قادیانی ۔۔۔۔ آستین کے سانپ

بہت برس پہلے کی بات ہے، پاکستان کا ایک نوجوان دبئی میں اپنی ملازمت سے محروم ہو گیا، پاکستان میں اس کے بیوی بچے اور والدین تھے، وہ قرض اٹھا کر بیرونِ ملک گیا تھا تاکہ گھر کی حالت بدلے، مگر کچھ عرصہ بعد ہی اس کی ملازمت ختم ہو گئی اور جن دنوں وہ بے روز گاری سے سخت پریشان تھا، کچھ نا معلوم پاکستانی افراد نے اس کی مدد کی اور اسے روز گار دلا دیا، وہ ان کا بہت مشکور تھا، انہوں نے صرف اسے ملازمت ہی نہ دلوائی، بلکہ اس پر خوب احسانات بھی کئے، اس کی رہائش کا مسئلہ ہو یا سواری کا، پردیس میں یہ سب ’’ڈوبتے کو تنکے کا سہارا‘‘ کے مصداق تھی، یہ عجیب بات تھی کہ وہ گھر والوں کے سامنے ان کے حسنِ سلوک کا تو ذکر کرتا لیکن ان کا تعارف نہیں کرواتا تھا، پھر ایک روز خبر ملی کہ اس نے دبئی میں خود کشی کی کوشش کی، مگر اسے بچا لیا گیا، چند ماہ بعد وہ پاکستان آگیا، بیوی اور بچوں کے ساتھ حسنِ سلوک سے رہا، پھر ایک رات چپکے سے اس نے بیوی کو قائل کرنے کی کوشش کی، اسے بتایا کہ وہ قادیانی ہو چکا ہے اور اب وہ بھی اس معاملے میں اس کا ساتھ دے، بیوی نے انکار کیا تو وہ اصرار کرنے لگا کہ ہم اس بارے میں کسی کو خبر نہ ہونے دیں گے، لیکن تم میرا ساتھ دو، پوری رات اس معاملے پر انکار اور اقرار کی بحث ہوتی رہی، صبح سویرے بیوی نے والدین کو اس کے عقیدے کی تبدیلی اور اس پر دباؤ کے حوالے سے بتایاتو وہ چپکے سے باہر نکلا اور نالہ لئی میں چھلانگ لگا دی، ایک مرتبہ پھر وہ زخمی ہوا لیکن اسے زندہ بچا لیا گیا، وہ انتہائی خوفزدہ تھا کہ وہ اس راستے سے ہٹا تو اسے قتل کر دیا جائے گا، وہ کسی طرح قادیانیت چھوڑنے کو تیار نہ ہوا تو اسکی بیوی کے گھر والوں اور اس کے والدین کے تقاضے پر اس نے بیوی کو طلاق دے دی ۔ اس کی بیوی سے کچھ عرصہ پہلے ملاقات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ میں نے جس وقت ایمان کی خاطر شوہر کو چھوڑنے کا فیصلہ کیا تھا، معاشی طور پر بھی بہت چیلنجز تھے، لیکن یہ اﷲ کا کرم تھا کہ اس نے میرے بچوں کو رزق بھی دیا اور عزت دار زندگی بھی۔ انہوں نے بتایا کہ اس سانحے کے بعد انہوں نے ایک اسکول میں ملازمت کر لی، ساس سسر نے بھی انکا پورا ساتھ دیا، آج تینوں بیٹیوں کی تعلیم مکمل ہونے کے بعد شادی ہو چکی ہے، بیٹے نے قرآن کریم حفظ بھی کیااور تعلیم مکمل کرنے کے بعد شادی بھی ہو گئی، انہوں نے بتایا کہ گزشتہ برسوں میں اﷲ تعالی نے ہر مشکل مرحلے میں مدد کی اور کسی حال میں تنہا نہ چھوڑا۔ اس سب سے ہٹ کر یہ اطمینان کہ میں نے شوہر کھویا ہے ایمان نہیں!!
یہ صرف ایک کہانی نہیں، قادیانیوں کی کارروائی کا ایک نمونہ ہے، جس میں مشکل میں گھرے فرد کی مدد کی قیمت مذہب کی تبدیلی ہے، اسلام کو چھوڑ کر کفر پر مجبور کرنا ہے!
