گدا گر یا برساتی مینڈک

            جس طرح برسات کے موسم ہر جگہ مینڈک نہ صرف نکل پڑتے ہیں بلکہ ٹرٹرانے بھی لگتے ہیں بالکل اسی طرح رمضان کے مہینے میں، عید اور بقرعید کے زمانے میں کراچی میں گداگر یلغار کردیتے ہیں۔ ویسے تو کراچی کے سارے مہینے ان کا وجود رہتا ہے اور کراچی کے ہر سگنل، مارکیٹ، گلی کوچوں میں یہ بکثرت نظر آتے ہیں، ٹریفک کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ بن جاتے ہیں لیکن رمضان، عید اور بقرعید پر تو یہ چیل کوّوں کی طرح سروں پر منڈلانا شروع ہوجاتے ہیں۔ ادھر آپ کی گاڑی کسی سگنل پر رکی اُدھر زمیں ان کو اگلنا شروع کر دیتی ہے۔ اگر کسی نے ان میں سے کسی کو کچھ دے دلادیا، تو ان کا پورا قافلہ مہربان ہوجانے والے کے پیچھے پڑجاتا ہے اور مہربان ہوجانے والے کی اپنی جان عذاب کا شکار ہو کر رہ جاتی۔گدا گروں کی بھی بہت سی اقسام ہوتی ہیں۔ بہت ایسے ہوتے ہیں کہ بالکل ”اپ ڈیٹ“ ہوتے ہیں۔ نہایت خوش پوش، دھلے دھلائے، پاک صاف، سرپر ٹوپی اور ہاتھ میں دینی کتابوں کی گڈی ، تمیز سے آکر سلام کریں گے اور اپنی کتابیں، مسواک یا اور کوئی دینی لٹریچر آپ کے سامنے پیش کریں گے اور خریدنے یا مدد کی درخواست وہ بھی نہایت عاجزی مگر زبردستی کرنے والے انداز میں آپ کے حضور رکھ دیں گے۔ اب آپ کبھی ان کی خوش پوشاکی پر نظر ڈالیں گے اور کبھی وہی بھکاریانہ انداز کے متعلق غور کریں گے اور سوائے اس کے کہ اپنا سر پیٹ لیں اور کچھ نہ کر سکیں گے۔ کچھ ہاتھ میں کوئی بڑا سا رومال یا وائیپر لیکر بنا پوچھ گچھ آپ کی گاڑی کے ونڈ اسکرین پر ٹوٹ پڑیں گے اور اسکے بعد پورامنھ گاڑی کے شیشہ کے اندر دے کر پانچ دس روپے کا مطالبہ پیش کر کے آپ کیلئے عذاب جان بن جائیں گے، کچھ زخم سجائے اور کچھ کوئی اور سوانگ رچائے آپ کے ارد گرد کھڑے ہو جائیں گے۔ مسئلہ یہ ہے کہ یہ سارے گداگر اس بات کی پروہ کئے بغیر، سگنل کھل جانے کے باوجود بھی گاڑیوں کے راستے سے ہٹنے کیلئے کسی طور تیار نہیں ہوتے اور یوں لگتا ہے جیسے وہ چاہتے ہوں کہ کسی نہ کسی طرح وہ گاڑی کی زد میں آہی جائیں تاکہ وہ پھر دوچار آنے نہیں آپ کی جان ہی کا سودا کر بیٹھیں۔

