ڈاکٹر محمد ایوب ٹھاکر

(1948_2004)
زندگانی تھی تیری مہتاب سے تابندہ تر
خوب ترتھا صبح کے تارے سے بھی تیرا سفر

فرزندہ ملت ڈاکٹر محمد ایوب ٹھاکر جن کو دنیا ایوب ٹھاکر کے نام سے جانتی ہے ” شوریدہ سرزمین اور سیب عنبرین کے مسکن شوپیاں کے قریہ پڑسو میں پیدا ہوئے۔ قریہ پڑسو کشمیر کے بابْ الاسلام قصبہ شوپیاں سے دس کلومیٹر دوری پر واقع ہے۔ ان کے والد کا نام خواجہ غلام احمد تھا اور والدہ فاطمہ بیگم کے نام سے جانی جاتی تھیں .ڈاکٹر ایوب نے اپنی ابتدائی تعلیم ھائی سکول کاپرن میں حاصل کی اور اسکے بعد انہوں نے گورنمنٹ ھائر سیکنڈری اسکول شوپیاں میں امتیازی نمبروں سے گیارہویں جماعت پاس کیا . اس کے بعد انہوں نے گورنمنٹ ڈگری کالج اسلام آباد سے بی ایسی سیB.S.C کی ڈگری حاصل کی اور حسب معمول اپنی قابلیت کا لوہا منوایا یہی وجہ ہے کہ انہیں جامع کشمیر (K.U) میں داخلہ ملا اور انہوں نے فزکس میں ایم ایس سی اور بعد میں پی۔ایچ ۔ڈی کی اعلی ڈگری حاصل کر لی. ڈاکٹر ایوب نے جب نیوکلیئر (Nuclear) فزکس میں ڈاکٹریٹ کیا تو کشمیر یونیورسٹی کے اس شعبہ ,بلکہ پوری ریاست میں کسی بھی طالب علم کو یہ اعزاز حاصل نہیں تھا۔
ڈاکٹر ایوب کی شخصیت ہمہ جہت خوبیوں کی حامل تھی۔ وہ بیک لمحہ نوکلیئر سائنسدان بھی تھے اور سحر خیز تہجد گزار بھی تھے۔ وہ خوبرو نوجوان بھی تھے اور دردمند دل رکھنے والے انسان بھی تھے وہ اپنے نظریات کیلیے سخت گیر بھی تھے لیکن ساتھ ہی اوروں سے نرمی اور ملائمت سے ملتے تھے ۔وہ نرمی logic اور قوت استدلال سے اپنے مخالف کو قائل کرتے تھے۔
نرم دم گفتگو ،گرم دم جستجو
رزم ہو یا بزم ہو پاک دل وپاک باز
ڈاکٹر صاحب جو تعلیمی اعتبار سے کشمیر کے قدیر خان اورعبدالکلام تھے بڑے ہنس مکھ اور ملنسار تھے، علمی تکبر اور جاہلانہ اسٹیٹس سے کوسوں دور تھے ۔
جب ڈاکٹر صاحب ریسرچ سکالر تھے تو وہ اسٹوڈنٹس اسلامک آرگنائزیشن (S.I.O) سے وابستہ ہوئے اور اس کے کلیدی رہنما تھے s.i.o.کی بنیاد 1974 میں رکھی گئی تھی ۔آرگنائزیشن میں اعظم انقلابی ،یونس گیلانی اور دیگر شامل تھے ۔1988 میں جماعت اسلامی جموں و کشمیر کے دفتر مائسمہ کی دوسری منزل کے حال میں طلبہ کی ایک خصوصی نشست ہوئی جس میں 18سرکردہ طلبہ رہنماؤں نے شرکت کی جس میں ڈاکٹر صاحبپیش پیش تھے، اسی اجلاس میں اسلامی جمعیت طلبہ جموں و کشمیر کی داغ بیل ڈالی گئی۔ محترم اشرف صحرائی اس کے پہلے ناظم اعلیٰ بنے جبکہ ڈاکٹر صاحب معتمد عام (Genral Secretary ) منتخب ہو گئے ۔ 1980 میں شیخ تجمل اسلام جو اس وقت جمعیت کے ناظم اعلیٰ تھے گرفتار ہوئے تو ڈاکٹر ایوب ٹھاکر ناظم اعلیٰ بن گئے۔ ڈاکٹر صاحبہمہ جہتاور فعال شخصیت کے حامل تھے وہ نہایت متحرک تھے تساہل اور تغافل سے خائف تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنی قائدانہ صلاحیتوں اور فعالیت سے جمعیت کو کشمیر یونیورسٹی میں ایک معروف تنظیم کے طور پر وجود متعارف کروایا بعد میں ان کی تنظیمی نظامت اور ان کے ساتھیوں کی صلاحیتوں سے یہ تنظیم کشمیر یونیورسٹی کی صف اول کی طلبہ تنظیم بن گئی۔
ڈاکٹر صاحب اپنی تقرریروں میں اس بات پر زور دیتے تھے کہ مسلمان کو اپنے ماضی کا بھر پور مطالعہ کرنا چاہئے اور ماضی کو دین میں رچا بسا کر مستقل کا تعین کرنا چاہئے ۔ وہ قدامت پسندی یا اساس پسندی کے طعنے سے گھبراتے نہیں تھے۔ بلکہ اپنے کارکنوں اور طلبہ پر زور دیتے تھے کہ “ہمیں اساس پسندی پر شکر کرنا چاہئے” اساس پسندی اسلاف پسندی ہے۔ اس سے گھبرانا نہیں چاہئے , پھر وہ یہ مثال دیتے تھے کہ کرکٹ میں گیند باز جتنا پیچھے جا کر رن اپ زیادہ لیتا اتنا ہی زیادہ تیز گیند پھینکتا ہے۔ اس طرح ایک مسلمان جتنا زیادہ اپنے اسلاف اور ماضی کی طرف لپکے گا اتنا ہی زیادہ وہ اپنے مستقبل میں اپنے ہدف کو پائے گا۔
ڈاکٹر صاحب کی روح جمعیت ،اْن کا دل جمعیت اور انکا جگر جمعیت تھی جب دل و جگر ہی کٹ جائے تو بدن کی حالت کیا ہوگی اندازہ کر لیجیے کہ جس ڈاکٹر ایوب کا سب کچھ جمعیت تھی انہوں نے جب اسی کاروان کو لٹتے دیکھا تو ان کا جی کیوں کر “کوئییار” میں لگتا
کیا لطف انجمن کا جب دل ہی بجھ گیا ہو.
ھجرت: 1980 میں حکومت وقت کے عتاب نے انہیں رسول اکرمؐ کی سنت ہجرت پرعمل پیرا ہونے کیلیے مجبور کیا وہ سعودی عرب چلے گئے گھر کا عیش وآرام چھوڑ دیا سب کچھ چھوڑ کر غربت مسکنت اورمہاجرت کی زندگی اختیار کر لی وہاں پر بھی انہوں نے اسلام کی سربلندی کیلیے اپنی قائدانہ صلاحیتوں کو بروئے کار لئے۔ حج کے ایام میں وہ حجاج کرام کی دلجوئی اور معاونت کیلیے ہنگامی کیمپ کا اہتمام کرتے رہے اور ساتھ ہی دنیا بھر کے حاجیوں کو کشمیریوں کی زبوں حالی سے آگاہ کرتے تھے اور معتبر وسائل ،ترسیل سے عالم اسلام تک کشمیریوں کی آواز پہنچاتے رہے،جب سعودی عرب کی شخصی حکومت نے ان کی سیاسی سرگرمیوں پر ناپسندگی کا اظہار کیا تو انہوں نے بلا کسی تعامل کے ملازمت سے سبکدوشی اختیار کی اور لندن کی راہ اختیار کرتے ہوئے اپنے مشن کو جاری رکھا ۔
وفات :۔ ڈاکٹر ایوب کافی عرصے پہلے پھیپڑوں کی کینسر جیسی جان لیوا بیماری کی زد میں آچکے تھے ۔ جس سے انکا سارا نظامِ تنفس بری طرح متاثر ھو چکا تھا یہاں تک ان کے لئے آخری ایام میں سانس لینا بھی دشوارتر تھا ان کی شریک حیات کہتی ہیں کہ جب ڈاکٹر صاحب کی حالت ہسپتال میں حد سے بگڑ گئی تو میں کافی پریشان ھوگئی، میری پریشانی آنسو کے قالب میں ڈھل گئی اور میں آہ وبکا کرنے لگی دفعتاً ایوب صاحب نے آنکھیں کھولی اور نرمی کے ساتھ مجھے تسلی دی کہ تم اتنی افسردہ خاطر کیوں ھو رھی ھو!سنو میں اس وقت تک موت کی آغوش میں نھیں جاسکتا جب تک میرے چہرے پرشرعی داڑھی نہ آئی گی کیونکہ میں اس سنت رسولؐ پر عمل کے بغیر آقائے نامدار کا دیدار نہیں کرنا چاہتا ۔ ڈاکٹر صاحب کی یہ پیشگوئی سو فیصد سچ نکلی جب انکی روح 10مارچ 2004 کے دن قفس عنصری سے پرواز کر گئی تو ڈاکٹروں کی طرف سے لگایا گیا طبی ساز و سامان جب ان کے منہ سے ہٹایا گیا تو ان کے حسین و جمیل چہرے کی رونق اس شرعی داڑھی سے دو چند ہو رہی تھی ۔یوں اللہ نے ان کے عشق رسول کی لاج رکھ لی (بحوالہ ماہانہ تکبیر)۔
مرنے کے بعد بھی آبائی وطن کی مٹی نصیب نہ تھی اس لیے انکو لندن میں سپرد خاک کیا گیا ۔ڈاکٹر صاحب کے پسماندگان میں ان کی بیوہ ایک بیٹا اور دو بیٹیاں شامل ہے۔ اللہ تعالی انہیں جنت میں اعلیٰ مقام عطا کرے ۔آمین

جواب چھوڑ دیں