھوڑکر خاموشی اختیار کرلے جو کہ اب تک ہوتا چلا آیا ہے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ اگر ایجنسیاں جبری گمشدہ افراد کے بارے میں رضا کارانہ معلومات نہیں دیتیں تو ان کا ادارہ کچھ نہیں کر سکتا، جسٹس چوہان نے اس رائے سے اتفاق کرتے ہوئے کیا کہا ذرا ملاحظہ کیجئے ’’بہت حد تک آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ اگر ایجنسیاں رضا کارانہ طور پر ہمیں یہ نہ بتائیں کہ کوئی گمشدہ شخص ان کے پاس موجود ہے تو ہمارے پاس تو کوئی طریقہ نہیں ہے جس سے ہم یہ معلوم کر سکیں کہ یہ فرد کہاں ہے‘‘۔ اس معاملے میں پولیس کے کردار کے بارے میں ایک سوال پر جسٹس چوہان نے کہا کہ پولیس اتنی طاقتور نہیں ہے کہ وہ اس معاملے میں کچھ کر سکے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ یہ تو پھر جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا معاملہ ہو گیا تو جسٹس چوہاں نے کہا کہ کچھ ایسا ہی ہے نیز یہ کہ ’’میں اس سے انکار نہیں کروں گا کہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا معاملہ تو ہے۔ لیکن یہیں پر قانون کا معاملہ آجاتا ہے۔ اگر قانون میں اختیار اور طاقت دی جائے تو معاملات بہتر ہو سکتے ہیں‘‘۔ گفتگو کے سلسلے کو جاری رکھتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اس بارے میں نئے قوانین بنا ئے اور ایجنسیوں اور پولیس کو ان قوانین کے دائرے میں لائے بغیر یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا۔’’اس (قانون نہ ہونے) کی وجہ سے ہم حکومت کے مرہون منت ہیں کیونکہ ہمارے پاس اپنی تو کوئی ایجنسی نہیں ہے جس سے ہم ڈھونڈھ سکیں کہ گمشدہ فرد کہاں ہے‘‘۔ انھوں نے کہا کہ وہ حکومت کو تجویز دے چکے ہیں کہ اس معاملے پر قانون سازی کی جائے لیکن ایسا ابھی تک نہیں ہو سکا ہے۔
کتنے دکھ کی بات ہے کہ پاکستان میں کسی بھی فرد کو اٹھالیا جانا، اس کو پاکستان کی کسی بھی عدالت میں پیش نہ کرنا، اس پر کوئی مقدمہ نہیں چلانا، اس پر کوئی جرم ثابت نہ کرنا اتنا عام ہو گیا ہے کہ پاکستان کا شاید ہی کوئی محلہ ایسا رہ گیا ہو جہاں سے کوئی فرد اٹھایا نہیں گیاہو۔ جو فرد اٹھالیا جاتا ہے وہ یا تو ملتا ہی نہیں یا پھر مردہ حالت میں ملتا ہے۔
یہ کوئی معمولی بات نہیں نہایت غیر معمولی اور قابل گرفت بات ہے، ممکن ہے کہ ایسا کرنے والے یا ایساکرنے والا کوئی ادارہ دنیا کے کسی قانون کی گرفت میں نہیں آسکے لیکن وہ اللہ کے یہاں کسی بھی طرح گرفت سے نہیں بچ سکے گا۔
دنیا کے دیگر ممالک میں بھی ایسا ہی ہوتا ہوگا بلکہ شاید اس سے بھی زیادہ شدت سے ہوتا ہو لیکن کسی ملک میں کوئی غلط یا گمراہ کن کام ہمارے لئے ’’جائز‘‘ کا جواز نہیں بن سکتا اور اس صورت میں جبکہ یہ ملک اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا ہو اور اس کا نام بھی ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ ہو یہ بات کہیں سے بھی قابل ستائش اور لائق تحسین ہو ہی نہیں سکتی اس لئے کہ اسلام جان لینا تو در کنار کسی کو حبس بے جا تک میں رکھنے کی اجازت نہیں دیتا۔
یہ تسلیم بھی کرلیا جائے کہ ہماری عدالتوں کا طریقہ کار بہت پیچیدہ ہے اور عام طور پر بڑے بڑے سنگین جرائم میں ملوث افراد قانونی پیچیدگیوں کے سبب عدالت سے چھوٹ جاتے ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ کوئی ادارہ از خود خود مختار بن کر کسی کو سفرآخرت پر روانہ کردے۔ نظام کو تبدیل کیا جائے، قانونی نوک پلک کو درست کیا جائے لیکن ان سب باتوں کو جواز بناکر قتل کردینے کا لائسنس حاصل کرلینا ملک کی سلامتی کیلئے بہت بڑا خطرہ ہو سکتا ہے۔ امید کی جاتی ہے جو ادارے ایسا کر رہے ہیں وہ اس قسم کی ہر کارروائی سے گریز کرتے ہوئے وہی کچھ کریں گے جس کی قانون اجازت دیتاہے۔

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں