دو حق

پاکستان کے آئین میں جہاں شہریوں کے فرائض و ذمہ داریوں کا مفصل تذکرہ ہے، وہیں ان کے بنیادی حقوق کو بھی تفصیل سے ذکر کیا گیاہے۔ آئین میں جہاں ریاست کے ساتھ وفاداری اور آئین وقانون کی اطاعت گزاری کو ہر شہری کافرض منصبی و ذمہ داری قرار دیا گیا ہے وہیں شہریوں کے آزادی، تحفظ ، جبری محنت کی ممانعت،جائز پیشہ و کاروبارکا حق، مذہبی آزادی جیسے بنیادی حقوق کے ساتھ ساتھ دو اور اہم و قابل تذکرہ حقوق کو بھی بیان کیا گیاہے، جن کو آج ہم پس پشت ڈال کر نہ صرف شہریوں کے حقوق کو پامال کرنے کے جرم کا ارتکاب کررہے ہیں، بلکہ اس ملک خداداد کی بنیادوں کو بھی متزلزل کرنے کے جرم میں ملوث ہورہے ہیں۔
وہ دو بنیادی اور اہم حقوق ’’قابلیت کے مطابق ملازمت ‘‘ اور ’’تمام شہریوں کا قانون کی نگاہ میں برابری‘‘ ہے۔ آج ان دو حقوق سے غفلت برتنے کی وجہ سے ہماری معیشت بدحالی اور شہری امن امان کے ابتر صورت حال سے دوچار ہیں۔ شہریوں کے حقوق میں سے اگر ان دو حقوق کی طرف توجہ دی جائے، اور ان پر عمل کرلیاجائے، تو پاکستانی معیشت کی بدحالی اور امن امان کی ابتر صورتحال پر کافی حد تک قابو پایا جاسکتاہے۔
آج کل قابلیت کے مطابق ملازمت کا تو نام ونشان ہی مفقود ہے، یہاں قابلیت کی بجائے شخصیت کو دیکھا جاتا ہے، رشوت اور سفارش نے اس ملک سے میرٹ کا جنازہ نکال رکھاہے، معیشت کا بیڑہ غرق کیاہوا ہے، یہاں اگر آپ کے پاس رشوت کیلئے روپیہ ہے سفارش کیلیے سرکاری و سیاسی تعلقات ہیں تو پھر آپ کو نہ کسی بڑی ڈگری کی ضرورت ہے اور نہ ہی پریشان ہونے کی۔آپ اگر چہ متعلقہ عہدے کے لیے موزوں اور لائق نہیں، پھر بھی آپ کو سلیکٹ کرلیاجائیگا۔ جبکہ آپ کے مدمقابل اگرچہ اس عہدے کیلیے قابل ترین اور موزوں ترین ہی کیوں نہ ہو، مگر رشوت وسفارش نہ ہونے کی وجہ سے وہ سلیکٹ نہیں ہوگا۔
یہی وجہ ہے کہ پاکستانی معیشت تباہی و بربادی کے دہانے پہنچ چکی ہے، نالائق ونااہل شخصیات کے ہاتھوں اس ملک کا بچہ بچہ قرض دار بن چکا ہے، نالائق اور نااہل بڑے بڑے عہدوں اور منصبوں پر فائز ہیں جبکہ قابل و محنتی اشخاص ڈگریاں ہاتھوں میں لیے در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ ان نااہلوں کی وجہ سے ملکی معیشت کا برا حال ہے، کرنسی گرتے گرتے افغانستان کے کرنسی سے بھی نیچے گرچکی ہے، بیروزگاری عام ہے،ایک بڑی آبادی غربت کی لکیر کے نیچے زندگی بسر کررہی ہے۔ یہ سب اس وجہ سے ہے کہ یہاں میرٹ کا فقدان ہے،رشوت و سفارش عام ہے، حقدار اپنے حق سے محروم ہیں، قابلیت کے بجائے شخصیت کو ترجیح دی جاتی ہے، جس کی وجہ سے آئے روز ڈالر کی اڑان اونچی اور روپیہ کی قیمت کم ہوتی جارہی ہے۔
دوسرا اہم حق’’تمام شہریوں کی قانون کے نگاہ میں برابری‘‘ ہے، مگر یہاں تو معاملہ بالکل اس کے برعکس ہے، قانون صرف غریب کیلیے استعمال ہوتا ہے، امیر و دولت مند ہر قسم کے قانون سے بالاتر خیال کیا جاتا ہے، غریب جو جرم کریں اسے سزا مل جاتی ہے، مگر امیر و دولت مند کوئی بھی جرم کریں، کسی کو قتل کریں،فراڈ کریں، کرپشن کریں، ملکی اداروں کو تباہ وبرباد کریں، ان سے کوئی پوچھنے والا نہیں، بلکہ عدالت الٹا اسے تحفظ فراہم کرتی ہے، پروٹوکول فراہم کرتی ہے، اسے جیل کے اندر رکھنے کے بجائے گھر بھیج دیاجاتا ہے، اور پھر مصنوعی بیماری کا بہانہ بناکر ہسپتال منتقل کردیا جاتا ہے، وہاں سے جعلی رپورٹ بناکر ملک سے باہر بھیج دیا جاتا ہے۔ جب کہ اس کے برخلاف بہت سے شہریوں کو بے گناہ اٹھا لیا جاتا ہے، بغیر کسی جرم کے جیلوں میں ڈال دیا جاتا ہے، وہاں بغیر کسی ثبوت کے بے پناہ ظلم و تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے، پھر یہی پرامن شہری جب جیل سے چھوٹتے ہیں، تو ان کے دل میں ملکی اداروں اور سیکورٹی اہلکاروں سے نفرت پیدا ہوجاتی ہے، پھر یہی پرامن شہری کسی گینگ اور کسی دہشت گرد گروہوں کے ہاتھ چڑھ جاتے ہیں، ان کے ساتھ مل کر پھر یہی پرامن شہری دہشت گردوں کا روپ دھار لیتے ہیں، پھر یہی شہری سیکورٹی اہلکاروں پر حملے کرتے ہیں، ملکی اداروں پر حملے کرتے ہیں، جس کی وجہ سے امن وامان کی فضا خراب ہوجاتی ہے۔
ہم اگر دہشت گردی سے چھٹکارہ چاہتے ہیں، ملکی معیشت کو بہتر بناناچاہتے ہے، تو ہمیں ان دو حقوق کو سنجیدگی سے ادا کرنا ہوگا، ہم نے رشوت و سفارش کے بجائے قابلیت اور میرٹ کے بنیاد پر ملازمتیں دینی ہوگی، نااہل و نالائقوں کے بجائے حقدار، محنتی، لائق کو ان کے متعلقہ عہدوں پرفائز کرنا ہوگا، تمام شہریوں کو قانون کی نگاہ میں برابر سمجھنا ہوگا، قانون کو مصلحتوں کی آڑ سے آزاد کرنا ہوگا، غریب وامیر دونوں میں برابری کا احساس پیدا کرنا ہوگا، تب جاکر ہماری معیشت بہتر ہوگی، تب جاکر ہم دہشت گردی سے چھٹکارہ پائیں گے۔

جواب چھوڑ دیں