پاکستان میں قادیانیوں کی اکثریت اپنی شناخت ظاہر نہیں کرتی اور اعلی مناصب تک پہنچنے کی کوشش کرتی ہے، تعلیم اور صحت کے شعبے ان کی خاص توجہ ہیں، ڈگری کالجز میں عربی، اسلامیات اور تاریخ ان کے خاص مضامین ہیں، بڑے بڑے کالجز میں ان مضامین کی سربراہی (ہیڈ آف دی ڈیپارٹمنٹ) پر ان کی خاص نظر رہتی ہے، کالجز کے مسائل پر توجہ ، اوراسٹوڈنٹ ایڈوائزر کی ذمہ داریاں اور ہر وہ کام جس سے طالب علم پر خصوصی توجہ دی جا سکے، چند برس پہلے پنجاب میڈیکل کالج فیصل آباد سے تئیس طلبا کو طلبا میں قادیانیت کی تبلیغ پر کالج سے نکالا گیا، تو راولپنڈی میڈیکل کالج کے پرنسپل نے ان تمام طلبہ کو اپنے کالج میں داخلہ دے دیا۔ جس نے آر ایم سی کے طلبہ کی ہڑتال پر اپنا فیصلہ واپس لیا۔
میڈیکل کالج کی ایک طالبہ کہتی ہے کہ اسے ہاسٹل میں کسی بھی مسئلے میں آگے بڑھ کر مدد دینے والی لڑکی کے بارے میں انکشاف ہوا کہ وہ قادیانی ہے، اسلام آباد کالج کی عربی کی ایک استاد ایسی لڑکیوں کو اپنے گھر میں مفت رہائش دیتی تھی جن کا رہائش کا مسئلہ ہوتا اور ہر سیشن میں ایک یا دو لڑکیاں یہ سہولت لے لیتیں، یہی تعلق ایک مستقل رابطہ بن جاتا۔
نوے کی دہائی میں مجھے چندبرس برطانیہ رہنے کا اتفاق ہوا، میں وہاں نقاب میں ہی رہی، قادیانیوں کے بارے میں اس دور میں ایک عام تاثر تھا کہ ان کی خواتین با حجاب ہوتی ہیں، میرے شوہر سے ایک شخص نے رابطہ کیا اور اپنے بچوں کو قرآن اور اردو پڑھانے کی استدعا کی، میں چونکہ فارغ ہوتی تھی اس لئے بخوشی پڑھانے پر آمادہ ہو گئی، انکا بیٹا پانچویں میں اور بیٹی ساتویں میں پڑھتی تھی، دونوں بچے ہی پڑھائی میں سنجیدہ تھے اور شوق سے سبق یاد کرتے، بچوں نے فیس کا پوچھا تو انہیں بتا دیا کہ میں فی سبیل اﷲ پڑھاتی ہوں، چند روز بعد بچوں کی ماں اور دادا قیمتی تحائف کے ساتھ اچانک ہمارے گھر آگئے، میں نے انہیں تمام تحائف واپس کر دیے، کیونکہ میں جن بچوں کو پڑھاتی تھی ان سے کسی طرح بھی مدد یا تحائف نہیں لیتی تھی اور ان سے بھی میں نے یہی کہا کہ میں یہاں دو سال سے رہ رہی ہوں، اگر اس تعلق سے پہلے وہ تحائف دیتیں تو میں لے لیتی، لیکن اب میں ان کے بچوں کی استانی ہوں لہذا کسی تردد کے بغیر انہیں واپس لے جائیں۔ دادا صاحب مردانے میں بیٹھ گئے، بلکہ نہایت بے تکلفی سے لیٹ گئے،سینٹرل ہیٹنگ کے باوجود آتش دان بھی روشن کروایا، اسی دوران میاں صاحب گھر آئے تو انہوں نے ان کے علاقے کے کچھ لوگوں کے نام لینے شروع کئے ، فلاں فلاں کو جانتے ہیں آپ؟ اب تو صاحب کا ماتھا ٹھنکا، انہوں نے جن افراد کا نام لیا تھا وہ ان کے علاقے کے معروف قادیانی خاندان تھے، صاحب نے کہا: ’’ہاں میں ان سب کو بہت اچھی طرح جانتا ہوں؟‘‘۔
’’اچھا ، آپ مرزائی (مرزا غلام احمد کے ماننے والے )ہو؟‘‘۔ دادا صاحب نے لگی لپٹی بغیر پوچھا۔
۔ ’’جی نہیں، میں انہیں کافر قرار دلوانے والوں سے ہوں‘‘۔
دادا جی کو گویا کرنٹ لگا، انہوں نے جوتے پہنے، کھونٹی اٹھائی اور ٹک ٹک کرتے باہر نکل گئے۔
ہمارا گمان تھا کہ یہ کہانی کا ڈراپ سین ہے، مگر ہماری حیرت کی انتہا نہ رہی جب اگلے روز مقررہ وقت پر دونوں بچے سپارہ اور کتابیں اٹھائے آ حاضر ہوئے۔ انہوں نے وہی کہانی سنائی جو انہیں کہا گیا تھا، یعنی ہم قادیانی نہیں ہمارے دادا اور چار عدد دادیاں قادیانی ہیں، وقفے وقفے سے دونوں یہ ثابت کرتے رہے کہ ویسے آنٹی ’’احمدی‘‘ ہوتے بہت ذہین ہیں، پاکستان میں کئی اداروں میں اہم مناصب پر ہیں، انکے کاروبار بہت وسیع ہیں، یہ ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں، ہمارے دادا نے چار شادیاں اسی لئے کی تھیں کہ ۔۔۔ اور ایسی ہی کئی باتیں، سچ تو یہ ہے کہ ہمیں اپنا آپ ملامت کرنے لگا، انہیں اپنے جھوٹے دین کو پھیلانے کی کیسی لگن ہے اور ہم اپنے سچے دین کے بارے میں اتنے لا تعلق؟!
