قرارداد پاکستان، ماضی سے مستقبل تک 

برصغیر کے مسلمانوں کی لازوال قربانی نے ہم کو پاکستان جیسی نعمت سے نوازا مگر ہم خود ہی ناشکرے ہیں نہ اس دی ہوئی چیز کا شکر ادا کرتے ہیں نہ اس خدا سے فریاد کرتے ہیں اور وہ ہے کہ مسلسل ہمیں نوازتاہے اور دئیے ہی جارہا ہے۔کوئی ملک اس وقت تک بدحال نہیں ہوتا جب تک اس کے حکمران اپنی جیبوں کے بجائے اپنے عوام کو دیکھتے ہیں لیکن ہم وہ واحد بدقسمت ملک ہیں جس کا کوئی وارث نہیں ،نام نہاد حکمران سیاست چمکانے اس ملک کا رخ کرتے ہیں جب مدت ختم ہوتی ہے تو ایک ملازمت کی طرح ملک کو ٹھوکر مار کر چلے جاتے ہیںیہ ہے میرا “پاکستان “جو مصیبتوں ،مسائل میں گھیرا ہوا ہے۔علامہ اقبال کے خوابوں کی تعبیر آج روئے زمین پر سسکتی پھر رہی ہے۔
برصغیر میں دو قومیں آباد تھیں مسلمان اور ہندو اور ہمارے آباؤ اجداد اس بات کو محسوس کر چکے تھے کہ ہم کبھی یہاں اکثریت میں نہیں آئیں گے اور نہ یہاں ہم کو اپنے دین پر عمل کرنے دیا جائے گا تو قائد اعظم اور دیگر رہنماؤں کی انتھک محنت کے نتیجے میں 23مارچ 1940ء کو قرارداد پاکستان منظور ہوئی۔لفظ قرار داد کے معنی کیا ہے؟ مطلب کسی کو نہیں پتا ہوگا اور ہوگا تو صرف اپنے مطلب کے لیے ،،،اقرار کرنا ،تسلیم کرنا،ماننا ، پر کیا ماننا؟یہ قرارداد کس لئے منظور ہوئی تھی؟یہ قرار داد ایک سوچ،ایک کتاب،ایک مذہب ،ایک قوم کے لئے منظور ہوئی تھی۔اْس وقت کے دو ظالم قوموں نے یہ تسلیم کیا تھا کہ مسلمان ایک قوم ہے ،ان کے بھی اپنے رہن سہن ہیں،اور انکو بھی ایک الگ اور ایسے ملک کی ضرورت ہے ،جو پاک ہو،جہاں وہ اپنی زندگی اْس مذہب اور اْس کتاب کے مطابق بسر کریں اور رب کی عبادت کرسکیں۔
اس لئے اس ملک پاکستان کا مطلب کیا؟کا نعرہ بلند کیا!یعنی مجموعے میں سے ایک آواز آتی ’’پاکستان کامطلب کیا؟اور پورا مجموعہ یک آواز ہو کر کہتا’’لا الہ الا اللہ‘‘ اورآج 75 سال گزرنے کے بعد بھی یہ نعرہ ہماری آنے والی نسلوں کو یاد ہے لیکن افسوس صد افسوس صرف نعرہ یاد ہے۔مگر نعرے کا مفہوم بھول گئے!
آج کا مسلمان خاص طور پر پاکستان کا مسلمان مردوں کا اسلام چار شادیوں تک محدود ہے۔چارشادیاں شوق سے کریں لیکن جو شرائط ہیں ان کو بھی پورا کریں۔مردوں کے لئے اسلام میں اس کے علاوہ بھی اور احکامات ہیں، مثلا: داڑھی رکھنا ، ٹخنوں سے اونچی شلوار پہننا، ان سب کے بارے میں اسلام کیا کہتا ہے؟ یہ نہ تو معلوم ہے،نہ ہی جاننا چاہتے ہیں کیونکہ عمل بھی تو نہیں کرنا۔
اسی طرح ایک نظر مسلمان پاکستانی عورتوں پر ڈالیں تو ان کو اسلام کی معلومات اتنی ہے کہ انہوں نے رخصت ہونے کے بعد شوہر کو لیکر الگ ہو جانا ہے کیونکہ اسلام انہیں ساس سسر کی خدمت سے آزاد کرتا ہے کیونکہ اگر ان کی مرضی نہیں ہے کہ وہ گھر کے کام کریں تو شوہر ان کے لئے نوکر کا بندوبست کرے۔عقل کو ہاتھ ماریں اگر شوہر کے ذہنی سکون کے خاطر تھوڑی سی محنت کرلیں تو قباحت ہے۔جب ایسی سوچ کے حامل افراد ہوں گے تو وہ آنے والی نسلوں کی کیا تربیت کریں گے۔
مذہب اسلام ہمیں جہاں اتنی آزادی دیتا ہے،ویہی وہ ہمیں انسانیت کا درس بھی دیتا ہے۔ ہم اس پر عمل کیوں نہیں کرتے ہم صرف اپنے مطلب کی باتوں پر ہی کیوں فوکس کرتے ہیں۔ اس ملک کو اسلام کی چند باتوں پر عمل کرنے کے لئے نہیں حاصل کیا تھا۔بلکہ زندگی کے تمام معاملات کو مکمل اسلامی ضباطہ حیات پر گزارنے کے لئے حاصل کیا تھا۔تاریخ گواہ ہے کہ!جب جب ہم مسلمانوں نے اپنی تہذیب و تمدن کو پامال کیا!ہم محکوم ہوئے ہیں اور جب جب ہم نے تعلیم اور اپنے رہن سہن کو اسلام کے مطابق گزاری ہم نے دنیا پر حکومت کی ہے۔
آج پھر 23مارچ ہے ، قرارداد پاکستان کا دن ہے،ہمیں ایک بارپھراقرار کرنا ہوگا،اور اب کی بار ہم نوجوانوں کو آپس میں اقرار کرنا ہوگا کیونکہ کسی بھی قوم کی ترقی میں نوجوان ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔

 

جواب چھوڑ دیں