            اتنی بڑی تعداد میں بھکاریوں کا کراچی کی حدود میں آجانا، عارضی بستیاں تعمیر کرلینا، ان کے روپ میں ہزاروں جرائم پیشہ افراد کا ان شامل ہوجانا، سگنلوں پر ان کا موجود ہونا ، چوراہوں پر، بازاروں میں اور گلیوں میں ان کی موجودگی ، کیا یہ ایک غیر معمولی بات نہیں؟ کیا اس پر نظر رکھنا، ان کی سرکوبی کرنا، ان کی عارضی بستیوں کا بسنے دینا، ان کو آزادانہ شہر کے کونے کونے میں پھرنے دینا، گاڑیوں میں جھانکناتاکنا، ٹریفک کی روانی میں خلل ڈالنا، کیا سب قابل گرفت بات نہیں؟ کیا جن قصبوں، دیہاتوں اور شہروں سے یہ ہجرت کرکے آتے ہیں ان کا ریکارڈ ہماری انتظامیہ کے پاس ہوتا ہے؟ اگر نہیں تو کیا ایسا غیر محتاط رویہ کسی بھی بڑی کارروائی کا سبب نہیں بن سکتا؟ کیا ملکی یا غیرملکی تخریب کار گداگری کا سوانگ نہیں رچا سکتے؟ کیا ان کے مال و اسباب کو اسی طرح جانچ کیا جاتا ہے جس طرح بسوں، ٹرینوں، ہوائی جہازوں یا اپنی ذاتی سواریوں میں سفر کرنے والے مسافروں کے مال و اسباب کی جانچ پڑتال ہوتی ہے؟ اگر ایسا ہے بھی تب بھی ان کو کسی شہر میں کسی سرکاری یا غیرسرکاری جگہ پر قیام کی اجازت کیسے مل جاتی ہے؟ کیا کراچی شہر میں رہنے والے جو بیسیوں برس سے کراچی میں رہ رہے ہیں یا یہیں کے ہیں یا یہاں پیدا ہوئے ہیں وہ ایسے ہی تفریحاً ایک ماہ کیلئے کسی سرکاری یا غیر سرکاری زمین پر اپنی عارضی بستی قائم کر سکتے ہیں؟ اگر نہیں اور ان کے خلاف فوری کارروائی عمل میں آجائی گی بلکہ وہ کسی بھی بڑے الزام کے ساتھ کال کوٹھڑی میں ڈال دیئے جائیں گے تو ان گداگروں کو کون ایسا سب کچھ کرنے کی اجازت دیتا ہے؟ یہ ہیں وہ سوالات جو ہر شریف شہری کے دل و دماغ میں آندھیاں بن کر اٹھتے ہیں لیکن اس پورے پاکستان میں کوئی ایک ادارہ بھی ایسا نہیں رہ گیا ہے جو اس قسم کے سوالات کے جوابات دینے کیلئے تیار ہو

ایک اخباری رپورٹ کے مطابق کراچی کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے ان گداگروں کے گرہوں کے بڑے بڑے ٹھیکے ہیں اور یہ پوری منصوبہ بندی کے ساتھ لائے جاتے ہیں۔ ان گدا گروں کو یومیہ دو سو روپوں سے لیکر ایک ہزار روپے مزدوری کے علاوہ کھانا پینا اور رہائش بھی مہیا کی جاتی ہے۔ پورے کراچی کو کئی حلقوں میں تقسیم کیا گیا ہے اور ہر حلقے کو سستے، درمیانے اور مہنگے حلقوں میں بانٹا گیاہے۔ حلقوں کے لحاظ سے ہی ہر جگہ کا ٹھیکا کم اور زیادہ مقرر کیا گیا ہے۔ اب کوئی انصاف سے بتائے کہ اتنے بڑے پیمانے پر ایک کام ہو رہا ہو اور پولیس کو کانوں کان خبر نہ ہو؟ یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے؟ اسی لئے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پولیس ڈپارٹمنٹ علاقوں کے اعتبار سے پچاس ہزار روپوں سے لیکر دو لاکھ روپے بطور ہرجانا یا عام زبان میں ”بھتا“ یومیہ کے حساب سے وصول کرتی ہے۔ سیاسی جماعت کے کارکنان کسی ایک فرد سے بھی چندہ طلب کریں تو پولیس حرکت میں آجاتی، دفاتر میں بیٹھے لفراد کی انھیں خبر ہوجاتی ہے، فلاحی اداروں کے لئے قربانی کی کھالیں کوئی دینی یا مذہبی جماعت گلی گلی پھر کر نہیں جمع کر سکتی، زکوٰة اور خیرات کی رقوم اکھٹا کرنا باقابل معافی جرم ہے، کسی مدرے، فلاحی ادارے کا گھر گھر جا کر خیرات جمع کرنا ممنوع ہے لیکن ان گداگروں کا رات دن بھیک مانگنا اور اس کی آڑ میں چوری چکاری اور چھینا جھپٹی ایک کاروبار بن گیا ہے وہ ایک ایسا کاروبار جس کے تالاب میں سب نہارہے ہیں وہ بھی بنا لباس

