مذہب صفائی نہیں پاکیزگی کا حکم دیتا ہے

’’بے شک اللہ پاک ہے اور پاکیزگی کو پسند فرماتا ہے‘‘ پاکیزگی سے متعلق آیت و حدیث چوتھی جماعت سے پڑھتے آرہے ہیں۔ طالب علموں میں صفائی کے رجحان کو پیدا کرنے کے لیے یہ آیت و حدیث دیواروں پہ مزین کر دی گئی ہے۔ جس کے نتائج یہ ہیں کہ ہم نوجواں نسل محض زمیں پہ پڑے کوڑے کے ڈھیڑ کی صفائی کو پاکیزگی سمجھتے رہے۔ہرروز نہا کر جسم کو مزین کرنا ہمارے لیے پاکیزگی کے تقاضوں کو پورا کردیتا ہے۔اداروں میں بھی محض پاکیزگی کا درس ادارے کی صفائی کے لیے دیا جاتا ہے۔یہ صفائی ستھرائی کا درس تو غیر مسلم بھی دیتا ہے۔ہمارا مذہب صفائی نہیں پاکیزگی کا حکم دیتا ہے۔یہ پاکیزگی لفظ بہت اعلیٰ درجہ رکھتا ہے اہل مغرب تو اس کے ہم معنی لفظ استعمال کرنے سے قاصر ہے کیونکہ وہ جانتا ہی نہیں پاکیزگی کیا ہے اور نہ ان کے ہاں پاکیزگی پائی جاتی ہے۔یورپین نے اپنے ممالک کو صفائی ستھرائی سے اتنا مزین کر رکھا کہ ہر مسلم بھی وہاں بسنا چاہتا ہے۔لیکن افسوس کہ وہ لاشعوری طور پہ غلاظت سے بھرپور رواج کو اپنائے ہوئے ہیں وہ ترس کے قابل ہیں کیونکہ وہ پاکیزگی سے آگاہی نہیں رکھتے۔
اللہ کے احسانات میں سے ایک احسان یہ بھی ہے کہ اس نے ہمیں دینِ اسلام کی نعمت سے نوازا۔جس نے ہمیں پاک کیا۔جو خود بھی پاک ہے اور اپنے ماننے والوں کو بھی پاکیزگی کا درس دیتا ہے۔آج ہم ترس کے نہیں افسوس کے قابل ہیں کیونکہ ہم پاکیزگی سے آگاہ ہیں۔ہم اس وصف کے فوائد اور اس کی دلکشی جانتے ہیں۔لیکن باوجود اس کے ہم اپنی روح پاک نہیں کررہے۔ہم ظاہری پاکیزگی کو ترجیح دیتے ہیں جو دارِ فانی سے کوچ کرتے ہی ساتھ چھوڑ کر سپردِ خاک ہوجائے گی۔روح جس کو بقا ہے جس کی بدولت جزاوسزا کاتعین کیا جائے گا اْسے پس پشت ڈال کر غلاظت سے بدبودار کرتے جارہے ہیں۔ہمارا قلب ،ہماری بصارت، ہماری سماعت ، ہمارے کرداراور ہمارے افکار۔
ماسوائے ہمارے اجسام کے ان روحانی پہلوؤں میں کہیں بھی پاکیزگی دیکھائی نہیں دیتی ۔ہماری روح منتشر ہوچکی ہے۔وجود بکھر چکا ہے گناہ گار اس حد تک ہیں کہ گناہ سے آگاہ ہونے کے باوجود اس کو چھوڑ نہیں پارہے کیونکہ ہم غلاظت کے عادی ہوچکے ہیں۔آج اس معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ گناہوں کی پہچان سب کو ہے لیکن چھٹکارا پانا مشکل ہوچکا ہے۔ہر لمحہ صاف ستھرا رہنے کے باوجود ہمارے شب وروز غلیظ ہوچکے ہیں۔اس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ ہم جسمانی پاکیزگی کو ہی پاکیزگی سمجھ بیٹھے اور روحانی پرورش غلاظت کے ڈھیر پہ کیے جارہے ہیں۔
ہر کوئی اپنے اپنے عقائد کو پختہ بنانے کے لیے اسلامی احکام کواستعمال کرتا جارہا ہے۔ پاکیزگی کو اپنے عقائد کے مطابق سمجھتے ہوئے صفائی ستھرائی کا اس حد تک خیال رکھتے ہیں کہ سڑک پہ بیٹھے کسی معذور یا بے بس انسان کے پھٹے لباس کو مدنظر رکھتے ہوئے اسے سلام کرنا بھی توہین سمجھتے ہیں اور بھول چکے ہیں کہ اس جہاں کی سب سے پاکیزہ ہستی اور پاکیزگی کا درس دینے والی ذات ایسے بے کسوں کو سینے سے لگاتی رہی۔
ضروری امر یہی ہے کہ پاکیزگی کی تعریف کو سمجھا جائے اور اس پہ عمل کیا جائے۔خود کو پاکیزہ بنایاجائے۔خدارا سمجھئے روح کی غذا اس کی پاکیزگی ہے ۔ایک لمحہ کے لیے اپنی روح کو دیکھیے۔اپنے آپ سے مخاطب ہوجائیے۔تزکیہ نفس کیجیے۔گناہوں سے چھٹکارا پائیے۔لوگ کے جسموں سے نہیں انکے کردار سے ان کو ناپاک اور پاک کا لقب دیجئیے۔یہ نہ ہو کہ جس کو ہم گندے لباس و مکاں کی بنا پہ ناپاک یا غلیظ کہہ رہے ہوں وہ رب کے حضور بہت پاکیزہ ہو۔ اے اللہ ہمارے دل کو نفاق سے، ہمارے عمل کو ریاونمود سے،ہماری زبان کو جھوٹ سے اور ہماری آنکھوں کو خیانت سے پاک کردے۔آمین

جواب چھوڑ دیں