ہمیں اچانک مکان بدل کر ایک دوسرے علاقے میں منتقل ہونا پڑا، یاسین صاحب یہاں بھی بچوں کو لانے کے لئے تیار تھے، مگر ہم نے انکار کر دیا۔
کچھ عرصہ آزاد کشمیر کے دارالحکومت مظفر آباد میں رہنے کا اتفاق ہوا، وہاں بھی حکومت کے اہم عہدے پر ایک قادیانی صاحب تھے، ان کی بیوی شہر کی بااثر خواتین کی دعوتیں رکھتیں، کبھی قرآن خوانی رکھتیں، ہماری مالک مکان بھی ان کے ہاں جاتی تھیں، وہ یہ بھی جانتی تھیں کہ وہ قادیانی ہیں مگر ان کی محبت اور مروت نے اتنا جکڑ رکھا تھا، کہ بلانے پر انکار کی جرأت نہ تھی۔
اسی طرح ہماری ایک عزیزہ نے (جو کافی دینی رجحان رکھتی تھیں) بتایا کہ ہمارے پڑوسی میاں بیوی ہمارے دونوں بیٹوں سے بہت پیار کرتے، امتحان میں کامیابی ہو یا عید یا برتھ ڈے وہ ہم سے بھی پہلے بچوں کے لئے قیمتی تحائف لے کر آن حاضر ہوتے، کچھ عرصہ بعد پتا چلا کہ وہ قادیانی ہیں، اب ہم ان سے تعلق توڑنا چاہتے تھے، مگر ان کے حسنِ اخلاق اور اتنی محبت کے سامنے مجبور تھے کہ کچھ کہہ نہیں سکتے تھے، مکان بدل لیا اور انہیں اس کا پتا بھی نہیں دیا، مگر بیٹے کی سالگرہ کے دن وہ حسبِ سابق لدے پھندے موجود تھے، انہوں نے صاحب کے دفتر سے نیا پتہ حاصل کر لیا تھا۔
ہماری ایک دوست کے شوہر جگر کے عارضے میں مبتلا تھے، ان کا زیادہ تر علاج بیرونِ ملک میں ہوا، ایک مرتبہ پاکستان میں تکلیف ہو گئی، اور ایک ماہر ڈاکٹر کے پاس پہنچے، ان کی مہارت کے ساتھ ساتھ ان کے اخلاق نے انہیں اپنا گرویدہ بنا لیا، کلینک کی اتنی پیاری سیٹنگ، ان کے میز پر خانہ کعبہ کا ماڈل رکھا تھا، سائیڈ ٹیبل پر جائے نماز ، اور ایک نمایاں جگہ پر تسبیح بھی، وہ ان کے کمرے میں تھے کہ اذان ہو گئی، انہوں نے مل کر نماز ادا کی، جب وہ یہ سب بتا رہی تھیں تو ان ڈاکٹر کی ایک اسٹوڈنٹ بھی وہاں موجود تھی، اور اس کے اس انکشاف پر کہ : ’’آنٹی، وہ اور ان کی بیگم تو قادیانی ہیں، دونوں ایک ہی شعبے میں ہیں، ہسپتال میں اس کے دو یونٹ ہیں، اور دونوں ایک ایک یونٹ کے ہیڈ ہیں‘‘، ان کی صدمے سے بری حالت تھی۔
کچھ سال پہلے قازقستان کے شہر الماتی میں جانے کا اتفاق ہوا، وہاں’’نور مبارک اسلامی ثقافی مصری یونیورسٹی ‘‘جانے کا اتفاق ہوا، مصر کے مشہور ادیب و ماہرِ لسانیات ڈاکٹر محمود فہمی حجازی اس کے بانی صد ر سے ملاقات ہوئی، جو بھٹو دور اور پھر ضیاء الحق دور میں کئی مرتبہ پاکستان آچکے تھے، امت کی وحدت اور دین کی اشاعت کے حوالے سے بات چلی تو ان کے نائب ’’شمس الدین کریم‘‘ نے بڑے دکھ سے بتایا کہ قادیانی مبلغین کی سرگرمیاں یہاں (قازقستان میں) بھی شروع ہو چکی ہیں، جو معصوم لوگوں کو دین سکھانے کی آڑ میں بیرونِ ملک لیکر جاتے ہیں اور انہیں قادیانی بناتے ہیں۔