            اب جو ٹھیکیدار انتظامیہ کو یومیہ اتنی بھاری رقم ادا کرتے ہوں وہ خود کتنا کماتے ہونگے اور جن بھکاریوں کو دو سو سے ہزار روپے یومیہ تنخواہ علاوہ کھانے پینے اور رہائشی سہولتوں کے ملتے ہوں گے وہ کتنا کما کے دیتے ہونگے؟ ظاہر ہے ہر ایک فقیر کو اس کی تنخواہ کے مطابق ہی ہدف بھی دیاجاتا ہوگا۔ اب خود ہی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان اہداف کو پورا کرنے کیلئے وہ لوگوں کے دیئے چند سکوں سے سے تو پورا نہیں کرتے ہونگے، اس کیلئے پرس چھین لینا، جیب صاف کر دینا، غافل گاڑی چلانے والے کا قیمتی موبائل اڑالینا، رمضان یا عید کی خریداری کا مال غائب کردینا، گاڑیوں کے قیمتی بیک میرر توڑ لینا، وہیل کور غائب کر دینا، پارکنگ میں گھڑی گاڑیوں کی بیٹریوں کو اڑالینا جیسے جرائم کئے بغیر ان کے وہ اہداف حاصل ہی نہیں ہو سکتے جس کی وہ تنخواہ لیتے ہیں۔ ایسا ہی ہوگا توتب ہی تو ان کے ٹھیکیدار پچاس ہزار سے دو لاکھ روپے یومیہ پولیس کو دینے کے قابل ہو سکیں گے ورنہ ان پر آسمان سے تو نوٹوں کی بارش ہوتی نہیں ہے۔ یہ بات یا یہ رپورٹ اخبارات میں بنا تحقیق تو شائع ہوئی نہیں ہوگی۔ اگر مان بھی لیا جائے کہ قیاس پر مبنی ہے تو پھر اس بات کا کیا جواب ہے کہ ان دنوں اسٹریٹ کرائم حد سے زیادہ کیوں بڑھ جاتے ہیں؟ لوگ گلیوں میں، بازاروں میں، چوراہوں میں، سگنلوں پر اور ٹریفک جام ہونے کی صورت میں کیوں لٹ رہے ہوہیں؟ خواتین اپنی سونے کی اشیا سے کیوں محروم ہو رہی ہیں؟ ان سے پرس کیوں چھین لئے جاتے ہیں، مسافر اپنی جیبیں کٹوا رہے ہیں اور گاڑیوں والے اپنے قیمتی موبائیل فون اور خریدی ہوئی اشیا سے کیوں محروم ہو رہے ہیں؟

            ان سب سے بڑھ کر جو سوال ہے وہ یہ ہے کہ باہر سے آنے والے ان گداگروں نے شہر کی ہر بستی، ہر سرکاری اور ذاتی پراپرٹی پر کس کی اجازت سے پورے پورے شہر بسائے ہوئے ہیں جہاں ان کی اولادیں در اولادیں پرورش پا رہی ہیں۔فٹ پاتھ رہائش گاہوں میں تبدیل ہو چکے ہیں اور کوئی بستی ان کی دسترس سے دور نہیں لیکن کوئی ایک فرد یا ادارہ بھی ایسا نہیں جو ان سب باتوں کا جواب دینے کیلئے تیار ہو

            مشتاق احمد یوسفی نے کیا خوبصورت بات کہی ہے ”رمضان میں بنی ہوئی ہر چیز ہر فرد شوق سے کھا لیتا ہے، پاکستان بھی رمضان میں بناتھا“ ان کی اس گہری بات کے بعد کچھ کہنا گستاخی ہی ہو گی اس لئے میں خاموش ہوا جاتا ہوں

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں