غلطی کس کی ہے

میں نے کھڑکی کھولی ۔ سورج ابھی تک مکمل جاگا نہیں تھا ، رات ابھی تک آنکھ مچولی کھیل رہی تھی ۔ ہوا میں بہتی خنکی کے لمس کو میں نے اپنے چہرے کے پوروں میں محسوس کیا جس نے نا صرف میرے بدن کو بلکہ میری روح کو بھی معطر کر دیا۔ میں نے ایک لمبی سانس لی ٹھنڈی ہوا میرے اندر گدگدائی میں نے کھڑکی بند کر دی ۔ اسکول جانے میں ابھی وقت باقی تھا۔ ناشتہ کروا کر امی نے تیار کیا اور جاتے ہوئے مجھے بوسا دیا۔ اس بوسے کا انتظار مجھے ہمیشہ رہتا ہے جو میری روح کو پر سکون کر دیتا ہے۔ نجانے ساری مائیں ایک سی کیوں ہوتی ہیں۔پیار کرنے والی ، اولاد کی چھوٹی سے چھوٹی تکلیف پر تڑپ اٹھنے والی اور پیار ہی پیار اپنے اندر رکھنے والی ۔ خیر ماں نے ہمیں خدا خافظ کہا اور میں رکشے میں اسکول روانہ ہو گیا۔
لیکن میری ماں نہیں جانتی تھی کہ قضا میر انتظار کر رہی ہے میں جا تو اپنے پیروں پہ رہا ہوں مگر آؤں گا لوگوں کے کاندھوں پر۔ جس ماتھے کو اس نے بوسہ دیا وہ دوبارہ اسے دیکھنا بھی نصیب نہیں ہوگا میری آواز دوبارہ کبھی اس کے کانوں میں سر نہیں گھولے گی ۔ کوئی اسے ماں ماں کہہ کر نہیں پکارے گا۔ لیکن شاید تقدیر کو یہی منظور تھا ۔
آج سردی بھی تو کچھ زیادہ تھی ہم سب ٹھٹھرے ہوئے بیٹھے تھے بالکل خاموش ۔ خاموشی نے بھی ہر جگہ اپنے پر پھیلائے ہوئے تھے یوں لگتا تھا کہ جیسے ہم سب جانتے تھے کہ کیا ہونے والا ہے ۔
اتنے میں ایک اور ننھے پھولوں سے بھرا رکشہ ہمارے قریب آیا اور ہمارے ڈرائیور سے کہا ’’ کیوں لالا دم نہیں ہے ،آج اتنا آہستہ کیوں جا رہا ہے ‘‘ اس جملے نے ڈرائیور کو ذرا پر جوش کیا جو پہلے سویا ہوا لگ رہا تھا ایک دم بولا ’’ چل دیکھتے ہیں کس میں دم ہے ‘‘ یہ کہہ کر اس نے ایکسلیٹر گمایا ۔ تیل انجن پر بھرسا، انجن نے زور لگایا اور پھر کیا۔۔۔ دونوں رکشے ہواؤں میں ہو گئے۔ ہم سب انکل کو آہستہ چلانے کا کہہ رہے تھے مگر لگ رہا تھا کہ آج انکل گولڈ میڈل جیتے گا اولمپک کا۔
پھر دور سے میں نے اسے دیکھا ، ہاں میں نے اپنی قضا دیکھی ۔ جو میری بقا کو ختم کرنے کے لئے آرہی تھی ۔ اس نے ماتھے پر روشنیوں کا جھومر پہنا ہوا تھا ۔ زمین کی تھرتھراہٹ اس کے آنے کا پتا دے رہی تھی ۔ مگر یہاں ابھی تک ریس ختم نہیں ہوئی تھی کہ آخری پوائنٹ ہماری موت ہی تھی ۔ ہم قریب سے قریب تر ہوتے جا رہے تھے کہ اچانک دونوں رکشے پٹری پر چڑھے ۔ میں نے پہلے رکشے کو ٹرین کی زد میں آتے دیکھا ۔ ایسا لگ رہا تھا کہ ٹرین رکشے سے ۔ اس کے راستے میں آنے کا بدلہ لے رہی تھی ۔ رکشہ آدھا ہوا، خون دکھا اور پھر بس کچھ کباڑ اور کچھ باقیات بچیں ۔ نہ رکشا رہا اور نہ بچے ۔ اور اگلی باری ہماری تھی ۔ رکشہ پٹری میں پھنس چکا تھا۔ میں نے انکل کو دیکھا ، انکل نے آخری بار پورا اکسیلٹر گمایا ، سائلنسر نے دھواں اگلا۔ انجن نے پورا زور لگایا مگر یک دم رکشہ بند ۔ انکل چیخا چھلانگ لگاؤ مگر شاید وقت تیز ہو گیا اور پیلے جھومر والی ہماری قضا اور زیادہ تیز ہوئی اور پھر وہ ہم سے ٹکرائی۔ مجھے محسوس ہو ا جیسے کسی نے مجھے آسمان سے زمین پر پٹخا، میری پسلیاں چٹخیں اور ایک دوسرے میں دھنس گئی ، مجھے ہڈیوں کے ٹوٹنے کی آواز آئی میں نے ایک راڈ کو زور سے پکڑا تھا ۔ جب ٹکر لگی تو راڈ رکشے سے ٹوٹنے سے انکاری ہو گیا مگر ہاتھ بے وفا نکلا اور میرے وجود سے الگ ہو کر گرگیا۔ میرا سر پیچھے لگا اور میں رکشے سے باہر پٹری سے کئی گز دور جا گرا۔ میرے دل کو بھی شاید میرے مرنے کی جلدی تھی جو اتنی تیزی سے دھڑک رہا تھا کہ میرے ہر زخم میں سے سارا خون میرے وجود سے آزاد کر دے گا۔ مرا چہرا مٹی میں تھا اور میری باقیات نہ جانے انجن اور رکشے کے کس کس حصے پر تھیں اور اس چہرے پر بوسی کرنے والی ماں نہ جانے کہاں تھی ۔ اور پھر میرا دل آخری بار دھڑکا۔ میری بند ہوتی آنکھوں میں ماں کی تصویر ابھری، میرے لب آخری بار ہلے میری زبان نے زور لگایا اور میرے منہ سے آخری لفظ نکلا ’’ماں‘‘ اور پھر سب ختم ۔ میری روح میرے جسم کی قید سے آزاد ہو کر اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہو گئی ۔
اگر کسی بھی ایسے رکشہ، ٹیکسی یا بس کے ڈرائیور کی جوشیلے انداز میں ریس کرنے کے بعد ہونے والے حادثے کے کسی ایک بھی مرنے والے بچے سے معلوم کیا جائے تو شاید یہ سب اور ایسے ہی کئی دیگر جملے اس کے ہوں گے۔ روح کانپ اٹھے، وجود شل ہوجائے مگر ناجانے کب ایسے ڈرائیورز کو سمجھ آئے گی کہ وہ ایسی حرکت نہ کریں۔

3 تبصرے

  1. this article is for the awareness of people is good, I we want to avoid such accidents we must make laws strict , Driving licence must not issue to such irresponsible fools who drive such carelessly, they must not allow to come on the road

Leave a Reply to Zia Bashir