پرویز مشرف دور میں قادیانیت کو کھلی چھٹی ملی، اسلام آباد میں ان کے عبادت خانے کو پہلے سے بہتر طریقے سے تعمیر کیا گیا، ارد گرد کے لوگوں نے بتایا کہ اب ان کی آوازیں ہمارے گھروں تک آتی ہیں، بلکہ سیٹلائٹ کے ذریعے سے ان کے برطانیہ میں نشر ہونے والے پروگرامات یہاں بھی سنائی دینے لگے۔
موجودہ حکومت نے بھی قادیانیوں کے لئے خلافِ آئینِ پاکستان اقدامات کئے، نا اہل وزیرِ اعظم نے انہیں ’’بھائی‘‘ کے درجے پر رکھا، حالانکہ اسلام میں حدیثِ مبارکہ کی روشنی میں ’’المسلم اخ المسلم‘‘(مسلمان مسلمان کا بھائی ہے)، قائد اعظم یونیورسٹی میں قادیانی نوبل انعام یافتہ ‘‘عبد السلام‘‘ کی فزکس کی چیئر قائم کی، پنجاب حکومت کے وزیرِ قانون رانا ثناء اﷲ نے علماء سے جھوٹ منسوب کر کے کہا کہ : ’’علماء ان کو مسلمان مانتے ہیں‘‘ حالانکہ تمام امت ان کے کفر پر متحد ہے۔
پاکستان میں مقننہ کے ادارے پارلیمنٹ میں قادیانیت کے بارے میں موجود حلف نامے کو تبدیل کرنے کی جسارت کی گئی ہے، اگرچہ امتِ مسلمہ پاکستان کے جاگ جانے پر اسے ریورس کیا گیا، لیکن ابھی تک اس کے مجرمان کو بے نقاب نہیں کیا گیا، کجا کہ انہیں قرار واقعی سزا دی جائے۔
جماعت اسلامی کے ممبر قومی اسمبلی صاحبزادہ طارق اﷲنے شاہدِ حق کا کردار ادا کرتے ہوئے اسمبلی میں اس کے خلاف آواز اٹھائی، شیخ رشید صاحب بھی قابلِ تحسین ہیں جنہوں نے قادیانیت کے پشت پناہوں کو اسمبلی فلور پر للکارا، اور علماء کو بھی متوجہ کیا، اس موقع پر پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا نے بھی اپنے ایمان اور حق کا ساتھ دینے کی اعلی مثال پیش کی۔ اس سارے سانحے میں ایک برا کردار وزیرِ داخلہ احسن اقبال کا ہے، جو آپا نثار فاطمہ کے بیٹے اور صاحب’’ِ تدبر القرآن‘‘ جناب امین احسن اصلاحی کے بھانجے ہیں، جنہوں نے حق پر پردہ ڈالنے کی بھونڈی کوشش کی اور ایک عمدہ کردار نون لیک کی اپنی صفوں میں موجود سابق وزیرِ اعظم میر ظفر اﷲ جمالی کا ہے، جنہوں نے یہ کہہ کر کہ ’’قیامت کے دن آقائے نامدار محمد ﷺ کو کیا منہ دکھاؤں گا‘‘، نون لیگ کو ہمیشہ کے لئے خیر باد کہہ دیا۔
رانا ثناء اﷲ نے جو ہذیان بکا ہے کہ قادیانی بھی نماز پڑھتے اور روزہ رکھتے ہیں، اور خود کو مسلمان کہتے ہیں (پھر ہمیں انہیں کافر کہنے کی کیا ضرورت ہے) انکے لئے مؤرخ طبری کی یہ روایت ہے کہ: ’’مسیلمہ (کذاب) کے ہاں جو اذان دی جاتی تھی اس میں اشہد انّ محمداً رسول اﷲ کے الفاظ بھی کہے جاتے تھے، اس صریح اقرارِ رسالتِ محمدی ﷺ کے باوجود اسے کافر اور خارج از ملت قرار دیا گیا اور اس سے جنگ کی گئی۔(تفہیم القرآن، جلد چہارم، ص۱۴۵)
جھوٹ اور جعل سازی کسی رنگ اور شے میں بھی ہو، دھوکا ہے، فریب ہے، لیکن بدترین جعل سازی دین میں جعل سازی ہے اور بدترین دھوکا اسلام کے نام پر دھوکا ہے، پاکستان میں نئے سرے سے چھڑنے والی اس گفتگو کا مثبت پہلو یہ ہے کہ قادیانی جس طرح مسلم معاشرے میں رچ بس گئے ہیں، اور دوستی، اخلاق یا مدد کے آلات سے عامہ الناس کو دھوکا دے رہے ہیں، انہیں اپنے اندر پہچاننے کی ضرورت ہے، اور ان سے ایسا طرزِ عمل رکھنا چاہئے جو غیر مسلموں سے رکھا جاتا ہے، اور نبی آخر الزماں، خاتم النبیینﷺ کی محبت کا ادنیٰ سا تقاضا بھی یہ ہے کہ ہم ان کی ذات اور حیثیت کے بارے میں کوئی دھوکا نہ کھائیں۔
محمدؐ کی محبت دینِ حق کی شرط اوّل ہے
اس میں ہو اگر خامی تو سب کچھ نا مکمل ہے
***

حصہ
mm
ڈاکٹر میمونہ حمزہ نے آزاد کشمیر یونیورسٹی سے ایم اے اسلامیات امتیازی پوزیشن میں مکمل کرنے کے بعد انٹر نیشنل اسلامی یونیورسٹی سے عربی زبان و ادب میں بی ایس، ایم فل اور پی ایچ ڈی کی تعلیم حاصل کی۔ زمانہء طالب علمی سے ہی آپ کی ہلکی پھلکی تحریریں اور مضامین شائع ہونے لگیں۔ آپ نے گورنمنٹ ڈگری کالج مظفر آباد میں کچھ عرصہ تدریسی خدمات انجام دیں، کچھ عرصہ اسلامی یونیورسٹی میں اعزازی معلمہ کی حیثیت سے بھی کام کیا، علاوہ ازیں آپ طالب علمی دور ہی سے دعوت وتبلیغ اور تربیت کے نظام میں فعال رکن کی حیثیت سے کردار ادا کر رہی ہیں۔ آپ نے اپنے ادبی سفر کا باقاعدہ آغاز ۲۰۰۵ء سے کیا، ابتدا میں عرب دنیا کے بہترین شہ پاروں کو اردو زبان کے قالب میں ڈھالا، ان میں افسانوں کا مجموعہ ’’سونے کا آدمی‘‘، عصرِ نبوی کے تاریخی ناول ’’نور اللہ‘‘ ، اخوان المسلمون پر مظالم کی ہولناک داستان ’’راہِ وفا کے مسافر‘‘ ، شامی جیلوں سے طالبہ ہبہ الدباغ کی نو سالہ قید کی خودنوشت ’’صرف پانچ منٹ‘‘ اورمصری اسلامی ادیب ڈاکٹر نجیب الکیلانی کی خود نوشت ’’لمحات من حیاتی‘‘ اور اسلامی موضوعات پر متعدد مقالہ جات شامل ہیں۔ ترجمہ نگاری کے علاوہ آپ نے اردو ادب میں اپنی فنی اور تخلیقی صلاحیتوں کا بھی مظاہرہ کیا،آپ کے افسانے، انشائیے، سفرنامے اورمقالہ جات خواتین میگزین، جہادِ کشمیر اور بتول میں شائع ہوئے، آپ کے سفر ناموں کا مجموعہ زیرِ طبع ہے جو قازقستان، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب میں آپ کے سفری مشاہدات پر مبنی ہے۔جسارت بلاگ کی مستقل لکھاری ہیں اور بچوں کے مجلہ ’’ساتھی ‘‘ میں عربی کہانیوں کے تراجم بھی لکھ رہی ہیں۔

1 تبصرہ

جواب چھوڑ دیں